متنازع ٹرانس جینڈر کا قانون اور لبرلزم کا بخار

نائن الیون کے بعد پاکستانی معاشرے کو تبدیل کرنے کے غیر ملکی منصوبے کے سلسلے کی ایک کڑی

پاکستان ایک اسلامی مملکت ہے اور آئین میں اس کا نام اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے۔ آئین کے آرٹیکل31 میں ضمانت دی گئی ہے کہ وفاقی حکومت ملک میں ایسے اقدامات کرے گی جن سے پاکستانی معاشرے میں اسلامی تعلیمات کی مکمل جھلک نظر آتی ہو، اور مسلمان شہری بھی اپنی زندگیوں کو اسلام کی تعلیمات کی روشنی میں بسر کرنے میں آسانی محسوس کریں۔ لیکن عمومی مشاہدہ اس کے برعکس ہے۔ پاکستان میں تین آئین تشکیل دیے گئے۔ 1956ء، اس کے بعد 1962ء اور پھر1973ء میں آئین بنایا گیا، یہی آئین آج تک ملک میں متعدد ترامیم کے ساتھ نافذالعمل ہے۔ ملک میں متعدد سیاسی امور عدلیہ کے روبرو پیش کیے جانے کے واقعات کے بعد ملکی میڈیا، معاشرہ اور عام لوگ بھی اب آئین کی دفعات سے آہستہ آہستہ روشناس ہوتے جارہے ہیں۔

آرٹیکل6 سے متعلق بحث تو اب گلی محلوں میں ہوتی ہے، اسی طرح آرٹیکل 62،63 بھی اب بحث کا موضوع رہنے لگے ہیں، مگر آئین کے آرٹیکل31 پر بہت کم بحث ہوتی ہے۔ اسلام آباد میں پاکستان میڈیا تھنک ٹینک ایک ایسا فورم ہے جس نے متعدد بار اس آرٹیکل پر گروپ ڈسکشن کا اہتمام کیا ہے، یوں اسے اس آرٹیکل پر بحث شروع کرانے والے کی حیثیت حاصل ہے۔ ان دنوں ملکی میڈیا، سیاسی، علمی اور سماجی حلقوں میں ٹرانس جینڈر کا موضوع بحث کا مرکز بنا ہوا ہے، بہت کم لوگ اس بارے میں جانتے ہیں۔ مگر یہ معاملہ کوئی اچانک پیدا نہیں ہوا۔ یہ معاملہ سپریم کورٹ پہنچا، جسٹس افتخار چودھری نے مخنث افراد کو شناختی کارڈ بناکر دینے کا حل جاری کیا۔

یہ معاملہ سلمان فاروقی اُس وقت کے وفاقی محتسب کے روبرو بھی پیش کیا گیا تھا، اب یہ وفاقی شرعی عدالت کے روبرو ہے۔ پاکستان میں یہ معاملہ نائن الیون کے بعد پیدا ہونے والی تبدیلیوں کے سلسلے کی کڑی ہے، اس جانب خاموشی کے ساتھ بہت سا کام ہوتا رہا، بہت عرصہ قبل اسلام آباد میں ایک بڑے ملک کے سفارت خانے میں ہم جنس پرست لوگوں کا ایک اکٹھ ہوا تھا، تاہم یہ خبر پھیلی نہ اور نہ اسے پھیلانے کا کوئی منصوبہ تھا، کیونکہ ایک حلقہ خاموشی کے ساتھ اپنے طے شدہ منصوبے پر عمل درآمد چاہتا تھا۔ یہ جو ملک میں لبرلزم کا بخار مسلسل تیز ہورہا ہے ٹرانس جینڈر اس بخار کی ایک شکل ہے۔

یہ حتمی حقائق ہیں کہ اسلام بطور دین انسان کی سیاسی، سماجی اور شخصیت کی مکمل حفاظت کی ضمانت فراہم کرنے والا دین ہے۔ سورہ الحجرات، سورہ نور اور متعدد دیگر سورتوں سمیت قرآن حکیم میں متعدد مقامات پر مرد اور عورت میں تمیز اور ان کے فرائض کی تصویرکشی کی گئی ہے، جنس کی بنیاد پر اسلام نے کہیں بھی کوئی ایسا حکم جاری نہیں کیا جس سے کسی جنس کی حق تلفی ہو، بلکہ بے مثال تحفظ ہی فراہم کیا گیا ہے۔ بیشتر کا خیال ہے کہ ٹرانس جینڈر ایکٹ خنثیٰ(خواجہ سرا) کو تحفظ دینے کا قانون ہے۔ اسلام تو بطور دین ہر شخص کے حقوق کا ضامن ہے لیکن ٹرانس جینڈر کے نام پر بحث کے ذریعے ایک متنازع شکل دی جارہی ہے۔

اس میں اصل مسئلہ لفظ ’’ٹرانس‘‘ کا ہے، اس کا معنی بڑا ہی واضح ہے۔ اس موضوع پر ہونے والی بحث کی ساری کہانی اسی کے گرد گھومتی ہے۔ پیدائشی طور پر جنسی نقص کا شکار بچے اس قانون کے مخاطب ہیں، اسلام ایسے افراد کو تیسری جنس کہہ کر معاشرے سے باہر نہیں نکالتا، بلکہ انہیں مرد عورت/ مذکر مونث کا نام دیتا ہے اور تمام شرعی حقوق انہیں میسر ہیں، ان کی عزتِ نفس کا پورا خیال رکھا گیا ہے۔ کم علمی اور جہالت کی وجہ سے جنسی پیدائشی نقص کو بنیاد بناکر ان لوگوں کی زندگیوں سے کھیلا جارہا ہے۔ یہ ظلم ہے اور انسانیت کے خلاف ہے۔

آئین کے آرٹیکل 35 میں خاندان، ماں اور بچے کے تحفظ کو یقینی بنانے کی ضمانت موجود ہے۔ خنثیٰ بچے کو خاندان سے الگ کرکے جرائم پیشہ افراد کے حوالے کرنا انسانی حقوق اور چائلڈ رائٹس کمیشن (CRC) کی بھی خلاف ورزی ہے۔ ٹرانس جینڈر ایک ایسا راستہ ہے جو جدید نظریے کے ذریعے ہم جنس پرستوں کی تمام اقسام میں اپنا گھناؤنا کام کرتا ہے۔ یہ ایکٹ یوگیاکارتا پرنسپل کا ایجنڈا ہے جسے پاکستان میں نافذ کرنے کی کوشش ہورہی ہے۔ LGBTQ نظریات بھی ہم جنس پرستی اور جنسی بے راہ روی کو قانونی تحفظ دینے کی کوشش ہے۔

یہ شیطانی نظریہ ہے جس میں جنس کو اختیاری قرار دیا گیا ہے۔ اس قانون کے تحت کوئی بھی شخص ذاتی احساسات کی بنیاد پر اپنی جنس تبدیل کرسکتا ہے۔2021ء کی وزارتِ داخلہ کی رپورٹ کے مطابق اس ایکٹ کے تحت 28,723 لوگ اپنی جنس تبدیل کروا چکے ہیں۔ ٹرانس جینڈر رولز 2020 کے تحت ہر کوئی سرجری یا ہارمونز تھراپی کروا کر اپنی جنس تبدیل کر سکتا ہے۔ رولز 2020 میں جس دستاویز کے تحت اجازت دی گئی ہے وہ شریعت کے منافی ہے۔ ٹرانس جینڈر ایکٹ کو سمجھنے کے لیے اس کے لیے استعمال کی جانے والی اصطلاحات کا سمجھنا بہت ضروری ہے۔

نئے نظریۂ جنس کے مطابقGender اور Sexکی تعریف الگ الگ کی جاتی ہے، یہی اس باطل نظریے کی بنیاد ہے۔ اقوام متحدہ ہم جنس پرستی کو عالمی تحفظ فراہم کرنے والا ادارہ ہے۔ عالمی ادارۂ صحت کے مطابق Sex اور Genderکی الگ الگ تعریف ہے۔ نظریۂ جنس نے جینڈر (Gender) کو جنس (Sex) سے مختلف بتانا شروع کردیا اور اللہ کی تخلیق کو ایک طرف رکھ کر انسان کو اپنی مرضی سے تبدیلی کی اجازت اور مکمل آزادی دی گئی ہے، اسی لیے سیکس اور جینڈر کی گمراہ کن اصطلاحات متعارف کرائی گئی ہیں۔ Sexual Orientation میں کہا گیا ہے کہ کسی فرد کی کشش، جسمانی تعلق یا احساس ہے جو وہ کسی دوسرے فرد کے

لیے محسوس کرتا ہے۔ یہیں سے جنسی آزادی کی ابتدا ہوتی ہے۔Gender Identity یہ وہ جنسی شناخت ہے جو کوئی فرد اپنے اندرونی اور باطنی احساسات اور رجحانات کی بنیاد پر اختیار کرتا ہے۔ یہ اس کی پیدائش، جنسی شناخت اور معاشرے کی طرف سے دی گئی شناخت کے مطابق بھی ہوسکتی ہے اور اس کے غیر مطابق بھی۔ یعنی جنسی شناخت اختیار کرنے کی مکمل آزادی۔ اس تعریف سے یہ ثابت کیا جاتا ہے کہ ایک مرد جب چاہے عورت کی شناخت اختیار کرلے، یا عورت مرد کی شناخت۔ مگر اسلامی شریعت میں ایسی کوئی اجازت نہیں ہے۔ شریعت میں مردوں کا عورتوں اور عورتوں کا مردوں کی مشابہت اختیار کرنا حرام ہے۔

ٹرانس جینڈر ایکٹ2018 کی تعریفات میں آرٹیکل 2 کی شق E اور Fمیں جینڈر ایکسپریشن (Gender Expression)اور جینڈر آئیڈنٹٹی (Gender Identity) میں یہی دو تعریفات نئے نظریۂ جنس اور LGBTQ نظریات کی بنیاد ہیں۔ یہی ہم جنس پرستی کو جواز فراہم کرتی ہیں۔ دعویٰ یہ ہے کہ یہ قانون خواجہ سرا کی وراثت کے لیے بنایا جارہا ہے، جس کی جسمانی ساخت عورت کی طرح ہے اسے عورت قرار دے دیا جائے اور جو مرد، مرد جیسی جسمانی ساخت رکھتا ہے وہ مرد لکھ دیا جائے اور اسے وراثت میں حصہ مل جائے۔

لیکن اس معاشرے میں وراثت دینے کے معاملے میں بہت سی خرابیاں ہیں، ان خرابیوں کو دور کرنے اور ان افراد کے تحفظ کے لیے سینیٹر مشتاق احمد خان کی جانب سے ترمیم شامل کرنے کے لیے میڈیکل بورڈ کی شرط عائد کرنے کی سفارش کی گئی ہے۔ اسلامی نظریاتی کونسل سے بھی قانون سازی کے لیے رائے نہیں لی گئی۔ پاکستان کے آئین کے مطابق پارلیمنٹ خلاف ِشریعت قانون منظور نہیں کر سکتی۔خنثیٰ معاشرے میں تعداد میں بہت کم ہیں، ان کا سماجی تحفظ تو کیا ہونا ہے ان کی آڑ میں ہم جنس پرستوں کی شادی کا راستہ ہموار ہوجائے گا اور جنسی مجرموں کی حوصلہ افزائی ہوگی۔

یہ قانون بنانے کے لیے یہ بل 21 اگست 2017ء کو متعارف کرایا گیا، 2018ء میں یہ ایکٹ بنا۔2018ء میں شاہد خاقان عباسی وزیراعظم تھے۔ پیپلز پارٹی، مسلم لیگ(ن)، تحریک انصاف، ایم کیو ایم سب آن بورڈ تھیں۔ جب تحریک انصاف کی حکومت آئی تو اس نے اِس قانون کے نفاذ کو اور زیادہ مؤثر بنا دیا اور ٹرانس جینڈر رولز 2020 بالآخر نافذ کردیے گئے۔ جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد خان نے اس میں ترامیم کی کوشش کی۔

بہرحال یہ بل متعلقہ کمیٹی میں ہے جہاں اس پر پہلی میٹنگ 5 ستمبر 2021ء کو ہوئی۔ کمیٹی کا اجلاس اگلے ماہ اکتوبر میں ہوگا۔ ترامیم کے مطابق اس ایکٹ میں ٹرانس جینڈر کی تعریف نمبر 2 اور تعریف نمبر 3 جس میں ترمیم کی سفارش کی گئی ہے۔ ٹرانس جینڈر کے تعین کے لیے ذاتی تصور کی ہوئی جنسی شناخت کے بجائے اسے میڈیکل بورڈ سے مشروط کیے جانے اور میڈیکل سرٹیفکیٹ حاصل کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ اس میڈیکل بورڈ میں ڈاکٹر، پروفیسر، سرجن، گائناکالوجسٹ اور سائیکالوجسٹ شامل ہوں جو فیصلہ کریں کہ یہ واقعی خنثیٰ(Inter Sex) ہے یا نہیں۔

ٹرانس جینڈر پرسنز (پروٹیکشن آف رائٹس) ایکٹ 2018 میں ترمیمی بل کے محرک سینیٹر مشتاق احمد خان کے مطابق دستورِ پاکستان کے تحت ملک میں قانون سازی اسلامی تعلیمات کے مطابق ہی ہوسکتی ہے، یہ قانون اسلامی اقدار اور ثقافت کے خلاف ہے۔ قانون میں انٹر سیکس اور ٹرانس جینڈر کو ایک ظاہر کیا گیا ہے، جبکہ مؤخرالذکر ایک امبریلا ٹرم ہے، جو ایک سے زیادہ قسم کے ٹرانس جینڈر افراد کے لیے استعمال ہوتی ہے، قانون کسی بھی پاکستانی شہری کو اپنی مرضی کے مطابق اپنی جنس کے تعین کی آزادی فراہم کرتا ہے، اور یہی وجہ ہے کہ 2018ء کے بعد سے 30 ہزار سے زیادہ افراد سرکاری ریکارڈ میں اپنے آپ کو مخالف جنس کے طور پر رجسٹر کروا چکے ہیں۔ کسی شہری کو اس کی جنس کے تعین کا اُس کی سمجھ کے مطابق اختیار دینا اسلام کے بنائے ہوئے شادی کے ادارے کو تباہ کردے گا، اسی لیے سینیٹ میں قانون میں ترمیم کرنے کی تجویز دی ہے۔