برطانیہ میں ہم جنس پرستوں کا اجتماع

اٹلی میں ہم جنس پرستی کی مخالف جماعت کی انتخاب میں کامیابی
اپنی جنس کو ظاہر نہ کرنا دراصل ہم جنس پرستی کا بھیانک روپ ہے

ہم جنس پرستی کا سیلاب اب چہار جانب سے امڈ کر دنیا کو ایک نئی مصیبت میں مبتلا کررہا ہے۔ گوکہ اس کام کا آغاز خود یورپ میں بھی ہم جنس پرستی کے عنوان کے ساتھ نہیں ہوا بلکہ آہستہ آہستہ اس کو معاشرے میں قابلِ قبول بنانے میں جس نے عمل انگیز کا کام کیا وہ دراصل جنس کی نامعلوم شناخت تھی۔ یورپ میں اس اصطلاح کا عملاً استعمال ہم جنس پرستی کو فروغ دینے کے لیے کیا گیا اور بہانہ یہ تراشا گیا کہ دراصل اس کی کوئی جنس ہی نہیں۔ اس کے ساتھ ہی Queer کی اصلاح بھی ایسے ہی خواتین و حضرات کے لیے استعمال کی گئی جس کا مطلب ہےان کی جنسی ضروریات شاید عام جنس (مرد و عورت) سے الگ ہوں۔ باقاعدہ طور پر اس سلسلے میں مظاہرے، سیمینار اور مارچ منعقد کیے گئے جس کا مقصد اسے ایک جائز عمل کے طور پر نہ صرف تسلیم کرنا بلکہ قانون میں ترمیم کرکے اسے قانونی حیثیت دینا بھی تھا۔

گزشتہ دنوں برطانیہ کے دوسرے بڑے شہر برمنگھم کے قلب میں ہم جنس پرستوں کا میلہ 23 تا 25 ستمبر منعقد ہوا جس کا نام Pride Festival رکھا گیا۔ اس میلے کا مقصد ہم جنس پرستوں کو آپس میں ملانا اور ہم جنس پرستی سے متعلق آگہی دینا تھا۔ ایسے میلے برطانیہ کے مختلف شہروں میں منعقد ہوتے ہیں اور ان کے ذریعے ہم جنس پرستی کی تحریک کو مزید آگے بڑھانا مقصود ہوتا ہے۔ اس فیسٹیول کے منتظمین کے مطابق اس میں تقریباً 40ہزار لوگوں نے شرکت کی اور تقریباً 70 ہزار افراد تک ان تقریبات کی رسائی رہی۔ اس فیسٹیول کا اختتام ایک مارچ کی صورت میں ہوا جس میں شرکائے فیسٹیول نے حصہ لیا۔ 25 سال قبل 1997ء میں باقا عدہ طور پر ہم جنس پرستی کو قانونی حیثیت دینے کے لیے جدوجہد کا آغاز کیا گیا تھا۔یہ مارچ دراصل اس تحریک کی یاد میں تھا۔ 25 سال کے مختصر سے عرصے میں یورپ میں اس تحریک نے حیرت انگیز کامیابی حاصل کی ہے۔ ریاست اور کلیسا کو براہِ راست چیلنج کرکے ایسی قانون سازی کروالی گئی ہے جس کے ذریعے ہم جنس پرستی کو نہ صرف قانونی طور پر جائز قرار دے دیا گیا بلکہ جنس کی اصل حیثیت کا تعین یا اس کو چھپانے کی اجازت بھی قانونی طور پر ہر فرد کو دی گئی ہے۔ یہ مغرب کا وہ انتہائی قدم ہے جو خاندان کے نظام اور انسانی نسل کی بقاء کو عملاً ختم کردے گا۔

اب تک مغرب خود سنگل پیرنٹ سسٹم پر قائم تھا کہ جہاں ریاست نے ماں کو عملاً تعلیم، صحت، روزگار کی ضمانت دے کر اس کی زندگی کو سہل بنادیا تھا، لیکن اب ہم جنس پرستی ایک ایسا سیلابِ بلاخیز لے کر آرہی ہے جس میں نہ تو والد والدہ کا تصور ہوگا اور نہ ہی کسی اولاد کا۔ طرفہ تماشا یہ کہ برطانیہ میں چرچ آف انگلینڈ کی شدید مخالفت کے باوجود بھی قانون سازی کے عمل کو روکا نہیں جاسکا۔ اب ہر فارم بھرتے وقت آپ کو اپنی جنسی شناخت کو ظاہر نہ کرنے کی مکمل آزادی حاصل ہے۔ اپنی جنس کو ظاہر نہ کرنا دراصل ہم جنس پرستی کا بھیانک روپ ہے کہ جس میں عملاً ایک عورت یا مرد یہ کہہ دیتا ہے کہ اس نے ابھی تک اپنی جنس کا تعین ہی نہیں کیا، یا پھر وہ اس بارے میں کچھ بتانا نہیں چاہتا۔

پرائڈ فیسٹیول میں بھی ایسی ہی اصطلاحات کا استعمال کیا گیا اور اس کو LGBTQ+ Festival کہا گیا یعنی ہم جنس پرستوں کے علاوہ وہ بھی جو اپنی جنسی شناخت ظاہر نہ کریں یا پھر اس کو چھپائیں۔ مغرب میں گوکہ اس پر قانون سازی ہوچکی ہے، لیکن آج بھی مغرب میں اس کے خلاف ایک بڑی رائے عامہ موجود ہے جو کہ اس کو انسانیت اور بنیادی انسانی اخلاقیات کے خلاف سمجھتی ہے۔ یورپ کی تیسری بڑی معیشت اٹلی کے انتخابات میں برادرز آف اٹلی نامی پارٹی نے کامیابی حاصل کی ہے۔ اس پارٹی کی قائد جارجیا ملونی انتہائی دائیں بازو کے نظریات کی حامل ہیں، ان کے انتخابی نعروں میں سرفہرست ہم جنس پرستی کا خاتمہ، جنس کی شناخت چھپانے کا خاتمہ، خاندانی نظام کا تحفظ، بین الاقوامی اندھا دھند سرمایہ کاری سے نجات جیسے نعرے شامل تھے۔ اب ملونی کی کامیابی کو مغربی میڈیا ان نعروں کی بنیاد پر انتہاپسندی سے بھی جوڑ رہا ہے۔ میڈیا کے تبصروں میں ملونی کو اٹلی کے فاشسٹ مسولینی کی پارٹی سے بھی جوڑا جارہا ہے۔

برطانیہ سمیت پوری دنیا میں منعقد ہونے والے ہم جنس پرستوں کے اجتماعات کے اصل محرک یا اسپانسر اس وقت بڑے مالیاتی ادارے، بینک اور برانڈ ہیں۔ اس سرمایہ دارانہ نظام میں جنس کو ایک بنیادی ٹول کے طور پر استعمال کیا جاتا رہا ہے۔ پہلے آزادانہ جنسی مراسم، مرد و خواتین کا اختلاط، عورت کو ایک ماڈل بناکر پیش کرنا اور اس کے لیے اُس کا لباس، جسم کے خدوخال کیسے ہوں، میک اپ اور عورت کو عورت کے بجائے مرد کے روپ میں پیش کرنا تاکہ کاروباری مقاصد کو پورا کیا جاسکے، اور کھانے پینے سے لے کر برانڈز کا ایک ایسا جال جو کہ پیسے کی ضروریات کو لامحدود کردے اور اس کے نتیجے میں ہر فرد کمانے اور خرچ کرنے کی فکر میں ہو۔

اور اب ہم جنس پرستی کا نیا جال کہ جس میں لاکھوں روپے کی جنس کی تبدیلی سے لے کر نہ نجانے کیا کچھ ان کے کاروبار کو وسعت دینے کے لیے ایک باقاعدہ ایجنڈے کے تحت کیا جارہا ہے۔ اس ضمن میں جنسی تعلیم سے لے کر جنس کی تبدیلی اور ہم جنس پرستوں کے لیے قانون سازی تک اب ایک ایسا دھندا ہے جس میں خود بین الاقوامی مالیاتی ادارے غریب ممالک پر دباؤ ڈال کر قرض حاصل کرنے کی شرائط میں ان سب کا اندراج روشن خیالی کو فروغ دینے کے نام پر کرتے ہیں۔

یورپ کا بھی کوئی ملک اگر اس کا انکار کرے تو اسے فاشسٹ قرار دے دیا جاتا ہے۔ اس سلسلے میں قابلِ قدر کام قطر نے بھی سرانجام دیا ہے کہ جس نے فیفا ورلڈکپ کے دوران ہم جنس پرستوں کے جھنڈے لہرانے، نشانات استعمال کرنے کو خلافِ قانون قرار دے کر منتظمین و تماشائیوں کو متنبہ کیا ہے کہ یہ اقدام اسلام اور قطر کے قانون کے خلاف ہے، لہٰذا کوئی بھی اس میں ملوث پایا گیا تو اس کے خلاف قانونی چارہ جوئی کی جائے گی۔

پاکستان میں بھی اب ہم جنس پرستی کے لیے قانون سازی کی جارہی ہے اور کچھ کی جاچکی ہے، لیکن اس میں مثبت بات پوری قوم کا ان قوانین پر اظہارِ مذمت ہے جس میں علماء، وکلاء، اساتذہ، اراکینِ پارلیمنٹ اور خود اب حکومت شامل ہے کہ جس نے اس قانون سازی میں موجود خلافِ اسلام اور خلافِ قانون باتوں کو حذف کرنے کا عندیہ دیا ہے۔

دورِ جدید بہت سے نئے رجحانات لے کر آرہا ہے جن میں سب سے خطرناک ہم جنس پرستی کا سیلاب ہے جس سے نہ صرف نسلِ انسانی کی بقا کو خطرہ ہے بلکہ انسانیت ایک ایسے حادثے کا شکار ہونے جارہی ہے جس کا انجام بھیانک تباہی کے سوا کچھ نہیں۔ اس پر ہم خیال افراد، ممالک، حکومتوں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کیا جانا چاہیے تاکہ اس عالمگیر مسئلے سے اسی پیمانے پر نمٹا جاسکے۔