اس وقت عمران خان اپنی سیاسی مقبولیت کے عروج پر ہیں اور انہیں اپنے تمام سیاسی مخالفین پر برتری حاصل ہے۔ اگرچہ یہ تاثر دیا جارہا ہے کہ وہ طاقت ور طبقات کے ساتھ ہر قیمت پر مفاہمت اور اقتدارچاہتے ہیں اور اس کی خاطر ہر قسم کے سمجھوتے کے لیے بھی تیار ہیں۔ لیکن حقائق یہ ہیں کہ وہ واقعی سمجھوتا چاہتے ہیں، کیونکہ ان کو اندازہ ہے کہ طاقت ور طبقات کو نظرانداز کرکے اقتدار کی کا حصول بہت مشکل ہے۔ لیکن اس کھیل میں ان کو طاقت ور طبقات کے مقابلے میں ایک بڑی برتری عوامی طاقت یا مقبولیت کی وجہ سے برتری حاصل ہے۔ وہ اپنی اسی طاقت کی بنیاد بنا بلکہ کچھ لو اورکچھ دو کے اصول کے تحت اپنی شرائط بھی منوانا چاہتے ہیں۔ کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ یہ ایک بڑی اعصابی جنگ بھی ہے، اور اس میں وہی جیتے گا جو زیادہ مضبوط اعصاب کا مالک ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ وہ مفاہمت اور مزاحمت کے دونوں کارڈ خوب کھیل رہے ہیں۔
عمران خان بنیادی طور پر تین نعروں کے ساتھ سیاسی میدان میں حکمران اتحاد کو چیلنج کررہے ہیں:
(1) وہ اس حکومت کو منتخب حکومت ماننے کو تیار نہیں، اور ان کے بقول یہ حکومت داخلی و خارجی سازش کے تحت سامنے لائی گئی ہے۔
(2) وہ ملک میں فوری عام انتخابات چاہتے ہیں، لیکن ان انتخابات سے قبل وہ انتخابی اصلاحات پر بھی زور دے رہے ہیں۔ انتخابات کو شفاف اور غیر متنازع بنانے کے لیے وہ سیاسی مخالفین سے بھی بات چیت کے لیے تیار ہیں۔
(3) انہوں نے مطالبہ کیا ہے کہ نئے آرمی چیف کی تقرری کا معاملہ نئی حکومت پر چھوڑ دیا جائے، اور یہ موجودہ حکومت نئے آرمی چیف کی تقرری کا اختیار ہی نہیں رکھتی۔
اس وقت عمران خان کا سیاسی بیانیہ مضبوط ہے، اور اسی بنیاد پر وہ لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ جبکہ اس کے برعکس حکمران اتحاد بشمول پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) عمران خان کے خلاف کوئی متبادل بیانیہ نہیں بناسکے ہیں۔ یہ بات حکمران اتحاد کے حمایت یافتہ افراد یا اہلِ قلم بھی کہہ رہے ہیں کہ ان کا بیانیہ اس حد تک طاقتور نہیں کہ وہ سیاسی محاذ پر عمران خان کا مقابلہ کرسکیں۔
عمران خان کو ایک بڑی سیاسی برتری ملنے کی وجہ حکمران اتحاد کی حکمرانی سے جڑے مسائل بھی ہیں۔ حکمران اتحاد نے حکومت بنانے سے پہلے یہ دعویٰ کیا تھا کہ وہ نہ صرف تجربہ کار اور باصلاحیت ہیں بلکہ ملک میں سیاسی اور معاشی تبدیلی کا ایک واضح روڈمیپ بھی رکھتے ہیں۔ مگر رجیم چینج کے بعد جو حالات اس حکومتی دور میں بنے ہیں اور ملک کو جس معاشی بدحالی اور مہنگائی کا سامنا ہے اس سے خود حکومت کی ساکھ پر ہی سوالیہ نشان لگ گئے ہیں۔ پیٹرول، ڈیزل اور بجلی کی قیمتوں میں ہوشربا اضافے نے حکمرانوں کو سیاسی پسپائی پر مجبور کیا ہوا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حکمران اتحاد فوری انتخابات کا مخالف ہے اور وہ سمجھتا ہے کہ فوری انتخابات کا براہِ راست فائدہ عمران خان کو ہوگا۔ حکمران اتحاد ملکی سطح پر انتخابات سے قبل Level Playing Field کا مطالبہ کررہا ہے۔ بعض حلقے یہ کوشش کررہے ہیں کہ عمران خان اپنی مزاحمت کو ختم کریں اور مفاہمت کا راستہ اختیار کرتے ہوئے دوبارہ پارلیمنٹ کا حصہ بنیں۔ لیکن عمران خان اس شرط کو ماننے کے لیے تیار نہیں، اور انہیں لگتا ہے کہ پارلیمنٹ میں ان کی واپسی سیاسی طور پر ان کو فائدہ کم اور نقصان زیادہ دے گی۔
عمران خان کسی ایک فریق کی مزاحمت نہیں کررہے، بلکہ وہ اسٹیبلشمنٹ، حکمران اتحاد… جس میں خاص طور پر مسلم لیگ (ن)، پیپلزپارٹی اور جے یو آئی شامل ہیں… سمیت عدلیہ اور میڈیا پر بھی سخت تنقید کرتے ہیں۔ امریکہ پر بھی رجیم چینج کے تناظر میں ان کی تنقید شدید تھی لیکن اب اس میں بہت حد تک کمی آگئی ہے۔ عمران خان کو یہ بھی معلوم ہے کہ اگر انہوں نے اپنے مطالبات منوائے تو اس میں اہم کردار حکمران اتحاد کے مقابلے میں اسٹیبلشمنٹ کا ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی دبائو کی سیاست کا بنیادی ہدف اسٹیبلشمنٹ اور سیاسی محاذ پر مسلم لیگ (ن) ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا واقعی عمران خان اپنی مزاحمتی سیاست کے ذریعے اپنے مطالبات منوا سکیں گے؟ وہ ایک بڑے دھرنے کی بنیاد پر لاہور سے اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ کرنے کا فیصلہ کرچکے ہیں۔ ان کے بقول یہ حتمی مارچ ہوگا اور اس میں حکومتی تبدیلی یا نئے انتخابات کا عمل سامنے آئے گا۔ عمران خان تسلسل کے ساتھ اسٹیبلشمنٹ کو یہ پیغام دے رہے ہیں کہ مسئلے کا حل فوری اور شفاف انتخابات ہیں۔ لیکن اس فیصلے پر عمل درآمد کے تناظر میں ان کو سیاسی سمیت اسٹیبلشمنٹ کے محاذ پر بھی مزاحمت کا سامنا ہے۔
عمران خان اسلام آباد کی طرف جو دھرنا یا لانگ مارچ لے کر جانا چاہتے ہیں یہ واقعی ان کی مزاحمتی سیاست کے تناظر میں ایک بڑا سیاسی چیلنج ہے۔ کیونکہ اس سے قبل جو کچھ 25مئی کے لانگ مارچ کے ساتھ ہوا، اور عمران خان کے بقول ہم نے بھرپور تیاری نہیں کی تھی، اس نے پی ٹی آئی کی سیاست کو کمزور کیا اور عمران خان کا مزاحمتی رنگ کمزور دکھائی دیا۔ اس لیے اب اگر وہ لانگ مارچ کی طرف بڑھتے ہیں تو ان کی ماضی کے مقابلے میں کتنی تیاری ہے اورکیا کچھ انہوں نے پچھلی غلطی سے سیکھا ہے، یہ اہم پہلو ہیں۔ اِس بار ایک برتری ان کو حکمران اتحاد پر حاصل ہے، اور وہ پی ٹی آئی کی پنجاب میں حکومت ہے۔ خیبر پختون خوا میں بھی عمران خان کی مضبوط حکومت ہے اور اِس بار ان کو پنجاب سے لوگوں کو نکالنے میں بھی بڑی مزاحمت کا سامنا نہیں ہوگا۔ البتہ دیکھنا یہ ہے کہ وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ اور حکومت کیا حکمت عملی اختیار کرتے ہیں۔ اس حکمت عملی کے نتیجے میں اگر ٹکرائو پیدا ہوا تو اس کا نقصان حکومت کو اور فائدہ عمران خان کو ہی ہوگا۔ لیکن عمران خان کو سوچ سمجھ کر حتمی کال دینی چاہیے، اور اس میں جذباتیت سے زیادہ عقل و فہم درکار ہے۔کیونکہ دھرنے کی ناکامی ان کو سیاسی طور پر نقصان پہنچائے گی۔
اگرچہ عمران خان کے خلاف حکمران اتحاد کی ایک حکمت عملی یہ بھی ہے کہ ان کو سیاست سے نااہل کیا جائے۔ توشہ خانہ اور ممنوعہ فنڈنگ اس وقت اہم ایشوز ہیں، جبکہ دہشت گردی سمیت توہینِ عدالت کا معاملہ بہت حد تک عمران خان کے حق میں نظر آتا ہے۔ لیکن عمران خان نے عوامی سطح پر اپنے جلسوں کی مدد سے یہ بیانیہ بنادیا ہے کہ کچھ لوگ ان کو تکنیکی بنیادوں پر سیاست سے نااہل کرنا چاہتے ہیں۔ اول تو یہ ممکن نہیں، لیکن اگر ایسا ہوتا ہے تو اس سے سیاست آگے بڑھنے کے بجائے اور زیادہ ٹکرائو میں تبدیل ہوگی جس کی ایک بھاری قیمت ہماری سیاست اور معیشت دونوں کو مزید بدحالی کی صورت میں دینی پڑے گی۔
عمران خان کے سامنے ایک چیلنج یہ بھی ہے کہ وہ لوگوں کی ایک بڑی تعداد کو اپنی طرف متوجہ کرچکے ہیں اور لوگ ان کے جلسوں میں بھی جوق در جوق آتے ہیں۔ اگر نئے انتخابات فوری طور پر نہیں ہوتے تو کیا عمران خان مقبولیت پر مبنی اس پورے ماحول کو لمبے عرصے تک قائم رکھ سکیں گے؟ اسی طرح یہ عمران خان کے حامیوں کا بھی ٹیسٹ کیس ہے کہ وہ کس حد تک مزاحمت کی سیاست میں ان کے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں۔ ووٹ دینا یا انتخابی مہم میں جوش پیدا کرنا الگ بات ہے، جبکہ ایک بڑی سیاسی لڑائی میں اپنی مزاحمت یعنی سڑکوں پر متحرک ہونا دوسری چیز ہے۔
اس لیے پانی پت کی ایک بڑی جنگ عمران خان کے حامیوں اوران کے مخالفین کے درمیان ہو بھی رہی ہے اور مزید ہوگی۔ایک طرف ہمیں عمران خان نظر آتے ہیں تو دوسری طرف ان کے سیاسی مخالفین کا اتحاد ہے۔دونوں ایک دوسرے پر سیاسی برتری چاہتے ہیں۔لیکن مسئلہ یہ ہے کہ حالیہ محاذ آرائی اورٹکرائو کی سیاست کسی بھی صورت میں ملک کے مفاد میں نہیں۔ویسے بھی رجیم چینج کے نام پر جو کچھ ہوا وہ عملًا ناکامی سے دوچار ہوا ہے، جو مزید بحران پیدا کرنے کا سبب بھی بنا ہے۔اس لیے موجودہ بحران محض سیاسی نہیں بلکہ ریاستی بحران کی بھی عکاسی کرتا ہے۔اس سے نمٹنے کے لیے ہمیں سیاسی اوردیگر محاذ پر ایک مضبوط حکمت عملی درکار ہے، اوریہ اُس وقت تک ممکن نہیں جب تک سب فریقین مل بیٹھ کر کوئی ایسا ایجنڈا ترتیب نہ دیں جو ریاستی مفادات کو طاقت فراہم کرسکے۔لیکن مسئلہ یہ ہے کہ اس وقت حکومت اور حزب ِاختلاف مل بیٹھ کر کچھ طے کرنے کے لیے تیار نہیں، اوریہی بات بحران کے حل میں سب سے بڑی رکاوٹ بنی ہوئی ہے۔