حمدوصلوٰۃ کے بعد برادران اسلام! ماہ ربیع الاول ہم پر سایہ فگن ہے، اللہ کے رسول آخری نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں آپ کی سیرت میں ربیع الاول کے مہینے کو نمایاں مقام حاصل ہے، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت مبارکہ بھی اسی مہینے میں ہوئی، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت کا سفر بھی اسی مہینے میں مکمل ہوا، یعنی مدینہ منورہ میں آمد ہوئی گویا اسی مہینے میں پہلی اسلامی ریاست کا قیام عمل میںآیا اور اسی مہینے میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی تو اس مہینے کا اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کا بڑا مقام ہے۔ جس طرح سے رمضان کا مہینہ قرآن کا مہینہ ہے اور رمضان کے مہینے میں قرآن نازل ہوا اس لئے وہ قرآن کا مہینہ ہے ۔اسی طرح سے ربیع الاول کا مہینہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا مہینہ ہے، اس مہینے میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر تازہ ہوتا ہے اور خوب تازہ ہوتا ہے خوب بڑھتا ہے اس میں ایک نقطے کی بات یہ ہے کہ اگر آپ بارہ مہینے کا ایک دائرہ بنائیں تو اس دائرے میں رمضان کا مہینہ جہاں پر ہے اس کے بالکل مقابل میں ربیع الاول کا مہینہ آتا ہے رمضان کے مہینے میں ہم قرآن مجید کو یاد کرتے ہیں، قرآن مجید سے تعلق کو بڑھاتے ہیں اور اس سے پھر ٹھیک چھے مہینے کے بعد ربیع الاول کا مہینہ آتا ہے جس میں اللہ تعالیٰ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو کثرت سے یاد کرتے ہیں اور اس کے بعد پھر ٹھیک چھے مہینے کے بعد رمضان کا مہینہ آتا ہے، قرآن سے ہمارا تعلق اور زیادہ مضبوط کرنے کیلئے یعنی چھے مہینے قرآن سے تعلق اور چھے مہینے پر رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے تعلق مضبوط کرنے کا موقع حاصل ہوتا ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ قرآن سے تعلق صرف رمضان کے مہینے میں رہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے تعلق صرف ربیع الاول کے مہینے میں رہے ۔بلکہ اللہ تعالیٰ نے ایسا زبردست انتظام کیا ہے روزانہ یعنی سال کے ہر دن کئی مرتبہ قرآن اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی یاد تازہ ہوتی رہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کا انتظام ہے، چنانچہ دن میں پانچ مرتبہ اذان ہوتی ہے جس میں اللہ کی توحید کے اعلان کے ساتھ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کا اعلان ہوتا ہے اور پھر نماز میں جب ہم نماز مکمل کرتے ہیں نماز شروع کرتے ہیں تو قرآن مجید کی تلاوت سے قرآن مجید کی یاد تازہ کرتے ہیں قرآن مجید سے اپنے تعلق کو تازہ کرتے ہیں اور جب نماز کا اختتام کررہے ہوتے ہیں تو پھر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر سلام ان کی رسالت کی شہادت اور ان پر درود بھیجتے ہوئے نماز مکمل کرتے ہیں، دن میں پانچ وقت پڑھی جانے والی ہر نماز اور پھر باقی جتنی نمازیں آپ کو پڑھنے کی توفیق ملتی ہے ان میں ہر نماز قرآن مجید سے ہم آہنگ اور ہمارے تعلق کو یاد دلاتی ہے، اور ہر نماز اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے ہمارے تعلق کی یاد دلاتی اور تازہ کرتی ہے، گویا کہ جو اللہ تعالیٰ کاایک وہ انتظام ہے جس میں روزانہ دن میں کئی مرتبہ ہمارے قرآن سے تعلق کی تجدید ہوتی ہے اور ہمارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے تعلق کی تجدید ہوتی ہے، البتہ جیسا کہ حقیقت ہے کہ خاص مواقع پر خاص چیزیں بہت زیادہ یاد آتی ہیں تو رمضان کے مہینے میں قرآن مجید زیادہ یاد آتا ہے اور ربیع الاول کے مہینے میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی یاد زیادہ آتی ہے تو جب ماہ ربیع الاول ماہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم قرار پایا تو اس کا سب سے بڑا تقاضا ہے وہ یہ ہے کہ اس مہینے میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت سے ہمارا تعلق ہمارا لگائو بہت مضبوط ہوجانا چاہئے، اس کا ایک طاقت ور اظہار ہونا چاہئے اور اسی طرح سے سنت کی جو ضد ہے یعنی بدعت ان بدعات سے ہماری بے زاری اور جن باتوں کو اللہ کے رسولؐ نے ناپسند کیا ہے ان سے ہمارا نفور ہماری نفرت کھل کر سامنے آنی چاہئے یہ اس مہینے کا تقاضا ہے۔ اس مہینے کا تقاضا تو یہ ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتوں کی جستجو کی جائے ان سے تعلق کی تجدید کی جائے اور ان سے اپنے تعلق کو مضبوط کیا جائے اور بدعتوں سے برات کا بے زاری کا اعلان کیا جائے کیوں جب ایک سنت جہاںایک بدعت داخل ہوتی ہے وہاں سے ایک سنت اڑ جاتی ہے، یہ اصولی بات ہے۔ حضرات جب ہم یہ کہتے ہیں کہ اس مہینے میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتوں سے ہمارا تعلق مضبوط ہونا چاہئے تو اس کا کیا مطلب ہے۔ امت کا، امت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے اس وقت کیا تعلق ہے۔ اس کا صحیح جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ حقیقت یہ کہ ہم نے سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنے تعلق کو بہت محدود کردیا ہے، سنت کے تصور ہی بہت سیکڑ کے رکھ دیا ۔ وہ حقیقی سنتیں نہیں ہیں جن کے لئے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث ہوئے تھے، جو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا مشن تھا جو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا امتیاز تھا۔ وہ سنتیں نہیں ہوتی ہیں جن سے زندگی بدل جاتی ہے وہ سنتیں نہیں ہوتی ہیں بلکہ وہ سنتیں ہیں جن کی دین میں بہت ہی فروعی درجے کی مائنر درجے کی اہمیت ہے، اس پوری امت نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی عظیم ترین سنتوں سے غفلت برتنے پر اتفاق کرلیا ہے اگر امت کا اتحاد ہے کسی بات پر کسی اتفاق ہے کسی بات پر عملاً تو وہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی عظیم ترین سنتوں سے غفلت برتنے پر ہے، وہ عظیم ترین سنتیں کیا ہیں وہ ہیں جو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اصل پہچان ہیں جنہیں قرآن مجید میں محفوظ کردیا گیا ہے، جن کو جاری کرنے کے لئے جن کو پیش کرنے کے لئے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اس دنیا میں تشریف لائے تھے، چنانچہ قرآن مجید بتاتا ہے، قرآن مجید کہتا ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتوں کو بیان کرتے ہوئے کہا ہے کہ آپ خلق عظیم، عظیم اخلاق کے حامل ہیں، عظیم اخلاق کا پیکر ہیں، آپ مجھے بتایئے کیا امت مسلمہ میں کوئی ایسا فرقہ ہے، کوئی ایسا مسلک ہے، کوئی ایسا علاقہ ہے، کوئی ایسا محلہ ہے، کوئی ایسی چھوٹی سی آبادی ہے، کوئی ایسا خاندان ہے جس نے یہ فیصلہ کرلیا ہو کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی جو سنت ہے وانک علیٰ خلق عظیم یہ ہماری پہچان بنے گی، کوئی مسلم بازار ایسا ہو جس میں لوگ طے کرلیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم صادق اور امین تھے تو یہ بازار صدق و امانت کا نمونہ پیش کرے گا، صدق و امانت کے سچائی اور امانت داری دیانت داری کے معاملے میں کیا مسلمانوں کے بازاروں میں اور غیر مسلموں کے بازاروں میں کوئی فرق پایا جاتا ہے تو یہ ہے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے عظیم سنت کے ساتھ ہمارا تعامل کوئی ایک فرد طے کرے کہ وہ اس مہینے میں وانک خلق عظیم یہ میری زندگی کا شعار بن جائے گا میں سنت کے ساتھ اپنے تعلق کو قائم کرنے کے لئے بہترین اخلاق کے ساتھ پیش آئوں گا، انفرادی اخلاق اجتماعی اخلاق اسی طرح اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک عظیم سنت جسے قرآن مجید میں فرمایا گیاکہ وماارسلناک الارحمتہ اللعالمینؐ ہم نے سارے انسانوں کے لئے آپ کو رحمت بناکربھیجا ہے، رحمت انسانوں کے لئے رحمت بڑے چھوٹوں کے لئے رحمت بن جائیں شوہر بیوی کے لئے بیوی شوہر کے لئے رحمت بن جائے باپ اپنے بچوں کے لئے رحمت بن جائے، بچے اپنے بوڑھے بزرگوں کے لئے رحمت بن جائیں، لوگ اپنے پڑوسیوں کے لئے رحمت بن جائیں، طاقتور کمزوروں کے لئے رحمت بن جائیں، دولت مند غریبوں کے لئے رحمت بن جائیں، ایک رحمت کا ماحول ہو ہر ایک دوسرے پر ایک ایک رحمت کا سایہ کرنے کے لئے تیار ہوجائے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رحمت اللعالمین تھے تو ان کی امت تو اس امت کو بھی رحمت اللعالمین ہونا چاہئے۔ امت کے ہر فرد کو رحمت اللعالمین ہونا چاہئے اسی طرح اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اور سنت وہ انسانوں کے لئے دردمندی انسانوں کے لے وہ فکر مندی کہ ان کو ہدایت حاصل ہوجائے، انسانوں کی ہدایت کے لئے آپ کے اصطراب اور بے چینی کو قرآن نے اس طرح بیان کیا ہے کہ ایسا محسوس ہوتا ہے آپ اپنے آپ کو ہلاک کرلیں گے ان کے پیچھے اس غم میں کہ وہ ایمان نہیں لاتے تو یہ فکرمندی یہ درمندی انسانوں کے لئے کہ انسان ہلاکت کے طرف بھاگے جارہے ہیں تباہی کی طرف جارہے ہیں اپنی دنیا برباد کررہے ہیں اپنی آخرت تباہ کررہے ہیں۔ بچائو ان کو، سمجھائو ان کو ،ان کو ہدایت پہنچائو تو یہ فکر مندی اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی عظیم سنت ہے اس سنت کو اختیار کرنے کا فیصلہ کرنا چاہئے اسی طرح سے ایک سنت کا تذکرہ ہے قرآن مجید میں فرمایا یہ اللہ کی رحمت تھی آپ کے اوپر کہ آپ ان کے لئے نرم ہوگئے نرم مزاج ہوگئے مزاج کی نرمی یہ بھی ایک عظیم سنت ہے ہم لوگوں کے ساتھ کس طرح سے گفتگو کرتے ہیں لوگوں کے ساتھ ہمارا معاملہ نرمی والا ہوتا ہے یا سختی والا ہوتا ہے، صورت حال یہ ہے کہ ایک چھوٹی سنت کی طرف متوجہ کرنے کے لئے آدمی اس بڑی سنت کو یعنی نرم مزاجی کو پامال کردیتا ہے۔ سختی جوہمارے مزاجوں میں ہے، خشونت جو گفتگو میں ظاہر ہوتی ہے جو تعلقات میں ظاہر ہوتی ہے جو لوگوں کے ساتھ نصیحت کرتے ہوئے ظاہر ہوتی ہے، جو ہماری دعوت و تبلیغ میں ظاہر ہوتی ہے، جو ہماری تعلیم میں ظاہر ہوتی ہے، اس سختی سے چھٹکارا پانا اور نرمی کو اپنے مزاج میں داخل کرلینا کہ ہم جب کسی کو سمجھائیں تو دل سوزی سے سمجھائیں، نرمی سے سمجھائیں اس کے دل میں بات اتر جائے۔ تو حضرات یہ جو میںنے کچھ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بڑی سنتوں کا تذکرہ کیا ہے یہ وہ سنتیں ہیں جن سے غفلت پائی جاتی ہے، امت مسلمہ ان سے دور ہے مسلمانوں کی زندگیوں میں وہ نظر نہیں آتی ہیں تو آج ضرورت اس بات کی ہے اس ماہ ربیع الاول میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنے تعلق کی تجدید کرتے ہوئے ہم یہ فیصلہ کریں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کا جو مشن تھا وہ مشن ہماری زندگی کا ہوگا اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا جو کردار تھا ہم وہ کردار اختیار کریں گے، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے نمونہ پیش کیا وہ نمونہ ہم پیش کریں گے، ہماری زندگی پرکشش ہوجائے ہماری زندگی لوگوں کے لئے خوب صورت ہوجائے، ہماری زندگی لوگوں کے لئے جاذب نظر ہوجائے مؤثر ہوجائے پر اثر ہو جائے جس طرح سے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی آپ کی حیات مبارکہ آپ کی سیرت طیبہ ایک روشن چاند کی طرح سے تھی کہ جس کو دیکھ کے دل نہیں بھرتا تھا کہ جس سے روشنی حاصل ہوتی تھی اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق دے کہ ہم سچے محب رسول سچے متبع رسول اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حقیقی امتی بنیں ان کے نقش قدم پر آپ کے نقش قدم پر آپ کے راستے پر چلنے والے بنیں، ہماری زندگی کا مقصد، ہماری زندگی کا مشن، ہماری زندگی کا انداز، ہمارا لائف اسٹائل، ہماری زندگی کے سارے طریقے ویسے ہی ہوجائیں جیسے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے سکھائے تھے اور کرکے دکھائے تھے اللہ رب العزت ہمیں اس کی توفیق دے۔