اسکول کالج کے زمانے سے تاریخ کے مضمون میں مغلیہ سلطنت کے زوال کی وجوہات پڑھتے آئے ہیں۔ عظیم الشان مغلیہ سلطنت کئی سو برسوں تک حکومت کرنے کے بعد کیسے بتدریج کمزور ہوتی گئی اور پھر اپنے سے کئی گنا کم، باہر سے آنے والے دشمن کے ہاتھوں مغلوب ہوئی۔ اکثر امتحان میں سوال بھی آتا تھا۔ جب درسی کتب سے باہر نکل کر مطالعہ شروع کیا تو اس موضوع پر کئی کتابیں پڑھنے کا موقع ملا۔ انھی دنوں ستار طاہر مرحوم کی مشہور کتاب ”دنیا کی سو عظیم کتابیں‘‘ میں نامور برطانوی مورخ اور مستشرق ایڈورڈ گبن کی شاہکار تصنیف ڈیکلائن اینڈ فال آف رومن ایمپائر کا تذکرہ سنا۔ یہ کتاب اردو میں ’’انحطاط و زوال سلطنتِ روما‘‘ کے نام سے ترجمہ ہوئی ہے۔ چار جلدوں پر مشتمل یہ شاندار کتاب مقتدرہ قومی زبان نے شائع کی ہے۔ مشہور ادیب، نقاد ڈاکٹر انوار احمد جب چیئرمین تھے، تب انہوں نے مجھے یہ کتاب بھجوائی، اس کا قصہ بھی دلچسپ ہے، کسی روز لکھوں گا۔ ڈاکٹر صاحب کا ممنون ہوں کہ انہوں نے ایک عظیم کتاب پڑھنے کا موقع فراہم کیا۔ مغلیہ سلطنت کے زوال کی بات ہورہی تھی، ایک دانا دوست نے مشورہ دیا تھا کہ تاریخ کے اوریجنل سورسز پڑھنے چاہئیں، تب ہندوستانی تاریخ کے مختلف ادوار کے مورخین کی لکھی کتب پڑھیں۔ بعض غیر ملکی افراد کے سفرنامے بھی پڑھے جنہوں نے مغل شہنشاہوں کے دور میں ہندوستان کا سفر کیا۔ زوال کی وجوہات کچھ سمجھ میں آئیں، کچھ تشنہ رہ گئیں۔ یہ بات مگر سمجھ میں آگئی کہ مغل سلطنت تو ختم ہوگئی، اس کا دوبارہ ہونا ممکن ہی نہیں تھا۔ قوموں کے عروج وزوال کا معاملہ مگر مختلف ہے۔ اگر زوال کی وجوہات سمجھ میں آجائیں اور کوشش کرکے خرابیاں دور کی جائیں تو کوئی بیمار اور مضمحل قوم بھی پھر سے کھڑی ہوسکتی ہے۔ دورِ جدید میں چین ایک زندہ جاوید مثال ہے۔ جسے افیمی ملک کہتے تھے، آج وہ دنیا کی محنتی، باوقار اور تیز ترین ترقی کرنے والی قوم ہے، جس نے کئی معاشی معجزے تخلیق کیے اور وہ دنیا کی سب سے بڑی معیشت بننے کی دوڑ میں بھرپور طریقے سے شامل ہے۔
(عامر خاکوانی۔ روزنامہ دنیا، منگل 11 اکتوبر 2022ء)