!پاکستانی سیاست اخلاقی بحران میں

گزشتہ ہفتے اہلِ اسلام نے خاتم الانبیا، رحمۃ للعالمین، محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کی دنیا میں تشریف آوری کا دن منایا۔ آپؐ کی بعثت کے وقت دنیا کے جو حالات تھے، کلام الٰہی میں اُن کا نقشہ یوں کھینچا گیا ہے کہ ’’خشکی اور تری میں فساد برپا ہوگیا ہے لوگوں کے اپنے ہاتھوں کی کمائی سے‘‘۔ اِس فساد کا بنیادی سبب تمام انسانی معاشروں میں کسی نہ کسی صورت انسانوں پر انسانوں کی خدائی تھی۔ آپؐ نے اس خدائی کو توڑنے کے لیے لا اِلٰہ الا اللہ کی صدا بلند کی اور لوگوں سے کہا: ’’یہ ایک کلمہ اگر تم مجھ سے قبول کرلو تو اس کے ذریعے سے تم سارے عرب کو زیر نگیں کرلوگے، اور سارا عجم تمہارے پیچھے چلے گا‘‘۔ پھر چشمِ فلک نے یہ منظر بھی دیکھا کہ اِس ہستی کی محض سوا دو عشروں کی جدوجہد کے نتیجے میں پورے عرب میں پتھر سے تراشے گئے سیکڑوں جھوٹے خدائوں کی ریاستیں جھک گئیں اور غلامی کی ذلت سے آزاد ہوکرکائنات کے حقیقی فرماں روا کے دامنِ رحمت میں آگئیں۔ ایک ہزار سال تک اس نظام کے علَم بردار پوری انسانی برادری کے قائد و پیشوا رہے۔ لیکن وقت گزرنے کے ساتھ دَورِ اوّل کا سا معیار قائم نہیں رہ پایا۔ کمزوریاں بڑھتی گئیں تو خدائی قانون کے مطابق قافلۂ انسانی کی قیادت دنیاوی اعتبار سے اہل تر انسانی گروہوں کے سپرد ہوئی اور مسلم دنیا بتدریج ان کے زیر تسلط آتی چلی گئی۔ پاکستان اسلامی جمہوریہ ہے لیکن ہمارا سیاسی معاشرہ سیاسی خدائوں کی خواہشات کی بھینٹ چڑھا ہوا ہے، ذہنی غلامی کی پوری شکل آج نظر آرہی ہے۔ سیاسی رہنما جو کچھ کہہ دے، اس کے پیروکار اسے سچ اور حق سمجھتے ہیں۔ اس طرح ہمارا معاشرہ سچ سے ہٹ کر دھوکے کی جانب لڑھک رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دولت اور طاقت کی فوج کشی اخلاقیات کو دیمک کی طرح چاٹ رہی ہے، اس لیے ہمارے معاشرے میں سود بھی ختم نہیں ہورہا۔ اگر ریاست مدینہ کے معاشی نظام کا جائزہ لیا جائے تو وہاں ہمیں تاجر لوٹ کھسوٹ میں مشغول نظر نہیں آتے، بلکہ وہ اُس معیار پر ہیں کہ جنہیں شہدا اور صالحین سے بلند تر قرار دیا گیا ہے۔ آج اپنے معاشرے کا جائزہ لیں تو کیا ہمیں یہ منظر کہیں نظر آتا ہے؟ ہاں البتہ تاجروں نے میلادالنبیؐ کی نسبت سے نمائشی ماڈل بنانے کے لیے بیش بہا چندہ ضرور دیا ہوگا۔ اگر مسلم ریاستیں مکہ سے اٹھنے والے کلمے کی صدا کو اپنے پلے باندھ لیں تو پورا عالم مسخر کرسکتی ہیں، مگر یہ مغرب کی اقتصادی اور سماجی غلام بن کر رہ گئی ہیں۔ دنیا میں 50سے زیادہ اسلامی ممالک ہیں، جن میں پاکستان ایٹمی طاقت بھی ہے، مگر یہ مغرب کے مقابلے میں بہت کمزور ہیں۔ قدرتی وسائل مغرب کی دسترس میں ہیں، وہ سب ملّتِ واحدہ ہیں جبکہ مسلم ریاستیں باہم دست و گریباں۔ کوئی باہمی تجارتی معاہدے ہیں نہ دفاعی اشتراک، اس لیے فلسطینی اور کشمیری اپنی حقیقی آزادی کے لیے ترس رہے ہیں۔ پاکستان میں بھی معیشت لڑکھڑا رہی ہے۔ غربت و بے روزگاری ہے، اور چھ کروڑ سے زیادہ نفوس غربت کی لکیر سے نیچے تڑپ رہے ہیں۔ ریاست مدینہ کا نعرہ ضرور یہاں لگا ہے، مگر نعرہ لگانے والے خود بھی معیار پر پورے نہیں اترے۔ پاکستان کی معیشت اصلاحات کی متقاضی ہے۔ سرمایہ داری، کمیونزم، سوشلزم کے معاشی تصورات ناکام ہوچکے ہیں۔ اقتصادیات میں بہتری لانے کے لیے ایسا معاشی نظام چاہیے جس میں تاجر اور صارفین، طلب اور رسد دونوں میں توازن ہو۔ صرف تہیہ کرنے کی ضرورت ہے کہ سودی نظام کے بغیر بھی ترقی کی جاسکتی ہے، اور اسی میں ملک کو معاشی بحران سے نکالنے کا راستہ بھی ہے۔ پاکستان کے آئین کا آرٹیکل 31 نہایت واضح ہے، اور وفاقی حکومت اس بات کی پابند ہے کہ وہ ملک میں اسلامی نظامِ حیات کے نفاذ کی عملی کوشش کرے گی۔ یہ آرٹیکل اسلامی نظام کے نفاذ کے لیے کسی بھی حکومت کی اہلیت اور آئینی نااہلیت کا بہت بڑا قانونی اور آئینی جواز ہے۔

حال ہی میں ماہر معیشت وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے منصب سنبھالا ہے، اور وجہ کچھ بھی ہو، روپے کی قدر میں 20 روپے سے زیادہ کا اضافہ ہوا ہے، یوں پاکستان پر واجب الادا قرضوں میں دوہزار ارب روپے کی کمی آئی۔ وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے دعویٰ بھی کیا ہے کہ وہ ڈالر کو دو سو روپے تک لانے کے لیے اقدامات کریں گے۔ ان کے اقدامات پر سابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے بھی ردعمل دیا ہے جس میں وہ اسحاق ڈار کی جانب سے پیٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں کمی کے فیصلے پر تنقید کرتے نظر آئے۔ محسوس ہوتا ہے کہ وہ آئی ایم ایف سے اسحاق ڈار کی شکایت کررہے ہیں۔
گزشتے ہفتے دو واقعات ہوئے: ایک بار پھر آڈیو لیکس ہوئیں اور پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے صدر کا خطاب ہوا۔ آڈیو لیکس کے بارے میںکہا جارہا ہے کہ سیکورٹی وجوہات کی بنیاد پر خفیہ طور پر فون کالز سننے کا عمل بند نہیں کیا جا سکا، حالانکہ اس بارے میں جسٹس سجاد علی شاہ کا ایک فیصلہ بھی موجود ہے، اور بے نظیر بھٹو حکومت اسی الزام میں1996ء میں برطرف ہوئی تھی۔ اس فیصلے کی روشنی میں قانون سازی کی ضرورت تھی، لیکن26 سال گزر چکے، کوئی بھی حکومت اس بارے میں قانون سازی نہیں کرسکی۔ ضابطے بنانے کی ضروت نہیں ہے، یہ پہلے سے موجود ہیں، صرف خود کو طاقت ور سمجھنے والوں کو کٹہرے میں لانے کی ضرورت ہے۔
دوسری سب سے بڑی سیاسی پیش رفت پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے صدر عارف علوی کا خطاب ہے۔ عمران خان حکومت کی برطرفی کے بعد یہ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے اُن کا پہلا خطاب تھا، خیال تھا کہ وہ ملک میں سیاسی تقسیم کے بڑھتے ہوئے اثرات کم کریں گے، مگر ان کے خطاب میں ایک بھی سطر ایسی نہیں تھی، وہ نام لیے بغیر تحریک انصاف کی مالا جپتے رہے۔ صدرِ مملکت عارف علوی نے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب میں متعدد قومی و بین الاقوامی امور کا احاطہ کیا جن میں معیشت کی کیفیت سے لے کر سیلاب کی تباہ کاریوں سے نمٹنے کے اقدامات، ملکی سیاست اور خارجہ امور سمیت ہر موضوع کی اپنی اہمیت ہے۔ ان کے خطاب کا اہم نکتہ یہ تھا کہ قومی راز عیاں نہیں ہونے چاہئیں۔ ان کے خیال میں آڈیو لیکس کی تحقیقات ہونی چاہیے۔ تحریک انصاف ملک کی پہلی سیاسی جماعت ہے جس نے سوشل میڈیا کو بطور سیاسی ہتھیار استعمال کیا اور پارٹی رہنما کے طور پر عارف علوی اس کے سرخیل تھے۔ اب وہ اس معاملے میں احتیاط کی راہ دکھا رہے ہیں۔ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے صدر کا خطاب ہر دور میں متنازع رہا، لیکن اِس بار حکومت اور اپوزیشن دونوں نے بائیکاٹ کیا، اور صرف وہی لوگ ایوان میں رہے جوحکومت اور اپوزیشن کی سیاسی پالیسیوں سے متفق نہیں تھے۔ 242 ارکان پر مشتمل ایوان میں ابتدا میں 123، اور اختتام پر 14 ارکان موجود تھے، تاہم پارلیمانی سال کے آغاز پر صدر کے خطاب کی روایت کی اہمیت و افادیت سے انکار ممکن نہیں۔ بدقسمتی سے وطن عزیز میں یہ دن عشروں سے ایوان میں شورو غل اور ڈائس کے گھیرائو کا دن بن کر رہ گیا ہے۔ اِس بار تو تلخیاں ایسے مقام پر نظر آرہی ہیں جہاں مخالف پارٹیوں، دھڑوں اور حلقوں کو قومی مفاد میں یکجا کرنے اور مکالمے کے ذریعے بعض امور پر اتفاقِ رائے پیدا کرنے کی مخلصانہ کوششوں کی ضرورت بڑھ گئی ہے۔ پارلیمانی جمہوریت میں صدرِ مملکت کا عہدہ غیر متنازع ہوتا ہے، اس منصب پر فائز شخصیت سے بھی یہی توقع کی جاتی ہے، لیکن پاکستان میں بے اصولی سیاسی تقسیم اور گروہ بندی نے اس نصب کی یہ حیثیت ختم کر دی ہے صدر عارف علوی کی تقریر کے بعض حصے تحریری اور متعدد پیرے فی البدیہہ تھے، ان کے خطاب کا مرکزی نکتہ یہی تھا کہ ملک میں سیاسی تقسیم ختم کرنے کے لیے شفاف انتخابات کی ضرورت ہے، اور سیاسی جماعتیں بات چیت کے ذریعے مل کر اس کی راہ ہموار کریں۔ صدرِ مملکت نے سیلاب زدگان کی امداد کے ضمن میں افواجِ پاکستان، فلاحی تنظیموں، پاکستان کے دورے پر آنے والے سیکریٹری جنرل اقوام متحدہ، امریکی کانگریس کے وفد، غیر ملکی معززین اور پاکستان میں مقیم سفرا کا شکریہ بھی ادا کیا، جنہوں نے متاثرہ علاقوں میں جاکر صورتِ حال کا مشاہدہ کیا۔
حقائق یہ ہیں کہ ہمارا ملک اس وقت یورپ، یوکرین اور روس کی جنگ کی تمازت محسوس کررہا ہے، افغانستان ہم پر دہرے رویوں کا الزام لگاتا ہے، تحریک طالبان پاکستان ایک بار پھر سر اٹھانے کی کوشش میں ہے، اور مشرق کی جانب حالات یہ ہیں کہ بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں فوجی اودھم مچا رکھا ہے۔ یہ بات اب راز نہیں رہی کہ عالمی معیشت زمین بوس ہورہی ہے، پاکستان کو تباہ کن سیلاب کا سامنا ہے اور پاکستان میں سیاست عجیب و غریب تماشے لگائے بیٹھی ہے۔ سائفر اور آڈیو لیکس نے ہمیں ایک نئے سیاسی اور اخلاقی بحران میں دھکیل دیا ہے۔ انتظامی اداروں کو بھیانک مذاق بھی بنا ڈالا ہے۔ ان موضوعات پر حکومت اور عمران خان گرگٹ کی طرح رنگ بدل کر ناٹک کررہے ہیں، جہاں تک مراسلے کے چوری ہونے کے الزام کا تعلق ہے تو یہ کیسے ہوسکتا ہے؟ جب اس پر خصوصی طور پر بلائے گئے قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں بحث ہوئی تھی اس اجلاس کی صدارت وزیراعظم نے کی جس میں فیصلوں کی توثیق کی گئی تھی۔ کابینہ کے اجلاس میں اس سائفر کو ڈی کلاسیفائی کیا گیا تھا اور اس کی ایک کاپی اسپیکر کو بھیجی گئی تھی جنھوں نے اسے چیف جسٹس کو بھجوا دیا تھا اور ان سے اس معاملے کی تحقیقات کے لیے عدالتی انکوائری شروع کرنے کا کہا تھا۔ مگر اب تک کیا ہوا؟ کون سی قوتیں ہیں جو اس عمل کو یرغمال بنائے ہوئے ہیں؟ اگر حکومت سچائی جاننے میں دلچسپی رکھتی ہے تو اسے التوا میں ڈالی گئی انکوائری فوری طور پر شروع کرانی چاہیے۔