طالبان مخالف فرنٹ کے عزائم

احمد شاہ مسعود کے بیٹے احمد مسعود اس وقت افغانستان میں طالبان کی مزاحمت کی علامت کے طور پر سامنے آئے ہیں

افغان باغی گروپ کے رہنما احمد مسعود نے گزشتہ دنوں آسٹریا کے دارالحکومت ویانا میں ایک کانفرنس سے خطاب میں افغان تارکین وطن پر زور دیا ہے کہ وہ طالبان کی حکومت کے خاتمے کے لیے سیاسی حل تلاش کرنے کے لیے متحد ہوجائیں۔ انہوں نے شرکاء کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ان کی اپیل کو ایک نئے مرحلے کا آغاز سمجھا جائے۔ افغانستان کی وادی پنج شیر میں بغاوت کرنے والے مسلح گروپ نیشنل رزسٹنس فرنٹ (این آر ایف) کے سربراہ مسعود نے کہا کہ اب وقت آگیا ہے کہ طالبان کو مذاکرات کی میز پر واپس لانے کی کوشش کی جائے۔ انہوں نے کہاکہ ہم تارکین وطن کو متحد کرنا اور آہستہ آہستہ بات چیت کو آگے بڑھانا چاہتے ہیں اور اس مقام تک پہنچنا چاہتے ہیں جہاں ہمارے پاس افغانستان کے مستقبل کے لیے روڈمیپ موجود ہو۔ انہوں نے کہا کہ ہم ایک نئے مرحلے کے بالکل آغاز میں ہیں۔

واضح رہے کہ ویانا کانفرنس میں تقریباً 30 طالبان مخالف راہنما شریک ہوئے جن میں سے زیادہ تر جلاوطنی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ احمد مسعود نے کہا کہ افغانستان سے باہر حال ہی میں تشکیل پانے والے بہت سے گروپ ملک کے اندر کی موجودہ صورت حال سے خوش نہیں ہیں، انہوں نے مزید کہا کہ یہ اختلافات پر قابو پانے اور زخموں کو مندمل کرنے کا وقت ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ گزشتہ سال امریکی زیرقیادت افواج کے انخلا کے بعد طالبان کے قبضے نے خواتین کے حقوق کو پس پشت ڈال دیا ہے اور دہشت گرد گروہوں کے لیے افغان سرزمین کو زرخیز بنادیا گیا ہے۔

یاد رہے کہ احمد مسعود افسانوی کردارکے حامل سوویت اور طالبان مخالف جنگجو احمد شاہ مسعود کے بیٹے ہیں، جنہیں پنج شیر کا شیر کہا جاتا تھا اور جنہیں 11 ستمبر 2001ء کو امریکہ میں ورلڈ ٹرید سینٹر پرحملوں سے دو دن پہلے صحافی کے روپ میں مبینہ طورپر القاعدہ سے منسلک ایک خودکش حملہ آور نے بم دھماکے میں قتل کردیا تھا۔ اب طالبان کے ایک بار پھر افغانستان پر قابض ہونے کے بعد احمد شاہ مسعود کے جواں سال بیٹے احمد مسعود نے طالبان کے خلاف شمالی افغانستان کی شہرۂ آفاق وادی پنج شیر میں ایک نیا مزاحمتی محاذ کھولا ہے، وہ بار بار طالبان کی اسلام پسند حکومت کو ناجائز قرار دیتے ہوئے اس کی مذمت کرتے آئے ہیں۔NRF فورسز نے مئی میں طالبان کے خلاف کارروائی کا اعلان کیا تھا، تب سے یہاں وقفے وقفے سے لڑائی کے شعلے بھڑکتے رہتے ہیں۔ اس مزاحمت کے حوالے سے ابھی چند ہفتے قبل ہی طالبان کہہ چکے ہیں کہ ان کی فورسز نے NRF کے کم از کم 40 جنگجوؤں کو ہلاک کیا ہے۔

احمد مسعود نے ویانا میں طالبان مخالف افغان راہنمائوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہمارا مقصد کبھی بھی جنگ کو دوام دینا نہیں ہے بلکہ ہم جنگ کو ختم کرنا چاہتے ہیں۔ مسعود کا یہ بیان ایک ایسے وقت میں سامنے آیاہے جب بین الاقوامی برادری افغانستان سے لاتعلق ہوچکی ہے اور اس کی توجہ یوکرین پر مرکوز ہے۔

افغانستان سے متعلق اس صورتِ حال پر گفتگو کرتے ہوئے ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ سابق وزیر دفاع اور شمالی اتحاد کے مرکزی راہنما احمد شاہ مسعود کے بیٹے احمد مسعود اس وقت افغانستان میں طالبان کی مزاحمت کی علامت کے طور پر سامنے آئے ہیں جو شروع کے دنوں میں نہ صرف وادی پنج شیر میں طالبان کے خلاف مزاحمتی قوتوں کی قیادت کرتے ہوئے خود برسرپیکار رہے ہیں بلکہ اب بین الاقوامی سطح پر بھی خود کو طالبان مخالف افغان گروپوں کے متفقہ مزاحمتی راہنما کے طور پر پیش کررہے ہیں۔

احمد شاہ مسعود اور شمالی اتحاد کا مضبوط گڑھ سمجھی جانے والی وادی پنج شیر کے بارے میں یہ جاننا ضروری ہے کہ طالبان نے گزشتہ سال ستمبر میں پنج شیر پر بغیر کسی بڑی لڑائی کے کنٹرول حاصل کرلیا تھا کیونکہ اُس وقت احمد مسعود اور امراللہ صالح سمیت دیگر راہنما پنج شیر سے نکل گئے تھے۔ شروع میں پنج شیر میں حالات نسبتاً پُرامن تھے اور کچھ آبادی بھی وہاں سے نکل گئی تھی، لیکن اب وہاں سے ایک بار پھر مزاحمت کی خبریں آرہی ہیں۔ پچھلے دنوں طالبان کو پنج شیر میں اُس وقت بڑا دھچکا لگا جب اُن کے پولیس انٹیلی جنس کے سربراہ حاجی ملک خان مخالفین سے جا ملے۔ پنج شیر کے حاجی ملک نے طالبان کو خبردار کیا تھا کہ وہ دیگر علاقوں سے جنگجو پنج شیر نہ بھیجیں کیونکہ مقامی تاجک آبادی دیگر علاقوں کے لوگوں کو برداشت نہیں کرے گی، لیکن طالبان نے جنوبی علاقوں سے یہاں جاری مزاحمت کچلنے کے لیے جنگجو بھیج دیے تھے جنہیں بھاری جانی نقصان اٹھانا پڑا تھا اور سوشل میڈیا پربعض ایسی ویڈیوز جاری کی گئیں جن میں ایک جہاز سے طالبان کے تابوت اتارتے ہوئے دکھایا گیا تھا۔ اس وقت تک طالبان کے ساتھ رہنے والے حاجی ملک خان نے طالبان کو کافی جانی نقصان پہنچایا اور ان کے کئی ٹینکوں اور گاڑیوں کو بھی تباہ کردیا تھا۔ مزاحمت کے بعد طالبان مخالف تاجک جنگجو پنج شیر دروں میں چلے گئے، جہاں طالبان کی رسائی ناممکن ہے۔ طالبان کو پنج شیر کے پہاڑی سلسلوں کا زیادہ علم نہیں اور ان کو مقامی تاجک آبادی کی بھی کوئی حمایت حاصل نہیں ہے، جس کی وجہ سے جنگی امورکے ماہرین کا دعویٰ ہے کہ یہ علاقہ طالبان کے لیے اسی طرح خطرات کا باعث بن سکتا ہے جس طرح ماضی میں امریکی حملے کے وقت شبرغان اور مزار شریف میں طالبان کو شمالی اتحاد کے ہاتھوں یرغمال بن کر بہت زیادہ جانی نقصان سے دوچار ہونا پڑا تھا۔

یہاں اس حقیقت کی جانب بھی اشارہ ضروری معلوم ہوتا ہے کہ طالبان اپنے گزشتہ دورِ حکومت میں بھی پنج شیر پر کنٹرول حاصل نہیں کرسکے تھے، البتہ اِس وقت شہر اور کئی دیگر علاقے ان کے کنٹرول میں ہیں، لیکن کئی پیچیدہ درے ان کے کنٹرول سے اب بھی باہر ہیں اور وہاں سے مزاحمت جاری رہنے کے خدشات ظاہرکیے جارہے ہیں۔

اس پس منظر کے ساتھ اگرافغانستان کی موجودہ صورتِ حال بالخصوص پہلے ترکی اور اب ویانا میں ہونے والے طالبان مخالف اجلاس کے تناظر میں دیکھا جائے تو طالبان حکومت پر اگر ایک طرف ملک کے اندر اور باہر مخالفین کا دباؤ بڑھ رہا ہے تو دوسری جانب بین الاقوامی سطح پر بھی ان پر ہونے والی تنقید میں اضافہ ہورہا ہے۔ بچیوں پر تعلیم کے دروازے بند کرنے کے اعلان، نیز خواتین کے لیے حجاب لازمی قرار دینے کے بعد اب طالبان نے انسانی حقوق کمیشن سمیت کئی اہم ریاستی اداروں کے خاتمے کا اعلان کرکے بین الاقوامی سطح پر اپنی پہلے سے موجود مشکلات میں مزید اضافہ کردیا ہے۔ اس اعلان پر افغانستان کے لیے یورپی یونین کے نمائندے ٹامس نکولسن کا اپنے ایک ٹویٹ میں کہنا ہے کہ اداروں کو ختم کرنا تشویش کا باعث ہے کیونکہ اس سے ڈائیلاگ، انسانی حقوق اور قومی مصالحت کو شدید نقصان پہنچ سکتا ہے۔

طالبان کے عجلت میں کیے جانے والے اقدامات سے یہ تاثر ابھر رہا ہے کہ وہ افغانستان پر بلا شرکتِ غیرے حکومت کرنا چاہتے ہیں جو ان کے سیاسی نمائندوں کے بار بار عالمی برادری سے کیے گئے وعدوں کی خلاف ورزی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ افغانستان ایک کثیراللسانی اور کثیرالقومی ملک ہے اور یہاںپر تنِ تنہا کوئی ایک گروپ حکومت تشکیل نہیں دے سکتا، اور اگر ماضی میں کسی نے ایسا کرنے کی کوشش کی بھی ہے تو اس کے اچھے نتائج سامنے نہیں آئے ہیں۔ طالبان بھی تمام تر بین الاقوامی دبائو کے باوجود اب تک ایک وسیع البنیاد قومی حکومت بنانے پر آمادہ نہیں ہیں بلکہ وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ان کی حکومت میں تمام اقوام اور شخصیات کو نمائندگی دی گئی ہے، حالانکہ طالبان کے اس مؤقف کو کوئی بھی نہیں مانتا، اور ان کا یہی نقطہ نظر ان کی حکومت کو بین الاقوامی سطح پر تسلیم کرانے میں ایک بڑی رکاوٹ ہے۔

اسی طرح اپنی بین الاقوامی قبولیت کے لیے راہ ہموار کرنے کی غرض سے طالبان کو کم از کم اپنے پڑوسی ممالک بالخصوص پاکستان، ایران اور چین کو تو ہرحال میں اعتماد میں لینا ہوگا، لیکن ان کی طرف سے تاحال ایسی کسی پیش رفت کا نظر نہ آنا خود ان کے مسائل میں مزید اضافے کا باعث بن سکتا ہے۔ لہٰذا ایسے میں اگر طالبان مخالف قوتیں ایک پلیٹ فارم پر متحد ہوجاتی ہیں اور انہیں بین الاقوامی حمایت بھی مل جاتی ہے جس کے ملنے کے قوی امکانات ہیں، تو ایسے میں جہاں یہ خطہ ایک بار پھر ایک نئی آزمائش سے دوچارہوسکتا ہے، وہاں اس ساری صورتِ حال کا ایک بار پھر سب سے زیادہ نقصان اور خمیازہ افغان عوام اور افغان سرزمین کو بھگتنا ہوگا۔