مورخہ 13 ستمبر 2022ء کا سورج کوئی اچھی خبر لے کر طلوع نہیں ہوا۔ صبح حسب معمول جب اپنی جامعہ دارالسلام پہنچا تو فون کی گھنٹی بج اٹھی۔ فون کان سے لگایا تو اطلاع ملی کہ شیخ القرآن والحدیث استاذ محترم آغا محمد ہم میں نہیں رہے۔ یہ اطلاع قیامت سے کم نہ تھی۔ راقم جب جامعہ منصورہ میں حصولِ علم کے لیے داخل ہوا تو ابتدائی چند دنوں میں زیادہ واقفیت نہیں ہوئی تھی۔ ایک سفید ریش، باوقار شخص کو سرپر سفید رومال ڈالے، دھیمی دھیمی چال سے سب سے پہلے مسجد کی طرف آتے دیکھا کرتا تھا۔ نامعلوم اس شخص کے چہرے میں کیا کشش تھی کہ دیر تک عالمِ حیرت میں اس کو دیکھتا رہتا تھا۔ جب ایک دن ایک بڑے درجے کے طالب علم ساتھی نے پوچھا کہ اس شخص کو تم کیوں دیکھتے رہتے ہو؟ تو میں نے جھٹ سے پوچھ لیا یہ شخص ہے کون؟ مجھے بہت اچھا لگتا ہے۔ اس ساتھی نے بتایا کہ یہ ہماری جامعہ منصورہ کے شیخ الحدیث محترم آغا محمد صاحب ہیں، جو آغا صاحب کے نام سے مشہور ہیں۔ اس کے بعد شب و روز منصورہ میں گزرنے لگے تو یہ تعلق استاذ و شاگرد تک جاپہنچا۔
راقم جب بھی صبح کی نماز کے لیے مسجد آتا تو تین اشخاص ہمیشہ پہلے سے مسجد میں موجود ہوتے تھے:
(1) محترم آغا محمد صاحب، (2) صدر مدرس منصورہ محترم نور محمد سولنگی صاحب، (3) محترم محمد احسن بھٹو صاحب موجودہ مہتمم جامعہ منصورہ۔
شیخ آغا محمد صاحب نہایت تقویٰ و للہیت والے شخص تھے، عشا کی نماز کے بعد دیر تک عبادت میں مصروف رہتے تھے اور نماز سے فارغ ہوکر دیر تک دعائیں کرتے رہتے تھے۔
حضرت شیخ آغا محمد صاحب بلوچستان کے ضلع نوشکی میں 1936ء میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والدِ محترم کا نام محمد یار تھا۔ آپ تین بھائی تھے: نوروز خان، آغا محمد، اور حافظ عبدالخالق۔ آپ نے ابتدائی تعلیم اپنے علاقے میں حاصل کی، اس کے بعد سنت سلف صالحین پر عمل کرتے ہوئے علم حدیث کے لیے سفر کیا۔ تعلیم کے حصول کے لیے سفر کرتے ہوئے آپؒ جامعہ بنوریہ کراچی آئے اور حضرت مولانا محمد یوسف بنوریؒ سے شرفِ تلمذ لیا۔ آپؒ علم دینیہ میں یکتائے روزگار تھے۔
اسی دوران جامعہ منصورہ کے شاہ ولی اللہ کالج کو ایک صدر مدرس کی ضرورت پیش آئی۔ پروفیسر سلیم صاحب نے کراچی کا رخ کیا اور حضرت محمد یوسف بنوریؒ سے درخواست کی کہ ہمیں ایک ایسا مدرس چاہیے جو کالج بھی پڑھا سکے اور ساتھ میں طلبہ کو دینی علوم میں بھی پڑھا سکے۔ پروفیسر سلیم صاحب کی یہ مخلصانہ کوشش کامیاب ہوگئی اور محترم محمد یوسف بنوریؒ نے فرمایا کہ تم کو ایک ایسا نوجوان استاذ دیتا ہوں جس پر دنیا رشک کرے گی۔ اس کے بعد شیخ الحدیث آغا محمد صاحب نے کراچی جیسی پُررونق جگہ چھوڑ کر اپنے استاذ کے حکم پر منصورہ جیسی دور افتادہ جگہ کو اپنا مسکن بنایا اور پوری زندگی پھر پلٹ کر دنیا کی طرف نہیں دیکھا۔ حضرت آغا محمد صاحب مجموعہ حسنِ اخلاق تھے۔
عبادت میں شغف: پہلے ذکر ہوچکا ہے کہ آپؒ سب سے پہلے مسجد پہنچتے اور سب سے آخر میں نکلتے۔ یہ عادت ہر حال میں برقرار رہی، چاہے سردی ہو یا گرمی یا برسات۔ دیہات کی گلیاں بارش کے پانی سے بھر جاتی تھیں اور پانی جمع ہوجاتا تھا، مگر شیخ آغا محمدؒ کے نماز کے معمولات میں کوئی فرق نہ آتا۔ جب تک راقم منصورہ میں رہا تب تک شیخ صاحب ظہر و عصر کی نمازوں کی امامت خود کرتے تھے، اور جب کبھی قاری صاحب فجر میں نہیں آسکتے تھے تو شیخ صاحب فجر کی نماز بھی پڑھاتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے کیا علم عطا کیا تھا، شیخ صاحب اسی سوزو گداز سے جب فجر کی نماز میں سورۃ البقرہ کی تلاوت فرماتے تو آدمی پر ایک سحر سا طاری ہوجاتا۔
تدریس سے شغف: استاذ محترم تدریس نہایت شوق سے کرتے تھے اور طلبہ کے لیے ہر وقت دستیاب رہتے تھے۔ آپ اتنے منکسرالمزاج تھے کہ اگر آپؒ سے کوئی ابتدائی سال کا بچہ بھی سبق لینا چاہتا تو اتنی ہی توجہ سے سمجھاتے جس توجہ سے وہ تفسیر بیضاوی یا بخاری سمجھاتے تھے۔ 1995ء کے اواخر کی بات ہے رابطۃ المدارس الاسلامیہ کے امتحان سر پر تھے اور ہم ثانویہ عامہ کے لیے تیاری کررہے تھے، اور ہمیں مرقاۃ جو منطق کی کتاب ہے، پڑھانے کے لیے استاذ نہیں مل رہا تھا، تمام اساتذہ مصروف تھے۔ بالآخر مہتمم جامعہ محترم نور محمد سولنگی صاحب نے فرمایا: بھئی آپ لوگوں کے لیے شیخ آغا محمد صاحب سے بات ہوئی ہے، وہ بعد نمازِ مغرب آپ کو پڑھائیں گے۔ حضرت استاذ محترم نے محض ایک مہینے کی قلیل مدت میں اتنا خوب صورت انداز اختیار کیا کہ قطعی محسوس نہیں ہوتا تھا کہ وہ بلند پائے کے محدث اور ہم ابتدائی درجے کے کم سن طلبہ ہیں۔ وہ سمجھانے کا دھیما پیارا سا انداز آج بھی جب یاد آتا ہے تو ایک سحر سا طاری ہوجاتا ہے۔
تدریس بخاری شریف سے شغف: شیخ آغا محمدؒ کی اصل حیثیت ایک جلیل القدر محدث کی تھی، آپ صوبہ سندھ کے اس وقت سب سے عالی سند رکھنے والے محدث تھے۔ صبح تعلیمی اوقات میں تدریس کرنے کے بعد جب فارغ ہوجاتے تو رات میں عشا کی نماز کے بعد دورہ حدیث کے طلبہ کو لے کر بیٹھ جاتے اور رات دیر تک درس دیتے، اور ادبِ حدیث کا پاس اتنا تھا کہ جب مسند درس پر جلوہ افروز ہوتے، پھر کبھی بھی ہیئت تبدیل نہیں کرتے تھے۔ اس ادب میں استاذ محترم حضرت امام مالکؒ سے مشابہت رکھتے تھے۔ جب سال آدھا گزر جاتا تو تدریسی اوقات میں اضافہ کرلیتے تھے۔ صبح فجر کی نماز کے بعد درس شروع ہوتا جو صبح آٹھ بجے تک جاری رہتا۔ پھر تعلیمی اوقات میں مدرسہ شریف لے جاتے اور اذانِ ظہر تک تدریسی سلسلہ مسلسل جاری رہتا۔ پھر رات بعد نماز عشا منصورہ کی بستی مسجد میں رات ایک بجے تک پڑھاتے تھے۔ اتنے طویل تدریسی اوقات میں مجال ہے جو کبھی تھکن یا اکتاہٹ کا اظہار کیا ہو۔
فتویٰ دینے میں احتیاط: جامعہ منصورہ جس جگہ واقع ہے وہاں فرقہ وارانہ فتوے عام سی بات ہے، مگر حضرت آغا محمدؒ نے ہمیشہ فتویٰ کا حق ادا کیا، کبھی بھی جذباتی یا شخصی فتویٰ نہیں دیا، یہی وجہ تھی کہ حکومتی عہدیداران جب بھی کوئی فیصلہ کرتے تو تمام آرا اور فتوے ایک طرف رکھ کر حضرت شیخ آغا محمدؒ سے مسئلہ پوچھتے اور پھر فیصلہ کرتے۔ قانون نافذ کرنے والے ادارے کے افسران ہمیشہ کہتے تھے کہ حیدرآباد ڈویژن میں کوئی مسئلہ حق کے مطابق بتانے والا ہے تو وہ صرف منصورہ کے مولوی آغا محمدؒ ہیں۔
راقم کو حضرت کے ساتھ سفر کرنے کا موقع بھی میسر آیا، جب جامعۃ الاخوان کی سالانہ تقریب ختم بخاری کے لیے حضرت آغا محمدؒ کا نام اتفاقِ رائے سے منظور ہوا، پھر یہ طے ہوا کہ شیخ صاحب کو منصورہ سندھ سے لینے کون جائے گا؟ یہ قرعہ فال ناچیز کے نام نکلا۔ یوں حضرت کے ساتھ سفر کرنے کے موقع بھی میسر آئے۔ دورانِ سفر شیخ آغا محمدؒ نہایت ہلکی پھلکی گفتگو فرماتے، اس میں کبھی کبھی کوئی بات مزاح کی بھی ہوتی۔
اسی طرح جب ہم شیخ صاحب کو لے کر منصورہ سندھ سے کراچی آرہے تھے تو موسم گرم تھا اور آم کی فصل اتر رہی تھی، اور ہالا کے بعد سے حیدرآباد تک لوگ آم کی پیٹیاں روڈ پر رکھ دیتے تھے اور اپنا کاروبار کرتے تھے۔ اس سفر میں کافی علمی گفتگو ہوئی تھی۔ اچانک شیخ صاحبؒ نے اشارہ فرما کر کہا: حیدر بھائی دیکھونا، کتنے خوب صورت آم ہیں۔ جواباً عرض کیا: جی حضرت، سندھ کے آم تو پوری دنیا میں مشہور ہیں۔ اس کے بعد شیخ صاحبؒ نے آم کے متعلق مختلف پہلوئوں سے گفتگو کی۔ موقع اچھا تھا، راقم نے عرض کیا: شیخ صاحب یہ اللہ تعالیٰ کی عجیب حکمت ہے، گرم پھل گرم موسم میں اور سرد پھل سردی کے موسم میں۔ جیسے آم گرم ہے، کھجور گرم ہے مگر یہ گرمی میں ہی آتے ہیں، اور کینو، مالٹا، موسمی ٹھنڈے اور سردی میں آتے ہیں؟
حضرت شیخ صاحبؒ نے اس پر بڑی علمی گفتگو کی، آخر عقلی طور پر سمجھاتے ہوئے کہنے لگے: حیدر بھائی انسان بڑا جلد باز واقع ہوا ہے، وہ سردی کے موسم میں بے تحاشا گرم اشیا کھا لیتا ہے، اسی طرح گرمی کے موسم میں ٹھنڈی اشیا استعمال کرتا ہے، اس سے اُس کا سارا نظام ہاضمہ بری طرح متاثر ہوتا ہے، اس لیے اللہ تعالیٰ نے گرم اور ٹھنڈے کو متوازن رکھنے کے لیے یہ اعلیٰ انتظام فرمایا ہے۔ شیخ محترم ؒ کی اس حکیمانہ گفتگو سے راقم کے لیے علم و تحقیق کے نئے دریچے کھلے جو اب تک بند تھے۔
سفر زندگی کا ایک ایسا حصہ ہے جس میں انسان کا باطن بھی ظاہر ہوجاتا ہے اور بڑے بڑے پردے اتر جاتے ہیں اور لوگ بے نقاب ہوجاتے ہیں۔ مگر شیخ آغا محمدؒ جو ظاہر تھے باطن بھی ایسا ہی اجلا اور صاف ستھرا تھا۔ منصورہ سندھ سے کراچی آتے ہوئے ہمیں تقریباً چار گھنٹے لگ جاتے تھے، مگر اس طویل سفر میں کبھی شیخؒ نے زبان سے لایعنی بات نہیں نکالی، کسی دوسرے انسان کا قطعی کوئی تذکرہ نہیں فرمایا۔ آزاد گفتگو فرماتے، قدرت کے عجائب دکھاتے، پہاڑوں اور ندی نالوں پر گفتگو فرماتے یا پھر ذکر میں مصروف ہوجاتے۔ ان ہی اسفار میں ایک سفر کا واقعہ ہے کہ خواجہ اجمیر نواز ہوٹل پر رکے تاکہ کچھ دیر آرام کیا جائے۔ یہاں استاذ محترمؒ حوائج ضروریہ سے فارغ ہوئے، وضو فرمایا۔ پھر جب دوبارہ سفر کا آغاز ہوا اور گاڑی چل پڑی تو شیخ صاحبؒ نے راقم کی طرف رخ فرمایا اور پیار بھرے لہجے میں کہا: کیوں حیدر کوئی سوال پوچھنا چاہ رہے ہو؟ میں شیخ محترمؒ کی چہرہ شناسی پر حیران ہورہا تھا کہ فرمایا: ہاں کہو کیا بات ہے؟ دل میں نہ رکھو۔ جواباً عرض کیا: استاذ محترم سوال ذرا مشکل ہے، زبان پر لانے سے ڈر لگ رہا ہے۔ فرمایا: کہو۔ عرض کیا: آپ ہمارے استاذ اور مربی ہیں اور حضرت مولانا محمد یوسف بنوریؒ آپ کے استاذ ہیں۔ فرمایا: جی، آگے بولو۔ میں نے عرض کیا: حضرت انہوں نے سیدابوالاعلیٰ مودودیؒ پر ’’الاستاذ المودودی‘‘ کہہ کر کچھ زیادہ تنقید نہیں کی ہے؟
فرمانے لگے: حیدر بھائی کچھ قضیے اِس دنیا میں حل نہیں ہونے والے، ان کا فیصلہ کہیں اور ہوگا۔ ہاں میرے اور آپ کے لیے حکم یہ ہے کہ ہم اپنی زبان سے وہ بات نکالیں جو ہمیں فائدہ دے، یا کم از کم نقصان نہ دے۔ اس سے شیخ آغا محمدؒ کی تقویٰ، للہیت اور کسی کے بارے میں گفتگو کرنے سے پرہیز کی عادت واضح ہوئی۔
رات کے 7:30 بج رہے ہیں، اچانک اعلان ہوا شیخ صاحب کا جنازہ آرہا ہے۔ جلدی سے اٹھا۔ کاندھے دینے کی سعادت نصیب ہوئی۔ منصورہ کی مسجد کے سامنے سبزہ زار پر نمازِ جنازہ کا انتظام تھا۔ پہلے زیارت کروائی گئی۔ بے حد اعلیٰ انتظام کیاگیا تھا۔ یہ سارا کردار حضرت مولانا استاذ محترم محمد احسن بھٹو صاحب کا ہے جو انہوں نے بخوشی ادا کیا۔ زیارت کے بعد محترم محمد حسین محنتی صاحب نے گفتگو کی، پھر حافظ محمد اسماعیل صاحب نے چند اعلانات کیے۔ آخر میں خصوصی گفتگو حضرت مولانا شیخ القرآن والحدیث عبدالمالک صاحب نے کی۔ اس کے بعد انہوں نے ہی جنازہ کی نماز پڑھائی۔ اس سے پہلے محترم ڈاکٹر معراج الہدیٰ صدیقی نائب امیر جماعت اسلامی پاکستان نے گفتگو کی۔
نماز جنازہ کے بعد آپؒ کو منصورہ سندھ کے تدریسی حصے کے سامنے چمن میں آخری آرام گاہ تک لے جایا گیا۔
راقم نے بھی کدال سے مٹی اپنے استاذ محترم کی آرام گاہ میں ڈالنے کی سعادت حاصل کی۔ جب مٹی ڈالی جارہی تھی راقم برابر دورہ الحدیث کی کلاس کو دیکھ رہا تھا جہاں پُرنور چہرہ گزشتہ ساٹھ سالوں سے قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پڑھا رہا تھا اور آج اس کے سامنے محوِآرام ہونے جارہا تھا۔ دل بوجھل تھا، آنکھوں میں آنسو تھے، مگر رب کی رضا پر راضی رہنا ہی ایک مومن کی صفت ہے۔ بلاشبہ استاذ محترمؒ کے ہزاروں طلبہ ان کے لیے تاقیامت صدقۂ جاریہ بنے رہیں گے۔ آخر میں ڈاکٹر معراج الہدیٰ صدیقی صاحب نے قبر پر سورہ البقرہ کی ابتدائی اور آخری آیات کی تلاوت کی اور نہایت گریہ وزاری سے دعا کی۔ حاضرین سب آمین کہہ رہے تھے۔
لوگ زمین سے ہیرے نکالتے ہیں اور آج ہم زمین میں اپنے ہیرے کو دفن کررہے تھے۔ اللہ آپ کی قبر کو تاقیامت روشن فرمائے۔
آپ کثیرالعیال تھے، اپنے پیچھے ایک زوجہ، پانچ بیٹے جو الحمدللہ سارے عالم اور تین حافظ بھی ہیں، اور پانچ بیٹیاں چھوڑ گئے ہیں۔ نسبی تعلق کے علاوہ ہزاروں روحانی اولاد جنہیں بالکل نسبی اولاد کی طرح رکھتے تھے، چھوڑ گئے ہیں۔
ڈاکٹر معراج الہدیٰ صدیقی صاحب نے بجاطور پر کہا تھا کہ آج منصورہ یتیم ہوگیا ہے اور پورا صوبہ سندھ یتیم ہوگیا ہے۔ جنازے میں مقامی افراد کی بڑی تعداد دیکھ کر اور طلبہ کے آنسو بہانے پر ایسا محسوس ہورہا تھا کہ واقعی منصورہ کی بستی کے ساتھ ساتھ قرب وجوار کی بستیاں بھی یتیم ہوگئی ہیں۔ جب ایک عالمِ ربانی رخصت ہوتا ہے تو وہ اپنے ساتھ علم کے علاوہ بہت ساری رحمتیں بھی لے کر اس دنیا سے رخصت ہوتا ہے۔ وہ تمام رحمتیں، برکتیں جو شیخ آغا محمدؒ صاحب کی وجہ سے منصورہ اور قرب و جوار پر اترتی تھیں وہ بھی رخصت ہوگئیں، اس کے ساتھ علم بھی رخصت ہوگیا۔
حضرت ابن بختیارؒ سے کسی نے سوال کیا: علم کیسے چلا جائے گا؟ آپؒ ان کو حضرت زید بن ثابتؓ کی قبر پر لے گئے اور قبر کی طرف اشارہ کرکے فرمایا: اس طرح علم چلا جائے گا۔ شیخ آغا محمدؒ کے جانے سے علمی دنیا عام طور پر اور تحریک اسلامی خاص طور پر بہت زیادہ محروم ہوگئی۔ اللہ بہترین نعم البدل دینے والا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس کارِ خیر اور علمی سیرابی کے عمل کو تاقیامت جاری رکھے گا۔