ملک نواز احمد اعوان مرحوم

ذاتی تاثر
’’یہ بڑے لوگ ہیں جینے کا ہنر جانتے ہیں‘‘

سلیم احمد مرحوم و مغفور کے شعر کا یہ مصرع ملک نواز احمد اعوان پر بھی حرف بہ حرف صادق آتا ہے۔ ملک نواز احمد اعوان 31 اگست 2022ء کو حیاتِ مستعار کے 78 برس دنیا میں گزار کر خالقِ حقیقی سے جا ملے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ کوئی شخص بشری کمزوریوں اور خامیوں سے مبرا نہیں ہوتا، یہی معاملہ مرحوم کا بھی ہوگا، تاہم ربّ کریم نے انہیں ایسی خوبیوں سے نوازا تھا جو نایاب ہوتی جارہی ہیں۔ وہ حقوق اللہ کی ادائی کے ساتھ حقوق العباد کی ادائی پر بھی اللہ کے رسولؐ کے بتائے ہوئے طریقے پر عمل پیرا رہنے کی حتی المقدور کوشش کرتے تھے۔ وہ اور ان کا گھرانہ امام ابوحنیفہؒ کے مسلک کا پیروکار ہے، تاہم وہ اختلافی مسائل پر بحث و تمحیص کے بجائے حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ کے مسلک پر عمل پیرا تھے۔ وہ دل کے عارضے کا تو برسوں سے شکار تھے تاہم ان کا بلڈ کینسر جیسے موذی مرض میں مبتلا ہونے کا انکشاف انتقال سے پانچ روز قبل ہوا جس میں صرف چار دن ایسے رہے کہ وہ اپنے لکھنے پڑھنے کا کام اور دوست و احباب سے بات چیت نہ کرسکے۔ میری دانست میں اللہ نے انہیں ان کی خوبیوں کے باعث اس موذی مرض کی تکلیف دہ اذیت میں لاچاری کی زندگی گزارنے سے محفوظ رکھا اور ان کے لواحقین کو بھی آزمائش سے بچایا۔

ملک نواز احمد اعوان مرحوم کے بارے میں محترم ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی اور محترم عبدالمتین منیری (ہندوستان) اور دیگر حضرات نے جو کچھ لکھا ہے اس کے بعد ان کی شخصیت کے بارے میں مزید کہنا سورج کو چراغ دکھانے کے مترادف ہوگا۔ محترم رفیع الدین ہاشمی نے جو کچھ لکھ دیا ہے وہ اُن کی شخصیت کو اجاگر کرنے کے لیے کافی ہے۔ اگر کوئی اس میں اضافہ کرسکتا ہے تو وہ محترم ڈاکٹر تحسین فراقی یا برادر محترم سلیم منصور خالد کرسکتے ہیں۔ ان حضرات سے ان کا قلبی تعلق اور میل ملاقات آخر دم تک رہی۔ یا کچھ اضافہ ذاتی حوالے سے لالہ صحرائی مرحوم کے بڑے فرزند ڈاکٹر جاوید احمد صادق کرسکتے ہیں جن کا اُن سے لاہور منتقل ہونے کے بعد گاہے بگاہے رابطہ رہتا تھا۔ میں تو ان کے بارے میں اپنا ذاتی تاثر ہی بیان کرسکتا ہوں۔ مجھے صحیح طور سے تاریخ تو یاد نہیں لیکن سال 1968ء کی ایک شام اُن سے میری پہلی تفصیلی ملاقات ہوئی۔ ان سے تعارف کا ذریعہ ہفت روزہ ’’آئین‘‘ تھا جس کے وہ ایک طرح سے سرپرست تھے۔ انھوں نے یہاں کراچی آکر علی آٹوز میں ملازمت شروع کی تھی۔ ان کی پیدائش 8فروری 1944ء میںکوئٹہ میں ہوئی تھی۔ ان کے دادا نے1930ء کی دہائی میں ملازمت سے ریٹائر ہونے کے بعد مستقل سکونت کوئٹہ میں اختیار کرلی تھی۔

ملک نواز اعوان ابھی چار برس کے تھے کہ ان کی والدہ محترمہ کا انتقال ہوگیا۔ 1935ء میں کوئٹہ میں آنے والے زلزلے میں ان کے والد اور چچا اپنے مکان کے ملبے میں دب گئے تھے مگر اللہ کی شان کہ ان کی زندگی تھی اور دونوں زندہ بچ گئے۔ ملک نواز صاحب نے ابتدائی تعلیم کوئٹہ کے گورنمنٹ پرائمری اسکول سے حاصل کی، بعدازاں وہ لاہور منتقل ہوگئے کیوں کہ ان کے والد نے قیام پاکستان کے بعد کوئٹہ سے منتقل ہوکر لاہور میں گڑھی شاہو دو موریا پل کے قریب اپنا ذاتی مکان تعمیر کرلیا تھا، اس کے بعد یہ بھی لاہور منتقل ہوگئے۔ میٹرک گورنمنٹ بوائز سیکنڈری اسکول کاچھوپورہ لاہورسے امتیازی پوزیشن سے پاس کیا۔ ان کے خاندانی ذرائع کے مطابق انہوں نے گورنمنٹ کالج لاہور سے 1966ء میں گریجویشن کرنے کے بعد ایک برٹش فرم سے ائرکنڈیشنڈ اور ریفریجریشن کا ایک سالہ ڈپلومہ کورس کیا، کیوں کہ ان کا ارادہ ملک سے باہر جاکر قسمت آزمائی کرنے کا تھا۔ مگر ان کے چچا نے ان کے والد کو مشورہ دیا کہ بچہ اگر چلا گیا تو پھر واپس نہیں آئے گا، اس لیے اسے باہر جانے کی اجازت نہ دیں۔ انہوں نے اس کے بعد باہر جانے کا ارادہ تو ملتوی کردیا تاہم کراچی میں علی آٹوز (جو نیشنلائزیشن کے بعد ’’عوامی آٹوز‘‘ کہلاتا ہے) میں ملازمت اختیار کرلی۔ مگر جلد ہی ملازمت کو خیرباد کہہ دیا۔ جس کے بعد ان کے چچا نے طارق روڈ پر دو دکانیں پچیس ہزار پگڑی دے کر حاصل کیں اور ان کو اس میں بٹھا دیا۔ 1972ء کے آخر میں ان کی شادی اپنے خاندان میں ہوئی۔ دلچسپ بات یہ کہ انھوں نے اپنی عملی زندگی کا آغاز بھی کراچی سے کیا اور اختتام بھی وہ نصف صدی کے قریب کراچی میں رہے۔ کراچی ان کی شناخت اور وہ کراچی کی شناخت تھے۔

1968ء میں میری ان سے پہلی تفصیلی ملاقات ہوئی جس کا خاکہ آج بھی میرے ذہن میں محفوظ ہے۔ میرے سامنے ایک خوبرو، پتلا دبلا، طویل قامت نوجوان پینٹ شرٹ میں موجود تھا۔ اس کی زبان اور گفتار کی مٹھاس میں آج تک نہ بھلا سکا۔ میرا ان سے تعلق نصف صدی سے زیادہ 54 سال پر محیط ہے۔ ان سے جتنی قربت ہوتی گئی اتنا ہی ان کے شخصی اوصاف اجاگر ہوتے چلے گئے۔ ان کی شخصیت کے بنیادی اوصاف میں علم دوستی، انسانی ہمدردی اور ہمہ وقت دوسروں کے کام آنے کا جذبہ تھا۔ یہ سلسلہ ان کے ابدی سفر پر روانہ ہونے تک جاری رہا جس کا تذکرہ ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی صاحب اور عبدالمتین منیری (بھارت) نے اپنے تعزیتی مضامین میں کیا ہے۔ اگرچہ ان کا ذریعۂ معاش ریفریجریشن اور ائرکنڈیشن کی ریپیئرنگ کا تھا لیکن ان کی دکان کراچی میں اسی طرح علمی و ادبی شخصیات کا مرکز تھی، جس طرح لاہور میں نگینہ بیکری، معروف ادیب و شاعر چودھری عبدالحمید کا مکتبۂ کارواں، مفتی محمد شفیعؒ کے فرزند اور معروف شاعر ذکی کیفی مرحوم کی دکان ’’ادارۂ اسلامیات‘‘ انارکلی۔ پروفیسر سید محمد سلیم مرحوم کراچی آتے تو ان کا زیادہ وقت ملک نواز اعوان کی دکان پر ہی گزرتا تھا۔ بہت سے لوگ پروفیسر محمد سلیم صاحب سے ملنے کے لیے ان کی دکان پر آجاتے تھے۔ برصغیر کے مشہور خطاط یوسف سدیدی مرحوم جب کراچی تشریف لاتے تو وہ بھی ملک نواز کی دکان پر آکر بیٹھ جاتے اور لوگ ان سے ملنے وہیں آتے رہتے۔ ملک نواز احمد اعوان نے خطاطی پر پروفیسر محمد سلیم کی شائع ہونے والی کتاب میں ان کا بڑا ہاتھ بٹایا تھا جس کا تذکرہ پروفیسر صاحب نے خود کیا ہے۔

ملک نواز احمد اعوان کو خطاطی کی سرپرستی پر ایک ایوارڈ سے کراچی میں نوازا گیا تھا اور ایک ایوارڈ دو سال قبل انہیں لاہور میں خطاطی کی بین الاقوامی نمائش میں دیا گیا تھا۔ نواز صاحب ہر ایک کے کام آنے والے تھے اور اس کے بدلے کسی سے صلہ و ستائش کے متمنی نہ ہوتے۔

ایک خوبی ان کی یہ بھی تھی کہ ان کے جو قریبی عزیز اعلیٰ سرکاری و عسکری عہدوں پر ہوتے تو ان کا ذکر بھی کسی سے نہ کرتے۔ جیسے ان کی بیگم کے حقیقی خالو جنرل ایم ایچ انصاری (محمد حسین انصاری) جو ان کے رشتے کے ماموں بھی تھے، جب تک وہ اعلیٰ عہدوں پر رہے کسی مجلس میں اس کا تذکرہ نہ کرتے۔ انہوں نے ساری زندگی قناعت کے ساتھ بسر کی۔ نہ کوئی ذاتی گھر بنایا اور نہ ہی جائداد۔ وہ نصف صدی کراچی میں رہے اور انہوں نے یہاں چھوٹے سے کرائے کے ایک فلیٹ میں گزار دیے جو تیسری منزل پر تھا۔ کراچی میں تقریباً پچاس سال رہے۔ لاہور منتقلی کا سبب یہ ہوا کہ ان کے بڑے بیٹے احمد نواز سعودی عرب میں ملازمت کرتے ہیں، ان کے بچے بھی سعودی عرب میں تھے، 2017ء میں ان کے بچے لاہور منتقل ہوئے تو احمد نواز نے والد سے درخواست کی کہ آپ بچوں کی سرپرستی کے لیے لاہور منتقل ہوجائیں۔

طویل عرصہ کراچی میں رہنے کے بعد وہ لاہور منتقل ہوئے تو میری جب بھی ان سے بات ہوتی، وہ کہتے ’’یار! میں تو یہاں اجنبی ہوں۔ اگر یہاں ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی، ڈاکٹر تحسین فراقی اور سلیم منصور خالد نہ ہوں تو میں یہاں رشتے داروں کے سوا کس سے ملوں! بس میں انہی سے ملتا ہوں یا جو کتابیں آتی ہیں انہیں پڑھ لیتا ہوں۔‘‘

برسوں پہلے برادرِعزیز یحییٰ بن زکریا صدیقی (مدیر فرائیڈے اسپیشل) نے ملک نواز صاحب سے اصرار کرکے فرائیڈے اسپیشل میں لکھوانے کا سلسلہ شروع کیا تھا جو ان کے انتقال تک جاری رہا۔ فرائیڈے اسپیشل میں کتابوں پر تبصرے خاصے کی چیز ہوتی تھی جسے اہلِ علم سراہتے تھے۔

ملک نواز سے یحییٰ بن زکریا کا تعارف اس طرح ہوا کہ معروف خطاط خالد صدیقی کی تلاش میں ان کی دکان پر آئے۔ واضح رہے کہ خالد صدیقی کے والد محمود اللہ صدیقی اپنے زمانے کے مشہور خطاطوں میں شامل تھے۔ شیخ غلام علی اینڈ سنز کے شائع کیے ہوئے کلیات اقبال کی خوب صورت خطاطی ان کا اعزاز ہے۔ انہوں نے ہی جسارت ملتان کی لوح اور پہلی لیڈ لکھی تھی، بعدازاں وہ جسارت کراچی سے بھی وابستہ رہے اور یہیں ان کا انتقال ہوا۔ خالد صدیقی مشرق اخبار سے فارغ کردیے گئے تو وہ پریشان تھے کہ اب کیا کریں؟ ملک نواز اعوان کے خالد صدیقی کے والد مرحوم سے بڑے تعلقات تھے، انہوں نے خالد صدیقی سے کہا کہ عزیزم! رزق تو اللہ کے ذمے ہے، کوئی بات نہیں، تم فکر نہ کرو، کل سے میری دکان پر آکر بیٹھ جائو اور اپنا کام شروع کردو، اللہ تمہیں یہاں بھی رزق پہنچائے گا۔

خالد صدیقی تو بعدازاں سعودی عرب چلے گئے لیکن یحییٰ بن زکریا اور ان کا قلبی تعلق اتنا گہرا ہوگیا کہ آخر دم تک برقرار رہا۔ انہوں نے ہی مجبور کرکے فرائیڈے اسپیشل میں لکھنے پر آمادہ رکھا۔

ملک نواز احمد اعوان جہاں ایِک طرف اپنے شعبے میں مہارت رکھتے تھے، وہیں بے روزگار نوجوانوں کو کام سکھا کر انہیں خودکفیل بنانے میں اپنی مثال آپ تھے۔ کتنے ہی نوجوان اُن کے پاس کام سیکھنے آئے۔ انہوں نے روایتی ورکشاپ کے مالکان کی طرح رویہ اختیار کرنے کے بجائے بہت جلد انہیں کام سکھا کر اپنے پیروں پر کھڑا کیا اور ان سے کہا کہ جہاں آپ رہتے ہیں وہاں چھوٹی موٹی دکان کرائے پر لے کر اپنا کام شروع کردیں۔ ایسے درجنوں لوگ موجود ہیں جنہوں نے ان سے کام سیکھ کر اپنی دکان قائم کرلی۔ اس دوران بھی اگر کوئی مشکل درپیش ہوتی اور وہ ان کے پاس آتے تو وہ بلا تامل ان کی مدد کرتے۔ ان کے دو ہی شوق تھے: اہلِ علم سے ملنا، اہلِ علم کی قدر کرنا اور کتابیں پڑھنا اور جمع کرنا اور کتاب کے متلاشیوں کے کام آنا۔

کراچی میں محبِ گرامی مشفق خواجہ مرحوم کے بعد ملک نواز احمد اعوان کا ٹھکانہ دوسری جگہ تھی جہاں قدیم کتابوں کے حوالہ جات کے متلاشیوں کی مشکل آسان ہوجاتی تھی۔ مشفق خواجہ مرحوم سے ان کا تعلق بھی اسی طرح ہوا کہ ان کے ایک ارادت مند کو کسی کتاب کی تلاش تھی جس کے لیے وہ ان کی دکان پر آئے تھے اور وہ کتاب انہیں نواز ملک کے ذخیرے سے مل گئی تھی، انہوں نے مشفق خواجہ سے اس کا ذکر کیا تو مشفق خواجہ کو بھی حیرت ہوئی اور ان سے ملنے کا اشتیاق ظاہر کیا، ملک نواز اعوان ان سے ملنے گئے اور پھر جب تک کراچی میں رہے پابندی کے ساتھ مشفق خواجہ کے پاس حاضر ہوتے تھے۔ ملاقات کا یہ سلسلہ مشفق خواجہ کے انتقال تک جاری رہا۔ اسی طرح محترم جاوید احمد غامدی کو بھی ایک کتاب کی تلاش تھی جس کے بارے میں غامدی صاحب کو اپنے ایک ارادت مند جناب شکیل الرحمن (سنو وہائٹ ڈرائی کلینر والے) کے ذریعے معلوم ہوا کہ یہ کتاب ملک نواز صاحب کے پاس سے مل سکتی ہے۔ شکیل الرحمن سے ملک نواز صاحب کا برسوں سے تعلق تھا اور ان کے ماموں محترم شیخ فضل مبین مرحوم سے بھی نواز صاحب کا برسوں سے بڑا قلبی تعلق تھا اور فضل مبین صاحب کی اولاد سے بھی ان کا تعلق بھائیوں کی طرح رہا۔ غامدی صاحب صرف اس کتاب کے حصول کے لیے کراچی تشریف لائے اور ملک نواز صاحب نے وہ کتاب انہیں پیش کردی۔ شکیل الرحمن صاحب کے بقول غامدی صاحب اس کتاب کے عوض ان کو ایک بڑی معقول رقم ادا کرنے کو تیار تھے لیکن ملک نواز اعوان نے ان سے صرف یہ عرض کیا کہ ’’میں کتاب فروش نہیں ہوں اور نہ ہی میں اس کی تجارت سے وابستہ ہوں، آپ کو ضرورت تھی تو یہ آپ کی نذر ہے۔‘‘

اسی طرح معروف اسکالر محترم احمد جاوید کی زیر نگرانی اور محمد دین جوہر کی ادارت میں نکلنے والے فکری جریدے ’’جی‘‘ کا تعارف بھی کراچی میں ملک نواز اعوان کے توسط سے ہوا۔ ان کے پاس یہ رسالہ آتا اور لوگوں سے کہتے کہ اس پرچے کو پڑھیں اور احمد جاوید کی تحریروں سے استفادہ کریں۔ ان سے اتفاق یا اختلاف آپ کا حق ہے۔

اس طرح کے بے شمار واقعات میرے ذاتی علم میں ہیں۔ وہ نہ صرف کتاب کے متلاشی افراد کی مدد کرتے، بلکہ کوشش کرتے تھے کہ جو لائبریریاں ہیں ان کے ساتھ تعاون کا سلسلہ جاری رہے۔ خود اپنے پاس جن کتابوں کا ایک سے زائد نسخہ ہوتا اور وہ کتاب لائبریری میں موجود نہ ہوتی تو خود وہاں جمع کرا دیتے اور اپنے بے تکلف دوستوں سے بھی یہ کہتے کہ بھئی اگر تمہارے پاس پرانے رسائل ہیں تو انہیں لائبریری میں رکھوا دو، تاکہ وہاں محفوظ رہیں اور وہاں جو لوگ آئیں وہ ان سے استفادہ کرلیں۔ میرے گھر جب بھی وہ آتے تو کوئی کتاب یا اردو ڈائجسٹ، قومی ڈائجسٹ اور ہفت روزہ زندگی کے پرچے لے کر آتے اور بیدل لائبریری شرف آباد اور دیگر مختلف لائبریریز میں جمع کرواکے اس کی رسید مجھے دے دیتے۔

ملک نواز اعوان ایک وسیع المشرب مسلمان تھے۔ ان کے والد حضرت مولانا احمد رضا خان ؒ بریلوی کے مسلک کے پیروکار تھے۔ البتہ ملک نواز اعوان وسیع المشرب ہونے کے ناتے اختلافی مسائل میں بحث و تکرار سے اجتناب کی پالیسی پر عمل پیرا رہے۔ وہ کبھی اہل حدیث مسلک سے وابستہ نہیں رہے۔ شیخ فضل مبین احمد مرحوم (ٹپ ٹاپ ڈرائی کلینر والے) بھی وسیع المشرب تھے، وہ اہلِ حدیث مسلک سے تعلق رکھنے کے باوجود حنفی مسلک کی مساجد میں نماز ادا کرتے تھے۔ اپنی ضعیف العمری کے زمانے میں اپنے گھر کے سامنے مسجد تعمیر کرائی تو ملک نواز اعوان نے بھی ظہر اور عصر کی نماز وہیں پڑھنی شروع کردی۔

لاہور منتقل ہوئے تو ان کی کوشش تھی کہ اردو ڈائجسٹ کے لیے اعزازی کام کریں اور اس کا تذکرہ بھی انہوں نے محترم الطاف حسن قریشی صاحب سے کردیا تھا، مگر ان کی صحت جلد ہی ایسی ہوگئی کہ وہ اردو ڈائجسٹ کے دفتر جاکر کام کرنے کی ہمت نہ کر پائے جس کا انہیں تاسف رہا۔ تاہم الطاف حسن قریشی صاحب کا روزنامہ جنگ میں چھپنے والا ہفتہ وار کالم اور اردو ڈائجسٹ کا اداریہ پابندی سے پڑھتے اور واٹس ایپ کے ذریعے لوگوں کو بھیجتے رہے۔ کہنے لگے اب تو میں بمشکل ترجمان القرآن کے دفتر جا پاتا ہوں اور سلیم منصور خالد اور ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی سے مل لیتا ہوں، یا ڈاکٹر تحسین فراقی صاحب سے رابطے میں رہتا ہوں۔ مولانا مودودیؒ کی کتابوںکا پہلا انڈیکس بھی ملک نواز احمد اعوان صاحب نے ہی تیار کیا تھا۔

ان کی شخصیت کا ایک اور پہلو جو کہ ہمارے اچھے اچھے لوگوں کے خاندانوں میں نزاع کا باعث بنتا ہے انہوں نے اپنی زندگی میں اس کا راستہ بند کردیا تھا۔ انہوں نے برسوں پہلے مجھ سے ذکر کیا کہ میرے والد مرحوم نے کوئٹہ سے لاہور منتقل ہوکر گڑھی شاہو کے قریب دس مرلے کا ایک مکان بنایا تھا جو اب خاصا قیمتی ہوگیا ہے اور اب میری سوتیلی والدہ کے بچوں کے تصرف میں ہے۔ میں نے اپنی بہن سے مشورہ کرکے ان کی رضا مندی سے ان کو جاکر یہ کہہ دیا ہے کہ ہم بھائی بہن نے اپنے والد کے اس ورثے سے آپ سب بھائی بہنوں کے حق میں دست بردار ہونے کا فیصلہ کیا ہے اور اب ہمارا اور ہمارے بچوں کا اس مکان پر کوئی حق نہیں۔ اور یہ اپنے بچوں کو بھی بتا دیا تھا۔

لاہور میں تو ان کے پاس اپنی کوئی ذاتی سواری بھی نہیں تھی۔ اگر کہیں جانا ہوتا تو رکشے پر جاتے یا پھر معروف خطاط خالد صدیقی کی گاڑی میں چلے جاتے۔

ملک نواز صاحب نے فرسٹ ایئر میں سائنس کے مضامین رکھے تھے لیکن چند ماہ بعد ہی ان کے استاذ نے ان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ کو مجھ پر کتنا اعتماد ہے؟ ملک نواز نے جواب دیا کہ سر! سو فیصد۔ تو پھر ان کے استاذ نے کہا: پھر میرا مشورہ یہ ہے کہ آپ فنون (آرٹس) کے مضامین لے لیں اور اس میں اختیاری مضامین میں عربی اور فارسی لازمی رکھیں۔ انہوں نے اپنے استاذ کے مشورے پر علوم (سائنس) کے مضامین ترک کرکے فنون (آرٹس) کے مضامین لے لیے اور اس میں عربی اور فارسی بھی رکھی۔ ان کے والد کا نام ملک عزیز احمد اعوان اوردادا کا نام ملک محمد ولی تھا، ان کے دادا کی پوسٹنگ کوئٹہ میں تھی، 1927ء میں وہیں سے ریٹائرہوئے اور وہیں مستقل سکونت اختیار کرلی۔ اگرچہ ان کے خاندان کا آبائی تعلق سیالکوٹ کے نواح میں ہنرمندوں کی بستی کوٹلی لوہاراں نامی گائوں سے تھا۔ ملک نواز احمد اعوان کے وارثوں میں ان کی اہلیہ کے علاوہ دو بیٹے محمد احمد نواز اور عدنان احمد اور دو بیٹیاں ہیں۔ چاروں بچوں کی شادیاں خاندان میں ہوئی ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے، ان کے وارثوں کو عافیت میں رکھے اور صبر جمیل عطا کرے۔آمین

ان کی شخصیت کے بارے میں اگر میں اشفاق احمد مرحوم کا یہ جملہ مستعار لے لوں جو انہوں نے اردو طنز و مزاح کی اقلیم کے بے تاج بادشاہ سید ضمیر جعفری مرحوم کے بارے میں لکھا تھا تو بے جا نہ ہوگا: ’’ایسے لوگ ہر معاشرے میں پائے تو جاتے ہیں مگر ہوتے کم کم اور خال خال ہیں۔‘‘