سیاسی تنظیمیں اور ان کے سرپرست و عہدے دار اور منتخب اراکین اسمبلی اپنے اپنے محاسبے اور جواب دہی کی فکر و اندیشے سے بے نیاز و بے فکر ہوکر مست و دلیر نظر آرہے ہیں
ہماری قوم بے شمار خوبیوں سے مالا مال ہے، حتیٰ کہ اس قوم کی بعض خوبیاں ایسی ہیں جو دنیا کی کسی دوسری قوم میں بہت ہی کم اس کثرت سے مل سکیں۔ اگر ہم سرسری سا جائزہ لیں تو پتا چلتا ہے کہ ہماری قوم مندرجہ ذیل خوبیوں سے پوری طرح مالامال و مزین ہے:
٭ بلا کی تابعدار و فرماں بردار ہے۔
٭عفوودرگزر کے اوصاف سے بھرپور عادات کی حامل ہے۔
٭ بے نظیر قوتِ برداشت کی حیرت انگیز صلاحیتوں سے مالامال ہے۔
٭ یہ قوم ایسی مستقل مزاجی و ثابت قدمی کی مالک ہے جس کی نظیر پیش کرنا ایک دشوار امر ہے۔
٭ اسی طرح مصائب و مشکلات اور تکالیف و اذیتوں کے باوجود ایثار و قربانی کے بے نظیر و بے مثال ظرف و تحمل اور جذبات سے لبریز و مالامال ہے۔
ہوسکتا ہے قارئین کے دل و دماغ میں یہ سوال پیدا ہوجائے کہ ایسے منفرد، بے مثال اور بے نظیر اوصاف کی حامل قوم دنیا کے معاشی، اقتصادی اور تجارتی میدان میں کیوں کر نمایاں کارکردگی و مقام سے محروم اور پیچھے رہ سکتی ہے؟
اسی طرح یہ سوال بھی قابلِ غور ہے کہ باوجود ان ضروری و مفید اوصاف کے، ہمارا معاشرہ کیوں ایسے زوال، پستی اور افراتفری کا شکار ہے؟ ،اگر دیانت داری سے اس ساری صورتِ حال کا جائزہ لیا جائے تو پتا چلتا ہے کہ انسانی شخصیت وروّیوں اور رجحانات و طرزعمل کا محض مثبت و تعمیری ہونا ہی کافی یا سب کچھ نہیں ہوا کرتا، بلکہ درست سمت و راستے کا تعین بھی نتائج و کامیابی کے حصول میں معاون و مددگار، گویا کلیدی اہمیت کا حامل ہوا کرتا ہے۔ یعنی مختصراً یوں کہا جاسکتا ہے کہ غلط سمت اور راستوں پر عمل پذیر اور جاری و ساری مثبت و تعمیری سرگرمیاں بھی اپنے مطلوبہ نتائج و مقاصد کے حوالے سے بالعموم ہزیمت و ناکامیوں سے دوچار ہوجایا کرتی ہیں۔ یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے کوئی مسجد تعمیر کی جائے یا پھر اس کے برعکس کوئی مندر یا گرجا تعمیر کیا جائے۔ وسائل و سرمایہ اور شب و روز کی محنت مشقت اور مصروفیات کے باوجود ان دونوں تعمیرات کی نوعیت و نتائج بالکل مختلف و متضاد ہیں۔ ایک مسجد کی تعمیر دنیا و آخرت میں باعثِ خیر و برکت، جبکہ مندر و گرجا کی تعمیر ایک سعیِ لاحاصل اور فضول و قابلِ مواخذہ بھی قرار دی جاسکتی ہے۔ اسی طرح اسپتال، اسکول، کالج و مدرسے کی تعمیر ملک و قوم کی ترقی و استحکام کے لیے ناگزیر اور دین و دنیا کی بھلائی کے باعث ہمارے لیے خیر و برکت کی حامل ہے۔ جبکہ سنیما گھر، تھیٹر، شراب خانے، کلب، عالی شان شاپنگ سینٹرز اور سودی نظام کے پروردہ مالیاتی اداروں کی تعمیرات و مصروفیات، ان کو چلانے کا عمل اور ایسی سرگرمیوں کا تسلسل نہ صرف فضول، غیر ضروری، بلاجواز بلکہ خلافِ شرع بھی ہے۔
لہٰذا اس اعتبار سے اگر ہم اپنی قوم کی اوپر تحریر کی گئی خصوصیات و کارناموں کا جائزہ لیں تو بآسانی سمجھا جاسکتا ہے کہ ہماری یہ سادہ طبیعت قوم کیوں اس انتشار و زوال کا شکار ہے۔ ہمارے یہ ضعیف الاعتقاد، شخصیت پرست و روایت پرست عوام اپنی انھی قدرے فطری اور بیرونی علاقائی، سیاسی و سماجی تربیت و مداخلت کے نتیجے میں ان خصائل و عادات اور روّیوں کے عادی و غلام ہوتے چلے جارہے ہیں۔ ہمارے عوام کی انھی عادات و روّیوں کا نتیجہ ہے کہ ہمارے جاگیردار، وڈیرے، چودھری، پیر و مرشد اور سیاسی پارٹیوں کے حاکمین و نمائندے بلاخوف و خطر بڑی دیدہ دلیری و باقاعدگی سے الیکشن لڑ کر منتخب ہوتے اور حکومت بناتے چلے آرہے ہیں۔
ہمارے یہ خودساختہ و فضول بندشوں میں جکڑے ہوئے مجبور، بے بس و لاچار عوام انھی آزمائے ہوئے مفاد پرست، بے وفا اور بدعنوان جاگیرداروں، وڈیروں، نسلی و لسانی عصبیت میں رنگے ہوئے کرداروں اور سیاسی چہروں کو منتخب کرکے اسمبلیوں میں پہنچانے کا فریضہ بڑی مستقل مزاجی، ثابت قدمی، وفاداری و تابعداری سے ادا کرکے ایثار و قربانی کی نئی نئی سنگین داستانیں رقم کررہے ہیں۔ اگرچہ ہمارے عوام کا یہ طرزعمل بہت پرانا ہے، مگر 1970ء کی دہائی سے اس میں تیزی و ترقی آتی چلی گئی ہے، اور کم و بیش ہر الیکشن انھی عوامی خصوصیات و رجحانات اور طرزعمل کی گواہی دیتا رہا ہے۔
اگرچہ کچھ عرصے سے بعض دانش وروں، صحافیوں اور پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا کے ماہرین و تجزیہ کاروں کو یہ خوش فہمی ہوچلی ہے کہ اس نئے دور میں جو کہ الیکٹرانک میڈیا، سوشل میڈیا اور کمپیوٹرائزڈ الیکٹرانک دور ہے، جس کی وجہ سے اب ہمارے عوام ماضی کے مقابلے میں بہت زیادہ علم و آگہی، تعلیم و تربیت اور جدید ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کے بہ کثرت استعمال کے باعث خاصے باخبر و باشعور ہوچکے ہیں، لہٰذا اب ان کا استحصال و حق تلفی ایسی آسان نہیں رہی بلکہ خاصی دشوار و ناممکن سی ہوکر رہ گئی ہے۔
یہ سوچ و فکر یقیناً بڑی حد تک درست ہے، مگر اس کا کیا کیجیے کہ باوجود علم و آگہی اور اطلاعات، تجزیات و مشاہدات کے، ہمارے سادہ مزاج عوام بڑے وفادار و تابعدار ہیں، اور عفوو درگزر کے جواہر کے باعث غیر معمولی قوتِ برداشت کے مالک ہیں، اور یہ اپنی انھی بے نظیر خصوصایت و خوبیوں کے باعث مستقل مزاجی، ثابت قدمی اور استقامت کے ساتھ ساتھ اپنی قربانی و ایثار کے ذریعے اپنی روایات و ثقافت، رجحانات و طرزِعمل اور کھونٹے کو بدلنے پر آمادہ و تیار نظر نہیں آتے۔
زیادہ دور جانے کی ضرورت نہیں، حالیہ بارشوں اور سیلاب نے پورے ملک اور خصوصاً سندھ و بلوچستان میں تباہی و بربادی کے گزشتہ تمام ریکارڈ توڑ ڈالے ہیں۔ ڈیموں کی ناکافی تعداد، موجودہ دستیاب ڈیموں کی ناقص تعمیرات، ناقص و ناکافی انفرااسٹرکچر، غربت و معاشی بدحالی کے شکار عوام کے کچے پکے گھر، کمزور و بے اختیار بلدیاتی ادارے اور ان کے منتخب عہدے دار، کرپٹ و نااہل سرکاری ادارے و اہلکار، جب کہ سیاسی تنظیمیں اور ان کے سرپرست و عہدے دار اور منتخب اراکین اسمبلی اپنے اپنے محاسبے اور جواب دہی کی فکر و اندیشے سے بے نیاز و بے فکر ہوکر مست و دلیر نظر آرہے ہیں۔
آنے والا وقت اور اگلے سال کے الیکشن بہت جلد ہمارے دانش وروں اور صحافتی حلقوں کے اس دعوے کی قلعی کھول دیں گے کہ ہمارے عوام کی آنکھیں علم و آگہی کی بدولت کھل چکی ہیں، انہیں اب کھرے اور کھوٹے کی پہچان ہے۔ سیلاب کی تباہ کاریوں نے ان کو مشتعل اور وڈیروں، جاگیرداروں اور سیاسی شخصیات سے بیزار و متنفر کردیا ہے جس کا خمیازہ اس اشرافیہ کو بہت جلد اگلے الیکشن میں بھگتنا پڑے گا۔
اگرچہ یہ بڑی جائز اور درست امید و توقع ہے لیکن بظاہر ہمارے یہ سادہ لوح عوام اوپر ذکر کی گئی تابعداری و فرماں برداری، عفو و درگزر، قوتِ برداشت، مستقل مزاجی و ثابت قدمی اور ایثار و قربانی کی ایسی شاندار و بے نظیر فطری خصوصیات سے مالامال ہے جن کو تقویت و استحکام عطا کرنے میں ہماری اشرافیہ کا بھی عمل دخل ہے، کیوں کہ یہی اشرافیہ ان خوبیوں کی حقیقی Beneficiaryیعنی مستفید کنندہ ہے۔
لہٰذا اس بات کا اندیشہ ہے کہ ہمارے سادہ لوح عوام ایک مرتبہ پھر انھی سیاسی چہروں کو دوبارہ مسندِ اقتدار عطا کرسکتے ہیں جو کہ عوامی غربت و افلاس اور معاشی و معاشرتی بدحالی کے ذمہ دار ہیں
ہمارے عوام کی یہ خوبیاں درحقیقت بڑی بیش قیمت اور انمول ہیں۔ آج مغربی دنیا کے ترقی یافتہ ممالک نے انھی خوبیوں کو بڑی دیانت داری سے اختیار کرلیا ہے، وہ اپنے آئین و قانون کے فرماں بردار و تابعدار ہیں۔ وہ سماجی و معاشرتی معاملات میں ہم سے زیادہ قوتِ برداشت، عفوو درگزر اور قربانی و ایثار سے کام لیا کرتے ہیں۔ وہ اپنے معاشی، اقتصادی اور قومی و معاشرتی معاملات و مفادات کے تعین و حصول میں دیانت داری سے محنت و مستقل مزاجی، اور ثابت قدمی سے طے کیے گئے اہداف کے حصول تک مصروف و سرگرم عمل رہا کرتے ہیں۔
ہمارے سادہ طبیعت عوام کے اندر موجود یہ خوبیاں درحقیقت بہت مفید اور قابلِ احترام ہیں، بس اگر کمی ہے تو صرف ان خوبیوں کے دیانت دارانہ نفاذ و اطلاق کی۔ اگر ہم اپنی ان خوبیوں کو استعمال کرتے ہوئے ہر طرح کے لسانی، نسلی، علاقائی، گروہی، مذہبی و فرقہ وارانہ تعصبات کو بالائے طاق رکھ کر دیانت داری سے فیصلے کریں، میرٹ پر درست شخصیات کا انتخاب کریں خصوصاً سیاسی میدانوں میں، تو پھر یقیناً کامیابی عوام کی منتظر ہے۔
2022ء کی یہ طوفانی تباہی اور سیلابی ریلا جہاں ہزاروں انسانوں اور قومی و عوامی مال و متاع کو بہا لے گیا، دعا ہے کہ عوام کی شخصیت پرستی بھی اس سیلاب کی نذر ہوگئی ہو۔ گویا کہ جو کام ہمارا میڈیا، تعلیم و تربیت اور مشاہدات و واقعات نہ کرسکے ہوں شاید وہ مقصد و شعور ہمیں کم از کم سیلابی تباہ کاریوں کے بعد ہی حاصل ہوجائے۔