مذہب اور تہذیب و تمدن

حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :
”کسی جوان نے کسی بوڑھے کی تعظیم اس کے بڑھاپے کے سبب نہیں کی مگر یہ کہ اللہ تعالیٰ اس کے لیے ایک ایسا شخص مقرر کرے گا جو بڑھاپے کے وقت اس کی تعظیم کرے گا۔“
(جامع ترمذی، جلد اول باب البروالصلۃ:2022)

محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے پہلے دنیا میں مذہب کا عام تصور یہ تھا کہ زندگی کے بہت سے شعبوں میں سے یہ بھی ایک شعبہ ہے۔ یا دوسرے الفاظ میں یہ انسان کی دنیوی زندگی کے ساتھ ایک ضمیمے کی حیثیت رکھتا ہے تاکہ بعد کی زندگی میں نجات کے لیے ایک سرٹیفکیٹ کے طور پر کام آئے۔ اس کا تعلق کلیتاً صرف اس رشتے سے ہے جو انسان اور اس کے معبود کے درمیان ہے۔ جس شخص کو نجات کے بلند مرتبے حاصل کرنے ہوں، اس کے لیے تو ضروری ہے کہ دنیوی زندگی کے تمام دوسرے شعبوں سے بے تعلق ہوکر صرف اسی ایک شعبے کا ہوجائے، مگر جس کو اتنے بڑے مراتب مطلوب نہ ہوں بلکہ محض نجات مطلوب ہو اور اس کے ساتھ یہ خواہش بھی ہو کہ معبود اس پر نظر عنایت رکھے اور اسے دنیوی معاملات میں برکت عطا کرتا رہے، اس کے لیے بس اتنا کافی ہے کہ اپنی دنیوی زندگی کے ساتھ اس ضمیمے کو بھی لگائے رکھے۔ دنیا کے سارے کام اپنے ڈھنگ پر چلتے رہیں اور ان کے ساتھ ساتھ چند مذہبی رسموں کو ادا کرکے معبود کو بھی خوش کیا جاتا رہے۔ انسان کا تعلق خود اپنے نفس سے، اپنے ابنائے نوع سے، اپنے گرد و پیش کی ساری دنیا سے ایک الگ چیز ہے، اور اس کا تعلق اپنے معبود سے ایک دوسری چیز ہے۔ ان دونوں کے درمیان کوئی ربط نہیں ہے۔

یہ جاہلیت کا تصور تھا اور اس کی بنیاد پر کسی انسانی تہذیب و تمدن کی عمارت قائم نہ ہوسکتی تھی۔ تہذیب و تمدن کے معنی انسان کی پوری زندگی کے ہیں، اور جو چیز انسان کی زندگی کا محض ایک ضمیمہ ہو، اس پر پوری زندگی کی عمارت، ظاہر ہے کہ کسی طرح قائم نہیں ہوسکتی۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا میں ہر جگہ مذہب اور تہذیب و تمدن ہمیشہ ایک دوسرے سے الگ رہے۔ ان دونوں نے ایک دوسرے پر تھوڑا یا بہت اثر ضرور ڈالا، مگر یہ اثر اس قسم کا تھا جو مختلف اور متضاد چیزوں کے یکجا ہونے سے مترتب ہوتا ہے۔ اس لیے یہ اثر کہیں بھی مفید نہیں نظر آتا۔ مذہب نے تہذیب و تمدن پر جب اثر ڈالا تو اس میں رہبانیت، مادی علائق سے نفرت، لذاتِ دنیوی سے کراہت، عالمِ اسباب سے بے تعلقی، انسانی تعلقات میں انفرادیت، تنافر اور تعصب کے عناصر داخل کردیے۔ یہ اثر کسی معنی میں بھی ترقی پرور نہ تھا بلکہ دنیوی ترقی کی راہ میں انسان کے لیے ایک سنگِ گراں تھا۔ دوسری طرف تہذیب و تمدن نے جس کی بنیاد سراسر مادیت اور خواہشاتِ نفس کے اتباع پر قائم تھی، مذہب پر جب کبھی اثر ڈالا، اس کو گندہ کردیا۔ اس نے مذہب میں نفس پرستی کی ساری نجاستیں داخل کردیں، اور اس سے ہمشہ یہ فائدہ اٹھانے کی کوشش کی کہ ہر اس گندی سے گندی اور بدتر سے بدتر چیز کو جسے نفس حاصل کرنا چاہے، مذہبی تقدس کا جامہ پہنادیا جائے، تاکہ نہ خود اپنا ضمیر ملامت کرے، نہ کوئی دوسرا اس کے خلاف کچھ کہہ سکے۔ اسی چیز کا اثر ہے کہ بعض مذاہب کی عبادتوں تک میں ہم کو لذت پرستی اور بے حیائی کے ایسے طریقے ملتے ہیں جن کو مذہبی دائرے کے باہر خود ان مذاہب کے پیرو بھی بداخلاقی سے تعبیر کرتے ہیں۔

مذہب اور تہذیب کے اس تعامل سے قطع نظر کرکے دیکھا جائے تو یہ حقیقت بالکل نمایاں نظر آتی ہے کہ دنیا میں ہر جگہ تہذیب و تمدن کی عمارت غیر مذہبی اور غیر اخلاقی بنیادوں پر قائم ہوئی ہے۔

سچے مذہبی لوگ اپنی نجات کی فکر میں دنیا سے الگ رہے، اور دنیا کے معاملات کو دنیا والوں نے اپنی خواہشاتِ نفس اور اپنے ناقص تجربات کی بنا پر… جن کو ہر زمانے میں کامل سمجھا گیا اور ہر زمانہ مابعد میں ناقص ہی ثابت ہوئے… جس طرح چاہا چلایا اور اس کے ساتھ اگر ضرورت سمجھی تو اپنے معبود کو خوش کرنے کے لیے کچھ مذہبی رسمیں بھی ادا کرلیں۔ مذہب چونکہ ان کے لیے محض زندگی کا ایک ضمیمہ تھا، اس لیے اگر وہ ساتھ رہا بھی تو محض ایک ضمیمے ہی کی حیثیت سے رہا۔ ہر قسم کے سیاسی ظلم و ستم، ہر قسم کی معاشی بے انصافیوں، ہر قسم کی معاشرتی بے اعتدالیوں اور ہر قسم کی تمدنی کج راہیوں کے ساتھ یہ ضمیمہ منسلک ہوسکتا تھا۔ اس نے ٹھگی اور قزاقی کا بھی ساتھ دیا، جہاں سوزی اور غارت گری کا بھی، سود خواری اور قارونیت کا بھی، فحش کاری اور قحبہ گری کا بھی۔

محمد صلی اللہ علیہ وسلم جس غرض کے لیے بھیجے گئے، وہ اس کے سوا کچھ نہ تھی کہ مذہب کے اس جاہلی تصور کو مٹاکر ایک عقلی و فطری تصور پیش کریں، اور صرف پیش ہی نہ کریں بلکہ اسی کی اساس پر تہذیب و تمدن کا ایک مکمل نظام قائم کرکے اور کامیابی کے ساتھ چلاکر دکھادیں۔ آپؐ نے بتایا کہ مذہب قطعاً بے معنی ہے اگر وہ انسان کی زندگی کا محض ایک شعبہ یا ضمیمہ ہے۔ ایسی چیزوں کو دین و مذہب کے نام سے موسوم کرنا ہی غلط ہے۔ حقیقت میں دین وہ ہے جو زندگی کا ایک جزو نہیں بلکہ تمام زندگی ہو۔ زندگی کی روح اور اس کی قوتِ محرکہ ہو۔ فہم و شعور اور فکر و نظر ہو۔ صحیح و غلط میں امتیاز کرنے والی کسوٹی ہو۔ زندگی کے ہر میدان میں ہر ہر قدم پر راہِ راست اور راہِ کج کے درمیان فرق کرکے دکھائے، راہِ کج سے بچائے، راہِ راست پر استقامت اور پیش قدمی کی طاقت بخشے اور زندگی کے اس لامتناہی سفر میں، جو دنیا سے لے کر آخرت تک مسلسل چلا جارہا ہے، انسان کو ہر مرحلے سے کامیابی و سعادت کے ساتھ گزارے۔

اسی مذہب کا نام اسلام ہے۔ یہ زندگی کا ضمیمہ بننے کے لیے نہیں آیا ہے، بلکہ اس کے آنے کا مقصد ہی فوت ہوجاتا ہے اگر اس کو بھی پرانے جاہلی تصور کے تحت ایک ضمیمہ زندگی قرار دیا جائے۔ یہ جس قدر خدا اور انسان کے تعلق سے بحث کرتا ہے، اسی قدر انسان اور انسان کے تعلق سے بھی کرتا ہے، اور اسی قدر انسان اور ساری کائنات کے تعلق سے بھی۔ اس کے آنے کا اصل مقصد انسان کو اس حقیقت سے آگاہ کرنا ہے کہ تعلقات کے یہ شعبے الگ اور ایک دوسرے سے مختلف و بیگانہ نہیں ہیں، بلکہ ایک مجموعے کے مربوط اور مرتب اجزا ہیں۔ اور ان کی صحیح ترکیب ہی پر انسان کی فلاح کا مدار ہے۔ انسان اور کائنات کا تعلق درست نہیں ہوسکتا، جب تک کہ انسان اور خدا کا تعلق درست نہ ہو۔ اسی طرح انسان اور خدا کا تعلق بھی درست نہیں ہوسکتا جب تک کہ انسان اور کائنات کا تعلق درست نہ ہو۔ پس یہ دونوں تعلق ایک دوسرے کی تکمیل و تصحیح کرتے ہیں، دونوں مل کر ایک کامیاب زندگی بناتے ہیں، اور مذہب کا اصل کام اسی کامیاب زندگی کے لیے انسان کو ذہنی و عملی حیثیت سے تیار کرنا ہے۔ جو مذہب یہ کام نہیں کرتا، وہ مذہب ہی نہیں ہے۔ اور جو اس کام کو انجام دیتا ہے، وہی اسلام ہے۔ اسی لیے فرمایا گیا کہ اِنَّ الدِّیْنَ عِنْدَ اللّٰهِ الْاِسْلَامُ۫۔ اللہ کے نزدیک دین صرف اسلام ہے۔