بظاہر ہم پاکستان کے بحران کو ایک بڑے سیاسی اور معاشی تناظر میں دیکھتے ہیں۔ لیکن یہ بحران محض سیاسی اور معاشی نہیں بلکہ مجموعی طور پر ایک بڑے ریاستی بحران کی عکاسی بھی کرتا ہے، کیونکہ جب سیاست، جمہوریت، معیشت اور ریاستی اداروں کے درمیان بداعتمادی یا ٹکرائو نمایاں ہو تو بحران کی سنگینی مزید بڑھ جاتی ہے۔ لیکن محسوس یہ ہوتا ہے کہ ہمارے فیصلہ ساز معاملات کی حساسیت اور سنگینی کو محسوس کرنے کے لیے تیار نہیں۔ اس وقت تمام فریقوں میں ملک اور شہریوں کے مفادات سے زیادہ ذاتی مفادات یا پسند و ناپسند کی بنیاد پر فیصلہ سازی کا غلبہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم مجموعی طور پر مسائل حل کرنے کے بجائے مزید مسائل پیدا کرنے کے کھیل کا حصہ بن گئے ہیں۔ جب سیاست، جمہوریت اور فیصلہ سازی کا عمل عملاً بند گلی میں داخل ہوجائے تو اس کے نتیجے میں مزید بدامنی اور انتشار پر مبنی سیاست ہی جنم لیتی ہے۔
قومی بحران کی ایک بڑی وجہ تمام فریقوں کی جانب سے اپنے اپنے سیاسی، قانونی اور آئینی دائرۂ کار سے باہر نکل کر کھیلنے کی عادت ہے، اور یہ عملاً ہمارے قومی مزاج کا حصہ بن گئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تمام فریقین اوّل تو یہ ماننے کے لیے تیار نہیں کہ ہم کریز سے باہر نکل کر یا سرخ بتی کو کراس کرکے کھیل کو بگاڑ رہے ہیں۔ دوئم، وہ یہ بھی ماننے کے لیے تیار نہیں کہ اس قومی ریاستی بحران میں ہم بھی برابر کے یا کم یا زیادہ حصے دار ہیں۔ دوسروں پر الزام عائد کرکے خود کو بچانے کی کوشش سے ہی مزید بگاڑ پیدا ہوتا ہے اور مسئلے کا حل بھی پسِ پشت چلا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارا مجموعی حکومتی اور جمہوری نظام اصلاحات کی اہمیت کو سمجھنے کے لیے تیار نہیں، اور جو اصلاحات کی جارہی ہیں ان میں خود کو فوقیت دے کر ریاستی مفاد کو قربان کیا جارہا ہے۔ اسی طرح سیاسی ایڈونچر یا سیاسی مہم جوئی کا کھیل بھی عروج پر ہے، اور اسی بنیاد پر سیاسی جوڑتوڑ، حکومتیں بنانے یا گرانے کا کھیل، یا کسی کے سیاسی منظر میں رہنے یا نہ رہنے کے فیصلوں سمیت ریاستی اداروں پر دبائو ڈال کر ان کو عملاً قانون کی حکمرانی سے دور رکھنے کی روش نے بھی ہمارے لیے مسائل پیدا کردیے ہیں۔
ایک سیاسی منطق یہ پیش کی جاتی ہے کہ سیاست اور جمہوریت کا عمل اپنی موجودہ اورماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھ کر مستقبل کی طرف پیش قدمی کو ممکن بناتا ہے۔ لیکن المیہ یہ ہے کہ ہم ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھنے کے بجائے دوبارہ بڑی شدت کے ساتھ انھی غلطیوں کو دہرا کر بحران کے ذمے دار بنتے ہیں۔ اس وقت سیاست اور جمہوریت سے مذاق بڑی شدت کے ساتھ موجود ہے۔ آڈیو لیکس کے معاملات کو ہی دیکھ لیں، یہ سوائے شرمندگی کے کچھ نہیں، اور یہ عمل ظاہر کرتا ہے کہ ہم ایک غیر محفوظ ریاست کے طور پر خود کو پیش کررہے ہیں جہاں کچھ بھی محفوظ نہیں۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ ہم ہر مسئلے اور بحران پر ایک دوسرے کے خلاف سیاسی اسکور کرکے برتری کی جنگ میں اپنی جیت کو ممکن بنانا چاہتے ہیں، اور اس کھیل میں اگر ریاستی مفاد قربان ہوتا ہے تو ہمیں اس پر کوئی اعتراض نہیں۔ سیاست دانوں کے ساتھ ساتھ ہماری طاقت ور اسٹیبلشمنٹ بھی اپنی غلطیوں سے کچھ بھی سیکھنے کے لیے تیار نہیں۔ جو ہم نے بطور ریاست ’’قومی سلامتی پالیسی‘‘ قومی سطح پر تشکیل دی جس کا بنیادی نکتہ ’’جیو معیشت اور جیو تعلقات میں رابطہ کاری‘‘ ہے، اس میں اسی نکتہ پر زور دیا گیا تھا کہ ہم اپنے داخلی اور معاشی استحکام کو بنیاد بناکر علاقائی سطح پر بہتر تعلقات بشمول بھارت، اور علاقائی تعاون کے امکانات سمیت کسی بھی ملک کی جنگ میں اتحادی بننے کے بجائے امن قائم کرنے کے اتحادی بنیں گے۔
لیکن جب ہم داخلی سیاست کے مسائل میں ہی الجھ کر رہ گئے ہیں اورایک دوسرے کے ساتھ دست وگربیاں ہیں ایسے میں علاقائی اورعالمی سطح پر مثبت امکانات کی جنگ کیسے جیت سکتے ہیں! ہم خود کو ایک بڑے سیاسی تماشے کے طور پر داخلی اور خارجی دونوں محاذوں پر پیش کررہے ہیں، ایسے میں عالمی یا علاقائی ممالک کیونکر ہمارے ساتھ کھڑے ہوں گے! عالمی اور علاقائی سازشوں کا مقابلہ ہم اسی صورت میں کرسکتے ہیں جب خود کو داخلی سازشوں سے علیحدہ رکھیں اور مل جل کر داخلی سازشوں کا مقابلہ کریں، وگرنہ داخلی اور خارجی سطح کی سازشوں کا مقابلہ کرنا ممکن نہیں ہوگا۔ ہم یہ سمجھنے کے لیے تیار نہیں کہ ہمیں ایک بڑی سرجری کی مدد سے اپنے مجموعی نظام میں اصلاحات کی بنیاد پر بڑی تبدیلی لانی ہے، اور یہ ناگزیر ہوچکی ہے۔ کیونکہ ہم نے اپنے سیاسی فیصلوں کی بنیاد پر جو حال اداروں کی تباہی کی صورت میں کیا ہے وہاں خودمختار اداروں کی بحث بہت پیچھے چلی گئی ہے۔ اداروں کی خودمختاری اور بالادستی یا ان کو قانون کی حکمرانی کے تابع کرکے ہی ہم اپنے لیے آگے بڑھنے کا راستہ تلاش کرسکتے ہیں۔ لیکن اس کے لیے ہمیں اپنی اپنی سیاسی اَنا اور ذاتی مفاد پرستی کی سیاست سے باہر نکلنا ہوگا۔ وگرنہ سیاسی آنکھ مچولی اور مہم جوئی کا یہ کھیل پہلے سے موجود بگاڑ میں مزید اضافے کا سبب بنے گا۔
ایک طرف عالمی اور علاقائی مسائل ہیں تو دوسری طرف ملک میں موجود حکمرانی کا بحران عام لوگوں کی زندگیوں میں مشکل پیدا کررہا ہے اور مجموعی طور پر ریاستی، حکومتی، ادارہ جاتی نظام اور شہریوں کے درمیان بداعتمادی اور لاتعلقی کا منظر پیدا کررہا ہے۔ عوامی مفادات کو بنیاد بنا کر سیاست، جمہوریت اور معیشت سمیت سیکورٹی کا عمل کمزور ہے، اور یہی عمل لو گوں کو تنہا بھی کررہا ہے۔ جب سیاست اورجمہوریت کا عمل طاقت کی حکمرانی کے گرد گھومے گا تو اس کا نتیجہ عملاً عام آدمی کے استحصال کی صورت میں ہی نمودار ہوگا۔ یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ ہم ریاستی اور حکومتی نظام پر ایک بڑے سیاسی دبائو کی سیاست کو پیدا ہی نہیں کرسکے۔ لوگوں میں غم و غصہ موجود ہے، لیکن اس غم و غصے کو ایک پُرامن سیاسی جدوجہد، انقلاب یا ایک مؤثر تبدیلی کے عمل سے نہیں جوڑا جاسکا۔ اسی طرح ہم باہر کے ممالک سے تو بہت امیدیں لگاتے ہیں کہ وہ ہماری مدد کریں، لیکن ہم خود اپنی مدد کرنے کے لیے، اور نہ ہی دنیا کے تجربات سے کچھ سیکھنے کے لیے تیار ہیں کہ مثبت تبدیلی کے عمل میں اُن کی حکمت عملی اور منصوبہ بندی کیا تھی اورکیسے ہم اُن سے سیکھ کر خو دکو بہتر بناسکتے ہیں۔
اِس وقت تو مسئلہ یہ ہے کہ حکومت حزبِ اختلاف پر، اور حزبِ اختلاف حکومت اور اسٹیبلشمنٹ دونوں پر برتری حاصل کرنا چاہتی ہے۔ اس کے لیے طاقت کے تمام حربے اختیار کیے جارہے ہیں اور ملک عملاً احتجاج، محاذ آرائی یا ٹکرائو کی سیاست کی جانب بڑھ رہا ہے۔ اس کا ذمے دار کوئی ایک فریق نہیں بلکہ ہم سب اس بحران کے ذمے دار ہیں۔ نئی نسل کے سامنے امید کے پہلو کم اور مایوسی کے بادل زیادہ ہیں۔ ایسی غیر یقینی سیاست، جمہوریت اور معیشت کی موجودگی میں بہتری کا عمل کیسے شروع ہوگا اورکون شروع کرے گا یہ خو دایک بڑا سوالیہ نشان بن گیا ہے۔ لوگو ں کے پاس سوالات ہیں مگر طاقت ور طبقہ ان سوالوں کے جواب دینے کے بجائے قومی سیاست اور ریاست کو جذباتیت پر مبنی نعروں کے ساتھ چلانے کی کوشش کررہا ہے۔ اسی طرح جو لوگ مسائل کا حل چاہتے ہیں یا اُن کے پاس مسائل کا حل موجود ہے انہیں قومی سطح پر ریاستی و حکومتی اداروں کی جانب سے سیاسی تنہائی کا سامنا ہے۔ کیونکہ ان کی نہ تو کوئی سننے والا ہے اور نہ ہی ان کو بٹھا کر کوئی بات کرنے والا ہے۔ جب ملک کو سیاسی بونوں اور غیر سیاسی یا غیر پروفیشنل لوگوں کی مدد سے چلانے کی کوشش کی جائے اور جہاں اقرباپروری یا ذاتی خاندانی دوستی کا غلبہ ہو وہاں معاشرے بہتری کی جانب نہیں بڑھ پاتے۔ اس لیے اگر آج ہم آگے نہیں بڑھ رہے تو ہمیں خود ہی اپنے معاملات کا درست انداز میں تجزیہ کرنا ہوگاکہ ہم اس مقام پر کیسے پہنچے ہیں، اور کیسے اس مقام سے باہر نکل کر اپنے لیے ایک محفوظ ترقی کا راستہ تلاش کرسکیں گے جو ریاستی مفاد کی عکاسی بھی کرتا ہو۔