بلدیاتی انتخابات :جماعت اسلامی کا عظیم الشان ”ورکرز کنونشن“

امیر جماعت اسلامی پاکستان کا کلیدی خطاب

ملک کے مسائل کی طرح کراچی کے مسائل بھی بڑے ہیں۔ بجلی، گیس، پانی، انفرااسٹرکچر… ہر ہر عنوان سے لوگ تکلیف اور مشکل میں ہیں۔ اس شہر میں جہاں پیپلز پارٹی کی بدترین حکمرانی ہے وہاں وفاق کا بھی کوئی کردار نہیں ہے، ایسے میں بلدیاتی انتخابات صورتِ حال کو کچھ تبدیل کرسکتے ہیں جن سے پیپلز پارٹی اور اس کے اتحادی فرار چاہتے ہیں اور اس سلسلے میں اُن کی پوری کوشش ہے کہ کراچی میں کسی بھی طرح بلدیاتی انتخابات نہ ہوپائیں۔ کراچی کے عوام پیپلز پارٹی اور اس کے اتحادیوں کے خلاف سخت ردعمل دے رہے ہیں جس کا اندازہ جماعت اسلامی کے ”کے۔ الیکٹرک“ کے بلوں میں کے ایم سی یوٹیلٹی ٹیکس اور ٹی وی لائسنس فیس سمیت دیگر ٹیکسوں اور جعلی فیول ایڈجسٹمنٹ چارجز کے نام پر اضافی وصولیوں کے خلاف 6 روزہ ”عوامی ریفرنڈم“ کے نتائج سے لگایا جاسکتا ہے، اس کی جو تفصیلات سامنے آئی ہیں ان کے مطابق 98فیصد سے زائد شہریوں نے فیول ایڈجسٹمنٹ چارجز اور میونسپل چارجز کو مسترد کردیا ہے۔ یہ ایک طرح کا پیپلزپارٹی، نون لیگ اور ایم کیو ایم کے خلاف ریفرنڈم ہے۔ کئی ملین شہریوں نے تمام ناجائز ٹیکسوں کو مسترد کرتے ہوئے کے الیکٹرک کے لائسنس کو منسوخ کرنے، فرانزک آڈٹ کرانے، کلاء بیک کے 50 ارب روپے عوام کو واپس دلوانے اور کے الیکٹرک کے سہولت کاروں کو بے نقاب کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔

جماعت اسلامی اور اس کی قیادت شہر کراچی کے لوگوں کے ساتھ تاریخی طور پر مشکل اور کڑے وقت میں ہمیشہ کی طرح آج بھی کھڑی ہے، اور اسی پس منظر میں گزشتہ دنوں امیر جماعت اسلامی پاکستان سراج الحق کراچی پہنچے اور انہوں نے اتوار کو نیو ایم اے جناح روڈ پر جماعت اسلامی کے تحت کراچی میں بلدیاتی انتخابات کی تیاریوں کے سلسلے میں عظیم الشان ”ورکرز کنونشن“ میں بھی شرکت کی۔ کنونشن سے خطاب میں انہوں نے کہا کہ ”وفاقی و صوبائی حکومتوں کی نااہلی اور بے حسی کے باعث ملک کا سب سے بڑا شہر اور صوبائی دارالحکومت مسائل کی آماج گاہ اور جرائم کا گڑھ بن گیا ہے، سڑکیں کھنڈرات میں تبدیل ہوگئی ہیں، عوام کو تعلیم، صحت، ٹرانسپورٹ اور پینے کے صاف پانی جیسی سہولتیں تک میسر نہیں، 14سال سے سندھ اور کراچی کو پیپلز پارٹی نے یرغمال بنایا ہوا ہے، کراچی میں حکمران پارٹیوں کی بلدیاتی انتخابات سے فرار کی کوششیں ان کی شکست کی واضح علامت ہیں۔ ملک بھر کے عوام مراعات یافتہ اور حکمران طبقے کے بیچ سینڈوچ بنے ہوئے ہیں اور حکمرانوں کی نااہلی کی وجہ سے قومی خزانہ محفوظ ہے نہ توشہ خانہ اور نہ سائفر۔ ساری سیاست جھوٹ اور فریب پر چل رہی ہے، جس میں سچائی کو خوردبین سے بھی تلاش کرنا مشکل ہے۔ مسائل کا حل صرف جماعت اسلامی ہے جو اسلامی نظام کے نفاذ اور عدل و انصاف کی علَم بردار ہے۔“ کنونش کے شرکاء سے خطاب میں آپ کا مزید کہنا تھا کہ ”عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں میں کمی ہورہی ہے، ہمارا مطالبہ ہے کہ ملک میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں 100روپے فی لیٹر کی کمی کی جائے، عوام کو مہنگائی سے نجات دلانے اور حقیقی معنوں میں ریلیف فراہم کرنے کے لیے ٹھوس عملی اقدامات کیے جائیں۔“ انہوں نے کہا کہ ”پی ڈی ایم اور پی ٹی آئی نے ملک کو یرغمال بنایا ہوا ہے، عوام کا جینا مشکل ہوگیا ہے۔ مسئلہ کشمیر، آئی ایم ایف کی غلامی، ایف اے ٹی ایف قوانین اور ٹرانس جینڈر ایکٹ پر یہ سب متفق ہیں، جھگڑا صرف مفادات کے حصول کا ہے، عوام کے مسائل و مشکلات اور بڑھتی ہوئی مہنگائی سے ان کو کوئی سروکار نہیں۔“ انہوں نے کہا کہ ”ملک اور قوم کو بحرانوں سے نکالنے، مسائل کے حل، انصاف کے حصول اور تحفظ، تعلیم، صحت اور روزگار کی فراہمی، خاندانی نظام کے استحکام اور بین الاقوامی ساہوکاروں سے نجات اور ترقی یافتہ ممالک کی صف میں شامل ہونے کے لیے صرف ایک راستہ ہے کہ ملک میں اسلامی نظام نافذ کیا جائے، اللہ اور اس کے رسول ؐ کی تعلیمات پر عمل پیرا ہوں۔ جماعت اسلامی کی جدوجہد اسلامی نظام کے قیام کے لیے ہے، اور جماعت اسلامی کی قیادت کرپشن سے پاک اور دیانت دار قیادت ہے۔“

ورکرز کنونشن سے خطاب میں امیر جماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمٰن نے کہا کہ ”کے الیکٹرک کے خلاف ریفرنڈم میں بھی عوام سے بھرپور رابطہ ہوا ہے، رابطہ عوام مہم کو مزید تیز کیا جائے گا، بلدیاتی انتخابات سے کسی کو بھی فرار کا موقع نہیں دیا جائے گا۔ ہمارا مطالبہ ہے کہ بلدیاتی انتخابات، ضمنی انتخابات سے قبل 16اکتوبر کو کرائے جائیں۔ جماعت اسلامی کراچی کے حقوق اور مسائل کے حل کی جدوجہد مسلسل کررہی ہے۔ بلدیاتی انتخابات سے قبل بھی ہم نے کراچی کے حقوق کے لیے طویل جدوجہد کی۔ کراچی کے عوام جانتے ہیں کہ کراچی کے مسائل کا حل صرف جماعت اسلامی ہی ہے۔ جب جب بلدیاتی انتخابات قریب آتے رہے، سندھ حکومت کبھی بارش اور کبھی سیلاب کا بہانہ بناکر ان سے فرار کا راستہ اختیار کرتی رہی۔ اندرون سندھ

اور جنوبی پنجاب میں سیلاب کے موقع پر بھی جماعت اسلامی کے کارکنان اور عام شہری الخدمت کے رضاکار بن گئے اور خدمت کا کام جاری رکھا۔ کوئی بھی این جی او ریاست اور حکومت کا متبادل نہیں ہوسکتی۔ جماعت اسلامی نے سیلاب زدگان کی امداد کے ساتھ ساتھ کرپٹ حکمرانوں کے چہروں کو بھی بے نقاب کیا۔ عوام حکمران ٹولے کے خلاف اٹھیں اور بلدیاتی انتخابات میں حکمران پارٹیوں کو مسترد کرکے جماعت اسلامی کو کامیاب کریں۔“

حافظ نعیم الرحمٰن کراچی کا مقدمہ لڑتے ہوئے یہ بات تسلسل کے ساتھ کہہ رہے ہیں کہ ”کراچی نے گزشتہ سال سے 42 فیصد زیادہ ٹیکس دیا مگر شہر کا جو حال ہے وہ سب کے سامنے ہے۔ کراچی قومی خزانے میں 67 فیصد ریونیو جمع کراتا ہے، سندھ کے 95 فیصد بجٹ کا انحصار کراچی پر ہے، مگر اِس شہر کو اس کا حق نہیں دیا جاتا۔ کراچی کو خیرات نہیں اس کا جائز اور قانونی حق چاہیے۔ مردم شماری میں کراچی کی پوری آبادی کو گنا جائے، کوٹہ سسٹم ختم کیا جائے، جعلی ڈومیسائل اور جعلی بھرتیوں کا سلسلہ ختم کرکے کراچی کے اہل اور تعلیم یافتہ نوجوانوں کو سرکاری ملازمتیں دی جائیں، کراچی کے وسائل کو لوٹنے کا سلسلہ بند کیا جائے۔ پیپلز پارٹی اور سندھ حکومت کی لوٹ مار میں ایم کیو ایم ہمیشہ سہولت کار بنی رہی ہے اور آج بھی ایک پیکیج ڈیل کے ساتھ اتحادی حکومت کا حصہ ہے۔“

اس میں کوئی شبہ نہیں اور یہ حقیقت پر مبنی بات ہے کہ جماعت اسلامی شہر کراچی میں ایک بار پھر ایک بڑی قوت اور طاقت کے ساتھ ابھرتی نظر آرہی ہے۔ اس کی ”حق دو کراچی“ تحریک نے بہت تیزی کے ساتھ پذیرائی حاصل کی ہے، اور وقت کے ساتھ ساتھ یہ کراچی کے ہر شہری کی تحریک بن چکی ہے جس کا مظہر ہمیں ریفرنڈم میں نظر آیا اور یہی خوف پیپلز پارٹی اور اس کے اتحادیوں کے لیے مشکلات پیدا کررہا ہے جس کی وجہ صرف یہ ہے کہ بلدیاتی انتخابات جب بھی ہوں گے نتیجہ جماعت اسلام کے حق میں ہی بیلٹ باکس سے نکلے گا، کیوں کہ جماعت اسلامی نے کراچی کے لوگوں کا مقدمہ لڑا ہے اور ہر مشکل وقت میں ان کےساتھ کھڑی رہی ہے۔