کروموسومز صنف کا تعین کرتے ہیں
”سر میری بیٹی پیدا ہوئی ہے، اس کو Observation کے لیے نرسری میں رکھا ہے، آپ ذرا دیکھ لیں۔“
میں ان کو بہت عرصے سے جانتا تھا، کہا: ”تھوڑا سا وقت لگے گا، میں بچوں کو دیکھ لوں پھر آپ سے بات کرتا ہوں، تھوڑا سا انتظار کرلیں۔“
کچھ دیر بعد جب میں نے ان کو بلایا اور پوچھا کہ آپ کو کیا بتایا گیا ہے؟ تو کہنے لگے کہ ”بیٹی کی سانس تھوڑی تیز ہے اس لیے رکھا ہے، سانس تو اب بہتر اور ہموار ہے الحمدللہ۔“
”اگر میں یہ کہوں ”بیٹی“ نہیں بلکہ ”بیٹا“ ہے تو آپ کیا کہیں گے!“
حیرت اور بے یقینی کی کیفیت میں دیکھنے لگے۔۔ ”کیسے سر! ابھی آپ سے پہلے پروفیسر صاحب دیکھ کر گئے ہیں۔“ انہوں نے ایک نام لیا۔
اب ظاہر ہے سب کچھ اتنا آسان بھی نہیں ہوتا۔ کچھ دیر سمجھانے کے بعد ان سے کہا کہ ایک عدد الٹراساؤنڈ اور کروموسومز کا ٹیسٹ ضرور کرنا ہے تاکہ تمام شکوک و شبہات دور ہوجائیں، اور ضرورت پڑی تو غدودوں کے ٹیسٹ بھی کریں گے۔
بات مان گئے۔
بچہ جب پیدا ہوتا ہے تو اس کا تفصیلی معائنہ ضروری ہے۔
ڈائپر کھول کر صنفی اعضاء کا بھی تفصیلی معائنہ کرنا چاہیے۔
انسان کی اللہ تعالیٰ نے دو ہی اصناف (جنس) رکھی ہیں اور ان پر ہی پوری دنیا میں عمل ہوتا ہے: عورت اور مرد۔
کروموسوم وہ قدرتی مادہ ہے جس سے انسان کا پورا نقشہ ترتیب پاتا ہے، اور انسانی زندگی 46 کروموسومز سے ترتیب پاتی ہے، 23 جوڑوں (Pairs) کی صورت۔ ایک جوڑا جو کہ انسان کے عورت یا مرد بننے کا ذمہ دار ہوتا ہے اسے XY کروموسوم کہتے ہیں۔
مرد کے لیے XY اور عورت کے لیے XX کی ضرورت۔ X کروموسوم دونوں میں مشترکہ اور مرد کے لیے Y کروموسوم مرد ہی دیتا ہے، یہی اللہ تعالیٰ کا بنایا ہوانظام ہے۔
ایسا بہت ہی کم ہوتا ہے کہ کروموسومز تو پورے ہوتے ہیں مگر صنفی (جنس) اثرات مکمل نظر نہیں آتے، اور ایسے ہی بچوں میں صنف (جنس) کے تعین کی غلطی کے امکانات ہوتے ہیں۔
اس بات کو اس طرح سمجھیں کہ ایک بچی کے کروموسوم XX ہیں مگر جسم میں مردانہ غدودوں سے زیادہ ہارمونز آگئے، وجہ ماں کا کسی وجہ سے ایسی دواؤں کا استعمال یا ماں کے اندر کسی بیماری کی وجہ سے مردانہ غدود کے کیمیائی مرکبات کی فروانی ہوگئی جس کی وجہ سے ایک XX یعنی لڑکی کے جسم پر مردانہ اثرات ظاہر ہوں، طبی زبان میں اسے Genotype Female اور Phenotype Male، اور Virilization کہا جاتا ہے۔ مثلاً بچی کے معائنے میں ایسا محسوس ہوگا جیسے ایک چھوٹا سا مردانہ عضو تناسل موجود ہے جو کہ دراصل ہارمونز کے مسائل کی وجہ سے، زنانہ Labia minora کے جڑ جانے سے ایسا لگتا ہے۔ جب تفصیلی معائنہ ہو اور اس کے ساتھ ساتھ ٹیسٹ بھی ہو تو پتا چلے گا کہ پیٹ میں ”رحم“(Uterus) اور بیضہ دانی (Ovaries) موجود ہیں، یعنی ہارمونز کی بے ترتیبی نے ایک لڑکی کے صنفی (جنسی) اعضاء کو متاثر کیا اور تذبذب (Ambiguity) پیدا ہوا۔
اسی طرح اگر XY کروموسومز ہیں مگر کیمیائی مرکبات کی بے ترتیبی سے Androgen/ Testosterone کی موجودگی کے باوجود ان اعضاء پر اس کے اثرات میں کمی ہو جس کو End Organ insensitivity کہا جاتا ہے تو ایک XY بچے پر لڑکی ہونے کا گمان ہوسکتا ہے،باوجود اس کے کہ ٹیسٹ میں testicles نظر آرہے ہوں۔
اسی طرح کسی مسئلے کی وجہ سے ایک بچے میں ایک X کروموسوم زیادہ ہو یعنی XXY جس کو Klinefelter’s Syndrome کہا جاتا ہے، XXX کروموسومز یعنی عورت میں ایک ایکسٹرا کروموسوم X ، جس کے اپنے مسائل ہیں۔
اسی طرح XO کروموسوم / Turner syndrome یہ عورتوں میں ہوتا ہے۔
تمام طبی معلومات، ادویہ اور سرجری میں ترقی کے باوجود کچھ مسائل کا حل ابھی بھی شاید ممکن نہیں۔
اتنی ساری باتوں کا صرف یہ مطلب ہے کہ کروموسومز صنف کا تعین کرتے ہیں، اور جب یہ سوال ہوتا ہے کہ بچی ہے یا بچہ؟ یعنی کسی مسئلے کی وجہ سے Ambiguous Genitalia کا مسئلہ درپیش ہو تو فوراً کسی فیصلے کے بجائے ان کو طبی ماہرین کے مشورے سے مختلف ٹیسٹ، الٹرا ساؤنڈ یا مزید آگے اور اسپیشل ہارمونز کے تجزیے کے بعد ہی کوئی صنف بتانی چاہیے، اور یہ سب اللہ کی طرف سے ہے، اس میں کسی بچی/ بچے، یا اس کے والدین کا کوئی قصور نہیں ہے، اور ان کے تمام انسانی حقوق ویسے ہی ہیں جیسے کسی بھی انسان کے۔ جنس کا تعین جسم (سیل) میں موجود کروموسومز کی بنیاد پر ہوتا ہے، جہاں دیکھنے میں بظاہر کوئی شک ہو وہاں طبی ماہرین سے مشورہ ضروری ہے۔
انسان کا اپنے خیالات کی بنیاد پر اپنی جنس کا تعین کرنا عجیب و غریب بات ہے، اسی طرح تعین سے احتراز کرنا اور Gender fluidity کی بات کرنا بھی فطرت کے خلاف ہے۔
یہ طبی و نفسیاتی مسائل ہیں، ان میں ماہرین سے مشاورت اور ان کا علاج ضروری ہے۔
اگلے کسی مضمون میں ان موضوعات مخنث (Intersex) اور ٹرانس جینڈر (Transgender) پر گفتگو رہے گی اگر اللہ نے موقع دیا۔