آج صبح حسبِ معمول جب میں بذریعہ رکشہ شہر کی سب سے اہم اور مرکزی سڑک سے جو بے حد خراب و خستہ حالت میں ہے، اپنے گھر سے 10 منٹ کا فاصلہ بے ہنگم ٹریفک اور ٹوٹی پھوٹی سڑک کی وجہ سے نصف گھنٹے میں طے کرکے کالج ڈیوٹی پر پہنچا تو لگتا تھا کہ گویا میرے انجر پنجر ڈھیلے پڑ چکے ہیں اور اس وجہ سے میرے جسم و جاں پر تھکاوٹ سی طاری رہتی تھی۔ یہی سڑک اگر صحیح اور درست حالت میں ہوتی تو میرا یہ برا حشر نہ ہوا ہوتا، لیکن کیا کیا جائے کہ سندھ بھر کے شہروں اور قصبات کے روڈ راستوں کی حالت اسی طرح سے بہت بری اور قابلِ رحم ہے، اور گزشتہ دنوں شدید بارشوں کی وجہ سے جو پانی گزرگاہوں پر کھڑا ہوا تھا اس نے ناقص میٹریل سے تعمیر کردہ روڈ، راستوں کو کچھ اس انداز میں تباہی سے دوچار کیا ہے کہ رہی سہی کسر بھی پوری ہوگئی اور تمام روڈ راستے لگ بھگ ناقابل استعمال ہوچکے ہیں۔ اکثر مقامات پر تاحال کئی کئی فٹ بدبودار پانی کھڑا ہوا ہے جو وبائی امراض کے پھیلائو اور مکھیوں، مچھروں کی افزائش کا سبب بن رہا ہے، تاہم اس ابتر صورت حال کا تدارک کرنے کے لیے کوئی بھی سرکاری محکمہ اپنا کردار ادا کرتا ہوا کہیں پر بھی دکھائی نہیں دیتا۔
کالج پہنچنے سے قبل راستے میں بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کا دفتر پڑتا ہے جس کے باہر مجھے آج بھی دور دراز سے آنے والی پریشان حال، غریب اور نادار ہر عمر کی عورتوں کا جم غفیر دکھائی دیا جو بغیر کسی نظم و ضبط کے وہاں پر ایک دوسرے پر گری پڑتی تھیں۔ ان کے یہاں آنے کا مقصد وفاقی حکومت کی جانب سے اعلان کردہ 25 ہزار روپے کی امدادی رقم کی مقامی دفتر میں موجود عملہ سے بذریعہ شناختی کارڈ تصدیق کرانی تھی کہ وہ اس رقم کی اہل قرار پاتی ہیں یا نہیں۔ میں وہاں کھڑی سیکڑوں پریشان حال خواتین کو دیکھ کر بے اختیار سوچنے پر مجبور ہوگیا کہ اگر ہماری وفاقی یا سندھ حکومت سنجیدہ ہوتیں تو یہی کام بآسانی خواتین کو بغیر کسی تکلیف، اذیت اور ذلت و خواری سے دوچار کیے بغیر بھی سرانجام دیا جاسکتا تھا۔ لیکن اتنی زحمت بھلا کون اور کس لیے گوارا کرے؟ ہمارے بے توفیق اور بے حس حکمران طبقے کو بھلا اس بات سے کیا غرض کہ انتہائی سخت گرمی میں یہ غریب خواتین کسی طرح سے گاڑیوں میں آمد و رفت کے اخراجات برداشت کرکے دور دراز کی مسافت طے کرکے شہروں میں موجود مراکز پر پہنچتی ہیں تو وہاں انہیں کوئی منہ لگانے تک کو تیار نہیں ہوتا۔ اکثر ان مراکز پر شدید رش، بدنظمی اور گھٹن کی وجہ سے کئی خواتین بے ہوش بھی ہوجاتی ہیں یا پھر کھڑے کھڑے کمزوری کی وجہ سے گر بھی جاتی ہیں۔ ہم جس جدید اور سائنسی عہد میں رہ رہے ہیں اگر باقاعدہ منصوبہ بندی سے کام کیا جائے تو حکومت مختلف ٹیمیں تشکیل دے کر ضرورت مند خواتین کو اعلان کردہ امدادی رقم ان کے گھروں کی دہلیز پر بھی بآسانی پہنچا سکتی ہے۔ اس طرح خواتین کی تذلیل ہوگی اور نہ ہی وہ سفر کی اذیت سے دوچار ہوں گی۔ مراکزپر موجود بدعنوان عملہ جس خاتون کے بھی 25 ہزار روپے نکلتے ہیں جبراً اس میں سے دو یا تین ہزار روپے کی کٹوتی کرلیتا ہے۔ سندھ بھر کے سارے مراکز سے یہ شکایات بذریعہ میڈیا مع ثبوت سامنے آرہی ہیں، لیکن آج تک کسی بدعنوان اہل کار کے خلاف کوئی تادیبی کارروائی نہیں کی گئی۔ بیشتر خواتین شام تک ذلیل و خوار ہونے کے بعد اعلان کردہ رقم نہ ملنے کی صورت میں مایوسی کے عالم میں اگلے روز دوبارہ ان مراکز پر اپنی تذلیل کرانے کی خاطر اپنے اپنے گھروں کو لوٹ جاتی ہیں۔
جن خواتین کے کارڈز (شناختی کارڈ) کمپیوٹر پر دورانِ چیکنگ بلاک ظاہر کیے جاتے ہیں ان سے مقامی عملہ اور پولیس اہلکار الگ سے دو، دو ہزار فی کس امیدِ فردا کے نام پر بٹور لیتے ہیں۔ غرض یہ کہ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے سندھ بھر میں قائم دفاتر پر رشوت ستانی، بدعنوانی اور بدنظمی کا وہ بازار گرم ہے کہ سوائے حکومتِ سندھ کے ذمہ داران کے، سبھی کو وہ واضح طور پر دکھائی دے رہا ہے۔
کالج پہنچا تو وہاں پروفیسر، کلریکل اسٹاف اور لوئر اسٹاف کو اس امر پر شدید برافروختہ اور برہم پایا کہ حکومتِ سندھ نے اِس بار اکتوبر میں ملنے والی تنخواہوں میں سے ہر ایک کی تنخواہ سے گریڈ کے حساب سے بارش اور سیلاب متاثرین کے لیے قائم کردہ فنڈ میں جمع کرانے کی خاطر دو ہزار سے پانچ ہزار روپے جبراً کٹوتی کرلی تھی۔ سارے ملازم یک زبان اس جبری کٹوتی پر حکومتِ سندھ پر سخت نکتہ چینی اور تنقید کرتے ہوئے کہہ رہے تھے کہ ہماری تنخواہ میں کٹوتی کی وجہ سے جہاں ہمارا ماہانہ بجٹ بری طرح متاثر ہوگا وہیں ہماری کاٹی گئی تنخواہ کی رقم حکومتِ سندھ بجائے سیلاب متاثرین کی امداد کے، اپنی عیاشی پر خرچ کرے گی، اور شرجیل میمن جیسے بدنام زمانہ وزیر کو اس کام پر مامور کرنا ہی حکومتِ سندھ کی ’’سنجیدگی‘‘ کا ثبوت ہے۔ ایک ملازم نے بے ساختہ کہا ’’گوشت جوٹوھ بلو‘‘ یعنی ’’گوشت کا رکھوالا بلا‘‘… تو سب کبیدہ خاطر بے اختیار مسکرانے لگے۔
ایک اور دل جلے ملازم نے اس پر گرہ لگائی کہ ’’حکومتِ سندھ کو عدلیہ کے ملازمین کی تنخواہوں میں سے کٹوتی کی جرأت نہیں ہوسکی ہے حالانکہ وہ ہم سے کہیں زیادہ تنخواہیں اور مراعات لے رہے ہیں، کیوں کہ ’’ڈاڈھے جی لوٹھ کھے بہ متھا‘‘ یعنی کسی زور آور کے سامنے حکومتِ سندھ بھی چپ سادھ لیتی ہے۔ اتنے میں ہاکر اسٹاف روم میں اخبارات دینے آگیا۔ ایک پروفیسر نے یکم اکتوبر کو روزنامہ ’’عبرت‘‘ حیدرآباد میں چھپنے والی یہ خبر سب کو سنا ڈالی کہ ’’حکومت سندھ کو عالمی بینک متاثرینِ سیلاب کے گھروں کی تعمیر و مرمت کے لیے ایک کھرب 10 ارب روپے دے گا‘‘۔ دوسرے پروفیسر صاحب نے یہ خبر سن کر اناللہ و انا الیہ راجعون پڑھ ڈالا اور فرمانے لگے ’’حکومتِ سندھ کے ذمہ داران سے یہ توقع قائم رکھنا خام خیالی کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔ اس رقم کا زیادہ تر حصہ خدشہ یہ ہے کہ بدعنوانی کی نذر ہوجائے گا اور ملک اور صوبہ مزید قرض کی دلدل میں دھنس جائے گا‘‘۔ سبھی نے اس رائے پر سر ہلا کر صاد کیا۔ اتنے میں ایک پروفیسر صاحب نے اپنے موبائل فون کی اسکرین پر نمودار ہونے والی نیوز الرٹ سنانا شروع کردی کہ ’’حیدرآباد مورو کے قریب شاہراہ پر ایک درجن سے زیادہ مسافر گاڑیوں کو لوٹ لیا گیا‘‘۔ اس پر اسٹاف روم میں موجود ایک پروفیسر صاحب گویا ہوئے اور خدشہ ظاہر کیا کہ ان مسافر گاڑیوں کو لوٹنے والے کہیں قریبی رہائش پذیر سیلاب متاثرین نہ ہوںکیوں کہ ان کی حالت بہت پتلی ہے۔ راشن تو رہا ایک طرف، بہت بڑی تعداد ابھی تک خیموں تک سے محروم ہے۔
عوام کا کوئی پرسانِ حال نہیں ہے۔ بے حس حکمران حال مست، مال مست اور کھال مست ہیں۔ امدادی سامان دکانوں پر فروخت ہونا شروع ہوگیا ہے۔ ہر ضلع اور شہر سے اس طرح کی افسوس ناک خبریں بذریعہ الیکٹرانک، پرنٹ اور سوشل میڈیا مع ثبوتوںکے مسلسل سامنے آرہی ہیں لیکن بدعنوانی میں ملوث کسی ذمہ دار کے خلاف ابھی تک کارروائی کی اطلاع سامنے نہیں آئی۔ ضلعی انتظامیہ کے افسران، مختیار کار، تپے دار، مقامی وڈیرے اور بھوتار اس کرپشن میں ملوث قرار دیے جارہے ہیں جو امدادی سامان مستحقین تک پہنچانے کے بجائے مارکیٹ میں فروخت کرنے کی شرم ناک سرگرمیوں میں مصروف ہیں۔
میں لوگوں کی سادہ لوحی اور عجلت پر حیران، پریشان اور دم بخود رہ گیا کہ کس طرح ہمارے وسائل بے دردی سے لوٹنے والے یہ وڈیرے اور سردار عوام پر احسان جتاتے اور انہیں بے وقوف بناتے ہیں۔
آئندہ انتخابات میں ایک مرتبہ پھر اسی ٹائپ کے ڈرامے باز بھوتار قبل از انتخابات اسی انداز میں عوام کو بہلا پھسلا کر ان سے جھوٹے وعدے کرکے دوبارہ ان پر مسلط ہوجائیں گے۔ بقول شاعر
تمنائوں میں الجھایا گیا ہوں
کھلونے دے کر بہلایا گیا ہوں