پاکستانی معاشرے کی ’’سیاست زدگی‘‘

جرنیل جب یہ کہتے ہیں کہ فوج غیر سیاسی ہوگئی ہے تو وہ ایک ’’سیاسی بیان‘‘ جاری کرتے ہیں

 

پاکستانی معاشرہ طرح طرح کی بیماریوں میں مبتلا ہے۔ یہ معاشرہ روحانی زوال کا شکار ہے، اخلاقی زوال کا شکار ہے، دانش ورانہ زوال کا شکار ہے، علمی زوال کا شکار ہے، تخلیقی زوال کا شکار ہے۔ اس معاشرے میں نہ کوئی بڑا شاعر موجود ہے، نہ بڑا ادیب۔ اب نہ معاشرے میں کوئی بڑا دانش ور ہے، نہ بڑا سیاسی رہنما۔ ان بیماریوں میں سب سے موذی بیماری یہ ہے کہ معاشرہ سیاست زدگی میں مبتلا ہے۔ معاشرے کی عظیم اکثریت سیاست کھا رہی ہے، سیاست پی رہی ہے، سیاست پہن رہی ہے، سیاست اوڑھ رہی ہے، سیاست بچھا رہی ہے۔

پاکستانی معاشرے کی سیاست زدگی کا ایک بہت ہی بڑا مظہر یہ ہے کہ تحریکِ پاکستان اور قیامِ پاکستان میں جرنیلوں اور فوج کا کوئی کردار نہیں تھا، لیکن قیامِ پاکستان کے بعد جرنیل پاکستان کے مائی باپ بن کر کھڑے ہوگئے۔ لوگ کہتے ہیں کہ پاکستان کی سب سے منظم سیاسی جماعت، جماعت اسلامی ہے، مگر یہ بات ٹھیک نہیں ہے۔ پاکستان کی سب سے منظم سیاسی جماعت فوج ہے۔ پاکستان میں تین دساتیر وضع ہوئے ہیں: 1956ء کا دستور، 1962ء کا دستور اور 1973ء کا دستور۔ ان تینوں دساتیر میں فوج کا کوئی سیاسی کردار نہیں تھا اور نہیں ہے، مگر اس کے باوجود ہمارے جرنیلوں نے سیاست کو اوڑھنا بچھونا بنایا ہوا ہے۔ جنرل ایوب نے مارشل لا 1958ء میں لگایا، مگر وہ 1954ء سے امریکہ کے ساتھ رابطے میں تھے، وہ امریکیوں کو بتا رہے تھے کہ پاکستان کے سیاست دان نااہل ہیں اور ملک تباہ کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔

جنرل ایوب امریکیوں کو آگاہ کررہے تھے کہ فوج سیاست دانوں کو ہرگز ملک تباہ نہیں کرنے دے گی۔ جنرل ایوب کے امریکیوں سے رابطے کھلی سیاست تھی۔ جنرل ایوب ایسا کرتے ہوئے ایک جرنیل کے بجائے ایک سیاست دان بنے ہوئے تھے۔ اہم بات یہ ہے کہ جنرل ایوب صرف امریکیوں سے پاکستانی سیاست دانوں کی برائیاں کرکے نہیں رہ گئے، انہوں نے 1958ء میں عملاً ملک پر مارشل لا مسلط کردیا۔ ایسا کرتے ہوئے جنرل ایوب نے خود کو سیاست دان اور فوج کو سیاسی جماعت بنادیا۔ جنرل ایوب نے مارشل لا لگاتے ہوئے قوم کو بتایا کہ مارشل لا کی وجہ سیاسی عدم استحکام ہے۔ مگر جنرل ایوب ملک پر دس سال مسلط رہنے کے باوجود ملک کے سیاسی عدم استحکام کا کوئی علاج نہ کرسکے، یہاں تک کہ جنرل یحییٰ کے دور میں سیاسی عدم استحکام اتنا بڑھا کہ ملک دو ٹکڑے ہوگیا۔

ایک وقت تھا کہ جنرل ایوب پاکستان کے سیاست دانوں پر الزام لگا رہے تھے کہ وہ ملک تباہ کررہے ہیں، اور پھر تین سال بعد ہی وہ وقت آگیا کہ ایک جرنیل نے ملک کو دو ٹکڑے کردیا۔ اس سے معلوم ہوگیا کہ پاکستان کے سیاست دان ملک چلانے کے لیے جتنے نااہل ہیں پاکستان کے جرنیل ملک چلانے کے حوالے سے اس سے کہیں زیادہ نااہل ہیں۔ اس لیے کہ سیاست دان تو صرف ملک کو سیاسی عدم استحکام کا شکار کررہے تھے، جنرل یحییٰ نے تو ملک ہی توڑ دیا۔ لیکن اس تلخ تجربے سے بھی جرنیلوں اور فوج نے کچھ سیکھ کر نہ دیا۔ چنانچہ 1977ء میں جنر ل ضیا الحق نے ایک بار پھر سیاسی عدم استحکام اور خانہ جنگی کے اندیشے کو بنیاد بناکر اقتدار پر قبضہ کرلیا، لیکن جنرل ایوب اور جنرل یحییٰ کی طرح جنرل ضیا الحق بھی ملک و قوم کو کچھ نہ دے سکے۔

جنرل ضیا الحق نے اپنے خلاف چلنے والی ایم آر ڈی کی تحریک کے دوران اندرونِ سندھ اتنے بڑے پیمانے پر طاقت کا استعمال کیا کہ پروفیسر غفور اور مولانا نورانی جیسے سیاست دان کہنے لگے کہ ’’سندھ کے اندر مشرقی پاکستان جیسے حالات پیدا ہوگئے ہیں‘‘۔ یہ ہماری خوش قسمتی ہے کہ بھارت نے اُس وقت سندھ کے داخلی حالات سے فائدہ نہیں اٹھایا، ورنہ ملک میں کچھ بھی ہوسکتا تھا۔ اُس وقت تک پاکستان نے ایٹم بم بھی نہیں بنایا تھا۔

جنرل ضیا الحق تک فوج تین بار اقتدار پر قبضے کا شوق پورا کرچکی تھی اور اسے سیاست سے باز آجانا چاہیے تھا، مگر جنرل پرویزمشرف نے 12 اکتوبر 1999ء کو میاں نوازشریف کے خلاف بغاوت کرتے ہوئے ایک بار پھر اقتدار پر قبضہ کرلیا۔ اس قبضے نے ایک بار پھر ثابت کیا کہ ہمارے جرنیل بنیادی طور پر جرنیل نہیں سیاست دان ہیں، اور فوج بنیادی طور پر فوج نہیں ایک سیاسی جماعت ہے۔ ایسی سیاسی جماعت جس کے پاس ایٹمی قوت ہے، جس کے پاس ایک فضائیہ اور ایک بحریہ ہے۔ بدقسمتی سے جنرل پرویز کے دور میں نائن الیون ہوگیا اور جنرل پرویز نے ’’سب سے پہلے پاکستان‘‘ کی آڑ میں سب سے پہلے ’’میں‘‘ اور سب سے پہلے ’’فوج‘‘ کا نعرہ لگا دیا۔

امریکہ نے ان کے سامنے سات مطالبے رکھے اور اس کا خیال تھا کہ جنرل پرویز ان میں سے دو، تین مطالبے مانیں گے اور باقی مسترد کردیں گے، مگر جنرل پرویز نے تمام مطالبات تسلیم کرلیے۔ انہوں نے پاکستان کے تین ہوائی اڈے امریکہ کے حوالے کردیے، انہوں نے پاکستان کی بندرگاہ امریکہ کو سونپ دی، انہوں نے امریکہ کو پاکستان میں ڈرون حملوں کی آزادی دے دی۔ اس سے ملک میں خانہ جنگی کی صورت حال پیدا ہوگئی اور ملک جنرل پرویز کے ہاتھ سے نکلتے نکلتے بچا۔ لیکن جنرل پرویز کی امریکہ پرستی سے ملک میں 70 ہزار افراد جان سے گئے۔ ملک کو 120 ارب ڈالر کا نقصان ہوا۔

ان حقائق سے ایک بار پھر ثابت ہوگیا کہ جرنیل ملک چلانے کی اہلیت اور صلاحیت نہیں رکھتے، اور وہ پاکستانی سیاست دانوں سے بھی زیادہ نااہل ہیں۔ مگر جرنیلوں نے اس تجربے سے بھی کچھ سیکھ کر نہ دیا۔ بلاشبہ جنرل پرویز کے بعد سے اب تک ملک میں مارشل لا نہیں لگا، مگر پوری قوم جانتی ہے کہ حکومت عمران خان کی ہو یا شہبازشریف کی… ملک فوج ہی چلا رہی ہے۔ جرنیل جب مارشل لا لگاتے ہیں وہ سامنے آکر ملک چلاتے ہیں، مگر جب ملک میں مارشل لا نہیں ہوتا ہے تو بھی جرنیل ہی پردے کے پیچھے سے ملک چلا رہے ہوتے ہیں۔ جرنیل جب یہ کہتے ہیں کہ فوج غیر سیاسی ہوگئی ہے تو وہ ایک ’’سیاسی بیان‘‘ جاری کرتے ہیں۔ اس لیے کہ ملک کی خارجہ پالیسی ہو یا داخلہ پالیسی، حکم جرنیلوں کا چلتا ہے۔ عمران خان آئے تھے تو اسٹیبلشمنٹ کی مدد سے، گئے ہیں تو اسٹیبلشمنٹ کے کردار کی وجہ سے۔ میاں شہبازشریف کو اب اقتدار میں آئے چھ ماہ ہوگئے ہیں مگر امریکہ جارہے ہیں تو جنرل باجوہ، چین کا دورہ کررہے ہیں تو جنرل باجوہ، سعودی عرب کے ساتھ معاملات کو دیکھ رہے ہیں تو جنرل باجوہ۔

دوسری عالمی جنگ میں جنرل میک آرتھر امریکہ کے ’’ہیرو‘‘ تھے، انہوں نے دوسری عالمی جنگ میں بڑی فتوحات حاصل کی تھیں۔ جنرل میک آرتھر کی فوجیں کئی محاذوں پر مسلسل پیش قدمی کررہی تھیں اور جاپان امریکہ کے آگے ہتھیار ڈالنے ہی والا تھا کہ جنرل میک آرتھر کو امریکہ کی سیاسی قیادت نے کئی محاذوں پر پیش قدمی روکنے کا حکم دیا۔ جنرل میک آرتھر نے اس کو مان تو لیا مگر اس پر ناگواری کا اظہار کیا۔ صرف اتنی سی بات پر جنگ کے دوران جنرل میک آرتھر کو میدانِ جنگ سے واپس بلا لیا گیا۔ مگر پاکستان میں جرنیل ہی قانون ہیں، جرنیل ہی آئین ہیں اور جرنیل ہی عدالت ہیں۔ جرنیلوں کی ایسی سیاست زدگی کی مثال شاید ہی دنیا کے کسی ملک میں موجود ہو۔

پاکستان میں معاشرے کی سیاست زدگی کی ایک اور بڑی مثال ہماری اعلیٰ عدالتیں ہیں۔ دنیا بھر میں عدالتیں ’’عدالتی فیصلے‘‘ کرتی ہیں، مگر پاکستان میں ہماری اعلیٰ عدالتیں ’’سیاسی فیصلے‘‘ کرتی ہوئی پائی جاتی ہیں۔ یہ بات تاریخ کے ریکارڈ پر ہے کہ مولوی تمیزالدین کے کیس میں جسٹس منیر نے ’’عدالتی فیصلہ‘‘ نہیں کیا تھا، انہوں نے ’’سیاسی فیصلہ‘‘ کیا تھا۔ اس فیصلے نے ملک کی سیاسی تاریخ کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بدل کر رکھ دیا۔ اس فیصلے کی وجہ سے اعلیٰ عدالتوں نے فوجی آمروں کے آگے ہتھیار ڈالنے کو اپنا وتیرہ بنا لیا۔ جنرل ایوب نے مارشل لا لگایا تو ملک کی اعلیٰ قیادت نے اس کے جواز کا فیصلہ دیا۔ جنرل ضیا الحق نے ملک پر فوجی آمریت مسلط کی تو سپریم کورٹ نے جنرل ضیا الحق کی فوجی آمریت کو ’’جائز‘‘ قرار دیا۔ جنرل پرویزمشرف نے اقتدار پر قبضہ کیا تو ملک کی اعلیٰ ترین عدلیہ نے ان کے اقتدار کے جائز ہونے پر مہر ثبت کی۔ جیسا کہ ظاہر ہے مذکورہ بالا تینوں مثالیں ’’عدالتی فیصلوں‘‘ کی نہیں، ’’سیاسی فیصلوں‘‘ کی ہیں۔

حضرت علیؓ نے فرمایا تھا کہ ’’معاشرہ کفر کے ساتھ زندہ رہ سکتا ہے مگر عدل کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا‘‘۔ اس وقت ہمارے معاشرے میں جو آگ لگی ہوئی ہے اور جو سیاست زدگی مچی ہوئی ہے اس کی پشت پر کہیں نہ کہیں ہمارے نظامِ عدل کی کمزوریاں بھی موجود ہیں۔

قائداعظم نے کہا تھا ’’قوموں اور صحافت کا عروج و زوال ایک ساتھ ہوتا ہے‘‘۔ اور یہ بات سو فیصد درست ہے۔ چنانچہ ہم دیکھ رہے ہیں کہ ہمارے معاشرے کی سیاست زدگی میں ذرائع ابلاغ بھی مرکزی کردار ادا کررہے ہیں۔ ذرائع ابلاغ کا فرض ہے کہ وہ ’’پوری زندگی‘‘ کو پیش کریں، مگر ہمارے ذرائع ابلاغ صرف سیاست کو رپورٹ کررہے ہیں، صرف سیاست کو زیر بحث لا رہے ہیں، صرف سیاست پر تبصرے اور تجزیے پیش کررہے ہیں۔ ہمارے اخبارات اور ٹی وی چینلز کی 95 فیصد خبریں ’’سیاسی‘‘ ہوتی ہیں، ہمارے ذرائع ابلاغ کے 98 فیصد ٹاک شوز ’’سیاسی‘‘ ہوتے ہیں، ہمارے 100 اہم ترین کالم نگاروں میں سے 95 کالم نگار صرف سیاست پر لکھتے ہیں۔ ہمارے ذرائع ابلاغ میں نہ کہیں فلسفہ زیر بحث آرہا ہے، نہ مذہب پر گفتگو ہورہی ہے، نہ تہذیب پر مکالمہ ہورہا ہے، نہ تاریخ کو موضوعِ بحث بنایا جارہا ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ ہمارا دور سائنس اور ٹیکنالوجی کا دور ہے، مگر ہمارے ذرائع ابلاغ میں نہ سائنس کے فکر و فلسفے پر گفتگو ہورہی ہے، نہ ان کے کمالات کو زیر بحث لایا جارہا ہے، نہ ان کے ہولناک مضمرات پر کوئی گفتگو کررہا ہے۔ ہمارے ذرائع ابلاغ میں اگر کچھ زیر بحث ہے تو وہ سیاست ہے، وہ بھی روزمرہ کی سطحی، سرسری، لجلجی، پچپچی سیاست۔ سوال یہ ہے کہ آخر پاکستانی معاشرے کی سیاست زدگی کے اسباب کیا ہیں؟

ہماری سیاست زدگی کی بنیادی وجہ اقبال نے اس شعر میں بیان کردی ہے۔ اقبال نے کہا ہے:
جلالِ پادشاہی ہو کہ جمہوری تماشا ہو
جدا ہو دیں سیاست سے رہ جاتی ہے چنگیزی

مسئلہ یہ ہے کہ دین اور سیاست کی علیحدگی سے صرف ’’چینگزی‘‘ ہی پیدا نہیں ہوتی، اس سے ’’سیاست زدگی‘‘ بھی پیدا ہوتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ دین ایک جامع حقیقت ہے، جب تک سیاست دین کے تابع رہتی ہے وہ زندگی کا صرف ایک پہلو یا زندگی کا صرف ایک گوشہ ہوتی ہے، لیکن دین سے الگ ہوتے ہی سیاست ’’پوری زندگی‘‘ بن جاتی ہے۔ اس لیے مسلم دنیا کے تمام عظیم مفکرین نے سیاست کے دین کے تابع ہونے کی گواہی دی ہے۔ امام غزالیؒ نے ’’احیاء العلوم‘‘ میں صاف لکھا ہے کہ سیاست دین کے تابع ہے۔ ابن خلدون نے اپنے مشہور زمانہ ’’مقدمہ‘‘ میں بھی سیاست کو دین کے تابع بتایا ہے۔ الماوردی نے بھی سیاست کے دین کے تابع ہونے کی گواہی دی ہے۔ بیسویں صدی میں اقبال اور مولانا مودودیؒ نے سیاست کے دین کے تابع ہونے پر شدت کے ساتھ اصرار کیا ہے۔ بدقسمتی سے اسلامی جمہوریہ پاکستان میں عملاً جو سیاست ہورہی ہے اُس کا دین سے کوئی تعلق ہی نہیں۔ چنانچہ پاکستان میں سیاست پوری زندگی پر محیط ہوگئی ہے۔

ریاست حضرت عیسیٰ ؑ سے تین سو سال پہلے سقراط کے زمانے میں بھی اہم تھی، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں بھی اس کی اہمیت بنیادی تھی، مگر ہمارے زمانے تک آتے آتے ریاست نے تقریباً خدا کا درجہ حاصل کرلیا ہے۔

ریاست ظلم پر کھڑی ہو یا جبر پر، وہ دین بے زاری کا مظاہرہ کررہی ہو یا عوام کُشی کا… اس کے خلاف بغاوت ’’سیاسی کفر‘‘ ہے، اور اس کفر کی سزا موت ہے۔ ہمارے زمانے میں ریاست اتنی طاقت ور ہوگئی ہے کہ فرد اور معاشرے کی پوری زندگی ریاست کے تابع ہوگئی ہے۔ ریاست صرف ہماری سیاسی زندگی کو کنٹرول نہیں کررہی، بلکہ ہماری معاشی زندگی، ہماری سماجی زندگی، ہمارا عدالتی نظام اور ہمارے ذرائع ابلاغ بھی اس کی گرفت میں ہیں۔ ریاست کی طاقت کی یہ مرکزیت افرادِ معاشرہ کو سیاست زدگی میں متبلا کرنے کا ایک بڑا سبب ہے۔

پاکستان میں سیاست کی جو سطح ہے اس نے عوام کے لیے بھی سیاست پر گفتگو کو آسان بنادیا ہے۔ شادی کی تقریب ہو یا دوستوں کی ملاقات…

چائے خانہ ہو یا کوئی اور تقریب… ہر جگہ کسی کوشش کے بغیر سیاست پر گفتگو شروع ہوجاتی ہے اور ہر شخص اس میں ایک ’’ماہر‘‘ کی حیثیت سے حصہ لیتا ہے۔ ہمارے ذرائع ابلاغ کی سیاست زدگی نے عوام تک وہ بنیادی معلومات منتقل کردی ہیں جو سیاسی گفتگو کے لیے ضروری ہیں۔ چنانچہ محفلوں میں کوئی کسی ٹاک شو میں بیان ہونے والے دلائل کو دہرا رہا ہوتا ہے اور کوئی کسی کالم میں پیش کیے گئے تجزیے کو اپنا مؤقف بناکر پیش کررہا ہوتا ہے۔

پاکستان کو وجود میں آئے ہوئے 75 سال ہوگئے ہیں مگر ابھی تک ملک کی 50 فیصد آبادی ناخواندہ ہے، خواندہ افراد میں بھی عظیم اکثریت اعلیٰ تعلیم یافتہ نہیں، بلکہ اب تو اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگوں کا بھی یہ حال ہے کہ ان کا شعر و ادب یا فکر و فلسفہ اور علوم و فنون سے کوئی تعلق نہیں۔ ایک زمانہ تھا کہ ہماری محفلوں میں شعر و ادب پر گفتگو ہوتی تھی، تہذیب و تاریخ زیر بحث آتی تھی، مگر اب معاشرے کی علمی اور ذہنی سطح اتنی پست ہوگئی ہے کہ وہ صرف سیاست کے لیے کفایت کرتی ہے۔ ہمارے ذرائع ابلاغ نے بھی سیاست کو جنون بنانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ عمران خان اقتدار میں ہوں تو خبر ہیں، اقتدار میں نہ ہوں تو خبر ہیں۔ وہ آرمی چیف سے ملیں تو خبر ہیں، نہ ملیں تو خبر ہیں۔ ان حالات میں سیاست زدگی کا مرض عام نہ ہو تو کیا ہو؟