دینی اخوت اور مذہبی یگانگت بڑی کرشمہ ساز ہوتی ہے۔ وہ خون، وطن، سرحد اور شعور و ادراک کو بھی پار کرجاتی ہے۔ اسلامی اخوت میں خالص دینی اور مذہبی یگانگت و وابستگی کے علاوہ الٰہی تاثیر اور محبتِ نبوی کی دل سوز اثر انگیزی بھی شامل ہے۔ توحید کے رشتے نے محبتِ رسولؐ کے ساتھ اس میں فکری صلابت و للک، شخصی محبت اور حسی یگانگت کی آگ بھردی ہے۔ عہدِ نبوی میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی جیتی جاگتی شخصیت، سحر انگیز سیرت اور اندرون خاطر میں تیر نیم کش کی مانند گھس جانے والی محبت و عقیدت نے ایک طرف رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو محبوب ترین شخصیت بنادیا تھا تو دوسری طرف ان کے امتیوں کے لیے بے کراں محبت پیدا کردی تھی۔ ان تمام عناصر و عوامل کے ساتھ اقلیت سے وابستگی کا فطری عادۂ ربط و ارتباط بھی صحابہ کرام کو ایک دوسرے سے پیوست کرتا تھا۔ مکی مواخاۃ کے کرشماتی طریقہ نبوی نے ان کو ایک الگ و منفرد و ممتاز امت بنادینے کا ادراک و شعور بھی بخش دیا تھا۔
حدیث نبویؐ کہ ’’مسلمان جسدِ واحد کی مانند ہیں کہ ایک عضو کی بیماری اور بے خوابی تمام جسم و جان کو مبتلائے آزار کردیتی ہے‘‘ کا زمانہ ارشاد و ترسیل کچھ بھی رہا ہو، اس کی واقعیت ابدی اور آفاقی ہے کہ مسلمان اپنے بھائی کے غم پر دکھی اور مسرت پر خوش ہوتا ہے۔ اس آفاقی محبت و تعلقِ خاطر نے صحابہ کرام کو اور ان سے زیادہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک دوسرے سے مواسات و خیر خواہی کا جذبہ عطا کیا۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تو خیر اپنے دشمنوں اور انجان ’’قوموں‘‘ کی خیر خواہی طلب فرماتے تھے کہ سب ان کے ہی امتی اور ان کے اپنے تھے۔ وہ تمام مسلمانانِ مکہ و عرب کا ہر وقت اور ہر آن اور ہر مقام پر خیال رکھتے تھے، اور صحابہ کرام اپنے ہم دینوں خاص کر کم زوروں کا خیال رکھتے تھے۔ عام حالات کے بعد جب سخت حالات شروع ہوئے اور کم زور مسلمانوں پر بالخصوص تعذیب و ابتلائے قریش کا ظالمانہ سلسلہ شروع ہوا تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور طاقتور صحابہ ان کی مواسات کرتے، ان کو تسلی و تشفی دیتے اور ان کے عذاب کو کم کرنے کی سبیل نکالتے۔
دینی مواسات و خیر خواہی کا یہ فریضہ تھا صاحبانِ استطاعت پر، اور ان پر کمزور و پریشان مسلمانوں کا حق تھا۔ مکی دورِ اقلیت میں اسی حق و فریضے نے مال دار مسلمانوں اور ان کے عظیم الشان رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کو مال کے ذریعے قیدِ غلامی سے آزاد کرایا تھا۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان کہ ”مالِ خدیجہ اور مالِ ابوبکر نے جتنا میرا کام کیا وہ کسی نے نہیں کیا“ کا مطلب یہی تھا کہ حضرت ابوبکر صدیقؓ نے حضرت بلال، زنیرہ، ام عبیس وغیرہ غلامان و کنیزانِ قوم کو آزاد کرایا، اور مالِ حضرت خدیجہؓ نے نہ جانے کتنوں کا دامن مسرت و آزادی سے بھردیا۔ اہم بات یہ ہے کہ مسلم غلاموں اور کمزوروں کے صحابہ کے ذریعے آزاد کیے جانے کی واقعیت و حقانیت سے واقف تھے، لہٰذا وہ ان کو مال کے بدلے بیچ دیتے تھے۔ اسی سنتِ نبویؐ اور تعاملِ صحابہ نے مسلمان قیدیوں، اسیروں، غلاموں اور باندیوں کو قید سے چھڑانے اور آزاد کرانے کے احکام جاری کرائے تھے۔
(ڈاکٹر محمد یٰسین مظہر صدیقی، ”عہد نبوی میں اقلیتوں کے حقوق“، شش ماہی السیرۃ)
مجلس اقبال
سنا ہے میں نے غلامی سے امتوں کی نجات
خودی کی پرورش و لذتِ نمود میں ہے
اس شعر میں علامہ افراد کی طرح امتوں کو بھی اپنی خودی یعنی حقیقت پہچان کر آزادی و حریت کا راستہ اختیار کرنے کی تلقین کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ غلامی میں ڈوبی قوم کا آزادی حاصل کرنے کا پہلا مرحلہ اپنے مقامِ بلند کو پہچان کر اس کے شایانِ شان طرزِعمل اپنانے سے وابستہ ہے۔ قرآن نے امت ِ مسلمہ کا مقام ’’بہترین امت‘‘ اور ’’انسانیت کے لیے رہنما امت‘‘ جیسے الفاظ میں بیان کیا ہے۔