!برطانیہ شدید معاشی بحران کی زد میں

پائونڈ ڈالر کے مقابلے میں تاریخ کی کم ترین سطح پر آگیا

بورس جانسن کے بعد اب لز ٹرس برطانیہ کی وزیراعظم ہیں، گوکہ حکمران جماعت ایک ہی ہے لیکن حیرت انگیز طور پر لزٹرس حکومت کی پالیسیاں بورس جانسن حکومت کی پالیسیوں سے یکسر مختلف ہیں۔ اب یہ پالیسیاں برطانیہ کو مزید معاشی گرداب میں دھکیل رہی ہیں۔ نئے برطانوی وزیر خزانہ کوازی کورٹنگ نے بڑے سرمایہ داروں اور کاروبار پر ٹیکس کی چھوٹ کا اعلان کیا اور اس کے ساتھ ہی بینک آف انگلینڈ نے شرح سود میں یکسر اضافہ کردیا۔ اس کے بعد اب برطانیہ میں شرح سود 6 فیصد سے بھی زیادہ ہوگئی ہے جوکہ 14 سال کی بلند ترین شرح ہے۔ دوسری جانب برطانوی پائونڈ کے مقابلے میں ڈالر کی شرح میں حیرت انگیز اضافہ نوٹ کیا گیا جو کہ نئی معاشی پالیسیوں کا نتیجہ تھا، اور گزشتہ ہفتے برطانوی پائونڈ ڈالر کے مقابلے میں 230 سال کی کم ترین شرح پر آگیا۔ معاشی ماہرین کا خیال تھا کہ اگر یہ پالیسیاں جاری رہیں تو ڈالر شاید برطانوی پائونڈ سے بھی آگے نکل جائے۔ اس صورتِ حال پر آئی ایم ایف نے بھی اپنا انتباہ جاری کیا اور حکومت کو پالیسیوں پر نظرثانی کا کہا۔ ادھر برطانیہ میں اپوزیشن جماعت لیبر پارٹی نے اسے امیر طبقات کو فائدہ پہنچانے اور عوام کی جیب سے سرمایہ نکال کر اس کو چند ہاتھوں میں مرکوز کرنے کی پالیسی قرار دیا۔ عوام میں اس پر شدید قسم کی بے چینی بھی پائی جاتی ہے، کیونکہ اب تک برطانوی معیشت سنبھل نہیں پارہی ہے۔ پہلے یورپی یونین سے علیحدگی اور اس کے بعد کورونا کی وبا نے برطانیہ کی معیشت کو بے حال کردیا ہے، تاحال مہنگائی کا سیلاب ہے، افراطِ زر کی شرح 13 فیصد تک جاچکی ہے، جبکہ سالِ گزشتہ سے اب تک مہنگائی میں اضافہ 17 فیصد نوٹ کیا گیا ہے۔ اس کے برعکس تنخواہوں میں اضافہ محض 10 فیصد ہے۔ یاد رہے یہ شرحِ مہنگائی صرف اشیائے خورونوش کی ہے، جبکہ گیس و بجلی کی قیمتوں میں 200 فیصد سے زائد اضافہ ہوچکا ہے۔ یہ صورت حال نہ صرف عوام بلکہ چھوٹے کاروبار کے لیے بھی نہایت مشکل ہے۔ بجلی کا صنعتی یونٹ جو کہ ایک سال پہلے 13 برطانوی پنس کا تھا، اب 60 برطانوی پنس تک جا چکا ہے۔ اس پر برطانوی حکومت نے ان قیمتوں کو ایک سال تک منجمد کرنے کا اعلان تو کیا ہے لیکن قیمتوں کے انجماد کی تاریخ سے قبل توانائی کمپنیوں کو قیمتوں میں مزید اضافے سے بھی نہیں روکا، یعنی جب قیمتوں کے انجماد کا آغاز ہوگا اس سے پہلے ہی قیمتیں آسمان پر پہنچ جائیں گی۔ طرفہ تماشا یہ کہ بھاری منافع کمانے والی توانائی کمپنیاں جو کہ اب عوام کا خون نچوڑ رہی ہیں ان کے ٹیکس پر مزید چھوٹ دے دی گئی۔ اس پر اب خود حکمران جماعت کنزرویٹو پارٹی میں تنقید جاری ہے اور حکمران جماعت کے اراکینِ پارلیمنٹ نے بھی اس پالیسی کو واپس لینے اور بڑے کاروبار پر مزید ٹیکس عائد کرنے کی حمایت کی ہے۔ حکمران جماعت کنزرویٹو کی پارٹی کانفرنس برمنگھم میں جاری ہے جس میں حکومتی پالیسیوں پر بحث اور آئندہ کا لائحہ عمل طے کیا جارہا ہے۔ اس کانفرس میں بھی وزیراعظم لزٹرس کو معاشی پالیسیوں پر شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا اور بالآخر وزیر خزانہ نے باضابطہ طور پر ان پالیسیوں میں تبدیلی کا عندیہ دیا ہے۔ وزیراعظم لزٹرس نے اپنی معاشی پالیسیوں کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ بہتری کے لیے کچھ مشکل فیصلے کرنے پڑیں گے۔ انہوں نے لیبر، لبرل ڈیموکریٹک اور اپوزیشن کی دیگر جماعتوں پر تنقید کرتے ہوئے ان کو ترقی کی دشمن، یورپی یونین سے اتحاد کی حامی اور ٹریڈ یونینوں کی نمائندہ قرار دے کر شدید تنقید بھی کی۔ لیکن معاشی پالیسیوں پر حکومت کے یوٹرن نے نئی وزیراعظم کے اعتماد اور دوررس پالیسی سازی کے دعوے کی قلعی کھول دی ہے۔ محسوس یہ ہورہا ہے کہ لزٹرس کی اقتدار پر گرفت بظاہر کمزور ہورہی ہے۔ اب خود برطانوی میڈیا اور پارٹی اراکین لزٹرس کی حکومت کے اعتماد کی کمی پر تبصرے کررہے ہیں۔ کنزرویٹو پارٹی کی اہم رہنما سوئیلا بیرومن نے بھی اس بار برطانوی حکومت کے بھارت سے آزادانہ نقل و حرکت اور امیگریشن کے معاہدے پر حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ پہلے ہی برطانیہ میں غیر قانونی طور پر مقیم افراد میں بھارت کے باشندے سرفہرست ہیں اور اس معاہدے کے بعد اس تعداد میں کمی کے بجائے مزید اضافہ ہوگا۔ واضح رہے کہ یورپی یونین سے اخراج کے بعد افرادی قوت کی قلت کو دور کرنے کے لیے سابق وزیراعظم بورس جانسن کے دور میں بھارتی نژاد وزیر داخلہ پریٹی پٹیل نے بھارت سے تجارت، افرادی قوت کی آزادانہ نقل و حرکت کا معاہدہ 4 مئی 2021ء کو کیا تھا جس کے تحت بھارتی باشندوں کو جن کی عمر 18سے30 سال کے درمیان ہوگی، برطانیہ میں دو سال تک قیام اور کام کرنے کی مکمل آزادی ہوگی۔ یہ معاہدہ اس لیے بھی اہم ہے کہ بعد ازاں اس دو سال کی مدت کو برطانوی شہریت کے لیے برطانیہ میں قیام کی مدت میں شمار کرنے کے لیے بھی قانون سازی کی جارہی ہے۔ سال 2020ء کے سرکاری اعداد وشمار کے مطابق 53 ہزار بھارتی طالب علم برطانیہ حصولِ تعلیم کے لیے آئے تھے جوکہ بین الاقوامی طالب علموں کی تعداد کا ایک چوتھائی ہے۔ یورپی یونین کے باشندوں کے کام کرنے کی اجازت ختم ہونے کے بعد اب بڑی تعداد میں بھارتی باشندے برطانوی معیشت کو سنبھالنے کے لیے آئیں گے۔ یہ سب کچھ اُس وقت ہورہا ہے جب بھارتی نژاد سیاست دانوں کی ایک بڑی تعداد اس وقت حکومتی عہدوں پر فائز ہے اور بھارتی نژاد سابق وزیر خزانہ رشی سونک محض چند سو ووٹوں کی کمی سے وزیراعظم نہ بن سکے۔ اس معاہدے کے برطانیہ پر دوررس اثرات مرتب ہوں گے، اور اگر یہ معاہدہ اسی صورت میں برقرار رہا تو بتدریج بھارت یورپی یونین کی جگہ برطانیہ کا نیا شراکت دار بن کر خطے میں اپنے مزید اثرات مرتب کرے گا۔

دوسری جانب ایک طویل عرصے سے اقتدار سے باہر لیبر پارٹی بھی آئندہ انتخابات کے لیے اپنی صفوں کو منظم کررہی ہے۔ لیور پول میں منعقدہ لیبر پارٹی کی کانفرنس میں پارٹی لیڈر کیئر اسٹارمر نے اعلان کیا ہے کہ آئندہ آنے والی حکومت لیبر پارٹی کی ہوگی اور پارٹی اقتدار میں آکر عوام دوست معاشی پالیسیاں بنائے گی جس میں صحت کے شعبے کے لیے مزید فنڈ اور عوام کی فلاح کا خیال رکھنے اور بے روزگاری الاؤنس و پنشن میں اضافہ سر فہرست ہوگا۔

برطانوی سیاست و ریاست پر اب سرمایہ داروں کا مکمل غلبہ محسوس کیا جارہا ہے اور برطانیہ جو کہ ایک فلاحی ریاست ہے اب آہستہ آہستہ ایک سرمایہ دارانہ ریاست کا روپ دھارتی نظر آتی ہے۔ عوام کی ایک بڑی تعداد اس وقت فلاحی ریاست میں بھی خطِ افلاس تک پہنچ چکی ہے اور گزشتہ دنوں سامنے آنے والے ہوش ربا اعداد و شمار کے مطابق برطانوی عوام کی ایک بڑی تعداد کو دو وقت کا کھانا بھی میسر نہیں۔ بڑی تعداد میں خیراتی ادارے و فوڈ بینک یہ کام سرانجام دے رہے ہیں تاکہ ان افراد کی غذائی ضروریات کو پورا کیا جاسکے۔ ایک طرف دو وقت کے کھانے کے لالے ہیں اور دوسری جانب بڑی توانائی کمپنیاں شیل اور برٹش پیٹرولیم اپنے منافع میں کئی سو گنا اضافے کا اعلان کررہی ہیں۔ سرمایہ دارانہ نظام کا عفریت اب آہستہ آہستہ فلاحی ریاستوں کو بھی نگل رہا ہے اور ریاست کی پالیسی سازی پر بھی سرمایہ دارانہ نظام کے وکلا مسلط ہیں جوکہ جدید دنیا میں بھی عوام کو سطح افلاس سے نیچے دھکیل چکے ہیں۔ برطانیہ میں اب معاشی پالیسیوں کا کیا نتیجہ نکلتا ہے یہ تو وقت ہی فیصلہ کرے گا، لیکن لگتا یہ ہے کہ نئی پالیساں عوام کو مزید افلاس میں دھکیلنے کا سبب بن جائیں گی۔