تم بھی بے تحاشا بھاگے

سورج میانی (ملتان) سے ماسٹر افسر علی مرادؔ کا مراسلہ موصول ہوا ہے: ’’پچھلے دنوں ’بے تحاشا‘ کا لفظ کئی بار پڑھنے میں آیا۔ میں یہ لفظ بار بار دیکھتا رہا اور بار بار سوچتا رہا کہ’ تحاشا‘ کیا چیز ہے، مگرسمجھ میں کچھ نہیں آیا۔ آج پھر پڑھا تو آپ سے رجوع کیا‘‘۔

واہ بھئی واہ، ماسٹر صاحب واہ۔ آپ نے’تحاشا‘ کا خوب تماشا کیا۔ ایسے کچھ ’تحاشے‘ اورکچھ تماشے ہم نے بھی دیکھ رکھے ہیں۔ حرفِ نفی ’بے‘ کے بعد لگائے جانے والے الفاظ ’بے شمار‘ ہیں۔ ان میں سے کچھ ایسے بھی ہیں جن کے معنی سے ہم اب تک ’بے بہرہ‘ ہیں اور ان کا مطلب جاننے کو ہمارا تجسس بھی ’بے تاب‘ رہتا ہے۔ مثلاً ایک خاصا بیہودہ لفظ ہے: ’بے ہودہ‘۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ آخر ہُودہ کیا چیز تھی جو اس لفظ کے کارَن اب باقی نہیں رہی۔ قیاس کہتا ہے کہ ہُودہ یقیناً کوئی ایسی چیز ہوگی جس کے نہ ہونے سے لوگ ’بے ہُودہ‘ ہوجاتے ہیں۔ اگر اس نادر و نایاب چیز کا پتا کسی بھائی کو معلوم ہو تو ہاتھ کھڑا کرکے آواز دے۔

یہ تو ضرور ہے کہ کسی شخص کے متعلق کچھ اشخاص کا مشورہ مسلسل ملتا رہا کہ ’’آپ اس کے منہ نہ لگا کیجیے، بڑا بے ہودہ آدمی ہے‘‘۔ مگر کسی مردِ شریف کی بابت یہ حکم نہیں ملا کہ اس سے ضرور ملا کرو، نہایت باہودہ شخص ہے۔ اب تو ٹھیک سے اور لفظ بہ لفظ یاد نہیں، مگر مشہور مزاح نگار شفیق الرحمٰن کی کسی تحریر میں ان کا مقبول کردار ’’شیطان‘‘ ایک محفل کے اختتام پر ہاتھ پھیلا پھیلا کر کچھ اس قسم کی دعائیں مانگتا سنائی دیتا ہے: ’’یااللہ بے روزگاروں کو روزگار دے، بے کاروںکو کار دے، بے بسوں کو بس دے، بے کسوں کو کس دے، اور بے ہودوں کو ہودہ‘‘۔

ہاں تومرادؔ صاحب! یہ بات بالکل ٹھیک ہے کہ ’بے تحاشا‘ کا لفظ بے تحاشا استعمال ہورہا ہے۔ مگر اکثر ’بے موقع‘۔ مثلاً اس قسم کے فقرے بار بار پڑھنے اور سننے کو ملیں گے کہ ’’فلاں کے جلسے میں بے تحاشا لوگ تھے‘‘ یا ’’آج کل میرے پاس بے تحاشا کام ہے‘‘ یا ’’چچا جان آئے تو میرے لیے بے تحاشا تحفے لائے‘‘ وغیرہ وغیرہ۔ یوں’بے تحاشا‘ کا لفظ فقط کثرت و زیادتی ہی کے معنوں میں استعمال ہونے لگا ہے، بلکہ بیش تر تو صرف مبالغے کے لیے۔

اصل میں تحشّٰی یا تحاشا کا مطلب ہے: بچنا، دور رہنا، استشنا کرنا، لاتعلقی ظاہر کرنا۔ مثلاًکسی بات سے انکار کرتے وقت یا کسی چیز سے لاتعلقی ظاہر کرتے ہوئے کہا جاتا ہے ’حاشا و کلّا‘ یعنی ہرگز نہیں، ہرگز نہیں۔ کسی بُری بات پر تعجب کرتے ہوئے اور اُس بات کو تسلیم کرنے سے اپنی لاتعلقی اور برأت ظاہر کرنے کے لیے بھی ’حاشا وکلّا‘ کہا جاتا ہے، جیسے:’’حاشا و کلّا، یہ تو بڑا بھاری بہتان ہے!‘‘

لغات میں ’بے تحاشا‘ کا مطلب ہے: بے جھجک، بے سوچے سمجھے، بے دھڑک، مضطربانہ، بے اوسان ہوکر یا حواس باختہ ہوکر، بے اطمینانی سے اور اندھا دھند۔ ’بے تحاشا‘ کا درست استعمال یوں دیکھا گیا ہے: ’’باتیں کرتے کرتے بے تحاشا مار بیٹھے‘‘۔ یا ’’یہ کیا؟ تم روزہ داروں کے سامنے بیٹھ کر بے تحاشا کھاتے رہے؟‘‘ یا’’جلوس پرلاٹھی چارج ہوتے ہی لوگ بے تحاشا بھاگنے لگے‘‘وغیرہ۔ ’بے تحاشا‘ کا لفظ بہت اور اناپ شناپ کے معنوں میں بھی استعمال ہوتا ہے، جیسے کہا جائے:

’’ان کی ذہنی حالت درست نہیں معلوم ہوتی، بولتے ہیں تو بے تحاشا بولے چلے جاتے ہیں‘‘۔
پچھلے (یعنی’کفو‘ والے) کالم کے حجلۂ عروسی میں بیٹھ کر دُلہن نے دولھا میاں کو غالبؔ کی غزل کا مطلع سنایا تھا۔ اُسی غزل کا شعر ہے:

روانی ہائے موجِ خونِ بسمل سے ٹپکتا ہے
کہ لطفِ بے تحاشا رفتنِ قاتل پسند آیا

اُمید ہے کہ آپ کو بھی شعر بے تحاشا پسند آئے گا۔ قبل اس کے کہ بعد میں بچے، بچیاں ہمیں ’فونم فون‘ کر ڈالیں کہ چچا اس شعر کا مطلب تو سمجھاؤ، دونوں مصرعوں کا لفظی مطلب بتائے دیتے ہیں۔ ’بسمل‘ (یعنی تڑپتے ہوئے مقتول) کا خون جس روانی سے بَہ رہا ہے یا موجیں مار رہا ہے، اُس سے یہ محسوس ہوتا ہے کہ اُسے قاتل کا بدحواسی سے بھاگنا یعنی اوسان کھو کر رفو چکر ہونا لطف دے گیا، پسند آگیا۔

آپ کو یاد ہوگا کہ اپنے فیض آباد والے میر انیسؔ مرحوم معترضین سے پوچھتے ہی رہ گئے تھے کہ ’’پڑھیں درود نہ کیوں دیکھ کر حسینوں کو؟‘‘ مگر اپنی پرانی دلّی والے ’نواب مرزاخان‘ عرف داغؔ دہلوی تو بے دغدغہ اور بے تحاشا پڑھ بھی گئے:

دیکھ کر رُوئے یار صلّے علیٰ
بے تحاشا زبان سے نکلا

انیسؔ و داغؔ نے غالباً اِس فکر سے فائدہ اُٹھایا کہ ہر حسین شے اور ہر حسین منظر کو دیکھ کر درود شریف پڑھنا چاہیے کیوں کہ خالق کی حسین ترین تخلیق اُس کے محبوب صلی اللہ علیہ وسلّم ہی ہیں۔

اللہ بشیر بدرؔ پر رحم فرمائے۔ اُن سے اُن کا حافظہ چھن گیا ہے۔ یعنی اختر ؔانصاری اکبر آبادی کے مشہورشعر میں کی گئی تمناان کے حق میںپوری ہوئی۔یادِ ماضی کے عذاب سے اُن کو نجات مل گئی۔اب یار لوگ اُنھیں کے شعر خود اُن کو سناتے ہیں اور وہ جھوم جھوم کر داد دیتے ہیں کہ ’’ واہ وا، بہت اچھا شعر ہے‘‘۔مگر حافظہ چھننے سے پہلے کی بات ہے کہ اُن سے اُن کی بے ساختہ اور بے جھجک ہنسی چھن گئی تھی:

بے تحاشا سی لا اُبالی ہنسی
چھن گئی ہم سے وہ جیالی ہنسی

یہاں ’جیالی ہنسی‘ کا مطلب ’جی سے نکلنے والی ہنسی‘ ہے۔ مضطربانہ یا اندھا دھند کے معنوں میں ’بے تحاشا‘ کا استعمال بچوں کے لیے اخترؔ شیرانی کی کہی ہوئی ایک نظم ’’شملے کی ریل گاڑی‘‘ میں بھی ملتا ہے:

غصے میں بے تحاشا
سیٹی بجا رہی ہے
دیکھو وہ آ رہی ہے
شملے کی ریل گاڑی

’لالا دھنپت رائے‘ المعروف بہ منشی پریم چند کے مشہور، دلچسپ اور پُر مزاح افسانے ’’دو بیل‘‘ میں دونوں بیلوں کے مابین ہونے والا ایک مکالمہ یاد آگیا۔ اس مکالمے میں ’بے تحاشا‘کا استعمال اس کے اصل معنی بتاتا ہے۔ ایک بیل کا نام تھا ہیرا، دوسرے کا موتی۔ دونوں بیل اُس ظالم شخص سے رسی تڑا کر بھاگ کھڑے ہوئے تھے جس کے ہاتھ مالک نے انھیں بیچ دیا تھا۔ محفوظ جگہ پہنچ کر دونوں میں سے ایک بیل اُس ظالم انسان کو مار گرانے کا موقع کھو دینے پر افسوس کا اظہار کرتا ہے۔ دوسرا بیل کسی انسان کو جان سے ماردینا اپنے دھرم اور اپنے ’شرفِ حیوانی‘ کے خلاف سمجھتاہے۔مکالمہ کچھ یوں ہے:

موتی: ’’تم بھی بے تحاشا بھاگے، وہیں اسے مار گراتے!‘‘
ہیرا: ’’اسے مار گراتے تو دنیا کیا کہتی؟وہ اپنا دھرم چھوڑ دے مگر ہم اپنا دھرم کیوں کر چھوڑ دیں؟‘‘