جو لوگ ’’فلاح‘‘ اور ’’خیر‘‘ اور ’’خوش حالی‘‘ کا ایک محدود مادی تصور رکھتے ہیں، ان کے نزدیک جس نے اچھا کھانا، اچھا لباس، اچھا گھر پالیا، جو مال و اولاد سے نواز دیا گیا، اور جسے معاشرے میں نام و نمود اور رسوخ و اثر حاصل ہوگیا، اس نے بس فلاح پالی۔ اور جو اس سے محروم رہ گیا وہ ناکام و نامراد رہا۔ اس بنیادی غلط فہمی سے وہ پھر ایک اور اس سے بھی زیادہ بڑی غلط فہمی میں مبتلا ہوجاتے ہیں، اور وہ یہ کہ جسے اس معنی میں فلاح نصیب ہے، وہ ضرور راہِ راست پر ہے، بلکہ خدا کا محبوب ہے، ورنہ کیسے ممکن تھا کہ اسے یہ کامیابیاں حاصل ہوتیں… اور اس کے برعکس جو اس فلاح سے ہم کو علانیہ محروم نظر آرہا ہے، وہ یقیناً عقیدے اور عمل میں گمراہ اور خدا (یا خدائوں) کے غضب میں گرفتار ہے۔ اس غلط فہمی کو، جو درحقیقت مادہ پرستانہ نقطہ نظر رکھنے والوں کی ضلالت کے اہم ترین اسباب میں سے ہے، قرآن میں جگہ جگہ بیان کیا گیا ہے، مختلف طریقوں سے اس کی تردید کی گئی ہے، اور طرح طرح سے یہ بتایا گیا ہے کہ اصل حقیقت کیا ہے۔
اس سلسلے میں چند اہم حقیقتیں ایسی ہیں کہ جب تک آدمی ان کو اچھی طرح نہ سمجھ لے، اس کا ذہن کبھی صاف نہیں ہوسکتا۔
اول یہ کہ ’’انسان کی فلاح‘‘ اس سے وسیع تر اور بلند تر چیز ہے کہ اسے کسی فرد یا گروہ یا قوم کی محض مادی خوش حالی اور وقتی کامیابی کے معنی میں لے لیا جائے۔
دوم یہ کہ فلاح کو اس محدود معنی میں لینے کے بعد اگر اسی کو حق و باطل اور خیرو شر کا معیار قرار دے لیا جائے تو یہ ایک ایسی بنیادی گمراہی بن جاتی ہے جس سے نکلے بغیر ایک انسان کبھی عقیدہ و فکر اور اخلاق و سیرت میں راہِ راست پاہی نہیں سکتا۔
سوم یہ کہ دنیا فی الاصل دارالجزا نہیں بلکہ دارالامتحان ہے۔ یہاں اخلاقی جزا و سزا اگر ہے بھی تو بہت محدود پیمانے پر اور ناقص صورت میں ہے، اور امتحان کا پہلو خود اس میں بھی موجود ہے۔ اس حقیقت کو نظرانداز کرکے یہ سمجھ لینا کہ جس کو جو نعمت بھی مل رہی ہے، وہ ’’انعام‘‘ ہے، اور اس کا ملنا انعام پانے والے کے برحق اور صالح اور محبوبِ رب ہونے کا ثبوت ہے، اور جس پر جو آفت بھی آرہی ہے وہ ’’سزا‘‘ ہے اور اس بات کی دلیل ہے کہ سزا پانے والا باطل پر ہے، غیر صالح ہے اور مغضوب بارگاہِ خداوندی ہے۔ یہ سب کچھ درحقیقت ایک بہت بڑی غلط فہمی بلکہ حماقت ہے جس سے بڑھ کر شاید ہی کوئی دوسری چیز ہمارے تصورِ حق اور معیارِ اخلاق کو بگاڑ دینے والی ہو۔ ایک طالب ِحقیقت کو اول قدم پر یہ سمجھ لینا چاہیے کہ یہ دنیا دراصل ایک امتحان گاہ ہے اور یہاں بے شمار مختلف صورتوں سے افراد کا، قوموں اور تمام انسانوں کا امتحان ہورہا ہے۔ اس امتحان کے دوران میں جو مختلف حالات لوگوں کو پیش آتے ہیں وہ جزا و سزا کے آخری فیصلے نہیں ہیں کہ انھی کو نظریات، اخلاق اور اعمال کی صحت اور غلطی کا معیار بنالیا جائے، اور انھی کو خدا کے ہاں محبوب یا مغضوب ہونے کی علامات قرار دے لیا جائے۔
چہارم یہ کہ فلاح کا دامن یقیناً حق اور نیکی کے ساتھ بندھا ہوا ہے، اور بلاشک و ریب یہ ایک حقیقت ہے کہ باطل اور بدی کا انجام خسران ہے۔ لیکن اِس دنیا میں چونکہ باطل اور بدی کے ساتھ عارضی و نمائشی فلاح اور اسی طرح حق اور نیکی کے ساتھ ظاہری اور وقتی خسران ممکن ہے، اور اکثر و بیشتر یہ چیز دھوکہ دینے والی ثابت ہوتی ہے، اس لیے حق و باطل اور خیر و شر کی جانچ کے لیے ایک مستقل کسوٹی کی ضرورت ہے جس میں دھوکے کا خطرہ نہ ہو۔ انبیا علیہم السلام کی تعلیمات اور آسمانی کتابیں ہم کو وہ کسوٹی بہم پہنچاتی ہیں، انسانی عقلِ عام (Common sense) اس کی صحت کی تصدیق کرتی ہے اور معروف و منکر کے متعلق نوعِ انسانی کے مشترک وجدانی تصورات اس پر گواہی دیتے ہیں۔
پنجم یہ کہ جب کوئی شخص یا قوم ایک طرف تو حق سے منحرف اور فسق و فجور اور ظلم و طغیان میں مبتلا ہو، اور دوسری طرف اس پر نعمتوں کی بارش ہورہی ہو، تو عقل اور قرآن دونوں کی رو سے یہ اس بات کی کھلی علامت ہے کہ خدا نے اس کو شدید تر آزمائش میں ڈال دیا ہے، اور اس پر خدا کی رحمت نہیں بلکہ اس کا غضب مسلط ہوگیا ہے۔ اسے غلطی پر چوٹ لگتی تو اس کے معنی یہ ہوتے کہ خدا بھی اس پر مہربان ہے، اسے تنبیہ کررہا ہے اور سنبھلنے کا موقع دے رہا ہے۔ لیکن غلطی پر ’’انعام‘‘ یہ معنی رکھتا ہے کہ اسے سخت سزا دینے کا فیصلہ کرلیا گیا ہے اور اس کی کشتی اس لیے تیر رہی ہے کہ خوب بھر کر ڈوبے۔ اس کے برعکس جہاں ایک طرف سچی خدا پرستی ہو، اخلاق کی پاکیزگی ہو، معاملات میں راست بازی ہو، خلقِ خدا کے ساتھ حُسنِ سلوک اور رحمت و شفقت ہو، اور دوسری طرف مصائب اور شدائد اس پر موسلادھار برس رہے ہوں اور چوٹوں پر چوٹیں اسے لگ رہی ہوں، تو یہ خدا کے غضب کی نہیں، اس کی رحمت ہی کی علامت ہے۔ سنار اس سونے کو تپا رہا ہے تاکہ خوب نکھر جائے اور دنیا پر اس کا کامل العیار ہونا ثابت ہوجائے۔ دنیا کے بازار میں اس کی قیمت نہ بھی اٹھے تو پروا نہیں۔ سنار خود اس کی قیمت دے گا، بلکہ اپنے فضل سے مزید عطا کرے گا۔ اس کے مصائب اگر غضب کا پہلو رکھتے ہیں تو خود اس کے لیے نہیں بلکہ اس کے دشمنوں ہی کے لیے رکھتے ہیں، یا پھر اس سوسائٹی کے لیے جس میں صالحین ستائے جائیں اور فساق نوازے جائیں۔
(تفہیم القرآن، جلد سوم، ص284۔ 285)