کشمیر میں دینی راہنمائوں کا کریک ڈائون

کشمیر میں رائے عامہ پر گہرا اثر رکھنے والے علمائے کرام
کی گرفتاریاں ایک طویل کھیل کا آغاز ہیں

مقبوضہ کشمیر میں بھارت کا جبر و ستم اب دینی راہنمائوں تک دراز ہوگیا ہے، جس کا ایک ثبوت پانچ معروف دینی اسکالرز کی پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت گرفتاری ہے۔ ان علما اور اسکالرز میں مولانا عبدالرشید دائودی، مولانا مشتاق احمد ویری، مولانا عبدالمجید ڈار المدنی، مولانا معین الاسلام ندوی اور مولانا فہیم محمد رمضان شامل ہیں۔ اس کے ساتھ ہی برہان وانی کے حق میں ہونے والے جلسے جلوسوں میں آزادی کے نعروں کے مخصوص انداز سے شہرت حاصل کرنے والے سرجان برکاتی کو بھی گرفتار کرلیا ہے۔ سرجان برکاتی کو کچھ عرصہ قبل چار سال کی اسیری سے رہائی ملی تھی مگر ان کی آزادی کا عرصہ قلیل ثابت ہوا، اور بھارتی حکام نے انہیں بھی دوبارہ گرفتار کرلیا۔ پولیس نے دعویٰ کیا ہے کہ مذکورہ دینی اسکالرز اپنی تقریروں سے نوجوانوں کو تشدد پر اُکساتے ہیں اور ان کے خلاف چھان بین کی جارہی ہے، الزامات ثابت ہونے کی صورت میں ان پر باقاعدہ مقدمہ چلایا جائے گا۔

ان علما نے پولیس کی طرف سے لگائے جانے والے الزامات کی تردید کی ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں متحدہ مجلسِ علما نے بھی کشمیر کے معروف علما کی گرفتاریوں پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ اسلام آباد میں دفتر خارجہ نے بھی کشمیری علما کے کریک ڈائون کی مذمت کی ہے۔ متحدہ جہاد کونسل کے سربراہ سید صلاح الدین نے اسے بھارت کی طرف سے کشمیریوں کی مذہبی شناخت چھیننے کی حکمت عملی کا حصہ قرار دیا ہے۔

کشمیر میں رائے عامہ پر گہرا اثر رکھنے والے علمائے کرام کی گرفتاریاں ایک طویل کھیل کا آغاز ہیں۔ ان میں مولانا مشتاق ویری نامی شخصیت بھی شامل ہے جن کے کشمیری زبان میں خطابات وادی کے اندر اور باہر سوشل میڈیا کے ذریعے اپنی دھوم مچا چکے ہیں۔ ان کی گفتگو بہت پُرتاثیر ہوتی ہے جس میں حالاتِ حاضرہ پر اشاروں کنایوں میں گفتگو کی جاتی ہے۔ اس میں نوجوانوں یا معاشرے کے کسی طبقے کو تشدد پر اُکسانے کا شائبہ تک نہیں ہوتا۔ کچھ یہی حالات دوسرے گرفتار علما کی تقریروں کے ہیں جن میں تشدد یا مسلح سرگرمیوں کی حمایت نہیں کی جاتی۔ اس کے باوجود بھارت ان پُرامن تقریروں سے خوف محسوس کرنے لگا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ بھارت 5 اگست 2019ء کے بعد کشمیر میں برپا شورِ محشر کو سکوتِ مرگ میں بدلنے کی راہ پر گامزن ہے۔

اس کوشش میں اسے خاصی کامیابی بھی حاصل ہوئی ہے۔ سب سے پہلے کشمیر کی معروف سیاسی قیادت کو جیلوں میں ڈال دیا گیا اور ان کا رائے عامہ سے رابطہ منقطع کردیا گیا۔ اس کے بعد دوسرے اور تیسرے درجے کے سیاسی کارکنوں سے بھی جیلیں بھر دی گئیں۔ یہ وہ فعال سیاسی کارکن تھے جو اعلیٰ قیادت کی طرف سے دی گئی ہڑتال یا احتجاج کی کال کو زمین پر کامیاب بنانے میں اہم کردار ادا کرتے تھے۔ تیسرے ہدف کے طور پر سول سوسائٹی کے فعال کرداروں اور صحافیوں کو چُنا گیا۔ ان آوازوں کو خاموش کردیا گیا جو کشمیر میں بھارت کی طرف سے روا رکھی جانے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے خلاف بلند ہوکر دنیا تک حالات پہنچانے کا ایک ذریعہ بنتی تھیں۔

ان میں انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے خرم پرویز کا نام سرفہرست ہے، جن کی رپورٹوں کو انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے عالمی ادارے بھی مستند تسلیم کرتے تھے۔ اسی طرح کشمیر کی صحافت کو بدترین سنسر شپ کا شکار کرنے کے علاوہ کئی صحافیوں کو گرفتار کیا گیا۔ بہت سوں کو تھانوں میں حاضری کا پابند بنایا گیا۔ اب تمام آوازوں کو خاموش کرانے کے بعد آخری ہدف کے طور پر کشمیر کے اُن دینی اسکالرز کو چُنا گیا جو رائے عامہ پر اپنا گہر اثر رسوخ رکھتے ہیں، جن کی تقریریں عوام کے ذہنوں کو متاثر کرتی ہیں۔ کشمیر میں تمام حقیقی آوازوں کو دبا کر بھارت مصنوعی کردار تراش رہا ہے۔

سیاست سے سول سوسائٹی اور علما تک روبوٹس کی ایک نئی کلاس متعارف کرائی جارہی ہے۔ ایک ایسی کلاس جو خود کو حالات کے دھارے کے حوالے کردے اور ایسے سوالات اُٹھانے سے گریز کرے جن کا تعلق تاریخ سے ہو، اور جو اس بات سے تعلق رکھتے ہوں کہ کشمیر کا بھارت کے ساتھ موجودہ تعلق کس بنیاد اور کس طرح قائم ہوا اور اس تعلق کو بھارت کی قیادت نے کیا نام دیا تھا؟ یوں تاریخ سے نابلد اور لاتعلق نسلیں تیار کرنے کے لیے کشمیر میں قبرستان جیسی یہ خاموشی طاری کرنا ضروری ہوگیا ہے۔

اس مقصد کے لیے خوف و دہشت کا سہارا لیا جارہا ہے۔ ان میں پبلک سیفٹی ایکٹ اور یو اے پی اے جیسے قوانین بھی شامل ہیں۔ کشمیر کی سب سے بڑی مسجد جامع مسجد سری نگر جن پابندیوں کا شکار ہے وہ مذہبی معاملات میں مداخلت کی کھلی مثال ہے۔ اس مسجد میں نماز جمعہ پر پابندیوں کا سلسلہ کئی برس سے جاری ہے اور میر واعظ عمر فاروق کو خطبہ جمعہ سے باز رکھنے کے لیے تین سال سے گھر میں نظربند رکھا گیا ہے۔ اب تو کشمیر پولیس کی طرف سے عندیہ دیا گیا ہے کہ جلد ہی ائمہ کو خطبہ جمعہ تحریری شکل میں فراہم کیا جائے گا تاکہ تمام مساجد میں حکومت کا منظور کردہ خطبہ دیا جاسکے۔