!علامہ یوسف عبداللہ القرضاوی

(ستمبر 1926ء - ستمبر 2022ء)

دوسرا ااور آخری حصہ

عائلی زندگی
علامہ قرضاوی نے پہلی شادی دسمبر 1958ء میں مصری خاتون اسعاد عبدالجواد (المعروف امِ محمد) سے کی۔ آپ کو اللہ تعالیٰ نے اس زوجہ محترمہ سے تین بیٹے اور چار بیٹیاں عطا فرمائیں۔ بیٹوں کے نام محمد، عبدالرحمن اور اسامہ ہیں، جب کہ صاحبزادیوں کے نام الہام، سہام، علا اور اسما ہیں۔ سب بچے بچیاں اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں اور اچھے مناصب پر فائز ہیں۔

1- سب سے پہلے اللہ نے آپ کو 19ستمبر 1959ء کو بیٹی الہام عطا فرمائی جو مصر کے شہر سمنود میں پیدا ہوئی۔
2- دوسری بیٹی سہام 5ستمبر 1960ء کو قاہرہ میں پیدا ہوئی۔
3- تیسری بیٹی عُلا 1962ء میں قطر میں پیدا ہوئی۔
4- چوتھی بیٹی اسماء 1965ء میں قطر میں پیدا ہوئی ۔
1- بیٹوں میں سے بڑے بیٹے محمد قطر میں 15اکتوبر 1967ء کو پیدا ہوئے۔
2- دوسرے بیٹے عبدالرحمٰن بھی قطر میں 18ستمبر 1970ء کو پیدا ہوئے۔
3- سب سے چھوٹے بیٹے اسامہ 10فروری 1972ء کو قطر میں پیدا ہوئے۔

بیٹی کے مصائب:
آپ کی تیسری بیٹی عُلا مصر میں قطر کے سفارت خانے میں ملازم ہیں۔ ان کے میاں بھی اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں اور وہ مصر کی ایک قانونی سیاسی جماعت ’’حزب الوسط‘‘ کے رکن ہیں۔ اس سیاسی جماعت کو فوجی حکمران ناپسند کرتے ہیں، چناںچہ میاں کے ساتھ بیوی کو بھی جیل میں ڈال دیا۔ یوسف قرضاوی صاحب اس انتقامی کارروائی سے بہت دلبرداشتہ تھے۔ آپ نے اپنی بیٹی کے نام ایک نہایت دردناک خط لکھا جس میں اس کی تکالیف اور آزمائش کے تذکرے کے ساتھ اسے حوصلہ بھی دیا۔ معلوم نہیں کہ اب میاں بیوی جیل میں ہیں یا جیل سے باہر؟ قرضاوی صاحب کا خط اردو میں ترجمہ ہوکر کئی اخبارات میں چھپ چکا ہے۔

اس طویل خط کے چند حصے یہاں بطور ریکارڈ محفوظ کیے جا رہے ہیں۔ آپ نے لکھا:
’’میری چہیتی بیٹی ’’عُلا‘‘
السلام علیک ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
میرے جگر کا ٹکڑا، میرے قلب کا سکون، میری روح کی ٹھنڈک۔
میری پیاری بیٹی، تم پر میرا پورا دل نثار ہے، میرے دل کی ساری محبت تمھارے لیے وقف ہے، میری محبت کی ساری صداقت تم پر فدا ہے اور میری صداقت کا سارا خلوص تمھاری نذرہے۔
میری پیاری بیٹی، سو دن سے زیادہ ہوگئے، تمھیں باغیوں اور سرکشوں کی جیلوں میں رہتے ہوئے، آہ مظلوم کے اوپر ظلم کے دن کتنے بھاری گزرتے ہیں، ایک دن ایک برس کے برابر لگتا ہے، مگر تسلی رکھو! اللہ نے چاہا تو ظلم کے یہ دن بھی ختم ہوں گے اور تم اور تمھارے شوہر اپنے گھر والوں اور اپنے بچوں کے درمیان ضرور لوٹو گے۔ اس طرح کہ سلامتی تم پر سایہ فگن ہوگی اور اللہ کی رحمت کی تم پر بارش ہوگی۔

تم نے سوچا ہوگا کہ ظالموں کا دھیان تمھاری طرف نہیں جائے گا، کیوںکہ تم ہمیشہ ان سے دور رہیں، نہ ان کے ملک میں پیدا ہوئیں نہ ان کے اسکول اور کالج میں داخلہ لیا، نہ ان کے محکمے میں نوکری کی، پھر ان سے تمھارا کیا لینا دینا؟

تم ایک بیوی ہو، ایک ماں اور ایک دادی ہو، ایک امن پسند عورت ہو، اپنے ملک کے سفارت خانے میں ملازم ہو، جس کی تمھارے پاس شہریت ہے، ان کا تمھاری ملازمت سے بھی کوئی تعلق نہیں ہے، پھر تمھارا سیاست سے بھی کوئی رشتہ نہیں رہا۔ تمھارے شوہر کا سیاست سے ضرور تعلق رہا، مگر وہ بھی کسی ممنوعہ پارٹی سے نہیں، بلکہ وسط پارٹی سے، جو ملک کی ہر طرح سے تسلیم شدہ اور قانونی پارٹی ہے، اس کے باوجود تمھارے شوہر کو ان ظالموں نے دو سال سے زیادہ جیل میں بند رکھا، عدالت میں کیس چلایا، جب کچھ نہیں ملا، تو بری قرار دے کر رہا کیا اور اب پھر انھیں جیل میں ڈال دیا۔ صرف اس وجہ سے کہ وہ تمھارے شوہر ہیں۔

تمھیں یہ کس بات کی سزا دے رہے ہیں، یا تم پر ظلم کے پہاڑ توڑ کر تمھارے باپ کو کس بات کی سزا دے رہے ہیں؟ انھوں نے تمھارے باپ پر بھی مقدمہ دائر کر رکھا ہے۔ الزام یہ ہے کہ وہ اسّی اور پانچ یعنی پچاسی سال کی عمر میں مصری جیلوں میں گھس گیا تھا اور اس جیل سے قیدیوں کو نکال بھگایا تھا جس جیل کا نام بھی اس نے پہلے کبھی نہیں سنا۔ خود اس الزام کی اس کو کبھی خبر نہیں دی گئی۔

یہ ظالم اپنے دل کا کینہ اور نفرت اب ایک بے گناہ خاتون پر انڈیل رہے ہیں، اسے شکست دینا چاہتے ہیں، لیکن اللہ انھیں شکست دے گا، مجھے یقین ہے، میرا رب میری بیٹی کی نگہداشت کرے گا، اپنی اس آنکھ سے جو سوتی نہیں ہے، میرا رب اس کی حفاظت کرے گا، اپنی اس پناہ میں جہاں لے لے گا جہاں کسی کی پہنچ نہیں ہے۔‘‘

صاحبِ عزیمت باپ اپنی بہادر بیٹی کو جو نصیحت کررہا ہے، یوں لگتا ہے کہ ہوش ترمذی نے اسی کی ترجمانی اپنے ایک شعر میں یوں کی ہے:

اشکوں سے خبردار کہ آنکھوں سے نہ نکلیں
گر جائیں یہ موتی تو اٹھائے نہیں جاتے

اس خط کا ایک ایک لفظ درد و کرب میں ڈوبا ہوا ہے، مگر کہیں بھی شکست و ہزیمت کا نام و نشان نہیں۔ بیٹی کا حوصلہ بلند کرنے اور قادرِ مطلق پر مکمل بھروسا کرنے کا یہ ایمان افروز پیغام ہے۔ اخوان کے تمام راہنمائوں کے حالات اور گوناگوں مصائب تاریخ کا حصہ بن چکے ہیں۔ ان میں کہیں کوئی کمزوری نظر نہیں آتی۔ ان اللہ والوں نے باطل کے سامنے کبھی سر نہیں جھکائے۔ ان میں سے ہر ایک کا یہی اعلان رہا:

اے دستِ جفا سر ہیں یہ اربابِ وفا کے
کٹ جائیں تو کب جائیں جھکائے نہیں جاتے

دوسری اہلیہ
علامہ قرضاوی صاحب نے دوسری شادی 1980ء کے عشرے میں ایک مراکشی خاتون سے کی، جس کا نام عائشہ ہے۔ عائشہ الجزیرہ ٹی وی کے ساتھ ان کے پروگرام ’’للنساء فقط‘‘ (صرف برائے خواتین) میں براڈکاسٹر ہیں۔ وہ پہلے جزائر یونیورسٹی میں زیر تعلیم تھیں جہاں قرضاوی صاحب سے ان کا تعارف ہوا تھا۔ ان سے کوئی اولاد نہیں ہوئی۔ یہ خاتون بہت ذہین اور اسلامی آداب و علوم سے پوری طرح واقف اور مزیّن ہیں۔ سب عرب ملکوں کی عادات و آداب سے بخوبی واقف ہیں۔ مغرب و مشرق ہر خطے کو دیکھا ہے اور سب کے حالات سے باخبر ہیں۔ اپنے پروگراموں میں بہت دلچسپ انداز میں ناظرین کو مفید معلومات فراہم کرتی ہیں۔

قرضاوی صاحب 35سال کی عمر میں مصر سے مملکت قطر میں حکومتِ قطر کی دعوت پر منتقل ہوئے۔ یہاں آپ کو یہ ذمہ داری سونپی گئی کہ آپ محکمہ تعلیم کے تحت قائم ادارے معھد الدینی ثانوی کے ڈائریکٹر کے طور پر اس انسٹی ٹیوٹ کو منظم کریں۔ اس ادارے کے اندر جدید و قدیم تعلیم دونوں کے شعبے قائم تھے۔ یہاں بہترین اور معیاری نصاب کی تیاری اور پھر یہاں زیرتعلیم طلبہ کو اعلیٰ تعلیمی معیار کے ساتھ تربیت کا صالح ماحول فراہم کرنا آپ کی ذمہ داری قرار پائی تاکہ فارغ التحصیل ہونے والے طلبہ اچھے انسان اور صالح مسلمان بن کر نکلیں۔ ظاہر ہے کہ الشیخ قرضاوی کی اپنی ذہنی سوچ اور فطری میلان کے مطابق یہ ذمہ داری بہت مناسب تھی۔ لہٰذا آپ نے پوری دلجمعی کے ساتھ اس ذمہ داری کو نبھایا۔ آپ نے اس ادارے کو اعلیٰ درجے کی درس گاہ بنادیا جو عرب دنیا ہی نہیں، عجمی ممالک کے طلبہ کے لیے بھی پُرکشش تھی۔ بہت سے بیرونی ممالک کے طلبہ یہاں سے تعلیم حاصل کرنے کے بعد اپنے اپنے ملکوں میں واپس جاکر اعلیٰ مناصب پر فائز ہوئے۔

اس ادارے کی کامیابی کے بعد آپ کو 1973ء میں قطر یونیورسٹی میں لڑکوں اور لڑکیوں کے لیے دو الگ الگ شعبے قائم کرکے انھیں معیاری اور کامیاب بنانے کی ذمہ داری سونپی گئی۔ آپ کو بیک وقت ان دونوں شعبوںکا سربراہ بنادیا گیا۔ یہ سرکاری ذمہ داری تھی جس کے ساتھ آپ خطباتِ جمعہ دیتے، مختلف تربیتی و تعلیمی اور معاشی کانفرنسوں میں بطور ماہر شرکت کرتے اور بہترین تقاریر کے ذریعے لوگوں کی علمی پیاس بجھاتے رہے۔ اس دور میں آپ کی شہرت ایک صاحبِ علم خطیب، مستند محقق و مصنف اور معتدل مزاج مجدد کے طور پر عرب دنیا سے نکل کر پورے عالم اسلام بلکہ مشرق و مغرب کے تمام خطوں میں پہنچ گئی۔ 1977ء میں قطر یونیورسٹی ہی کے اندر قائم ’’کلیۃ الشرعیہ والدراسات الاسلامیہ‘‘ کے سربراہ مقرر کیے گئے۔ یہ ذمہ داری آپ نے 13سال تک ادا کی۔ 1990ء میں اس ادارے سے آپ کا تبادلہ قطر یونیورسٹی نے اپنے ایک دوسرے شعبے ’’مرکز بحوث السنۃ والسیرۃ النبویۃ‘‘ میں کردیا، آپ کو اس کا ہیڈ مقرر کیا گیا۔ آپ زندگی کے آخری دن تک اس ادارے کے سربراہ رہے۔

آپ اپنے آبائی ملک مصر میں غیر پسندیدہ شخصیت قرار دے دیے گئے تو آپ نے قطری شہریت اختیار کرلی۔ کئی برادر مسلمان ملکوں نے قطر حکومت سے الشیخ قرضاوی کی خدمات حاصل کرنے اور ان کی علمی مہارت سے استفادے کے لیے رابطے کیے۔ چناں چہ اس دوران الجزائر حکومت کی درخواست پر آپ 1990ء اور 1991ء دو سال کے قریب الجزائر کی یونیورسٹیوں اور اعلیٰ تعلیم کے اداروں کی علمی مجالس کے سربراہ رہے۔ وہاں اساتذہ اور طلبہ کو تحقیق و تصنیف میں مہارت کے لیے تیار کرنے کے بعد آپ نے حکومتِ الجزائر سے واپس جانے کی اجازت لی۔ ہر شعبے میں ایسے لوگ تیار ہوچکے تھے جو ذمہ داریاں سنبھالنے اور بخوبی انجام دینے کے قابل تھے۔ قطر واپسی پر اپنی سابقہ ذمہ داریوں کو نبھاتے رہے۔ الجزائر کی طرح مراکش میں بھی آپ نے تعلیمی اداروں کا معیار بلند کرنے کا فرض ادا کیا۔ اسی طرح سوڈان کی یونیورسٹی خرطوم اور امِ درمان کے بھی آپ مشیر رہے۔ ملائشیا، انڈونیشیا اور پاکستان کی یونیورسٹیوں سے بھی آپ کا تعلق رہا۔ آپ کی بعض تصنیفات کراچی اور پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ اسلامیات میں بطور نصاب بھی تجویز کی گئیں۔

یوسف القرضاوی کی علمی خدمات اور ریسرچ و تحقیق کے اعلیٰ معیار کا اعتراف کرتے ہوئے کئی اداروں نے آپ کو مختلف ایوارڈز عطا کیے۔
1- البنک الاسلامی: 1991ء میں البنک الاسلامی نے آپ کو اسلامی معاشیات اور اس کے تقاضوں پر علمی کام کے اعتراف کے طور پر خصوصی انعام دیا۔
2- کنگ فیصل انٹرنیشنل فائونڈیشن: 1993ء میں آپ کو کنگ فیصل انٹرنیشنل ایوارڈ سے نوازا گیا۔
3-انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی ملائشیا: اسی طرح 1996ء میں انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی ملائشیا کے وائس چانسلر نے آپ کو علمی انعام اور خصوصی تمغے سے نوازا۔
4- حاکم برونئی سلطان حسن البلقیۃ: 1997ء میں برونئی کے حکمران سلطان حسن البلقیۃ نے آپ کو اسلامی فقہ کے مختلف شعبوں میں اعلیٰ علمی خدمات سرانجام دینے پر حسن البلقیۃ انٹرنیشنل انعام پیش کیا۔

ایک عجیب اور حیرت انگیز واقعہ بھی تاریخ کا حصہ بن چکا ہے۔ سعودی حکومت نے ہمیشہ شیخ قرضاوی کی علمی خدمات سے فائدہ اٹھایا اور ان کی شخصیت کو اکرام و اعزاز سے نوازا۔ آپ ’’رابطہ عالم اسلامی‘‘ اور ’’المؤتمر الاسلامی‘‘ میں بھی رکن کے طور پر خدمات سرانجام دیتے رہے۔ اس کے علاوہ سعودیہ کی کئی یونیورسٹیوں میں آپ کے تسلسل کے ساتھ لیکچر ہوا کرتے تھے۔ کنگ فیصل انعام بھی آپ کو دیا گیا، مگر 11 جون 2017ء کو آپ کی 112تصانیف پر سعودی حکومت نے پابندی لگا دی۔ قرضاوی صاحب اس پابندی سے چند دن قبل سعودی عرب میں ایک کانفرنس میں شرکت کرکے واپس قطر جا رہے تھے۔ اتفاق سے میں بھی اسی ہوائی جہاز میں عمرے کے بعد جدہ سے دوحہ کے لیے روانہ ہوا۔ قطر میں چند دن میرا طے شدہ قیام اور پروگرام تھا۔ جہاز میں ملاقات ہوئی اور میں نے عرض کیا کہ میں قطر میں کچھ دن قیام کروں گا، تو فرمانے لگے کہ میں آپ کا انتظار کروں گا۔ آپ اطلاع دے کر ضرور تشریف لائیے۔ قطر ہی میں اس پابندی کی خبر سنی۔ دوستوں کے ساتھ ملاقات کے لیے حاضری دی، تو تقریباً دو گھنٹے الشیخ کے پاس نشست رہی۔ وہیں ظہر کی نماز بھی پڑھی اور جب اس واقعے کا تذکرہ کیا تو الشیخ نے کسی تلخی کا اظہار نہیں کیا بلکہ دو مرتبہ حسبنا اللہ ونعم الوکیل پڑھا۔ آپ کے چہرے پر پورا اطمینان تھا اور کسی قسم کا غصہ یا ردعمل نظر نہیں آ رہا تھا۔ اخوان المسلمون:
آپ کی ولادت کے دو سال بعد مصر کے شہر سکندریہ میں 1928ء میں نوجوان داعیِ اسلام امام حسن البنا نے اخوان المسلمون کی بنیاد رکھی۔ حسن البنا اُس وقت 22 سال کے نوجوان تھے۔ امام کے ساتھ تاسیسی اجلاس میں صرف سات افراد تھے۔ اس تحریک کو اللہ تعالیٰ نے اتنی پذیرائی بخشی کہ چند سالوں میں مصر کے گوشے گوشے میں، شہروں سے لے کر چھوٹے دیہات تک اس کی تنظیمیں قائم ہوگئیں۔ مصر کے بادشاہ فاروق نے امام حسن البنا اور ان کی تحریک کے بڑھتے ہوئے اثرات کو ختم کرنے کے لیے اخوان پر پابندی لگا دی، سب ارکان کو جیل میں بند کردیا اور حسن البنا کو جیل سے باہر رہنے دیا۔ یہ اس کی سازش تھی، چناں چہ اسی شیطانی سازش کے تحت امام حسن البنا کو فروری 1949ء میں سرکاری کارندوں کے ذریعے گولیاں مار کر شہید کردیا گیا۔ اس شاہی دور میں بھی اخوان پھانسیوں پر چڑھتے رہے اور بعد میں جمال عبدالناصر کے فوجی دور میں تو مظالم کی انتہا ہوگئی۔ قرضاوی صاحب طالب علمی کے زمانے میں ایک بار، اور اس کے بعد دو تین بار جیل میں ڈالے گئے۔ حکومتِ مصر کے نزدیک آپ غیر پسندیدہ شخصیت تھے، اسی وجہ سے جب آپ 1961ء میں قطر گئے تو پھر وہیں کی شہریت اختیار کرلی۔

الشیخ کی علمی کاوشیں ہمہ جہت اور جامع ہیں۔ آپ کی کتب کا ایک وسیع ذخیرہ ہے۔ ان کتابوں میں سے کئی وہ ہیں جو لاکھوں کی تعداد میں پوری دنیا میں عربی اور دیگر زبانوں میں چھپ چکی ہیں۔ آپ کی بڑی چھوٹی تصانیف ڈیڑھ سو کے لگ بھگ ہیں۔ آپ کی کتاب فقہ الزکوٰۃ دو حصوں میں ہے اور اس کے بارے میں عالم اسلام کے اعلیٰ ترین علمائے کرام مثلاً مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ، استاذ محمد المبارک، شیخ عبدالعزیز بن باز اور دیگر بہت سے علما نے اس رائے کا اظہار کیا ہے کہ اس موضوع پر ایسی جامع تصنیف کسی بھی مصنف کے قلم سے اب تک مرتب نہیںہوئی۔ اسی طرح آپ کی کتاب ’’الحلال والحرام‘‘ بھی منفرد علمی دستاویز ہے۔ آپ کے فتاویٰ اور ویڈیو تقاریر بالخصوص ٹی وی اور ریڈیو پر مستقل خطابات ہزاروں میں ہیں۔ یہ سب کے سب علمی لحاظ سے مستند اور اعلیٰ پائے کے ماخذ ہیں۔ مرحوم کی کتب کی طویل فہرست بجائے خود ایک اچھا خاصا علمی مسودہ بن جاتی ہے۔

مولانا مودودی اور جماعت اسلامی کے ساتھ اخوان کے دیگر رہنمائوں کی طرح الشیخ قرضاوی مرحوم کا بھی گہرا قلبی تعلق تھا۔ مولانا کی زندگی میں آپ پاکستان آتے تو مولانا کی خدمت میں حاضر ہونا اپنا سب سے اہم فرض سمجھتے۔ دونوں بزرگان اور مولانا خلیل حامدی کی وہ مجلسیں یادگار ہیں جو کبھی کبھار ہمیں بھی دیکھنے کا موقع ملتا تھا۔ بعد کے ادوار میں جب بھی کبھی آپ سے قطر میں آپ کے دفتر یا گھر میں ملاقات ہوئی یا کسی بیرونی ملک میں آمنا سامنا ہوا تو (باقی صفحہ33پر)

جماعت کی ساری قیادت کے بارے میں نام بنام خیریت دریافت فرماتے۔ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کو تو وہ اپنا استاد اور مرشد سمجھتے تھے۔ اس کے باوجود آپ سے بعض فقہی آرا میں اجتہادی اختلافِ رائے کا اظہار بھی کرتے۔ 1987ء سے لے کر 2017ء تک میرا قطر جانا آنا کم و بیش ہر سال رہا۔ جب بھی وہاں جانا ہوتا تو قرضاوی صاحب کے ہاں حاضری ضرور دی جاتی۔ ملاقات پر بہت خوش ہوتے، ڈھیروں دعائیں ان کی زبان سے سن کر دل کو بڑا سکون ملتا۔ مولانا خلیل حامدیؒ، میاں طفیل محمدؒ، قاضی حسین احمدؒ، پروفیسر خورشید احمد، سید منور حسنؒ سبھی کا نام لے کر ان کی خیریت دریافت کرتے اور ان کو سلام پہنچانے کی تاکید فرماتے۔ بعد کے ادوار میں برادرِ عزیز عبدالغفار عزیز سے تو ان کا ایسا تعلق قائم ہوا کہ انھیں اپنے خاندان کا فرد سمجھتے تھے۔

علامہ یوسف قرضاوی نے دنیا بھر کے ممالک کے سفر کیے اور ہر جگہ پبلک کانفرنسوں، یونیورسٹیوں اور مجالسِ قانون ساز کے اجلاسوں میں یادگار خطابات سے سامعین کو نوازا۔ آپ کے خطابات اور آپ کی کتابوں کے ترجمے اردو، ہندی، بنگالی، انگریزی، فارسی، اطالوی، فرنچ،مالیزی، انڈونیزی، سواحلی، ہائوسا اور دیگر کئی ممالک کی قومی زبانوں میں ہوچکے ہیں۔ آپ کی کتابوں کو علمی سرقے کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ دنیا کے کئی اداروں نے آپ سے اجازت کے بغیر محض کاروباری نقطۂ نظر سے آپ کی کتابوں کو مختلف زبانوں میں دھڑا دھڑ چھاپ کر دولت کمائی ۔ یہ سلسلہ اب بھی چل رہا ہے۔ قرضاوی صاحب خود بھی اس سے واقف تھے، مگر وہ اس کو زیادہ اہمیت نہیں دیتے تھے۔ ان کے خیال میں علم جہاں تک پہنچے اس کا پہنچنا کارِخیر ہے۔ مالی لحاظ سے قطر میں قیام کے دوران اللہ نے آپ کو بہت خوشحالی سے نوازا تھا۔

ستمبر 1979ء میں قذافی اسٹیڈیم لاہور میں مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کا تاریخی جنازہ شیخ یوسف قرضاوی ہی نے پڑھایا تھا جس میں لاکھوں لوگوں نے شرکت کی تھی۔ 43سال بعد اسی تاریخ کو یوسف قرضاوی 96سال کی عمر میں دارِ بقا کو سدھار گئے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے۔ یوسف قرضاوی معتدل مزاج اور فتاویٰ و علمی مسائل میں اعتدال کو پسند کرتے تھے۔ بعض لوگ ان کو اس اعتدال کی وجہ سے تنقید کا نشانہ بھی بناتے تھے اور عجیب بات یہ ہے کہ بعض مذہبی انتہا پسندوں کو ان کی کئی آرا سے شدید چڑ اور مخالفت تھی۔ اسی طرح مغربی سوچ کے حامل لبرل اور سیکولر طبقات بھی ان کی شدید مخالفت کرتے تھے۔ یہ اللہ کی قدرت ہے کہ جس روز آپ کی وفات ہوئی اس روز دن اور رات برابر برابر تھے۔ گویا یہ اعتدال پسند عالم دین ، تقویم کے معتدل روز میں دنیائے فانی کو خیرباد کہہ گیا۔ آپ کی وفات ایک فرد کی وفات نہیں، ایک دور کا خاتمہ ہے۔ عرب شاعر نے کیا خوب کہا تھا ؎

فما کان قیسٌ ھلکہٗ ھلکُ واحدٍ
ولٰکِن بُنیانُ قومٍ قد تھدّما

(ترجمہ: قیس کی وفات ایک فرد کی وفات نہیں بلکہ اس کی موت نے ایک پوری قوم کی بنیادیں منہدم کر دی ہیں)