’’میں کس کے ہاتھوں پہ اپنا لہو تلاش کروں؟ ناظم جوکھیو قتل کیس

مایوس اور ناامید ہوکر بے بس اور شکستہ دل اہلیہ اور
ماں نے صلح نامہ عدالت میں جمع کروادیا

جس ملک میں قانون تو کاغذوں اور کتابوں کی حد تک موجود ہو لیکن اس کی عمل داری اور نفاذ عملاً کہیں بھی دکھائی نہ دے، بالادست طبقہ اور بااثر افراد اسے اپنے ہاتھ کی چھڑی اور جیب کی گھڑی کے مطابق استعمال کریں، جب کہ افتادگانِ خاک کو قانون کی کسی معمولی سی خلاف ورزی پر بھی مالی، ذہنی اور جسمانی تکالیف، اذیتوں اور پریشانیوں سے گزرنا پڑے… پولیس تو ہو لیکن اس کا کام جرائم پیشہ عناصر کی بیخ کنی کرنے کے بجائے بے گناہ اور شرفا کو تنگ اور ہراساں کرنے کی حد تک رہ گیا ہو… منصف تو ہوں لیکن ان کے ہاں سائلوں کو بجائے انصاف کے تاریخ پر تاریخ دے کر ٹال دیا جاتا ہو… حکومت تو ہو لیکن اس کی عمل داری کہیں پر بھی نظر نہ آئے وہاں پر بالکل اسی طرح سے ہوا کرتا ہے جس طرح سے سندھ میں ملیر کے مقام پر اپنے مقامی وڈیروں کو پرندوں کے شکار سے منع کرنے پر قتل ہونے والے اور سندھ کے پہلے ’’شہیدِ ماحولیات‘‘ کا لقب پانے والے ناظم جوکھیو کے قتل کیس میں ہوا ہے۔

تمام تر واضح شواہد اور گواہان کی دستیابی اور موجودگی کے باوجود، لگ بھگ ایک سال قبل اپنے مقامی سرداروں کی ایما پر صرف اس جرمِ بے گناہی میں کہ اس نے اپنے قبیلے کے سرداروں کے عرب مہمانوں کو علاقے میں پرندوں کے شکار سے منع کردیا تھا، بے دردی سے تشدد کرکے قتل کردیا گیا تھا۔ اس سانحے کی تفصیلی دو رپورٹس راقم قبل ازیں فرائیڈے اسپیشل میں تحریر کرچکا ہے، اس حوالے سے پہلی رپورٹ 12 نومبر 2021ء اور دوسری مفصل رپورٹ 10 جون 2022ء کو شائع ہوئی تھی۔ مؤخرالذکر رپورٹ میں آثار و قرائن کی روشنی میں بالکل واضح طور پر اس خدشے اور تشویش کا اظہار کردیا گیا تھا کہ شہید ناظم جوکھیو کے مدعی وارثان پر مبینہ بااثر قاتلوں کی جانب سے بہت زیادہ دبائو ہے جس کی وجہ سے ناظم جوکھیو کا بھائی بااثر مقامی وڈیروں کا سخت دبائو برداشت نہ کرتے ہوئے مذکورہ کیس کے اوائل ہی میں مبینہ قتل میں شامل بااثر نامزد ملزمان پی پی کے ایم این اے جام کریم اور پی پی کے ایم پی اے جام اویس گہرام سے مصالحت پر آمادہ ہوچکا ہے، جبکہ مقتول ناظم جوکھیو کی اہلیہ شیریں جوکھیو اور مقتول کی والدہ سمیت دیگر تمام ورثا پر مذکورہ نامزد بااثر ملزمان سمیت ہمہ جہت سرکاری، خاندانی اور قبائلی شدید دبائو ڈالا جارہا ہے کہ وہ بھی مبینہ ملزمان سے فوری طور پر صلح کرلیں اور کیس سے دست بردار ہوجائیں تو اس صورت میں ان کی تمام شرائط مان لی جائیں گی، بہ صورتِ دیگر انہیں سنگین ترین نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا۔

ہر طرف سے مایوس اور ناامید ہوکر مقتول ناظم جوکھیو کی بے بس اور شکستہ دل اہلیہ شیریں جوکھیو نے جو قبل ازیں کسی صورت بھی مبینہ ملزمان سے مصالحت پر آمادہ نہ تھی، سوشل میڈیا پر جاری کردہ اپنے ایک سے زائد وڈیو کلپس میں بزبانِ سندھی اور اردو خود پر ڈالے گئے شدید دبائو کا ذکر کرتے ہوئے نم دیدہ آنکھوں سے کہا تھا کہ ’’میں اب بہت تھک چکی ہوں، مقتول شوہر کا کیس لڑتے لڑے نڈھال ہوگئی ہوں، اب تو میرے قریب ترین رشتوں اور اپنوں نے بھی میرا ساتھ چھوڑ دیا ہے، مجھے اپنی اور اپنی بیٹیوں کی زندگی بھی خطرے میں دکھائی دیتی ہے‘‘۔ بہرکیف یہ کیس عدالت میں چلتا رہا اور مقتول کے ورثا پر کیس سے دست برداری اختیار کرنے کے لیے شدید ترین دبائو کا سلسلہ بھی بلاتعطل جاری رہا، جس کا نتیجہ بالآخر ہفتۂ رفتہ تمام سندھی اخبارات میں بروز اتوار 25 ستمبر 2022ء کو اس افسوس ناک خبر کی صورت میں ظاہر ہوا ہے۔ یہ خبر تمام اخبارات میں نمایاں انداز میں صفحہ اول پر چھپی ہے جس کا ترجمہ پیش خدمت ہے:

’’ملیر میں 10 ماہ پیشتر بے دردی سے قتل ہونے والے شہید ناظم جوکھیو قتل کیس میں مقتول کی بیوہ شیریں جوکھیو اور بھائی افضل جوکھیو کے بعد والدہ جمعیت خاتون نے بھی 9 میں سے 6 ملزمان کے ساتھ مصالحت کی خاطر عدالت میں صلح نامہ جمع کروا دیا ہے۔ اس حوالے سے ناظم جوکھیو قتل کیس کی شنوائی ملیر کے ایڈیشنل جج1 کی عدالت میں ہوئی، جس میں ضمانت پر رہا شدہ ملزمان پیش ہوئے۔ کل نامزد ملزمان پر فردِ جرم عائد ہونا تھی، کل دورانِ سماعت ناظم جوکھیو کی والدہ جمعیت خاتون، بیوہ شیریں جوکھیو اور بھائی افضل جوکھیو کی جانب سے صلح نامہ جمع کرایا گیا۔

صلح نامہ کے ذریعے عدالت کو بتایا گیا کہ ناظم جوکھیو کے قتل کیس میں نامزد پی پی ایم این اے جام کریم، پی پی ایم پی اے اویس گہرام سمیت 9 میں سے 6 ملزمان کے ساتھ صلح نامہ ہوچکا ہے اور ہمیں تین ملزمان مہر علی، حیدر علی اور نیاز سالار کے سوا باقی 6 ملزمان پر سے کیس ختم کردینے کے حوالے سے کوئی بھی اعتراض نہیں ہے (صاف لگتا ہے کہ بقیہ ملزمان کو بااثر ملزمان قربانی کے بکرے کے طور پر کیس میں سزا دلاکر رہیں گے جو غالباً عمر قید ہوگی۔ ۱۔ت) ماہرینِ قانون کے مطابق یہ کیس فی الوقت 15 اکتوبر تک ملتوی کردیا گیا ہے اور قانونی پیچیدگیوں، سخت دبائو، کیس کے چلنے اور سماعت میں تاخیری حربوں کی بنا پر مدعیان، ملزمان کے ساتھ چاروناچار مصالحت پر مجبور ہوجاتے ہیں اور ناظم جوکھیو کے قتل کیس میں بھی بالکل یہی کچھ ہوا ہے۔

مقتول کی اہلیہ بارہا اپنے اوپر شدید ترین ہمہ پہلو دبائو کا بذریعہ میڈیا برملا اعتراف کرچکی ہیں۔ مقتول کی والدہ بھی قبل ازیں نامزد ملزمان کو کسی صورت معاف نہ کرنے کا اعلان کرتی رہی ہیں۔ المیہ یہ ہے کہ اس کیس میں واضح شواہد کے باوصف 10 ماہ تک بااثر ملزمان پر فردِ جرم ہی عائد نہیں کی جاسکی۔ یہ کیس اس عرصے میں کبھی سیشن کورٹ اور کبھی خاص عدالت میں چلتا رہا۔ بالآخر عدالتوں میں دھکے کھاکھا کر اور بااثر ملزمان کے بے حد دبائو کی وجہ سے مقتول ناظم جوکھیو کے ورثا اہلیہ شیریں جوکھیو، والدہ جمعیت خاتون اور بھائی افضل جوکھیو کو ملزمان سے مصالحت پر آمادہ ہی ہونا پڑا۔ یہ ہے ہمارے ملک میں قانون اور اس کے نفاذ کی حالتِ زار۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کے مفہوم کے مطابق جس قوم کے بااثر افراد پر قانون کا اطلاق نہ ہو اور مساکین اور غریب اس کی زد میں آجایا کریں وہ قوم تباہ ہوجاتی ہے۔ کیا ہم اسی تباہی کے راستے پر تو تیزی سے گامزن نہیں ہیں؟ خاکم بدہن بظاہر آثار اور قرائن تو اسی جانب اشارہ کرتے دکھائی دے رہے ہیں۔