یہ 1960ء کے عشرے کی بات ہے، سن اور مہینہ یاد نہیں، موسم ایسا جسے نہ گرم کہا جا سکے اور نہ سرد۔ میں بہت چھوٹا تھا، تاہم یہ یاد ہے کہ اُس وقت متحدہ پاکستان پر فیلڈ مارشل ایوب خان مرحوم کا راج تھا اور مغربی پاکستان میں نواب آف کالا باغ ملک امیر محمد خان کا طوطی بولتا تھا، جن کا رعب و دبدبہ اُن کے اونچے کلف دار کلاہ اور بھاری مونچھوں سے ظاہر تھا۔ اس سہ پہر میں والدِ گرامی کے ساتھ سائیکل پر ذیلدار پارک اچھرہ گیا تھا جہاں ایک سادہ سی کوٹھی میں چند افراد جمع تھے۔ شاید پندرہ بیس ہوں گے۔ ایک دوگاڑیاں موجود تھیں۔
راہ داری میں کچھ کرسیاں بچھی ہوئی تھیں جن پر کبھی کبھار کوئی شخص آ کر بیٹھ جاتا۔ فضا میں خاموشی تھی مگر ایک پُروقار سی چہل پہل محسوس ہورہی تھی۔ وہاں پر موجود افراد دھیمے دھیمے لہجے میں جو گفتگو کررہے تھے وہ میری سمجھ میں نہیں آرہی تھی، تاہم اس گفتگو میں بار بار ایک ایسا نام آرہا تھا جو میں نے پہلے بھی سن رکھا تھا، نام تھا مولانا مودودیؒ کا، جن کے بارے میں مَیں صرف یہ جانتا تھا کہ وہ کوئی لیڈر ہیں، جبکہ اُس وقت خود لیڈر کا تصور بھی میرے ذہن میں واضح نہیں تھا۔ کوئی پانچ بجے کے قریب سفید رنگ کی ایک فورڈ ویگن کوٹھی میں آکر رکی، اس کے پیچھے بھی دو تین گاڑیاں تھیں۔ کوٹھی میں موجود تمام لوگ ویگن کی طرف بڑھے۔
ویگن سے باہر آنے والے پہلے شخص متوسط قد اور سفید داڑھی والے ایک وجیہ بزرگ تھے۔ شیروانی اور تنگ موری کے پاجامے میں ملبوس اِن بزرگ نے اتر کر وہاں موجود سب لوگوں سے مصافحہ کیا۔ میرے قریب آکر بھی السلام علیکم اس طرح کہا کہ ایک ایک حرف کی ادائیگی کا حق ادا ہوگیا۔ ہاتھ ملایا اور آگے بڑھ گئے۔ سب لوگوں سے ملنے کے بعد وہ کوٹھی کے اندرونی حصے میں گئے۔
چند منٹوں بعد واپس آئے اور سب لوگوں کے ساتھ عصر کی نماز ادا کی۔ یہ تھے مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ جو جیل سے رہا ہوکر آئے تھے۔ آپ اسے میری اُن سے پہلی ملاقات کہہ سکتے ہیں جس میں مَیں اُن کے بارے میں کوئی رائے تو قائم نہیں کرسکا مگر ایک بات میں نے شدت سے محسوس کی کہ وہ غیر معمولی طور پر نارمل اور مطمئن انسان ہیں اور جرأت اور صبر و تحمل ان کی شخصیت کے لازمی اجزاء ہیں۔ نہ تو اُن کی حرکات و سکنات سے رہائی کی خوشی چھلکی پڑ رہی تھی اور نہ چہرے اور گفتگو سے طویل قید کی مایوسی اور پریشانی ٹپک رہی تھی۔ بعد میں مجھے جیل سے آنے والے سیکڑوں لوگوں سے ملنے کا اتفاق ہوا، جو ہفتوں رہائی کی خوشی میں آپے سے باہر رہتے اور مہینوں جیل کی تکالیف اور مصائب کا رونا روتے تھے۔
اتفاق سے مولانا سے دوسری ملاقات نے میری اس رائے کو سو فیصد سچ ثابت کر دکھایا۔ موچی دروازے کے باہر جماعت اسلامی کا سالانہ اجتماع ہورہا تھا۔ حکومت نے اجتماع کو روکنے کے لیے پہلے لائوڈ اسپیکر کے استعمال پر پابندی لگائی۔ لائوڈ اسپیکر کے بغیر ہی اجتماع شروع ہوگیا تو پہلے ہی روز حکومتی غنڈوں نے فائرنگ کرکے ایک کارکن کو شہید کردیا۔ خوف و ہراس کے اس ماحول میں جبکہ کارکنوں میں شدید غم و غصہ بھی موجود تھا، دوسرے روز کا اجتماع شروع ہوا۔ ہزاروں کی تعداد میں کارکن دریوں پر بیٹھے ہوئے تھے۔
لائوڈ اسپیکر کی کمی کو اس طرح دور کیا گیا کہ حاضرین کے درمیان تھوڑے تھوڑے فاصلے پر چھوٹے چھوٹے سے چبوترے بنا دیے گئے، ہر چبوترے پر ایک کارکن کھڑا ہوکر مولانا مودودیؒ کی طبع شدہ تقریر پڑھ رہا تھا، جبکہ ایک چبوترے پر مولانا مودودیؒ خود اپنی تقریر پڑھ رہے تھے۔ اتفاق سے میں اس چبوترے کے قریب ہی تھا۔ میں نے اس موقع پر بھی مولانا کو انتہائی نارمل پایا۔ حالانکہ اس وقت نہ صرف ان کی اپنی جان خطرے میں تھی بلکہ حکومت پوری تحریک کو کچلنے کے درپے تھی۔
اس کے بعد سیکڑوں بار مولانا کی خدمت میں حاضر ہونے، ان کی مجلس میں بیٹھنے، انہیں سننے اور دیکھنے کا موقع ملا اور ہر بار ان کی شخصیت کا ایک نیا اور جان دار پہلو میرے سامنے آیا۔ اُس زمانے میں اتوار کو چھٹی ہوا کرتی تھی اور مولانا ہر اتوار کی صبح مبارک مسجد عبدالکریم روڈ پر درسِ قرآن دیا کرتے تھے۔ اس درس میں عام آدمی سے لے کر اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد، نوجوان طالب علم اور خواتین سب شریک ہوتے تھے۔ مولانا ٹھیرے ٹھیرے لہجے میں قرآنِ پاک کی آیات پڑھتے، پھر مدلل انداز میں اس کا مفہوم بیان کرتے، اور آخر میں مختلف سوالوں کے بڑے تحمل اور حوصلے کے ساتھ جواب دیتے۔
درسِ قرآن میں بعض اوقات ایسے نازک معاملات بھی زیر بحث آتے جن کا تعلق عائلی زندگی سے ہوتا، لیکن یہ دیکھ کر حیرت ہوتی کہ مولانا اس نازک موضوع میں بھی اتنے شائستہ اور پاکیزہ الفاظ استعمال کرتے کہ آدمی حیران رہ جاتا۔ درس کے بعد مولانا گھر جانے کے لیے مسجد سے باہر آتے تو وہاں موجود سب لوگوں سے اس اپنائیت سے مصافحہ کرتے جیسے برسوں کی شناسائی ہو۔ ویسے مولانا کا حافظہ بھی بلا کا تھا۔ مصافحہ کرتے ہوئے اچانک کسی صاحب کے پاس رک جاتے اور پوچھتے آپ کافی عرصے بعد تشریف لائے ہیں، خیریت تو رہی! اور پھر ان صاحب کا جواب سن کر آگے بڑھ جاتے۔
مولانا تقریبات میں ہمیشہ چھوٹی موری کا سفید پاجامہ، شیروانی اور جناح کیپ لگاتے تھے۔ گھر میں سفید کرتا، پاجامہ اور سلیپر نما ایسے چپل پہنتے جن میں موزے بھی پہنے جا سکیں۔ گھر میں پاجامہ ہمیشہ کھلے پائنچوں کا ہوتا۔ میں نے مولانا کو کبھی شیروانی کے سوا کوئی رنگدار کپڑا پہنے ہوئے نہیں دیکھا۔ سردیوں میں گھر کی مجلس میں گائون پہنتے تھے۔ 5 اے ذیلدار پارک میں عصر سے مغرب تک ہونے والی مجلس جس میں ہر شخص کو آنے اور سوال کرنے کی کھلی اجازت تھی، ایک زبردست علمی مجلس ہوتی تھی جس میں مولانا دین، عالمی و قومی سیاست، معیشت اور اہم بین الاقوامی اور قومی معاملات پر اپنی رائے کا اظہار فرماتے۔ زیادہ تر فقہی مسائل پر بات ہوتی جن کا جواب مولانا انتہائی مدلل اور مؤثر انداز میں دیتے۔ یہ محفل کبھی کبھی مولانا کے چھوٹے چھوٹے جملوں سے کشتِ زعفران بن جاتی، جس سے ان کی حسِ مزاح کا اندازہ ہوتا۔
میں اُن دنوں اپنی بستی کے مولوی امان اللہ سے قرآنِ پاک کی تعلیم حاصل کررہا تھا۔ مولوی صاحب کوئی سیاسی آدمی تو نہ تھے مگر دیوبندی مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے کی بنا پر جمعیت علمائے اسلام کے حامی تھے۔ اگرچہ وہ باقاعدہ طور پر اس جماعت میں شامل نہیں تھے مگر پھر بھی اپنے عقائد کے سلسلے میں بہت واضح بلکہ متشدد تھے، وہ اکثر گفتگو کے دوران مولانا مودودیؒ کے دینی عقائد پر سخت تنقید کرتے اور ان کی تحریروں اور کتابوں کو دین میں گمراہی کا باعث قرار دیتے، مگر دلچسپ بات یہ تھی کہ انہوں نے مولانا مودودیؒ کی کوئی ایک کتاب بھی نہیں پڑھی تھی، محض دیوبندی علماء کی تقریروں کے باعث ان کے مخالف ہوگئے تھے۔
اُن دنوں جمعیت علمائے اسلام متحد تھی اور اس کے سربراہ مولانا غلام غوث ہزاروی ہماری بستی میں تشریف لائے تو مولوی امان اللہ اپنے تمام شاگردوں کو لے کر ان کی تقریر سننے اور سنوانے گئے۔ ان کی تقریر کا موضوع کیا تھا یہ تو مجھے یاد نہیں بلکہ شاید شرکائے جلسہ میں سے بھی کسی کو یاد نہ ہو، کیونکہ ان کی ساری تقریر مولانا مودودیؒ کے خلاف تھی۔ وہ ان پر بری طرح برس رہے تھے اور بار بار مولانا مودودیؒ کی کتاب ’’خلافت و ملوکیت‘‘ کا تذکرہ کررہے تھے۔ اس کتاب کے انہوں نے کئی زبانی حوالے بھی دیے، مگر تشہیر ایک ایسی کتاب کی کی جو خلافت و ملوکیت کے رَد میں لکھی گئی تھی۔
انہوں نے سامعین سے کہا کہ وہ کتاب ضرور پڑھیں اور ساتھ ہی یہ ہدایت بھی کی کہ کوئی شخص خلافت و ملوکیت پڑھ کر اپنے ایمان کو خطرے میں نہ ڈالے۔ مجھے یہ بات کچھ عجیب سی لگی کہ جس کتاب پر اتنے شدومد سے اعتراض کیے جا رہے ہیں، اسے پڑھنے سے منع کیوں کیا جارہا ہے! اگر کتاب میں واقعی کوئی قابلِ اعتراض بات ہے تو لوگ پڑھ کر خود رائے قائم کرلیں گے۔ میں نے اس کا تذکرہ اپنے استاد مولوی امان اللہ سے کیا تو انہوں نے مجھے ڈانٹ کر خاموش کرا دیا۔ مگر میرے اندر ایک جستجو موجود رہی۔ چنانچہ اگلے ہی روز میں ’’خلافت وملوکیت‘‘ حاصل کرنے میں کامیاب ہوگیا۔ چند روز میں کتاب مکمل کی تو مجھے اندازہ ہوگیا کہ مولانا ہزاروی لوگوں کو اصل کتاب پڑھنے سے کیوں روک رہے تھے۔ انہیں اس بات کا اندازہ تھا کہ کتاب پڑھنے والا شخص متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکے گا۔
مولانا کے خلاف پروپیگنڈہ مہم تیز ہوئی تو ذیلدار پارک اچھرہ کی ایک مجلس میں ایک صاحب نے مولانا سے سوال کیا کہ ’’مولانا کچھ علماء مسلسل آپ کے خلاف بہتان طرازی کررہے ہیں، مگر آپ بالکل خاموش ہیں۔ آپ کی خاموشی سے جہاں مخالفین کے حوصلے بلند ہورہے ہیں وہاں جماعت کے حامیوں میں مایوسی پھیل رہی ہے‘‘۔ سوال مکمل ہوا تو میں نے دیکھا کہ مولانا کے چہرے پر کرب کے کچھ آثار نمودار ہوئے ہیں، مگر اگلے ہی لمحے انہوں نے نہایت تحمل سے جواب دیا کہ ’’جسے آپ خود بہتان کہہ رہے ہیں، میں اس کا کیا جواب دوں! علمی اعتراضات کا جواب میں نے ہمیشہ دیا ہے مگر گالیوں کا جواب میں نہیں دے سکتا‘‘۔ ؎
انہوں نے کہا کہ ’’مخالفین کے ذمے صرف یہی کام ہے جو وہ تسلسل سے کررہے ہیں، مگر مجھے کچھ اور کام بھی کرنے ہیں‘‘۔ پھر مولانا نے فرمایا ’’آپ مخالفین کی الزام تراشیوں میں الجھ کر اپنے اصل مقصد سے دور نہ ہوں، کیونکہ مخالفین کا مقصد ہی یہی ہے‘‘۔ اُس زمانے میں مولانا کوثر نیازی اور ان کا اخبار ’شہاب‘ مولانا مودودیؒ کے خلاف مہم میں تمام اخلاقی حدود کو پھلانگ گیا تھا۔ ایک صاحب مولانا کوثر نیازی پر سخت برہم تھے۔ وہ بار بار کہہ رہے تھے کہ مولانا! اس شخص کو لگام دی جانی چاہیے۔ مگر مولانا نے خاموشی اختیار کیے رکھی۔ اسی دوران مغرب کی اذان ہوگئی۔ لوگ نماز کے لیے اٹھنے لگے تو مولانا نے ان صاحب کو جو کوثر نیازی کا بار بار تذکرہ کررہے تھے، روک کر کہا: ’’آپ وضو دوبارہ کرلیجیے گا‘‘۔ مولانا کے اس چھوٹے سے جملے سے پوری محفل کشتِ زعفران بن گئی۔
مولانا مودودیؒ کی ذات کی ایک بڑی خوبی یہ تھی کہ وہ غلط بات کو برملا غلط کہتے تھے، اُس کے کرنے والے ان کے اپنے ساتھی یا حامی ہی کیوں نہ ہوں۔ غالباً 1970ء میں کئی سال کی پابندی کے بعد پنجاب یونیورسٹی یونین کے انتخابات ہوئے تو جماعت اسلامی پاکستان کے موجودہ نائب امیر حافظ محمد ادریس کی قیادت میں اسلامی جمعیت طلبہ کے حمایت یافتہ پینل نے سابق وفاقی وزیر اور پیپلز پارٹی کے رہنما جہانگیر بدر اور ان کے پینل کو شکست دی۔ شکست خوردہ پینل نے نتائج تسلیم کرنے سے انکار کیا، چنانچہ رات دو بجے نتائج کا اعلان ہوسکا۔ یونیورسٹی انتظامیہ کامیاب پینل کو اختیارات منتقل کرنے میں ہچکچا رہی تھی۔
اگلے روز حافظ ادریس اور جمعیت طلبہ کے بعض دوسرے سرکردہ رہنما اُس وقت کے وائس چانسلر علامہ علاالدین صدیقی مرحوم سے اس مسئلے پر بات کرنے ان کی رہائش گاہ پر گئے۔ دورانِ گفتگو مبینہ طور پر کچھ تلخی ہوگئی اور ایک طالب علم کا ہاتھ لگنے سے وائس چانسلر کے کمرے کا ایک ٹیبل لیمپ ٹوٹ گیا۔ یہ خبر اخبار میں چھپی تو سب سے پہلا ردّعمل مولانا مودودیؒ نے ظاہر کیا۔ انہوں نے باقاعدہ ایک بیان جاری کیا جس میں کہا کہ اسلامی جمعیت طلبہ ایک دینی تحریک ہے، اس کا کام اپنے کارکنوں کی بہترین تربیت کرنا ہے، اساتذہ کا احترام ہر اعتبار سے مقدم ہے۔
اسلامی جمعیت طلبہ کے بعض رہنمائوں اور کارکنوں کی موجودہ حرکت سے جمعیت کی اصل تربیت کی نفی ہوتی ہے، اس واقعے سے میرا سر شرم سے جھک گیا ہے۔ مولانا کے اس بیان کے فوراً بعد اسلامی جمعیت طلبہ کی مرکزی مجلس شوریٰ نے جمعیت کے مرکزی ناظم اعلیٰ ڈاکٹر کمال اور لاہور جمعیت کے ناظم اور پنجاب یونیورسٹی یونین کے نو منتخب صدر حافظ ادریس، مغربی پاکستان جمعیت کی شوریٰ کے رکن زاہد بخاری، نسیم انصاری اور بعض دوسرے اہم اور سرکردہ ارکان کو ان کے عہدوں اور رکنیت سے سبکدوش کردیا جس کے بعد پنجاب یونیورسٹی انتظامیہ نے حافظ ادریس، نسیم انصاری، محمد اشفاق اور بعض دیگر طالب علموں کو یونیورسٹی سے خارج کردیا۔
سب جانتے ہیں کہ اگر مولانا کردار کی اس پختگی اور عالی ظرفی کا مظاہرہ نہ کرتے تو یونیورسٹی انتظامیہ ان رہنمائوں کو خارج کرنے کی ہمت نہیں کرسکتی تھی۔ بعد میں اِن رہنمائوں کے ساتھ مولانا کا رویہ یقیناً مشفقانہ رہا ہوگا، مگر اُس وقت غلطی کی نشان دہی اور مذمت کرنے سے مولانا نے گریز نہیں کیا، اور یہ ان کے اعلیٰ کردار کی روشن دلیل ہے۔
1970ء کی انتخابی مہم شروع ہوئی تو مشرقی پاکستان میں عوامی لیگ اور مغربی پاکستان میں پیپلز پارٹی کی ساری مہم مولانا مودودیؒ کی ذات کے گرد گھوم رہی تھی۔ یوں محسوس ہوتا تھا گویا اِن جماعتوں کا انتخابی منشور مولانا مودودیؒ کی ذات پر رکیک حملے کرنے کے سوا کچھ نہیں۔ مگر مولانا نے اس قدر صبر و تحمل کا مظاہرہ کیا کہ ایک جلسۂ عام میں شورش کاشمیری مرحوم کو یہاں تک کہنا پڑا کہ قافلۂ سادات میں حسینؓ کے بعد اسلام کا سب سے بڑا مظلوم سید مودودیؒ ہے۔ ایک بار کسی نے مولانا سے پوچھا کہ پیپلزپارٹی اپنی ساری قوت آپ کے خلاف کیوں لگا رہی ہے؟ اس کا مولانا نے وہ تاریخی جواب دیا جو بعد میں حرف بہ حرف صحیح ثابت ہوا۔ مولانا نے کہا:
’’پیپلز پارٹی کی قیادت یہ بات اچھی طرح جانتی ہے کہ اس کی لادینیت، فسطائیت اور غیر جمہوری ہتھکنڈوں کی راہ میں واحد اور مستقل رکاوٹ ہمارے تربیت یافتہ کارکن ہیں اور وہ ہر میدان میں ان کا مقابلہ کرنے کی پوری صلاحیت رکھتے ہیں۔ ان کارکنوں کو کسی لالچ، خوف یا دبائو کے ذریعے اپنے مقصد سے نہیں ہٹایا جا سکتا، جبکہ باقی لوگوں کی مخالفت محض وقتی ہے جو بعض مفادات کے گرد گھومتی ہے۔‘‘
بعد میں یہ بات سچ ثابت ہوئی۔
مولانا کو صرف ایک بار میں نے سخت غصے اور اضطراب میں دیکھا۔ گو اس موقع پر بھی انہیں اپنے اوپر پورا کنٹرول تھا، مگر ان کی اندرونی کیفیت چھپی نہ رہ سکی جو کم ہی ظاہر ہوتی تھی۔ یہ اُس وقت کی بات ہے جب پیپلز پارٹی کی حکومت نے میاں طفیل محمد کو گرفتار کیا اور جیل میں پولیس اور جیل حکام نے میاں صاحب جیسے درویش صفت انسان کے ساتھ وہ سلوک کیا جو آزاد قومیں اپنی مفتوح قوم سے بھی نہیں کرتیں۔ شام کے وقت اچھرہ میں احتجاجی جلسے کا اعلان ہوا۔ صرف ایک اعلان پر کئی ہزار افراد جمع ہوگئے۔ مولانا مودودیؒ علالت کے باوجود تشریف لائے۔
نقاہت کے باعث انہوں نے بیٹھ کر تقریر کی۔ یہ پہلا موقع تھا جب میں نے دیکھا کہ مولانا شیروانی کے بجائے گائون پہن کر کسی پبلک تقریب میں آئے۔ ابتدا میں مولانا کی آواز قدرے بلند تھی۔ وہ اپنے جذبات پر بمشکل قابو پا رہے تھے۔ مگر پھر انہوں نے کارکنوں کو صبر کی تلقین کی۔ انہوں نے کہا کہ پیپلز پارٹی نے آج اپنے زوال کا آغاز کردیا ہے، اب اس کے اقتدار کو کوئی نہیں بچا سکے گا۔ مولانا نے اس موقع پر وہ تاریخی الفاظ کہے جو رہتی دنیا تک حکمرانوں کے لیے دلیلِ راہ ہو سکتے ہیں۔ مولانا نے فرمایا:
’’جب ظالم اور جابر لوگ برسراقتدار ہوتے ہیں تو لوگ گھنٹوں سر جوڑ کر بیٹھتے ہیں اور سوچتے ہیں کہ اتنے مضبوط لوگوں سے چھٹکارا کیسے ہوگا۔ مگر جب وہ اقتدار سے علیحدہ ہوجاتے ہیں اور اصل حقائق لوگوں کے سامنے آتے ہیں تو لوگ اس بات پر حیران ہوتے ہیں کہ اتنے کمزور اور کھوکھلے لوگ اتنے دن اقتدار پر قابض کیسے رہ گئے!‘‘
ستمبر 1979ء میں مولانا اس دارِ فانی سے کوچ کر گئے۔ میت لاہور پہنچی اور عام زیارت کے لیے تقریباً اُسی جگہ رکھی گئی جہاں 32 سال سے عصر کے بعد مجلس میں مولانا کی کرسی ہوا کرتی تھی۔ لوگوں کا ایک ہجوم تھا۔ مولانا کا دیدار کرنے والوں کی قطار کا آخری سرا شمع سینما تک پہنچا ہوا تھا۔ تقریباً 12 بجے میں مولانا کی میت کے قریب پہنچ سکا۔ ایک لمحے کے لیے میت کے سرہانے رک کر میں نے نظر اٹھائی تو میری حیرت کی کوئی انتہا نہ رہی کہ سید مودودیؒ کے چہرے پر وہی اطمینان تھا جو میں نے پہلی بار جیل سے رہائی کے موقع پر اُن کے چہرے پر دیکھا تھا۔