ـ22 سالہ مہسا امینی کی افسوس ناک موت کے بعد ایران میں ہنگامے پھوٹ پڑے
13 ستمبر کو گشت رشاد (اخلاقی پولیس) کے ہاتھوں گرفتار ہونے والی ایرانی کرد دوشیزہ پولیس کی حراست میں تشدد کے باعث 16 ستمبر 2022ء کو جان کی بازی ہار گئی۔ آج اس واقعے کو 20 دن گزر چکے ہیں اور تہران میں شروع ہونے والے ہنگامے پورے ملک میں پھیل چکے ہیں۔ ایران سے باہر مغربی ممالک میں بھی ایرانی حکومت کے خلاف مظاہرے کیے جارہے ہیں۔ ان مظاہروں کو ایرانی سیکورٹی فورسز پوری قوت سے کچل رہی ہیں، جس کے نتیجے میں اب تک 41 ایرانی قتل ہوچکے ہیں، 700 کے لگ بھگ گرفتار ہیں، جن کی جیلوں میں ”خاطر تواضع“ کی جارہی ہے، اور متعدد افراد زخمی ہوئے ہیں۔ بظاہر معاملہ حجاب کا ہے۔ مہسا امینی جس وقت گرفتار ہوئی ہے اُس نے حجاب تو لیا ہوا تھا لیکن ”ٹھیک سے“ نہیں لیا تھا۔ خمینی کے انقلاب کے بعد سے ایرانی خواتین پر قانونی طور پر لازم ہے کہ وہ عوامی مقامات پر مکمل حجاب میں ہوں۔ خمینی کے زمانے میں نئے طرز کا ”ایرانی برقع“ متعارف کروایا گیا تھا، جو آج بھی ایرانی خواتین پہنتی ہیں۔ ایران میں 43 سال سے یہ ڈریس کوڈ لاگو ہے جس کے خلاف ایرانی آج سڑکوں پر ہیں اور بے دریغ خون بہہ رہا ہے۔ یہ ردعمل کیوں ہے؟ اس لیے کہ سو برسوں کے دوران ایران دو انتہائوں کے درمیان رہا ہے۔ پہلی انتہا یہ تھی کہ آج سے ٹھیک سو سال پہلے جب رضا شاہ کبیر (رضا شاہ پہلوی کے والد) 1922ء میں برطانیہ کی مدد سے اقتدار میں آئے تو انہوں نے ترکی کے مصطفیٰ کمال اتاترک کی طرح ملک میں جدیدیت اور مغربیت کو فروغ دیا، بلکہ ایک ہی وقت میں تین ملکوں کے سربراہانِ مملکت نے اپنے اپنے ملکوں کو جدید مغربی تہذیب میں رنگ دینا چاہا:1))ترکی کے مصطفیٰ کمال،(2)افغانستان کے امان اللہ خان،(3)ایران کے رضا شاہ کبیر۔
ان تینوں نے خواتین کے پردے پر پابندی لگا دی، خود اپنی بیویوں کو بے پردہ کیا، مخلوط مجالس اور بیرون ملک دوروں پر لے کر نکلے، تینوں نے لباس کی وہ آزادی دی کہ ان ملکوں کی خواتین کا لباس سکڑتے سکڑتے اسکرٹ، منی اسکرٹ اور پھر بکنی تک آگیا۔ تینوں ملکوں میں شراب و کباب، مخلوط محفلوں،بے پردگی اور اباحیت کا دور دورہ رہا۔ رضا شاہ پہلوی کے دور کی ایرانی عورتوں کو دیکھیں… یہ ایک انتہا تھی۔ دوسری انتہا یہ ہوئی کہ 1979ء میں خمینی انقلاب کے بعد اسی مادر پدر آزاد معاشرے کو قید کردیا گیا، اور سخت ڈریس کوڈ نافذ کردیا گیا۔ اور چونکہ یہ سب کچھ ”حکومتِ الٰہیہ“ کے نام پر کیا گیا لہٰذا اب جو ردعمل سامنے آرہا ہے وہ مذہب سے نفرت اور بیزاری کا اظہاریہ ہے۔ ایران وہ واحد اسلامی ملک ہے جہاں theocracy ہے۔ تھیوکریسی کو اسلامی نظام حکومت نہیں سمجھنا چاہیے، بلکہ یہ نری پاپائیت ہے جس کے خلاف جب مغرب نے بغاوت کی تھی تو اہلِ مغرب الحاد کی دوسری انتہا پر چلے گئے تھے۔ یہی کچھ اب ایران میں ہورہا ہے۔ ملکی آبادی کا ایک بڑا حصہ ایرانی حکومت کی شدید مذہبیت/ پاپائیت کو مسترد کررہا ہے۔ خمینی کے بعد ملک میں ایک ایسا دور بھی آیا جب خواتین کے لباس کی سختیاں نرم کردی گئیں، ایرانی عورت بغیر ایرانی برقعے کے بھی عوامی مقامات پر نکلنے لگی، البتہ اس کے لیے یہ ضروری تھا کہ لباس ساتر ہو، اور سر ڈھکا ہوا ہو۔ لہٰذا میں نے خود…جب 2013ء میں مَیں ایران میں تھی… عورتوں کو بغیر برقعے کے شہروں میں عام پھرتے ہوئے دیکھا تھا۔ خود میں ایران کے 5 شہروں میں پاکستانی لباس میں گھومتی پھری، کسی نے مجھے نہ ٹوکا، البتہ جب سے نئے صدر ابراہیم رئیسی آئے ہیں عورتوں کے لباس پر پھر سے سختی شروع کردی گئی ہے۔ ”گشت رشاد“ کو خواتین کو گرفتار کرنے اور سزا دینے تک کے اختیارات دے دیے گئے ہیں۔ عورت کا لباس کیا ہو؟ مرد کا حلیہ کیسا ہو؟ اس کی داڑھی کی لمبائی کیا ہو؟ اس کی شلوار کے پائنچے کتنے اوپر ہوں؟ یہ فیصلے حکومت کے کرنے کے نہیں۔ یہ فیصلے سماج کو کرنے چاہئیں۔ اقدار کا تعین سماج کرتا ہے، اگر حکومت کرے گی تو جبر کا پہلو سامنے آئے گا، اور جبر عوام ہمیشہ برداشت نہیں کرتے!