ہُودہ کے معنی مل گئے

پچھلے کالم میں ہم پوچھ بیٹھے تھے کہ لفظ بے ہودہ کے اندر یہ ہُودہ کیا شے ہے؟ قارئین کو یہ سوال خوش آیا۔ لوگ ہماری علم طلبی اور سعادت مندی سے خاصے خوش ہوئے۔ اس قسم کے سوالات ہمارے ہی ذہن میں نہیں کلبلاتے، سید ضمیر جعفری مرحوم بھی کچھ ایسے ہی سوالات اُٹھایا کرتے تھے۔ مثلاً طرزِ غالبؔ میں کہی ہوئی ایک نظم میں ضمیرؔ صاحب حد درجہ حیرانی سے پوچھتے ہیں:

’کر‘ کراچی میں ہے تو کیوں ہے یہ؟
اور لاہور میں یہ ’لا‘ کیا ہے؟

تو لاہور سے لائے ہمارے سوال کا جواب حضرتِ عبدالمالک ہاشمی۔ جواب کا انتظار ہمیں ہی نہیں، ہمارے قارئین کو بھی تھا۔ جنابِ ہاشمی رقم طراز ہیں: ’’فارسی کی قدیم اور مستند لغت، ’لغت نامہ دھخدا‘ میں ’ھودہ‘ کا معنی ’حق باشد‘ یعنی ’حق ہونا‘ بتایا گیا ہے‘‘۔

معنی کی بہم رسانی کے ساتھ ساتھ ہاشمی صاحب نے لغت کا عکس بھی ارسال فرمایا ہے۔ عکس کی رُو سے لغت میں فارسی املا کے مطابق ’ھودہ‘ کے معنی حق، درستی، راستی، فایدہ اور بہرہ وغیرہ مرقوم ہیں۔ محترم عبدالمالک ہاشمی مزید لکھتے ہیں:

’’بے ہودہ کو فارسی میں ’بی ھودہ‘ لکھتے ہیں، اور ’بی ھودے‘ پڑھتے ہیں۔ لغت میں اس کا معنی ناحق اور باطل بتایا گیا ہے‘‘۔

الحمدللہ ہم اردو میں بے ہودہ کو بے ہودہ ہی لکھتے اور بے ہودہ ہی پڑھتے ہیں، ’بے ہودے‘ نہیں۔ البتہ کسی کو مخاطب کرتے وقت کوئی یہ تلفظ اختیار کرلے تو ایسے موقع پر کسی کی ہمت نہیں ہوتی کہ اُس کا تلفظ درست کرسکے۔

لغت نامہ دھخدا میں ’ہودہ‘ کا ایک مطلب کجاوہ، محمل اور ہودج بھی درج ہے۔اس سے یہ سہولت مل گئی کہ ہم محملِ لیلیٰ کو ’ہودہ‘ کہہ سکتے ہیں اور قیسِ عامری کو ’بے ہودہ‘۔ بِچارہ لَق و دَق ریگستان میں اس بیہودگی سے بھاگتا رہا کہ ضمیرؔ جعفری صاحب کو بھی ترس آگیا:

سنا ہے قیس پیدل دوڑتا ہے اب بھی صحرا میں
سنا ہے اُس علاقے میں کوئی لاری نہیں جاتی

جہاں ہم ہودہ کے معنی جاننے کی کوششوں میں سرگرداں تھے، وہیں ایک صاحب ہمیں رستے میں روک کر بے ہودہ کے معنی جاننے کی کوشش کرنے لگے۔ حالاں کہ اس حرکت کے بعد انھیں معنی جاننے کی حاجت نہیں رہ گئی تھی۔ لغت دیکھنے پر پتا چلا کہ ’بے ہودہ‘ کے معنی ہیں: فحش، ناشائستہ، ناہنجار، نامعقول، غیر مہذب، لغو، خرافات، نکما، آوارہ، بدمعاش، واہیات، بد اخلاق، ناحق، باطل، بے سود، بے فائدہ اور بے کار‘‘۔ ذرا دیکھیے تو سہی، اس مختصر سے ’بے ہودہ‘ لفظ میں بے ہودگی کاکیسا طوفان بند ہے۔

لغت نامہ دِھخدا پر یاد آیا کہ کچھ عرصہ قبل ایک طالب علم نے ایک سوال بھیجا تھا، جس کا جواب دینا بھیجے میں محفوظ نہیں رہا۔ آج یاد آگیا تو سوال مع جواب پیش کیے دیتے ہیں۔ سوال یہ تھا کہ اقبالؔ کے اس شعر میں ’’دِہ خدایا‘‘ کا کیا مطلب ہے؟

دِہ خدایا یہ زمیں تیری نہیں، میری نہیں
تیرے آبا کی نہیں، تیری نہیں میری نہیں

یہ شعر اقبالؔ کی جس نظم سے لیا گیا ہے اس کا عنوان ہے ’الارض ﷲ‘ (زمین اللہ کی ہے)۔ یہ نظم ’بالِ جبریل‘ میں شامل ہے۔ پوری نظم میں اقبالؔ نے پوچھا ہے کہ بیج کو مٹی کی تاریکی میں پالنے والا، دریائوں سے بادل اُٹھانے والا، سازگار ہواؤں کو کھینچ کر کھیتوں تک پہنچانے والا، خاک کی تخلیق کرنے والا، آفتابی کرنوں کی تپش دے کر خوشۂ گندم کی جیب موتیوں سے بھر دینے والا اور طرح طرح کے موسم تبدیل کرنے والا بھلا کون ہے؟ اللہ ہی تو ہے۔ وہی اس زمین کا خالق و مالک اور اس کا نظام چلانے والا ہے۔ پھر تم کس بِرتے پر زمین کی ملکیت کے دعوے دار بنتے ہو؟ یہ شعر نظم کا آخری شعر ہے، جس میں اقبالؔ نے فیصلہ کُن انداز میں کہہ دیا کہ یہ زمین تیری میری نہیں ہے۔

مصرعِ اولیٰ میں استعمال ہونے والا ’دِہ‘ لغاتِ فارسی کا وہ لفظ ہے جسے ہمارے ہاں ’دیہہ‘ کہا جاتا ہے یعنی موضع، قریہ، گاؤں۔ دیہہ کی جمع دیہات ہے۔ فارسی میں اسے ’دِہات‘ لکھتے ہیں۔ جب کہ ’خدا‘ اور’خداوند‘ کہتے ہیں مالک و مختار کو۔ ہم پہلے بھی لکھ چکے ہیں کہ رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلّم کی آمد سے قبل تقریباً تمام تہذیبوں میں عام عورت کو منقولہ جائداد کی طرح مرد کی ملکیت سمجھا جاتا تھا، اسے خریدا اور بیچا جاتا تھا، نیز وراثت میں منتقل کیا جاتا تھا۔ اسلام نے آکر اسے وراثت کا حصے دار بنادیا۔ سو، ملکِ فارس میں بھی مردہی عورت کا ’خداوند‘ ہوتا تھا۔ مگر شاید اِس بے چارے خدا کی ’’د‘‘ گلی نہیں۔ پس یہ ’خداوند‘ کثرتِ استعمال سے گِھس گِھسا کر’خاوَند‘ ہو گیا۔

’دِہ خدا‘دیہہ یا گاؤں کا مالک، مُکھیا، چودھری، خان، ملک، وڈیرا، جاگیردار اور زمین دار ہوتا ہے۔ اقبالؔ محولہ بالا نظم میں کہتے ہیں کہ زمین کی تخلیق سے لے کر اس کا سارا نظام چلانے تک، مکمل اختیار صرف اللہ تعالیٰ کا ہے۔ لہٰذا، اوئے چودھریا! یہ زمین، جس کے مربعوں کے غرور میں تُو کلف لگے کپڑے پہن کر اکڑتا پھرتا ہے، تیری میری نہیں ہے اور (عوامی زبان میں) تیرے باپ کی بھی نہیں ہے۔

لفظ’دِہ‘ کا ایک اور استعمال اُردو میں بہت معروف ہے۔ یہ فارسی مصدر ’دادن‘ یعنی ’دینا‘ سے اسمِ فاعل ترکیبی ہے۔ بالعموم لاحقے کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔ جیسے ’آرام دِہ‘ آرام دینے والا یا ’تکلیف دِہ‘ تکلیف دینے والا۔اسی سے اسمِ صفت ’دہندہ‘ بھی ہے۔ ’دہندہ‘ کا مطلب بھی ’دینے والا‘ ہے۔ اس کا مخفف ’دہند‘ بھی مستعمل ہے۔ قرض دینے والا ’قرض دہندہ‘ کہلاتا ہے اور واپس نہ دینے والا ’نادہندہ‘ یا ’نادہند‘۔ چھوٹے چھوٹے ’نادہندگان‘ کی فہرست اخبارات میں شائع ہوتی ہے، جب کہ بڑے بڑے ’نادہندگان‘کے نام کابینہ کے ارکان میں شامل کردیے جاتے ہیں۔

’لغت نامہ دِھخدا‘ کا املا اُردو زبان میں ’لغت نامہ دِہ خدا‘ بنے گا۔ وجہِ تسمیہ یہ ہے کہ یہ لغت علی اکبر دھخدا نے مرتب کی تھی۔ 3فروری 1956ء کو ہمارے پیدا ہوجانے کی اطلاع ملتے ہی علی اکبر دھخدا صاحب 9 مارچ 1956ء کو فوت ہوگئے۔ اُس زمانے میں ایک ملک سے دوسرے ملک تک خبریں پہنچتے پہنچتے لگ بھگ مہینے بھر کی تاخیر تو ہو ہی جایا کرتی تھی۔ خبر پہلے ہوجاتی تو ذرا بھی تاخیر نہ کرتے۔ وہ ایران کے نام وَر مفکر، شاعر، ادیب، ماہر لغت اور سیاست دان تھے۔ فارسی اور فرانسیسی کے ماہر۔ ان کی مرتب کردہ لغت فارسی زبان کی سب سے بڑی لغت سمجھی جاتی ہے۔ یہ لغت دو سَو جلدوں پر مشتمل ہے۔ [لغت اسمِ مذکر ہوا کرتا تھا، مگرتبدیلیِ جنس کا قانون منظور ہونے سے پہلے ہی یہ شے مؤنث ہوگئی۔ چناں چہ مقتدرہ قومی زبان کے شائع کردہ فرہنگِ تلفظ (مرتبہ شان الحق حقی) میں اسے اسم مذکر اور اسم مؤنث دونوں ظاہر کیا گیا ہے۔’فرہنگ‘ ابھی تک مذکرہے۔]

علی اکبر دِہ خدا کے والد ’خان بابا خان‘ قزوین کے ایک متوسط زمین دار تھے۔ بعد میں تہران منتقل ہوگئے تھے۔ وہیں علی اکبر پیدا ہوئے۔ گویا اصل ’دِہ خدا‘ (یعنی زمین دار) خان باباخان تھے۔ مگر مفکر، شاعر، ادیب، ماہر لغت اور سیاست دان علی اکبر صاحب بھی عمر بھر یعنی 77 سال تک تہران میں نام نہاد ’دِہ خدا‘ بنے رہے۔ اگر بنے رہے تو اس میں تعجب کی کیا بات ہے؟ ہمارے ملک کے بڑے بڑے شہروں میں بے شمار ’چودھری‘ پائے جاتے ہیں۔ ان چودھریوں کے باپ دادا میں سے شاید کوئی کبھی کسی گاؤں کا مالک و مختار رہا ہوگا۔ مگر اب تو یہ خود اپنے مکان کے بھی مالک نہیں۔ کرائے کی کُٹیا میں چھوٹی سی لٹھیا لیے ’چودھری‘ بنے بیٹھے ہیں۔ چودھری دِہ خدا۔