پچھلے چار ماہ میں ملک نے جو مہنگائی دیکھی ہے اس کی نظیر 75برس میں نہیں ملتی
ان دنوں ایک جانب سیلاب میں ڈوبا ہوا ملک ہے، اور دوسری جانب ایک ایسا کلائوڈ برسٹ ہے جو آڈیو لیکس کا سبب بن رہا ہے۔ سیلاب زندگی کو بہا کر لے گیا ہے اور آڈیو لیکس کے کلائوڈ برسٹ سے ملک میں سیکورٹی انتظامات تنکے کی مانند تیر رہے ہیں، ایک بھونچال آیا ہے اور ایوانِ وزیراعظم کے اندر ہونے والے اجلاس بھی محفوظ نہیں سمجھے جارہے، اور گفتگو تو اب بیچ چوراہے آن پہنچی ہے۔ ایسی آڈیوز سامنے آئی ہیں جن میں وزیراعظم شہبازشریف اور ان کی کابینہ کے متعدد وزرا کی ساری باتیں سنی جا سکتی ہیں۔ سابق وزیراعظم عمران خان کی آڈیوز بھی افشا ہوچکی ہیں، عمران خان خدشہ ظاہر کررہے ہیں کہ مزید آڈیو لیکس ہوسکتی ہیں۔ اگر ایسا ہوا تو سب کی دستار اترنے اور سیاست حمام کے اندر نہیں بلکہ باہر ہی ننگی ہونے جارہی ہے، جس کے بعد ملکی سیاست کی نبض ہیکرز کے ہاتھوں میں رہے گی۔ حکومت ان لیکس کے بعد متحرک ہوئی ہے اور بڑے فیصلے بھی سامنے آئے ہیں جن میں ایک فیصلہ سائفر آڈیو لیکس کے معاملے پر عمران خان اور دیگر افراد کے خلاف آفیشل سیکریٹ ایکٹ کے تحت کارروائی کرنے سے متعلق ہے۔ حکومت یہ معاملہ پارلیمنٹ میں لے جائے گی اور اتحادی حکومت اس کے بعد حتمی فیصلہ کرے گی۔ یہ معاملہ سنجیدہ اور نہایت سنگین ہے۔ ملکی تاریخ میں اس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔
تحریک عدم اعتماد سے چند روز قبل عمران خان نے اسلام آباد میں ایک جلسے میںکاغذ لہرا کر دعویٰ کیا تھا کہ یہ ایک بڑے ملک کی طرف سے ہے۔ انہوں نے پہلے امریکہ کا نام لیا پھر واپس لے لیا، اور کہا کہ یہ پاکستان کے خلاف دھمکیوں پر مشتمل خط ہے۔ یہ معاملہ قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں پیش ہوا، اور قومی سلامتی سے متعلق اداروں نے سازش کی تردید کی۔ مگر اب یہ بحث ایک نئے انداز میں سامنے آگئی ہے۔
عمران خان کے وزیراعظم بننے اور عدم اعتماد کی تحریک کے نتیجے میں اقتدار سے بے دخل کیے جانے کے بعد اتحادی حکومت کے قیام اور سیاسی راہنمائوں کی مقدمات سے بریت کے معاملات کا تجزیہ یہی ہے کہ ہائبرڈ نظام جاری ہے، اب کھلاڑی تبدیل ہورہے ہیں۔ ملک کاسیاسی منظر یکایک بدل رہا ہے، وزیراعظم شہبازشریف نے تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کو مفاہمت کی پیشکش کی ہے اور کہا ہے کہ ’’آئیں اختلافات بھلا دیں‘‘۔ وزیراعظم نے یہ بھی کہا کہ پی ٹی آئی حکومت جمہوری طریقے سے ختم کی گئی، بیرونی سازش کا اس میں کوئی عمل دخل نہیں تھا۔ مفاہمت کا آغاز اپنی غلطیوں کو تسلیم کرکے دوسرے کو غلطیاں نہ کرنے کا مشورہ دینے سے ہوتا ہے، حد سے زیادہ کشیدگی سیاست ہی نہیں قوم کو بھی برباد کردیتی ہے، مسائل کے حل تک پہنچنے کے لیے ضروری ہے کہ عام انتخابات، انسداد بد عنوانی، انتخابی اصلاحات اور معاشی اہداف پر اتفاق پیدا کیا جائے۔ مفاہمت کی پیشکش پر حکومت اور اپوزیشن کو ان نکات پر ایک دوسرے سے مکالمہ کرنا ہوگا۔
حکومت اور تحریک انصاف کے درمیان مفاہمت کی بات اپنی اصل کے اعتبار سے کس قدر گہری ہے، اس کا اندازہ کرنے کے لیے کچھ اداروں اور حکومت کی طرف سے مزید اشاروں کا انتظار کرنا پڑے گا۔ فی الحال یہ پیشکش ایک لمحاتی سیاسی بیان کے سوا کوئی حیثیت نہیں رکھتی، کیونکہ ایک جانب مفاہمت کی پیشکش اور دوسری جانب اسی روز وفاقی کابینہ کے اجلاس میں امریکی سائفر کی چوری کے معاملے کی تحقیقات کے لیے مشاورت ہوئی اور ایک تحقیقاتی کمیٹی بھی قائم کردی گئی۔
وفاقی کابینہ نے ایک سمری منظور کی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ قومی سلامتی کو توڑا گیا ہے۔ سائفر دراصل ڈونلڈ لَو کی پاکستانی سفیر کے ساتھ ہونے والی گفتگو ہے۔ عمران خان سائفر کا معاملہ نیشنل سیکورٹی کونسل کے اجلاس میں لے گئے تھے، اس کے بعد ہی امریکہ کو ڈی مارش کیا گیا تھا۔ دفترِ خارجہ نے واشنگٹن اور اسلام آباد میں اس کو ڈی مارش کیا تھا۔ ایسا کرتے ہوئے بھی یہ بات ذہن میں رکھی گئی کہ دو طرفہ تعلقات خراب نہ ہوں، ایسا کرنا غیر ملکی مداخلت پر اپنے ملک کا دفاع کرنے کے مترادف تھا۔ مراسلہ وزیر اعظم ہائوس سے غائب ہونے کے ذمے دار کون ہیں؟ جب کہ 22 اپریل کو شہبازشریف نے اس مراسلے کی حقیقت کو تسلیم کیا تھا، عمران خان خود بھی کہہ رہے ہیں کہ سائفر کی ایک کاپی اسپیکر قومی اسمبلی اور دوسری چیف جسٹس سپریم کورٹ کو بھیج دی تھی۔
اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر نے استعفیٰ دینے سے پہلے اسمبلی کے فلور پر کہا تھا کہ سائفر اُن کی خاص فائل میں موجود ہے، اگلا اسپیکر منتخب ہونے والا رکن اس پر مزید کارروائی کرنے یا نہ کرنے کا اختیار رکھتا ہے۔ اب جس سائفر کے غائب ہونے کی بات کی جارہی ہے وہ وزیراعظم کی فائل والی کاپی ہے، اگر یہ اہم دستاویز غائب ہوئی ہے تو اصولی بات یہی ہے کہ اس کی ذمہ داری کا تعین ہونا چاہیے۔ وزیراعظم ہائوس میں ہونے والی اہم گفتگو کی ٹیپس نامعلوم ہیکر انٹرنیٹ پر ڈال رہا ہے۔ ان ٹیپس کا مواد بتاتا ہے کہ ہیکر حکومتی اور اپوزیشن رہنمائوں کی اس گفتگو میں دلچسپی رکھتا ہے جس سے دونوں فریق ایک دوسرے کے خلاف لڑائی میں شدت لا سکتے ہیں۔ ابھی تک قومی سلامتی کے لیے خطرہ سمجھے جانے والا مواد سامنے نہیں آیا۔ ایسا ان بے آس آنکھوں نے کئی بار دیکھا ہے کہ کس طرح جمہوریت کو پٹری سے اتارنے کے لیے نظریۂ ضرورت کے تحت منتخب حکومتوں کی اکھاڑ پچھاڑ کی گئی۔
آڈیو لیکس ہمارے جاری سیاسی و معاشی بحران کے ساتھ ساتھ ہمارے معاشرتی بحران پر بھی جلتی پر تیل کا کام کررہی ہیں، اس کھیل میں ابھی سودوزیاں کے اور بھی مقامات آئیں گے۔ بات صرف لیکس کے ذریعے عوام کے سامنے آنے والی معلومات کی نہیں ہے، معاملہ یہ بھی نہیں ہے کہ وزیراعظم ہاؤس میں کس طرح نقب لگائی گئی اور پھر طویل ریکارڈنگز کو ڈارک ویب پر ڈال دیا گیا۔ اصل معاملہ اس سے اوپر کا ہے۔ ہم ان لیکس کو اپنے جاری اندرونی معاملات کے پس منظر میں دیکھ رہے ہیں لیکن بات اتنی سادہ نہیں ہے۔ لیکس کے ذریعے ایک بات تو ثابت ہو گئی ہے کہ یہ سازش ہے یا مہارت… بہرحال ایسا لگتا ہے کہ کوئی نہ کوئی اس کام میں ملوث ہے جس کے ذریعے معاشرے میں کشیدگی پھیلا کر پاکستان کو کمزور کرنا شامل ہے۔
عمران خان ایک عرصے سے ریاست اور مملکت کے مختلف شعبوں اور ان سے متعلق افراد پر حملہ آور ہیں،الیکشن کمیشن اور عدلیہ جیسے آئینی و پارلیمانی ادارے عمران خان کے ٹھیک ٹھیک نشانوں پر ہیں۔ آڈیو لیکس کے ذریعے تیسری قوت بھی متحرک ہوتی نظر آ رہی ہے۔ اس کے ذریعے ایسا تاثر پیدا ہوگیا ہے کہ وزیراعظم ہائوس جیسا اہم اور بڑا ادارہ ان کی دسترس میں ہے تو پھر کیا ہمارا ایٹمی پروگرام بھی ان کی دسترس میں نہیں آ سکتا! امریکی ایک عرصہ پہلے ایرانی نیوکلیئر پروگرام پر سائبر حملہ کر کے اسے ناکارہ بنا چکے ہیں۔ بات آگے بڑھتی ہوئی نظر آرہی ہے، آڈیو لیکس کو صرف سیاسی تناظر میں نہیں دیکھنا چاہیے، بلکہ اسے قومی سلامتی کے مسئلے کے طور پر لینا چاہیے۔ قومی سلامتی کونسل نے اجلاس کرکے اس حوالے سے ایک کمیٹی تشکیل دی ہے، دیکھتے ہیں اس کی تحقیقات کیا اخذ کرتی ہیں!
ہم بڑے سیاسی و معاشی بحران کا شکار ہیں۔ عمران خان کا دور منفی بیانات، ان کی ناکارکردگی اور نااہلی کی زد میں رہا۔ آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے پر دستخط کرکے ملک کی معیشت پر کاری ضرب لگائی گئی جس کے اثرات آج مہنگائی کی شکل میں سامنے ہیں۔ شہبازشریف کی حکومت نے آئی ایم ایف کے ساتھ ایک نئے معاہدے کے لیے اقدامات کیے ہیں ان کی تمام شرائط تسلیم کی ہیں۔ قدرِ زر میں گراوٹ کے باعث مہنگائی کا ایک طوفان ہے کہ عوام بلبلا اٹھے ہیں۔عوام نے کڑوی نہیں بلکہ مہنگائی کی زہریلی گولی بھی نگل لی لیکن معاملات میں بہتری نظر نہیں آئی۔ ایسے میں اسحاق ڈار کو میدان میں اتارنے کا فیصلہ ہوا ہے۔معیشت کو سنبھالنے کے لیے پچھلے چار برسوں میں چھ وزرائے خزانہ آ چکے ہیں۔ڈالر کے نرخ تھوڑے سے کم ہوئے ہیں لیکن یہ عارضی انتظام نظر آتا ہے۔ پی ڈی ایم نے عمران حکومت کے خلاف سب سے بڑا مقدمہ مہنگائی میں اضافے کو بنایا تھا۔پچھلے چار ماہ میں ملک نے جو مہنگائی دیکھی ہے اس کی نظیر 75برس میں نہیں ملتی۔ پی ڈی ایم حکومت کے متعلق یہ عام تاثر پایا جاتا ہے کہ اس نے اب تک اپنے رہنمائوں کے خلاف مقدمات کے خاتمے کے سوا کوئی کام نہیں کیا، اسحق ڈار واپس آگئے ہیں اور کابینہ کا حصہ بھی بن گئے ہیں مگر اُن کا دل نوازشریف کے لیے ہی دھڑکے گا۔ نوازشریف نے اپنی واپسی کے لیے بڑا کھیل کھیلا ہے، نوازشریف کی واپسی اب رک نہیں سکتی، چند دنوں تک مریم نواز بھی لندن چلی جائیں گی، اور اپنے والد کے ساتھ وطن واپس آئیں گی۔ ان کی واپسی کے ساتھ ہی پاناما کیس کا والیم دس بھی دفن ہوجائے گا۔
ملک میں دوسری بڑی سیاسی پیش رفت ایوان فیلڈ ریفرنس پر اسلام آباد ہائی کورٹ کا فیصلہ ہے۔مریم نواز کی ایوان فیلڈ ریفرنس میں بریت مسلم لیگ(ن)کےلیے بہت بڑی رعایت ہے۔ اب اسے یقین ہورہا ہے کہ نوازشریف بھی وطن واپس آجائیں گے، جس کے لیے کم از کم اگلے سال مارچ اپریل تک انتظار کرنا ہوگا۔اس کامیابی کے پیچھے شہبازشریف کا ہاتھ، حکمت عملی اور فہم و فراست ہے۔ یہ آزمائش نوازشریف کے اقتدار سے بے دخل کیے جانے سے شروع ہوئی تھی، نوازشریف اور مریم کو قید کی سزا کے وقت آزمائش اپنے عروج پر تھی،لیکن عمران خان کی ناقص کارکردگی کی وجہ سے ’’احتساب‘‘ کا پہلے شہبازشریف، ان کے بعد حمزہ شہباز، شاہد خاقان عباسی، خواجہ سعد رفیق، خواجہ آصف اور احسن اقبال سمیت دیگر کو ریلیف ملنا شروع ہوا، جس کا ایک سبب مفاہمت کی سیاست بھی تھی۔
یہ عمل آزاد کشمیر کے انتخابات کے بعد شروع کیا گیا تھا۔ اگر نوازشریف پارٹی راہنمائوں کا مشورہ تسلیم نہ کرتے اور اپنی والدہ کے حکم پر بیرون ملک جانے پر آمادہ نہ ہوتے تو انہیں ریلیف نہ ملتا عمران خان پراجیکٹ نے بدترین کارکردگی کے باعث اپنے ہی خالقوں کا ناک میں دم کررکھا تھا۔ عمران خان کو لانے والوں کے پاس دو آپشن تھے، پہلا یہ کہ سب کو چلتا کیا جائے اور نظام خود سنبھال لیا جائے، دوسرا آپشن عدم اعتماد کی تحریک کا تھا، لہٰذا دوسرا آپشن اختیار کیا گیا۔ نوازشریف آج ماضی کی نسبت سیاسی لحاظ سے کہیں زیادہ مضبوط ہیں شہبازشریف نے اپنی سیاست بھی بچائی، اور اپنے خاندان کی سیاسی کشتی کو بھی بھنور سے نکال کر ساحل پر لائے ہیں۔
شہبازشریف کو وزیراعظم بن جانے پر تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا، لیکن وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہوئے ہیں، وہ ایک ایسے ماحول سے باہر نکلے ہیں جہاں وہ خود سمجھتے تھے کہ عمران خان حکومت نے اپوزیشن کو دیوار سے لگایا ہی نہیں بلکہ دیوار میں چن دیا تھا، اپوزیشن کے لیے عمران خان اس قدر سخت تھے کہ ساڑھے تین سال پارلیمنٹ میں ایک لمحے کے لیے بھی اپوزیشن کی جانب ہاتھ نہیں بڑھایا بلکہ ناکام حکمت عملی پر شہزاد اکبر کو برے طریقے سے برطرف کیا۔ حالات اس قدر بدل گئے ہیں کہ جہاں کبھی شریف فیملی کھڑی تھی آج وہاں عمران خان کھڑے ہیں، ایک مقدمے میں ضمانت کراتے ہیں تو دوسرا وارنٹ گرفتاری انہیں تھما دیا جاتا ہے، آڈیو لیکس ان کے لیے ایک الگ مشکل بن رہی ہیں، اب ملک کی باگ ڈور کے لیے ایک نئے نظام کی بنیاد رکھی جانے لگی ہے۔ پاکستان میں ایک مستحکم جمہوریت، عوام کی ترقی اور فلاح و بہبود کے لیے ضروری ہے کہ سیاسی جماعتیں خود احتسابی کریں، خاندان کے دائروں سے باہر نکل کر سوچیں، جن سیاسی جماعتوں کی قیادت موروثی نہیں ہے انہیں بھی اپنا بیانیہ جمہور کی ترقی اوّلین ترجیح بنا کر مرتب کرنا چاہیے، اپنے حق میں جس قدر اچھی مارکیٹنگ کریں گی اسی قدر انہیں پذیرائی ملے گی۔