افغانستان میں استحکام کیخلاف سازشیں

امریکی جیل میں طویل سزا کاٹنے والے حاجی بشر نورزئی کی رہائی

ریاست ہائے متحدہ امریکہ کی جیل میں طویل سزا کاٹنے والے افغانستان کے صوبہ قندھار کے ضلع میوند کے کشکی نخود سے تعلق رکھنے والے حاجی بشر نورزئی، ستمبر2022ء میں سترہ سال 5ماہ بعد میں رہا کردیے گئے۔ رہائی امریکہ کے انصاف کے نظام کے بجائے اپنے شہری انجینئر’’مارک فری ریچر‘‘ کی رہائی کے بدلے ممکن ہوئی ہے جو31 جنوری 2020ء کو افغانستان سے اغوا کرلیے گئے تھے۔ حاجی بشر نورزئی2005ء میںگرفتار کیے گئے تھے، ان پر بھار ی مقدار میں ہیروئن کی اسمگلنگ کا الزام دھرا گیا، من مرضی کی تفتیش کرکے فردِ جرم عائد کی گئی، اور 2008ء میں نیویارک کی ایک عدالت نے عمر قید کی سزا سنائی۔ حاجی بشر نورزئی کا قندھار کے ایک معروف خاندان سے تعلق ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ حاجی بشر، ملا محمد عمر اور اُن کی تحریک سے وابستگی اور مالی معاونت کے بغض میں انتقام کا نشانہ بنائے گئے۔ اصلاحی تحریک، خانہ جنگی کے دوران اٹھی تھی۔ آغاز میں ملا عمر اور ساتھیوںکے پاس پیش رفت کے لیے کسی قسم کے ذرائع نہ تھے، یہ حاجی بشر تھے جنہوں نے رقم دی اور ساتھ دو گاڑیاں بھی فراہم کیں۔ ان اسباب کے ساتھ پیش قدمی شروع کردی گئی، اور رفتہ رفتہ تحریک نے افغانستان کے طول و عرض میں پھیلی خانہ جنگی پر قابو پاکر طاقتور کمانڈروں کو شکست سے دوچار کردیا۔ حاجی بشر 8 اکتوبر 2001ء کو افغانستان پر امریکی حملے کے بعد طالبان اور عرب خاندانوں کی محفوظ مقامات پر منتقلی پر بھی مامور رہے۔ گویا امریکہ نے انہیں قطعی مجبوری کے تحت رہا کیا ہے، وگرنہ ان کی اسیری ختم ہونے والی نہ تھی۔

کابل پہنچنے پر حاجی بشر نے افغان، امریکہ تعلقات کے بارے میں امید افزا گفتگو کی۔ لگتا ہے وہ اس ضمن میں ذاتی طور پر دلچسپی لے رہے ہیں۔ مگر امریکہ سے اچھائی کی امید نہیں ہے، جودوحہ معاہدے پر دستخط کے باوجود عہد پر قائم رہنے میں سچا ثابت نہیں ہوا ہے، اور افغانستان سے لاتعلق ہی اس بنا پر ہوا کہ ملک 1990ء کی دہائی کی مانند خانہ جنگی کا شکار ہو۔ اس نے شمال کے جنگی کمانڈروں اور جنگجوئوں سے پوری امید باندھ رکھی تھی کہ وہ افغان طالبان کے آگے کھڑے ہوکر منظم جنگ کا آغاز کردیں گے۔ طالبان اس نیت کا ادراک رکھتے تھے اور اس کی پیش بندی کرچکے تھے۔ پشتون منطقوں میں ان کے لیے چنداں مشکلات نہ تھیں۔ چناں چہ کٹھ پتلی حکومت کی فوج اور دوسری فورسز سرینڈر ہوتی گئیں یا انہوں نے پہلے ہی عافیت ڈھونڈ لی تھی۔ طالبان نے کابل کے بجائے تصرف کا آغاز ہی شمال کے علاقوں سے کیا۔ رفتہ رفتہ وہ کابل کی طرف بڑھتے گئے، کابل کے گرد اکٹھے رہے تاکہ کسی بھی ممکنہ تخریبی منصوبے کو پنپنے نہ دیا جائے۔ پیش بندی کابل کو خون خرابے اور بربادی سے محفوظ رکھنے کے لیے کی گئی تھی۔ شمال کے سیاسی بڑے، جنگجو کمانڈر اور کارندے بھاگ گئے۔ کوئی دوسرا چارہ نہ پاکر اشرف غنی بھی بھاگ نکلے۔ اشرف غنی نہ جاتے تو ان کو عزت و اکرام کے ساتھ کابل میں رہنے دیا جاتا۔ نئی حکومت کی عمل داری پورے افغانستان پرقائم ہوچکی ہے۔ احمد شاہ مسعود کے بیٹے احمد ضیاء، امراللہ صالح اور رشید دوستم دوسرے ممالک میں بیٹھ کر عدم استحکام اور جنگ کی فضا پیدا کرنے کی مجرمانہ کوششوں میں ہیں۔ نیشنل ریزسٹنس فرنٹ (این آر ایف) ایران سے وابستہ کمانڈر ایران کے اندر بھی موجود ہیں، جن کا مقصد افغان حکومت کے خلاف فارسی بولنے والے جنگجوئوں کو منظم کرنا ہے۔ ایران اور افغانستان کے مابین تعلقات کافی حد تک استوار ہیں، مگر یہ گروہ کشیدگی اور دونوں ممالک کے درمیان ’’پراکسی‘‘ جنگ کی وجہ بن سکتے ہیں۔ ایران کے اندر حالیہ دنوں خواتین کا سڑکوں پر نکل آنا اور زاہدان کے حالات بقائے باہمی کی ضرورت واضح کرتے ہیں۔

افغان حکومت آئی ایس آئی ایس کے خلاف ہمہ وقت متحرک ہے۔30 ستمبر کو کابل کے علاقے ’’دشت برچی‘‘ میں امتحانی مرکز میں خودکش دھماکے میں 53 افراد جاں بحق ہوئے، جن میں 46 خواتین اور طالبات شامل ہیں۔ طالبان حکومت نے اس خون آشامی میں ملوث کارندوں سے کوئی رعایت نہ برتنے کا اعلان کیا ہے، جس کے بعد کابل کی ایک مسجد میں پھر دھماکا ہوا۔ مسلح گروہوں کے خلاف موجودہ افغان حکومت کو دنیا کی معاونت بہرحال درکار ہے، خصوصاً امریکہ کو اس جانب توجہ دینی ہوگی۔ روس یوکرین جنگ میں واشنگٹن ہر لحاظ سے یوکرین کی مدد کررہا ہے۔ متعدد بار عسکری امداد دی، اگست 2022ء کے آخری عشرے میں تین بلین امریکی ڈالر کی فوجی امداد کا اعلان کیا، پچھلے دنوں پھر امداد کا اعلان کیا تاکہ یوکرین طویل مدت تک اپنا دفاع جاری رکھ سکے۔ صدر جوبائیڈن کہتے ہیں کہ امداد کا مقصد یوکرین کے عوام کی آزادی اور خودمختاری کا دفاع ہے، جبکہ خود امریکہ نے بیس سال تک عسکری طاقت کے بل بوتے پر افغانوں کی آزادی اور خودمختاری ہتھیائے رکھی تھی۔ اگر افغان حکومت تسلیم کی جائے، ان کے منجمد اثاثے تفویض کیے جائیں، ان کی معاشی، اقتصادی، فوجی امداد کی جائے تو افغانستان میں داعش جیسے گروہ کو کہیں بھی پنپنے کی جگہ نہ مل سکے گی۔ بعض لوگوں اور سیاسی حلقوں کی بے شرمی دیدنی ہے جنہوں نے داعش گروہ کی جانب سے افغانستان میں بم دھماکوں اور خودکش حملوں پر خاموشی اختیار کر رکھی ہے، جبکہ امریکی قبضے کے دوران اس گروہ کی تخریبی سرگرمیاں تفویض کردہ پروپیگنڈے کے تحت طالبان کے سر تھوپنے کی کوشش کی جاتی رہی ہے، حالاں کہ طالبان فوجی اہداف رکھتے تھے۔ تب اور آج بھی داعش افغانستان میں نہ صرف اقلیتوں، مساجد، امام بارگاہوں، سیاسی و دینی اجتماعات، حتیٰ کہ طالبان رہنمائوں پر حملے کررہی ہے۔ امریکی قبضے کے دوران بھی طالبان داعش سے متصادم رہے ہیں۔

یکم اکتوبر کو افغان حکومت کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے امریکی نشریاتی ادارے سے بات چیت میں دہرایا ہے کہ وہ اپنی سرزمین پاکستان اور کسی بھی ملک کے خلاف استعمال ہونے نہیں دیں گے اور پاکستان یا دیگر ملکوں کے خلاف افغانستان کی سرزمین استعمال کرنے والے کسی بھی شخص کو گرفتار کرکے اس پر بغاوت کے الزام میں مقدمہ چلائیں گے۔ بلاشبہ سرحدی علاقوں سے پاکستانی فورسز پر وقتاً فوقتاً حملے ہورہے ہیں۔ افغان حکومت البتہ اس بات میں سچی ہے کہ اُس کی جانب سے افغانستان میں موجود کسی کو بھی تخریبی سرگرمیوںکی اجازت نہیں ہے۔

بقول ذبیح اللہ مجاہد ان لوگوں نے حکومت کو یقین دلایا ہے کہ کسی دوسرے ملک کے لیے خطرہ نہیں بنیں گے۔ کابل حکومت نے پاکستان اور ٹی ٹی پی کے درمیان مذاکرات کا اہتمام کررکھا ہے، متعدد نشستیں ہوچکی ہیں۔ معاشی اور مالی تنگ دستی کی وجہ سے افغان حکومت کو گوناگوں مشکلات کا سامنا ہے۔ اس تناظر میں کابل کو سرحدوں کی نگرانی اور حفاظت کے حوالے سے مشکلات کا سامنا ہے۔ پاک افغان سرحدی لائن پر ہمہ وقت گشت اور نگاہ افغان حکومت کے لیے کارِ گراں ہے، جس کا مسلح گروہ فائدہ اٹھاکر افغانستان کے اندر، اور پاکستانی فورسز پر بھی حملوں میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔ افغان حکومت البتہ یہ بھی قرار دے چکی ہے کہ اسلام آباد بھی یہ یقینی بنائے کہ اس کی سرزمین افغانستان کو نقصان پہنچانے کے لیے استعمال نہ ہو۔

یہاں ایک حکمت عملی یہ ہوسکتی ہے کہ پاکستانی سرحد کے قر یب افغان علاقوں کنڑ، خوست وغیرہ میں مقیم قبائلی علاقوں سے جانے والے خاندان افغانستان کے شمال کے علاقوں میں ٹھیرائے جائیں۔ اس ضمن میں پاکستان کی حکومت افغان حکومت کی مالی معاونت کرے۔ یوں جنگجوئوں کے لیے پاکستان کی سرحد تک رسائی مشکل ہوجائے گی، تاآنکہ پاکستان اور شدت پسندوں کے درمیان مذاکرات منطقی نتیجے تک نہ پہنچ جائیں۔ پاکستان کے اندر بعض پشتون سیاسی افراد کی مسلسل تکرار کھلم کھلا افغانستان پر غیر ملکی اور شمال کے کمانڈروں کو غلبے کی دعوت پر مبنی ہے۔

یہ شمال کے گروہوں سے رابطہ اور مراسم رکھتے ہیں۔ ان کے افغانستان کے بارے میں متواتر بیانات شمال کے سیاسی اور جنگی گروہوں کی جانب سے کابل پر تسلط کی خواہش کا اظہار ہیں، جو دراصل افغانستان میں صریح مداخلت ہے اور اسے خیانت کا ارتکاب سمجھا جاتا ہے۔ طرفہ تماشا یہ ہے کہ یہ افراد پاکستان کے اندر حکومتی مراعات و تعیشات سے آراستہ بھی ہیں، اور ڈھونگ افغانستان کی آزادی، ترقی اور روشن خیالی کا رچا رکھا ہے۔ گویا ان کے نزدیک بیس سالہ امریکی قبضہ افغانستان کی آزادی اور استقلال کا زمانہ تھا۔ محمود خان اچکزئی کا اس ذیل میں حالیہ نکتہ نظر راہنما ہے کہ امریکہ اور تمام دنیا افغانستان کے استقلال کی حفاظت اور اس کی تعمیر نو، ترقی و بہبود میں کردار ادا کرے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان، ایران اور وسطی ایشیائی ممالک اگر ترقی کی راہ پر گامزن ہونا چاہتے ہیں تو انہیں افغانستان کی سالمیت، اس کی سرحدوں کے احترام کے ساتھ برابری اور باہمی احترام کے تعلقات استوار کرنے ہوں گے۔