(ستمبر 1926ء - ستمبر 2022ء)
علامہ یوسف القرضاوی دنیا بھر میں اپنی علمی و ثقافتی سرگرمیوں کے لیے معروف تھے۔ مغرب و مشرق ہر جانب ان کے چاہنے والے کثرت کے ساتھ پائے جاتے ہیں۔ علامہ یوسف قرضاوی محض علمی شخصیت ہی نہیں تھے بلکہ دردِ دل رکھنے والے اور محبت سے مالامال قائد تھے۔ آپ کی وفات کی خبر سن کر ایک سناٹا سا چھا گیا۔ بلاشبہ آپ کی عمر اور صحت کے پیش نظر یہ خبر کوئی اچنبھے کی بات نہیں تھی کہ وہ دنیا سے رخصت ہوگئے، مگر تعلقِ خاطر اور یادوں کا البم دل کو غمزدہ کر گیا۔ ان شاء اللہ خان کی ایک غزل کئی مرتبہ پڑھی تھی۔ اس کے اشعار بے ساختہ یاد آگئے۔ آخری مصرعے میں بیزار کی جگہ بغیر سوچے سمجھے ’’بے یار‘‘ زبان پر آگیا۔
کمر باندھے ہوئے چلنے کو یاں سب یار بیٹھے ہیں بہت آگے گئے، باقی جو ہیں تیار بیٹھے ہیں نہ چھیڑ اے نکہتِ بادِ بہاری راہ لگ اپنی تجھے اٹھکھیلیاں سوجھی ہیں، ہم ’’بے یار‘‘ بیٹھے ہیں
کئی ملاقاتیں اور نشستیں ذہن میں تازہ ہوگئیں۔ اس موقع پر بے ساختہ برادر عزیز عبدالغفار عزیزؒ بھی یاد آئے۔ اگرچہ قرضاوی صاحب کے ساتھ میری ملاقاتیں عبدالغفار صاحب سے بہت پہلے کی تھیں، مگر جو سرپرستی اور قربت عبدالغفار بھائی کو حاصل ہوئی وہ بے مثال ہے۔ اس عظیم استاد اور مربی کے بارے میں میرے بھی نہایت خوشگوار تجربات ہیں جن میں سے ایک کا ذکر یہاں کررہا ہوں۔ میں نے اپنے دور طالب علمی میں 1968ء میں لاہور میں عالم اسلام کی اس عظیم شخصیت سے ملاقات کا شرف حاصل کیا تھا۔ میں اس دور میں اسلامی جمعیت طلبہ لاہور کا ناظم تھا۔ پہلی ملاقات کے سات سال بعد 1975ء میں مکہ مکرمہ میں اچانک دوبارہ ملاقات ہوئی تو میں حیران رہ گیا کہ اتنے عظیم عالمی رہنما پہلی نظر میں دیکھتے ہی مجھے میرا نام لے کر مخاطب فرما رہے تھے۔ آپ جانتے ہیں کہ ایک عالمی شہرت کے حامل راہنما سے بے شمار لوگ ملتے رہتے ہیں۔ ان کو یاد رکھنا آسان نہیں ہوتا، جب کہ وہ خود تو اتنا مشہور و معروف ہوتا ہے کہ ہر شخص اس کو بآسانی پہچان سکتا ہے۔
ہوا یوں کہ حرم شریف کے قریب ایک ہوٹل میں مَیں بھی ٹھیرا ہوا تھا اور وہ بھی وہیں قیام فرما تھے۔ میں اوپر کی ایک منزل پر جانے کے لیے لفٹ میں داخل ہوا تو دیکھا کہ پہلے سے دو تین افراد لفٹ میں داخل ہوچکے تھے۔ انھی میں حضرت القرضاوی صاحب بھی تھے۔ مجھے دیکھتے ہی کہنے لگے: ’’کیف الحال یا شیخ الحافظ محمد ادریس؟ ‘‘ان کے اس انداز میں میرا نام لے کر خطاب کرنے سے مجھے انتہائی مسرت ہوئی اور میرے دل میں ان کا اکرام کئی گنا بڑھ گیا۔ ظاہر ہے میں تو انھیں دیکھتے ہی پہچان گیا تھا، کیونکہ وہ پوری دنیا میں مشہور و معروف تھے۔ میں نے آگے بڑھ کر ہاتھ ملایا اور پھر ان کے ہاتھ کو بوسا دیا۔ انھوں نے میرا ماتھا چوما۔
علامہ قرضاوی بہت صاحبِ فراست اور مردم شناس رہنما اور معلم تھے۔ وہ جہاں جوہر قابل دیکھتے، اس کی قدر کرتے اور اسے مزید نکھارنے میں لگ جاتے۔ ان کے تعلیمی اداروں میں تدریس کے دورانیے میں دنیا بھر کے بے شمار نوجوانوں نے ان سے استفادہ کیا۔ مرحوم کی ذاتی توجہ اور سرپرستی نے ان سب کو کندن بنا دیا۔ اس عظیم شخصیت نے عبدالغفار مرحوم کو المعہد الدینی (قطر) میں دیکھ کر فوراً پہچان لیا کہ یہ گوہرِ نایاب ہے۔ اسی دور میں انھوں نے اس نوجوان پر ذاتی توجہ دی اور اسے مزید نکھار دیا۔ عبدالغفار بھائی سے عالم اسلام کی تمام شخصیات پیار کرتی تھیں، قرضاوی صاحب تو ان کو اپنی اولاد کی طرح عزیز رکھتے تھے۔ عمر کے تفاوت کی وجہ سے اور استاذ ہونے کے ناتے عبدالغفارعزیز جناب القرضاوی کا ازحد احترام کرتے تھے، مگر حضرت بھی جواب میں پیار وشفقت کے ساتھ اپنے شاگرد کو بہت احترام کے القاب سے مخاطب کرتے تھے۔ میں نے کئی بار یہ منظر دیکھا۔
قرضاوی صاحب تعلیم کے دوران ہی بہت اچھے خطیب اور ادیب کے طور پر معروف ہوگئے تھے۔ آپ کے مضامین کئی مصری اخبارات و جرائد میں چھپتے تھے۔ اسی طرح آپ جس مسجد میں بھی خطاب کرتے، لوگ آپ کے خطاب کو بہت پسند کرتے اور چاہتے کہ آپ انھی کی مسجد میں خطابت کا فریضہ سنبھال لیں۔ تعلیم سے فارغ ہونے کے بعد آپ نے عملی زندگی میں قدم رکھا تو خطابت و تدریس ہی کے شعبے دل میں سمائے ہوئے تھے۔ چنانچہ انھی میں خدمات سرانجام دیں۔ اس دوران آپ کو معھد الائمۃ (انسٹی ٹیوٹ آف ٹریننگ برائے ائمہ) کا ڈائریکٹر مقرر کیا گیا۔ یہ ادارہ مصر کی وزارتِ اوقاف کے تحت قائم تھا۔ کچھ عرصے کے بعد آپ کا تقرر ازہر یونیورسٹی میں ثقافت ِاسلامیہ کے شعبے میں ہوگیا۔ اس شعبے میں اسلامی مطبوعات اور فتاویٰ کی ترتیب و تدوین اور طباعت کا کام ہوتا تھا۔ آپ 1961ء تک مصر کے مختلف علمی و تحقیقی اداروں میں اہم ذمہ داریاں ادا کرتے رہے۔
الشیخ یوسف القرضاوی سرزمینِ مصر کے مردم خیز خطے کے قابلِ فخر سپوت تھے۔ 9ستمبر 1926ء کے دن آپ کی پیدائش مصر کے مغربی صوبے کے ضلع المحلّۃ الکبریٰ کے گائوں صفت تراب میں ایک معمولی کاشت کار گھرانے میں ہوئی۔ اللہ اپنے فیصلوں کی حکمت و مصلحت خود ہی جانتا ہے۔ انسانی عقل کے پیمانوں سے اللہ کی حکمتوں کو نہیں ناپا جا سکتا۔ یوسف قرضاوی کی پیدائش سے قبل ان کے والد عبداللہ القرضاوی اللہ کو پیارے ہوچکے تھے۔ ایک سال کے نہیں ہوئے تھے کہ آپ کی والدہ محترمہ بھی وفات پا گئیں۔ آپ اپنے والدین کے اکلوتے بیٹے تھے۔ آپ کے دادا، نانا بھی سر پر نہیں تھے اور خاندان مالی وسائل کے لحاظ سے انتہائی عسرت میں تھا۔
اس مصری قصبے کے متعلق ایک واقعہ ابن حجر العسقلانی نے بیان کیا ہے۔ آپ نے لکھا ہے کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے آخری صحابہ میں سے ایک صحابی حضرت عبداللہ بن حارثؓ زبیدی جو مصر میں مقیم ہوگئے تھے اسی گائوں میں فوت ہوئے اور وہیں دفن ہوئے۔ قیاس کیا جاتا ہے کہ وہ مصر میں وفات پانے والے صحابہؓ میں سے آخری صحابی تھے۔ یوں اس گائوں کو اس صحابیِ رسولؐ کا مدفن ہونے کا شرف حاصل ہے۔ (الاصابہ فی تمیز الصحابۃ، ص 291)
یوسف قرضاویؒ کی پیدائش بھی اسی تاریخی گائوں میں ہوئی۔ آپ کی ولادت اور پرورش ایک دہقان و مزدور خاندان میں ہوئی۔ آپ کے چچائوں اور پھوپھیوں نے آپ کو محبت سے پالا پوسا۔ ارکانِ خاندان کا خیال تھا کہ یہ بچہ جو جسمانی لحاظ سے طاقتور و تنومند ہے، ابتدائی تعلیم کے بعد یا تو کاشت کاری میں لگ جائے یا بڑھئی (کارپینٹر) بن کر روزی کمائے۔ ایک تجویز یہ بھی تھی کہ گائوں میں کوئی چھوٹی موٹی دکان کھول لے۔ نوعمر یوسف قرضاوی یہ سب باتیں سنتے اور اپنے دل میں سوچتے کہ کیا میں انھی میدانوں میں کام کرنے کے لیے پیدا ہوا ہوں! ان کے عزائم بہت بلند تھے اور انھیں اللہ تعالیٰ پر پورا بھروسا تھا کہ وہ ان کی دستگیری فرمائے گا۔ خاندان کے بڑوں کی سوچ تو اوپر بیان ہوئی ہے، مگر اللہ رحمان و رحیم کی مشیت اور فیصلہ اس کے برعکس تھا۔ ظاہر ہے کہ عرش پر ہونے والے فیصلے ہی لاگو ہوتے ہیں۔ ’’تدبیر کند بندہ، تقدیر زند خندہ۔‘‘
مری مشاطگی کی کیا ضرورت حسنِ معنی کو کہ فطرت خود بخود کرتی ہے لالے کی حنا بندی
اس یتیم ہیرے کو اللہ نے غیر معمولی صلاحیتوں سے مالا مال کر رکھا تھا۔ آپ کے معصوم ذہن میں یہ تصور پختہ اور غیر مبہم تھا کہ جیسے بھی ہو تعلیم، بالخصوص دینی فیلڈ میں جاری رکھنی ہے۔ مقامی تعلیمی اداروں سے قرآن پاک مکمل حفظ کرلیا جب کہ عمر ابھی صرف نو سال تھی۔ اسی طرح ثانوی تعلیم میں کامیابی حاصل کی۔ اس کے ساتھ ہی عالمی شہرت کی حامل قدیم مصری یونیورسٹی جامعۃ الازہر میں خود کو داخلے کے لیے تیار کرلیا۔ وہاں فارم داخل کرائے اور داخلے کی اجازت مل گئی۔ وہیں ابتدائی اور ثانوی تعلیم مکمل کی۔ ہمیشہ اعلیٰ پوزیشن میں کامیاب ہوئے۔ اس عرصے میں اخوان المسلمون سے متاثر ہونے کی وجہ سے آپ کو جیل بھی جانا پڑا اور اس دورِ طالب علمی میں اس ابتلا کے باوجود ثانویہ کے امتحان میں آپ پورے ملک میں دوسرے نمبر پر آئے۔
ثانویہ کے بعد کالج میں آپ نے ’’کلیہ اصول الدین‘‘ جامعہ ازہر میں داخلہ لیا اور 1952ء- 1953ء میں عالیہ کے امتحان میں پہلی پوزیشن حاصل کی۔ آپ ذہین بھی تھے اور محنتی بھی۔ اپنی ذہانت اور محنت کو زندگی بھر مثبت کاموں میں استعمال کیا۔ جامعہ ازہر ہی میں آپ نے عالمیہ کا امتحان 1954ء میں پاس کیا اور اس میں بھی پہلی پوزیشن لی۔ اس دوران آپ کو تعلیمی اسکالرشپ بھی ملتا رہا۔ 1958ء میں آپ نے انسٹی ٹیوٹ آف ایجوکیشن سے زبان اور ادب میں ڈپلومہ حاصل کیا۔ 1960ء میں علوم القرآن والسنہ کے مضمون میں ماسٹر ڈگری حاصل کی۔ اسی کالج سے 1973ء میں آپ نے پی ایچ ڈی کی۔ پی ایچ ڈی میں بھی آپ کا ریکارڈ کوئی نہ توڑ سکا۔ آپ کے مقالے کا موضوع ’’زکوٰۃ اور اس کی برکات‘‘ تھا۔ اس میں آپ نے تفصیل کے ساتھ بیان کیا کہ کسی بھی مسلم معاشرے کے اندر معاشی مشکلات اور معاشرتی مسائل کا حل نظام زکوٰۃ و عُشر ہی سے ممکن ہے۔
(جاری ہے)