عشق و سرفروشی اور صدق و اخلاص کا استعارہ سیدنا بلالؓ

سیدنا بلالؓ کی سیرت ایمان کے راستے میں جبر و تشدد سہنے اور استقامت پر قائم رہنے کی چند نادر مثالوں میں سے ایک ہے۔ آپؓ حبشی النسل تھے۔ پیدا ہوئے تو غلام تھے۔ پروان اسی ذلت کے ساتھ چڑھے، لیکن وادی ِمکہ میں جب توحید کا غلغلہ اٹھا، تو آپؓ سب سے پہلے کلمہ حق کو قبول کرنے والوں میں سے تھے۔ کفارِ مکہ کے نزدیک قبولِ اسلام سے بڑا کوئی جرم نہ تھا۔ وہ خاندانی وجاہت رکھنے والے صحابہ کا تو کچھ نہیں بگاڑ سکتے تھے، اس لیے وادی کے ان بے سرو سامان، خاندانی حیثیت و دنیوی شان و شوکت سے محروم، کمزور اور بے یارومددگار مسلمانوں پر ظلم کے پہاڑ ڈھانے لگے۔ حضرت بلالؓ بھی اسی کمزور طبقے سے تعلق رکھتے تھے۔ اوپر سے وہ غلام بھی تھے، اس لیے کفار کی اذیتوں کا سب سے زیادہ نشانہ بنے۔ راہِ حق میں انہوں نے جو مصائب جھیلے اور قربانیاں پیش کیں، انبیائے کرام کے سوا کوئی دوسرا اس کی نظیر پیش نہیں کرسکتا۔ صحرائے مکہ کی آگ برسانے والی دوپہر میں انگارہ نما ریت پر آہنی لباس پہنا کر انہیں گھسیٹا جاتا تھا، سینے پر چٹان رکھ دی جاتی تھی، تاکہ وہ جنبش نہ کرسکیں۔ جب وہ خود تھک جاتے تھے تو گلے میں پھندا ڈال کر اوباشوں اور بچوں کے حوالے کردیتے تھے، اور حضرت بلالؓ تھے کہ ’’احد احد‘‘ کا نعرہ لگاتے رہے۔

کفار نے ان پر جو ظلم کیا ہے، اس کی تفصیل بیان کرنے سے دل دہل جاتے ہیں، رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ حضرت عمار بن یاسرؓ، جو خود ان مظالم میں ان کے شریک تھے، بیان کرتے ہیں کہ کفار کے مظالم سے ہر کوئی کچھ نہ کچھ ڈھیلا پڑگیا تھا سوائے حضرت بلالؓ کے (الاصابۃ، ترجمتہ بلال)۔ حضرت بلالؓ عزیمت و استقامت کا پہاڑ بن کر ان مظالم کا مقابلہ کرتے رہے۔ اقبال کہتے ہیں ؎

کسی کے شوق میں تُو نے مزے ستم کے لیے
جفا جو عشق میں ہوتی ہے، وہ جفا ہی نہیں
ستم نہ ہو تو محبت میں کچھ مزہ ہی نہیں

غلامی سے آزادی:نبی علیہ السلام بلالؓ کی بہت قدر کرتے تھے۔ دنیوی مال و متاع سے بے رغبتی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا شعار تھا۔ ایک روز اظہارِ تمنا کے طور پر فرمایا: کاش! ہمارے پاس کچھ مال ہوتا تو ہم بلال کو خریدلیتے (سیر اعلام النبلا352/1) ۔ عاشقِ رسول حضرت صدیق اکبرؓ کو جب اس تمنائے نبوی کا علم ہوا، تو حضرت بلالؓ کا سودا کرنے امیہ ابن خلف کے پاس پہنچ گئے۔ امیہ نے قیمت دس اوقیہ لگائی، تو صدیق اکبرؓ نے اس بھاری قیمت کو قبول کرلیا اور حضرت بلالؓ کو آزاد کردیا۔ واضح رہے کہ پانچ اوقیہ چاندی نصاب ِزکوٰۃ ہے۔ جب عقد مکمل ہوگیا، تو امیہ کہنے لگا: اگر آپ ایک اوقیہ میں بھی خریدتے، تو میں اس کے بدلے بیچ دیتا۔ اس پر حضرت صدیق اکبرؓ بول اٹھے: اگر تُو سو اوقیہ دام لگاتا تو ابوبکر اس کو بھی قبول کرلیتا (صورمن حیاۃ الصحابۃ ص:316)۔ جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اس عقد کے بارے میں معلوم ہوا، تو حضرت ابوبکرؓ سے فرمانے لگے ’’بلال میں میرا حصہ بھی لگالو‘‘۔ تو صدیق اکبرؓ کہنے لگے: یا رسول اللہ، میں نے بلال کو آزاد کردیا (سیراعلام النبلاء: 353/1)۔ جب کفار کو معلوم ہوا کہ ابوبکرؓ نے اتنی گراں قیمت سے بلال کو آزاد کیا، تو کہنے لگے: ضرور ابوبکر پر بلال کا کوئی احسان ہوگا، اسی لیے تو انہوں نے اتنی بھاری قیمت دے کر اس کو آزاد کیا۔ خدا تعالیٰ اس الزام کی تردید میں قرآن نازل فرمادیتا ہے۔ (تفسیر قرطبی، سورۃ اللیل)

{وَمَا لأحَدٍ عِنْدَهُ مِنْ نِعْمَةٍ تُجْزَى – إِلا ابْتِغَاءَ وَجْهِ رَبِّهِ الأعْلَى – وَلَسَوْفَ يَرْضَ (اللیل: 19۔21) یعنی ابوبکر پر کسی کا کوئی احسان نہیں ہے۔ انہوں نے تو صرف اللہ کی رضاجوئی کے لیے ایسا (بلال کو آزاد) کیا اور عنقریب اللہ تعالیٰ بھی ابوبکر سے راضی ہوجائیں گے۔ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے: ابوبکر سیدُنا وأعتق سیدَنا بلالاً یعنی ہمارے سردار ابوبکر نے ہمارے سردار بلال کو آزاد کیا (صحیح البخاری، الرقم:3754)۔ یہ ہے حضرت بلالؓ کی غلامی اور اس سے آزاد ہونے کی داستان کہ خود اللہ رب العزت، جناب نبی کریمؐ،حضرت صدیق اکبرؓ اور حضرت فاروق اعظمؓ، ہر کوئی اس میں دلچسپی لے رہا ہے۔ اقبال نے بالکل بجا فرمایا ؎

تری غلامی کے صدقے ہزار آزادی
آزادی کے بعد: آزاد ہونے کے بعد حضرت بلالؓ دربارِ رسالت مآبؐ میں ہمہ وقت حاضر باش رہنے لگے۔ بقول اقبال ؎
وہ آستاں نہ چھٹاتے تھے ایک دم کے لیے
تمام غزوات میں شریک رہے۔ دیگر امور کے ساتھ ساتھ معاشِ نبوی بھی حضرت بلالؓ کے ذمے تھی (سن ابی دائود، الرقم: 3055)۔ آج کی زبان میں حضرت بلالؓ دربار ِرسالت کے سیکریٹری تھے۔ اذان دینے کے بعد درِ دولت کی چوکھٹ پہ آکر بیٹھ جاتے تھے اور حضورؐ کو نماز کے لیے پکارتے رہتے تھے۔ کبھی خود نبی علیہ السلام فرماتے: بلال ارحنا بالصلاۃ۔ (مسند احمد: 23088) یعنی: بلال، ہمیں نماز کے ذریعے سکون پہنچائو۔ سید الکونینؐ سکون و اطمینان حاصل کرنے کے لیے بلال کو آواز دیتے تھے۔ اس سے بڑا اور کیا شرف ہوسکتا ہے!!

حضورؐ کے بعد آپؐ کے خلیفہ اول حضرت ابوبکر صدیقؓ بھی حضرت بلالؓ سے انسیت حاصل کرتے تھے۔ وفاتِ نبوی کے بعد حضرت بلالؓ کا ارادہ جہاد پر نکل جانے کا ہوا۔ اپنے آقا سے اجازت حاصل کرنے آئے، تو صدیق اکبرؓ کہنے لگے: بلال، میں تمہیں خدا کا واسطہ اور اپنی حرمت و حق کا واسطہ دیتا ہوں، میں بہت معمر اور کمزور ہوگیا ہوں اور وقتِ آخر بھی قریب ہے، اس لیے مجھے چھوڑ کر مت جائو۔ اس پر حضرت بلالؓ نے اپنا ارادہ بدل لیا (طبقات ابن سعد 217/3)۔ اس کے بعد حضرت عمر فاروقؓ بھی حضرت بلال ؓکو اپنے پاس رکھنا چاہتے تھے۔ آپؓ نے حضرت بلالؓ سے اذان دینے کی درخواست کی، تو انہوں نے معذرت کرلی۔ کہنے لگے: میں نے نبی علیہ السلام کے زمانے میں اذان دی، پھر ابوبکرؓ کے زمانے میں اذان دی، کیونکہ وہ میرے آقا اور محسن تھے۔ میں اب جہاد پر نکل جانا چاہتا ہوں، کیونکہ میں نے نبی کریمؐ کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا: اے بلال، تمہارے اس (اذان دینے کے) عمل سے افضل کوئی عمل نہیں ہے، سوائے جہاد فی سبیل اللہ کے۔ تو حضرت عمرؓ نے ان کی معذرت قبول کرلی۔ چنانچہ وہ شام کی جانب جہاد کے لیے نکل گئے۔ (مسند عبد بن حمید، الرقم: 361)

اذانِ بلال: جب اسلام میں اذان شروع ہوئی تو مسجد نبوی میں اس نعرۂ توحید کو سب سے پہلے حضرت بلالؓ نے بلندکیا۔ پھر جب فتحِ مکہ ہوئی تو خانہ خدا کی چھت پر چڑھ کر سب سے پہلے اس نعرۂ تکبیر کو بلند کرنے کے لیے بلالؓ ہی کو حکم دیا گیا۔ اس کے بعد جب عہدِ فاروقی میںبیت المقدس فتح ہوا تو وہاں بھی پہلی مرتبہ زمزمہ توحید کو ببانگِ دہل سنانے کے لیے خلیفہ رسولؐ، فاروق اعظمؓ نے سیدنا بلالؓ ہی کو منتخب فرمایا۔ کون اس شرافت میں سیدنا بلالؓ سے ہمسری کرسکتا ہے کہ صفحہ ہستی کی تینوں عظیم عبادت گاہوں میں سب سے پہلے نعرۂ تکبیر کو بلند کرنے والے حضرت بلالؓ تھے!! حضرت بلالؓ کی ایک اذان عہدِ رسالت کی یاد تازہ کرنے کے لیے کافی تھی۔ علامہ اقبال اسی روح پرور اذان کے بارے میں کہتے ہیں ؎

رہ گئی رسمِ اذاں، روحِ بلالی نہ رہی
فلسفہ رہ گیا، تلقینِ غزالی نہ رہی

مقامِ بلال: اللہ رب العزت کے یہاں بھی حضرت بلالؓ اور ان کے رفقا کا مقام بہت بلندہے۔ صحیح مسلم (رقم: 2413) میں ہے کہ ایک مرتبہ سیدنا بلالؓ اور ان کے رفقا مجلسِ نبوی میں موجود تھے۔ سردارانِ مکہ آکر کہنے لگے: اے محمدؐ، آپ ذرا ان کم رتبہ لوگوں کو مجلس سے دور ہٹایئے اور ہمارے لیے خاص نظیر قائم کیجیے۔ رحمت للعالمینؐ سب کی بھلائی چاہتے تھے، تو آپؐ کے دل میں ان کی درخواست قبول کرنے کا خیال ہی گزرا تھا کہ مکمل جلالِ الٰہی کے ساتھ قرآن آگیا۔ {وَلَا تَطْرُدِ الَّذِينَ يَدْعُونَ رَبَّهُم بِالْغَدَاةِ وَالْعَشِيِّ يُرِيدُونَ وَجْهَهُ } (الانعام:52) یعنی: آپ ان کو دور مت ہٹایئے جو صبح و شام اپنے پروردگار کو پکارتے ہیں اس کی رضا حاصل کرنے کے لیے۔

ایک صبح نبی علیہ السلام حضرت بلالؓ سے فرمانے لگے: کیا بات ہے بلال، تم میرے آگے آگے کیسے جنت میں چلتے ہو؟ میں جب بھی جنت میں داخل ہوتا ہوں تو مجھے آگے آگے تمہاری آہٹ سنائی دیتی ہے۔ تو حضرت بلالؓ کہنے لگے: میں جب بھی اذان دیتا ہوں تو دو رکعت پڑھ لیتا ہوں۔ اور جب بھی میرا وضو ٹوٹ جاتا ہے تو میں وضو کرلیتا ہوں اور ساتھ ہی دو رکعت پڑھ لیتا ہوں۔ تو نبی علیہ السلام فرمانے لگے: ’’یہی اس کی وجہ ہے‘‘ (سنن الترمذی، الرقم: 2689)۔ جب صدیق اکبرؓ نے اس پروانہ جنت کو سنا تو اظہارِ آرزو کے طور پر کہنے لگے: لیت أم بلال والدتنی وأبو بلال، وانا مثل بلالٍ۔ (الطبرانی فی الکبیر 137/22) یعنی: کاش! میں بلال کے ماں باپ کے گھر پیدا ہوتا اور میں بلال جیسا ہوتا۔ حضرت عمرؓ جب حضرت ابوبکرؓ کے فضائل بیان کرتے، تو ساتھ میں حضرت بلالؓ کے فضائل بھی بیان کرتے۔ یہاں تک کہ کچھ لوگ حضرت بلالؓ کو صدیق اکبرؓ پر فضیلت دینے لگے، اس کی خبر حضرت بلالؓ کو ہوگئی، تو وہ کہنے لگے: تم مجھے کیسے حضرت ابوبکرؓ پر فضیلت دے سکتے ہو، جبکہ میں تو بس ان کی ایک نیکی ہوں۔ (تاریخ دمشق 475/10)

ایک شاعر حضرت عبداللہ بن عمرؓ کے صاحبزادے بلال کی مدح کرتے ہوئے کہہ گیا ؎
بلال عبداللّٰہ خیر بلال
یعنی سب سے بہترین بلال تو بلال بن عبداللہ ہیں۔ اس پر حضرت عبداللہ بن عمرؓ فرمانے لگے: تُو دروغ بیانی کررہا ہے۔ صحیح بات یہ ہے ؎
بلال رسول اللّٰہ خیر بلال
یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بلال سب سے بہترین بلال ہیں۔ (سیر اعلام النبلاء 349/1)
علامہ شبلی نعمانی نے حضرت بلالؓ کو ’’مساواتِ اسلامی‘‘ کا بہترین نمونہ قرار دیا۔ علامہ موصوف کی نظم ’’مساواتِ اسلامی‘‘ کا موضوعِ سخن حضرت بلالؓ کی زندگی ہے۔ علامہ اقبال کے یہاں تو حضرت بلالؓ اور ان کی نسبت کا تصور نہایت بلند ہے۔ علامہ کے یہاں ’’بلال‘‘ اور ’’بلالی‘‘ عشق و سرفروشی اور صدق و اخلاص کے لیے ایک استعارہ تھا۔

گرمی مہر کی پروردہ ہلالی دنیا
عشق والے جسے کہتے ہیں بلالی دنیا
……٭٭٭……
آگ تکبیر کی سینوں میں دبی رکھتے ہیں
زندگی مثلِ بلالِ حبشی رکھتے ہیں

حضرت بلالؓ وہ واحد شخصیت ہیں جن کے بارے میں علامہ نے دو دو نظمیں کہی ہیں۔ حضرت بلالؓ کے زیر نگیں حکومت کا کوئی علاقہ تھا، نہ ان کے زیر درس کوئی حلقہ تھا (اس لیے ان سے روایت کرنے والے اکثر کی ملاقات ان سے نہیں ہوئی ہے۔ حضرت بلالؓ سے مروی احادیث کی تعداد، حذفِ اسانید کے بعد چھتیس ہے۔ نہ ان کو کوئی خاندانی وجاہت اور دنیوی حیثیت حاصل تھی، پھر بھی انہیں یہ رفعت و سربلندی کیسے حاصل ہوئی؟ اس کا جواب صرف اور صرف ایک ہے یعنی رسول اللہ صلی علیہ وسلم کے ساتھ والہانہ تعلق پر بے پناہ عشق و محبت، جس نے حضرت بلالؓکو اس اعلیٰ و ارفع مقام تک پہنچادیا۔ اقبال کہتے ہیں ؎

اقبال! کس کے عشق کا یہ فیض عام ہے
رومی فنا ہوا، حبشی کو دوام ہے