ممتاز محقق و مصنف برادرم سید ایاز محمود صاحب نے پچھلا، یعنی ’’حشو‘‘ والا کالم پڑھ کر ہمیں متوجہ فرمایا:
’’جناب! لفظ ’کفو‘ کا درست تلفظ بھی آپ کی توجہ کا طلب گار ہے جو بوقتِ نکاح برابری یا ہم پلہ ہونے کے مفہوم میں آتا ہے‘‘۔
گو کہ لفظ ’کفو‘ کے تلفظ نے خود اپنی دُرستی کی دست بستہ درخواست نہیں کی، مگر سید صاحب نے صحیح فرمایا۔ نکاح خواں حضرات کو بوقتِ نکاح بسا اوقات بڑے زوروں کی تقریر آنے لگتی ہے۔ سوعربی خطبے کے ’اما بعد‘ اُردو میں بھی خطاب کردیتے ہیں۔ اُردو خطاب میں ’کفو‘ کا تلفظ کبھی ’رَفو‘ کے وزن پر ’کَفُو‘ کرنے لگتے ہیں اور کبھی مہربانی فرماکر ’ک‘ پر پیش ڈال دیتے ہیں۔ پھربھی بچے کھچے ’فو‘ کا تلفظ ’تُھو‘ کرنے سے باز نہیں آتے۔ ’کُفْوْ‘ کے کاف پر پیش ہے، ’ف‘ اور ’و‘ دونوں ساکن ہیں۔ مگر نکاح پڑھانے والوں کوکون پڑھائے؟ تاہم منکوحین قطعاً پریشان نہ ہوں۔ اپنے اپنے عقد پر اعتقاد رکھیں۔ غلط تلفظ کے باوجود یہ ستم گر عقد منعقد ہوہی جاتا ہے۔
’کفو‘ کے لغوی معنی ہیں مماثل، نظیر، ہم سر، برابرکا، اپنے جوڑ کا، یا ایک جیسا ہونا، ایک نسل یا ایک قبیلے سے تعلق رکھنا۔ عربی میں اس کی جمع ’کفاۃ‘ ہے۔ ’کفاۃ‘ کا لفظ ایک تو کھجور کی اُس پوری پیداوار کے لیے استعمال ہوتا ہے جو ایک ہی سال میں ہوئی ہو، پھر اونٹ کے اُن بچوں کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے جن کا سنہ پیدائش ایک ہی ہو، نیز کھیت یا باغات کی اُس فصل کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے جو اُسی سال کی ہو۔ اصطلاحاً ’کفو‘ کا لفظ حسب نسب، مقام، منصب اور مرتبے کے اعتبار سے برابر ہونے کے معنی دیتا ہے۔
سورۃ الاخلاص میں جو فرمایا گیا ہے کہ اللہ کا کوئی ’کفو‘ نہیں ہے تو اس کا بہت دلچسپ پس منظر ہے۔ آپ نے اپنے ہاں بھی دیکھا ہوگا کہ دو انجان آدمی جان پہچان پیدا کرنا چاہیں تو ان میں کچھ اس قسم کے مکالمات ہوتے ہیں: ’’آپ کی تعریف؟‘‘
’’اَجی! میری کیا تعریف؟ تعریف اُس خدا کی جس نے ’مجھے‘ بنایا۔ ورنہ میں بھلا تعریف کے قابل تھا؟‘‘
یوں تھوڑی بہت ’من و تُو‘ کے بعد دونوں میں رسمی تعارف ہوجاتا ہے۔ لیکن عرب محض رسمی تعارف پر اکتفا نہیں کرتے تھے۔ اجنبی کا حَسَب نَسَب بھی چھان لیتے تھے۔ کس کا بیٹا ہے، کس کا باپ ہے اور کس قوم یا کس قبیلے سے تعلق رکھتا ہے۔کسی کا تعارف مطلوب ہوتا توکہا کرتے : ’’اِنْسِبْ لَنَا‘‘۔ ہمیں اپنا حسب نسب بتاؤ۔ مشرکینِ مکہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے جاننا چاہا کہ آپؐ کا رب کون ہے اور کیسا ہے، تو یہی کہا۔
سورۃ الاخلاص کی شانِ نزول کے متعلق طبرانی نے حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہٗ سے روایت کی ہے کہ قریش کے لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم سے کہا کہ ’’اِنْسِبْ لَنَا رَبَّکَ‘‘ ہمیں اپنے رب کا حسب نسب بتائیے۔ اس پر یہ سورۃ نازل ہوئی۔
حسب نسب تو اُن کا ہوتا ہے جن کے ماں باپ ہوں، آل اولاد ہو، قوم اور قبیلہ ہو۔ اُس وقت کعبہ میں جو تین سو ساٹھ معبود دھرے ہوئے تھے، قریش شاید سب کا حسب نسب بتا سکتے ہوں، تب ہی تو انھوں نے ’نئے رب‘ کا بھی حسب نسب جاننا چاہا۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیبؐ کے ذریعے سے مطلوبہ تعارُف یوں کروایا: ’’آپ فرما دیجیے کہ وہ اللہ ہے، اکیلا۔ اللہ کسی کا محتاج نہیں، سب اُس کے محتاج ہیں۔ نہ اس کی کوئی اولاد ہے، نہ وہ کسی کی اولاد ہے۔ کوئی اس کے جوڑ کا نہیں‘‘۔
اس تعارف میں پہلی بات یہ کہلوائی گئی کہ میرا رب کوئی ’نیا رب‘ نہیں ہے ’’ھُوَاللّٰہ‘‘ وہ اللہ ہے جسے تم پہلے سے جانتے ہو۔ دوسری بات یہ کہ وہ اپنی ذات میں ’اکیلا‘ ہے۔ تیسری بات یہ کہ تمھاری طرح وہ آبا واجداد، قوم، قبیلے اور آل اولاد سمیت کسی کی مدد، معاونت، شراکت یا حمایت کا ضرورت مند نہیں۔ وہ بے نیاز ہے، کسی کا نیازمند نہیں۔ سب اُسی کے محتاج اور ضرورت مند ہیں۔ چوتھی بات یہ کہ وہ کسی کی اولاد ہے نہ اُس کی کوئی اولاد ہے کہ تمھیں اس کا حسب نسب بتایا جائے۔ اور پانچویں بات یہ کہ ایسا نہیں ہے کہ وہ خداؤں کی کسی نسل، کسی قوم یا کسی قبیلے سے تعلق رکھتا ہو اور اس کے جیسے اور بھی پائے جاتے ہوں۔ کوئی اس کا ہم سر نہیں، کوئی اس کے ہم پلہ نہیں، کوئی اس کا ساتھی اور سانجھی نہیں، کوئی اس کے برابر کا نہیں اور کوئی اُس کے جوڑ کا نہیں۔ اُس کے مثل کوئی چیز نہیں۔ اس کا کوئی’کفو‘ نہیں۔
’رموزِ بے خودی‘ میں اقبالؔ کہتے ہیں کہ لَمْ یَکُنْ لَّہٗ کُفُواً اَحَد پر ایمان رکھنے والوں کو دنیا میں یکتا اوربے ہمتا ہونا چاہیے:
رشتۂ با لَمْ یَکُنْ باید قوی تا تُو در اقوام بے ہمتا شوی
(اللہ تعالیٰ کی اس صفت سے کہ ’اُس کا کوئی ہم سر نہیں‘ تمھارا تعلق اتنا مضبوط ہونا چاہیے کہ تم بھی اقوامِ عالم میں بے مثل و بے نظیر ہوجاؤ)
شعرائے کرام ’کفو‘ کا بہت خیال رکھتے ہیں۔ اکثر مشاعروں میں مناقشہ ہوجاتا ہے۔ شاعرؔ لکھنوی بھی اپنا ’کفو‘ پوچھتے پھرتے تھے:
ہر میعارِ قامتِ فن کا ایک تناسب ہوتا ہے مجھ سے بڑے تو سب ہیں لیکن میرے برابر کتنے ہیں؟
اسلامی معاشرت میں ’کفو‘ کا جو تصور ہے اس سے مراد ذات پات، نسل، قوم اور قبیلے کی یکسانیت نہیں۔ قرآن و حدیث کی رُو سے جن عورتوں اور مردوں کا باہمی نکاح ممنوع ہے، بس وہی ممنوع ہے۔ باقی ہر مسلمان لڑکا ہر مسلمان لڑکی سے نکاح کرسکتا ہے، خواہ دونوں کی ذات، نسل اور قبیلے مختلف ہوں۔ مگر چوں کہ نکاح کا رشتہ دائمی ہوتا ہے، چناں چہ شرع میں اس بات کا بہت لحاظ رکھا گیا ہے کہ میاں بیوی دین داری، خاندانی طور طریقوں، تعلیمی قابلیت اور معیشت و معاشرت میں مساوی ہوں تاکہ مزاج میں ہم آہنگی رہے۔ زندگی دُوبھر نہ ہوجائے۔ اسی کو ’کفو‘ کہتے ہیں۔ مثلاً لڑکی دین دار ہو اور لڑکا آوارہ، اوباش، فاسق، بدمعاش، فاجر، شرابی اور زانی ہو تو دونوں کا نباہ مشکل ہوجائے گا۔ اسی طرح انتہائی دولت مند گھرانے کی کسی لڑکی کی شادی انتہائی غریب گھرانے کے لڑکے سے ہوجائے تو شاید ہی کچھ استثنائی مثالیں ایسی ملیں کہ دونوں نے ہنسی خوشی گزارہ کرلیا ہو۔ القصہ مختصر،کفو کا خیال رکھنے کا مطلب یہ ہے کہ شادی بے جوڑ نہ ہو۔
سگی بہنوں، سگے بھائیوں یا سگے بہن بھائیوں کی اولاد بھی ’بے جوڑ‘ ہوسکتی ہے۔ ایک گاؤں میں دو بھائی رہتے تھے۔ بڑے بھائی نے چھوٹے بھائی کو پڑھنے کے لیے شہر بھیج دیا۔ وہ وہیں کا ہورہا۔ وہیں شادی کی۔ وہیں بیٹی پیدا ہوئی۔ وہیں بیٹی کو پڑھایا لکھایا اور اُردو ادب میں ایم اے کرایا۔ بالآخر بڑے بھائی کے حکم پر چھوٹے بھائی نے اپنی بیٹی کی شادی بڑے بھائی کے کم خواندہ دیہاتی بیٹے سے کردی۔ سہاگ رات ہی دُلہن نے دولھا میاں کو غالبؔ کا شعر سنا ڈالا:
شمارِ سبحہ مرغوبِ بُتِ مشکل پسند آیا تماشائے بہ یک کف بُردنِ صد دل، پسند آیا
شعر سنتے ہی دولھا میاں جھوم اُٹھے۔ پھڑک کر داد دی: ’’ھوئیش شابش اے!‘‘
دُلہن کو حیرت ہوئی۔’’ انھیں یہ شعر اتنا پسند آگیا؟‘‘حیران ہو کر پوچھا:’’آپ اس شعر کا مطلب سمجھ گئے؟‘‘
دولھا میاں نے بڑے اعتماد سے جواب دیا:’’ہاںہاں، بہت اچھی طرح سمجھ گیا‘‘۔
دُلہن نے پوچھا:’’اس شعر کا کیا مطلب ہے؟‘‘
جواب ملا:’’اس شعر کا یہ مطلب ہے کہ تیرے ساتھ میرا گزارہ نہیں ہو سکتا‘‘۔
گویا غالبؔ کے مشکل اشعار بالکل بے مصرف نہیں۔ان سے سہاگ رات میں کم ازکم ’کفو‘ کو جانچنے کا کام تو لیا ہی جا سکتا ہے۔