مملکت خداداد اسلامی جمہوریہ پاکستان کے قیام کے مقاصد اول روز سے واضح تھے، برصغیر میں ہندو اکثریت سے الگ ایک آزاد و خود مختار مملکت کے وجود میں لانے کا جواز یہ نعرہ لگا کرفراہم کیا گیا تھا کہ ’’پاکستان کا مطلب کیا۔ لا الہ الا اللہ‘‘۔ پھر آزادی کی منزل کے حصول سے قبل ہی تحریک آزادی کے مقاصد سے جب ایک غیر ملکی صحافی سے استفسار کیا کہ نئی مملکت کا نظام حکومت کیا ہو گا تو انہوں نے جواب میں سیکولرزم، سوشلزم، کمیونزم، صدارتی یا پارلیمانی جمہوریت وغیرہ کہنے کی بجائے کوئی لگی لپٹی رکھے بغیر صاف صاف الفاظ میں فرمایا کہ مسلمانوں کو چودہ سو سال قبل قرآن حکیم کی شکل میں نظام حیات عطا کر دیا گیا تھا، یہی نئی مسلمان ریاست یعنی پاکستان کا نظام ہو گا۔ پھر قیام پاکستان کے بعد بھی مجلس قانون ساز نے ’’قرار داد مقاصد‘‘ منظور کر کے اپنی منزل کی واضح نشاندہی کر دی۔ ملک میں اس وقت نافذ 1973ء کا آئین جسے متفقہ طور پر منظور کیا گیا اگرچہ ذوالفقار علی بھٹو کے دور اقتدار اور ان ہی کی نگرانی میں تیار ہوا جو بظاہر سوشلزم کے علم بردار تھے اور یہ نعرہ لگا کر انہوں نے 1970ء کے عام انتخابات میں کامیابی حاصل کی تھی مگر دستور کی تیاری اور منظوری کے مراحل کے دوران وہ بھی ملک کے مقاصد وجود اور قرارداد مقاصد میں طے شدہ اصولوں سے روگردانی کی ہمت نہ کر سکے چنانچہ 1973ء کے متفقہ دستور میں مملکت کا نام ’’اسلامی جمہوریہ پاکستان‘‘ قرار پایا اور یہ بھی اس دستور میں طے کر دیا گیا کہ اس اسلامی مملکت میں کوئی قانون سازی قرآن و سنت کے منافی نہیں ہو سکے گی اور پہلے سے نافذ غیر اسلامی قوانین خصوصاً معاشی قوانین مثلاً سود وغیرہ سے نظام معیشت کو پاک کرنے کے لیے آئین ہی میں باقاعدہ مدت کا تعین بھی کر دیا گیا۔ یوںیہ مملکت آئینی و دستوری لحاظ سے اسلامی قرار پائی جس کا ہر قانون و ضابطہ قرآن و سنت کے تابع ہو گا۔
اسے ملک و قوم کی بدقسمتی ہی قرار دیا جا سکتا ہے کہ اپنے نظریہ، وجود اور آئین کی رو سے ایک اسلامی مملکت ہونے کے باوجود پاکستان آج تک حقیقی معنوں میں اپنے مقصد وجود سے آشنا نہیں ہو سکا بلکہ کوسوں دور ہے اور گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ اسے اس مقصد سے مزید دور کرنے کی منظم کوششیں زور دار انداز میں جاری ہیں۔ الفاظ کی حد تک بہت سی باتیں آئین میں طے کردیئے جانے کے باوجود یہاں کے اقتدار پر قابض رہنے والے فوجی آمروں اور بطاہر جمہوری حکمرانوں نے بھی معاشی نظام کو شریعت کے بتائے ہوئے اصولوں پر استوار نہیں ہونے دیا اور مقامی و بین الاقوامی سطح پر ’’سود‘‘ اس کا جزو لازم ٹھہرادیا گیا، دین سے محبت کرنے والوں نے عوامی دبائو اور انصاف کے ایوانوں کے ذریعے ملکی معیشت کو سود جیسے حرام عنصر سے پاک کرنے اور ملک و قوم کو اللہ اور اس کے رسولؐ سے جنگ سے نجات دلانے کی بھرپور کوشش کی مگر مقتدر طبقے نے حیلوں بہانوں سے غیر اسلامی معاشی نظام ملک پر مسلط رکھا، نتیجہ یہ نکلا کہ افرادی و مادی وسائل کی وافر دستیابی کے باوجود ملک عالمی ساہوکاروں کے سودی قرضوں میں جکڑا چلا گیا اور آج نوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ ماضی میں حاصل کئے گئے قرضوں کے سود کی ادائیگی کے لئے بھی مزید قرضے لینا پڑ رہے ہیں۔ قوم کو پوری طرح عالمی بینک اور بین الاقوامی مالیاتی فنڈ جیسے اداروںکی غلامی میں جکڑ دیا گیا ہے جو نئے قرضے دینے کے لئے ملک کی نظریاتی اساس کو تباہ کرنے کے درپے ہیں اور ایسی ایسی شرائط منوائی جارہی ہیں جن کے تصور ہی سے روح کانپ جاتی ہے۔ ان اداروں کے ملک میںموجود آلٰہ کار کھلم کھلا اسلامی معاشرتی اقدار پر حملہ آور ہیں، ملک میں فحاشی، عریانی اور بے حیائی کا سیلاب آیا ہوا ہے، معاشرے میں صدیوں سے قائم مضبوط خاندانی نظام کو تاہ کرنے کے لئے پے درپے ناقابل قبول اور غیر شرعی قوانین منظور کئے جارہے ہیں، چند برس پہلے ’’تحفظ حقوقِ نسواں‘‘ کے نام سے قانون متعارف کرایا گیا جس کا واضح مقصد میاں بیوی کے رشتے کے تقدس کو مجروح کرنا اور خاندان کے ادارے کو درہم برہم کرنا تھا، پھر ’’گھریلو تشدد‘‘ کے خاتمے کے نام پر منظور کروائے گئے بل کے ذریعے اس مقصد کو آگے بڑھایا گیا اور اب ٹرانس جینڈر ایکٹ کے ذریعے تمام حدیں عبور کرلی گئی ہیں یوں سیکولر لابی نے ملک کے آئین، اسلامی معاشرتی اقدار اور دینی روایات پر بھرپور حملہ کردیا ہے، ملک کی سیاسی جماعتیں نام کی حد تک تو اسلام کی مالا جپتی ہیں مگر عملاً پوری طرح عالمی قوتوں کی پروردہ سیکولر لابی کے تابع اور اس کے مقاصد کی تکمیل کے لئے آلہ کار کا کردار ادا کررہی ہیں جس کی ایک واضح مثال ہم جنس پرستی کی کھلی چھوٹ دینے والا فحاشی و عریانی اور بے حیائی کی آخری حدوں کو چھوتا ’’ٹرانس جینڈرایکٹ‘‘ ہے جس کی منظوری میں پیپلزپارٹی، نواز لیگ اور بظاہر ان دونوں کی جانی دشمن تحریک انصاف تینوں نے متحد ہوکر شرم ناک کردار ادا کیا ہے۔ دینی کہلانے والی جماعتوں سے توقع تھی کہ اس بل کی منظوری کو روکنے کے لئے تن من دھن کی بازی لگادیں گی مگر
وائے ناکامی متاع کارواں جاتا رہا کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا
یہ دینی جماعتیں بھی اقتدار کے ایوانوں کی بھول بھلیوں میں ایسی کھوچکی ہیں کہ انہیں اپنی متاع حیات کے کھو جانے کا احساس تک نہیں صرف ایک جماعت اسلامی ہے جس کے اکلوتے سینیٹر مشتاق احمد خاں پورے ایوان کے سامنے ڈٹ کر کھڑے دکھائی دیتے ہیں تاہم مقام شکر ہے کہ ملک بھر کے دین سے محبت کرنے والے عوام آہنی دیوار کی صورت متحد ہوکر ان کی پشت پر آکھڑے ہوئے ہیں اور امید واثق ہے کہ سیکولر لابی اس آہنی دیوار سے سر ٹکرانے کی حماقت نہیں کرے گی۔(حامد ریاض ڈوگر)