سیلاب میں ڈوبا پاکستان اور منقسم گندی سیاست

حالیہ سیلاب کو ہم موسمیاتی تبدیلیوں کا نام دے کر اپنی کمزوریاں چھپانے کی کوشش کررہے ہیں

سیلاب پر گفتگو اور اس بارے میں اظہار خیال باسی موضوع نہیں ہے، جن آنکھوں نے سیلاب زدہ متاثرین کی حالتِ زار دیکھی ہے انہیں راتوں کو نیند نہیں آرہی۔ پہلے یہ لوگ بے گھر ہوئے ہیں اور اب بیماریوں میں مبتلا ہورہے ہیں، اور انہیں گھروں کو واپس پہنچنے سے قبل سرد موسم کی شدت اپنی لپیٹ میں لے سکتی ہے۔ سیلاب کے متاثرین کی زندگیوں میں جب تک بہارِ تازہ نہیں آجاتی، ان کے دکھوں کو بیان کرتے رہنا قومی فریضہ ہے تاکہ قوم انہیں بھول نہ جائے۔ پاکستان اس وقت سیلاب کی تباہ کاریوں سے دوچار ہے،75سال میں کبھی اتنا تباہ کن سیلاب دیکھنے میں نہیں آیا جس میں ایک تہائی ملک پانی میں ڈوب گیا۔ لوگ پاکستان میں سیلاب کی تباہ کاریوں کی وجوہات جاننا چاہتے ہیں۔ کچھ کا خیال ہے کہ گلوبل وارمنگ ہے، کچھ اسے جنگلات کی کٹائی کا نتیجہ کہتے ہیں۔

کاربن کا اخراج اور فضائی آلودگی سے درجہ حرارت بڑھنے کے باعث گلیشیئرز پگھلنا اور 700 گنا زیادہ بارشیں موجودہ سیلاب کی اہم وجوہات ہے۔ یہی گلوبل وارمنگ ہے۔ اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے IPCC کی رپورٹ کے مطابق اکیسویں صدی میں پوری دنیا میں گلوبل وارمنگ کی وجہ سے درجہ حرارت6 ڈگری سینٹی گریڈ تک، اور سمندروں کی سطح 88 سینٹی میٹر تک بڑھنے کا خدشہ ہے۔ درجہ حرارت بڑھنے سے موسلا دھار بارشیں بڑھ جائیں گی۔ پاکستان کو 2030ء تک 20 فیصد تک کاربن اخراج کم کرنے کے لیے کم از کم 7 ارب ڈالر سالانہ کی ضرورت ہے جو ملکی وسائل سے ممکن نہیں۔ حالیہ مون سون بارشوں اور سیلابوں نے جہاں ایک جانب ملک کے ایک تہائی حصے کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے وہیں دوسری جانب ملک میں حد سے زیادہ بڑھتی ہوئی سیاسی تقسیم نے پریشان کن صورتِ حال پیدا کررکھی ہے، سیاسی راہنما اس قدر بے نقاب ہوچکے ہیں کہ قدرتی آفات اور حادثات بھی باہمی سیاسی اختلافات وقتی طور پر فراموش کرکے قوم کے زخموں پر مرہم رکھنے، چیلنجز کا مقابلہ کرنے اور اتحاد قائم کرنے پر مجبور نہیں کرسکے۔ اسے بدقسمتی کے سوا اور کیا نام دیا جاسکتا ہے! اس بات کا کسی کو ادراک نہیں کہ مون سون، سیلاب اور قدرتی آفت نے تو ملک کی سیاسی تقسیم کی پروا کیے بغیر تباہی مچائی ہے، حکمران سیاسی جماعتوں نے سیلاب زدگان کی مدد کو بھی سیاسی رنگ دے رکھا ہے جس کے نتیجے میں یہ الزامات سامنے آئے ہیں کہ یہ سیاسی جماعتیں اُن علاقوں تک پہنچ رہی ہیں جہاں ان کی مضبوط حمایت ہے۔ ایک دوسرے پر الزام تراشی ان دنوں عروج پر ہے۔ مرکز میں اتحادی حکومت، پنجاب اور خیبر پختون خوا میں تحریک انصاف کی صوبائی حکومتوں کے درمیان رسّا کشی جاری ہے۔

یہ طرزعمل سیاسی تقسیم کے بڑھاوے کا باعث بن رہا ہے۔ مرکزی حکومت پی ٹی آئی کو ملاکنڈ ڈویژن میں سیلاب سے ہونے والے نقصانات کا ذمہ دار ٹھیرا رہی ہے، اس کے خیال میں صوبے میں تحریک انصاف کی حکمرانی کے حالیہ عشرے کے دوران دریا کے کناروں کے قریب غیر قانونی تعمیرات کی اجازت دی گئی۔ دوسری جانب پی ٹی آئی مرکزی حکومت پر اپنی نااہلی، خراب حکمرانی اور ناقص معاشی پالیسیوں کے ذریعے سیلاب زدہ لوگوں کی مشکلات میں اضافہ کرنے کا الزام لگا رہی ہے۔ اتحادی حکومت کو یہ الزام بھی دیا جارہا ہے کہ آئی ایم ایف کے سخت مطالبات کو تسلیم کرکے حکومت نے سیلاب سے بحالی کے عمل کو مکمل بنادیا ہے۔ ایک دوسرے پرالزام تراشی اورسیاسی پوائنٹ اسکورنگ سے عالمی برادری بھی بہت اچھی طرح سے آگاہ ہے، اس ماحول میں ہمیں ریلیف دینے کے لیے کون آئے گا؟ اور جو مدد کو آرہے ہیں وہ کیا تاثر لے رہے ہیں؟ اس کی کسی کو پروا نہیں ہے۔ مرکزی حکومت نے یہ بیانیہ بنایا ہے کہ سیلاب کے باوجود عمران خان سیاسی ریلیاں جاری رکھنے پر بضد ہیں، وہ اپنی سیاست کو عام لوگوں کے دکھ درد اور پریشانیوں پر ترجیح دے رہے ہیں۔ جبکہ عمران خان ٹیلی تھون کے ذریعے اربوں روپے اکٹھے کرنے کا دعویٰ کررہے ہیں۔

ان حالات میں سیلاب کس طرح ہمیں یک جہتی پر آمادہ کرسکتا ہے! سیاسی تقسیم سیلاب زدہ لوگوں پر منفی اثرات چھوڑ رہی ہے۔ متاثرین بھوک اور بیماریوں سے مر رہے ہیں اور منقسم سیاست نے پورا ملک ہائی جیک کررکھا ہے۔ حالیہ سیلاب کو ہم موسمیاتی تبدیلیوں کا نام دے کر اپنی کمزوریاں چھپانے کی کوشش کررہے ہیں۔ موسمیاتی تبدیلی محض ایک وجہ ہے، انسانی غفلت اور حکومتوں کی نااہلی اس کی بڑی وجہ ہے۔ کسی بھی حکومت نے ملک کو اس لحاظ سے باصلاحیت نہیں بنایا کہ موسمیاتی تبدیلیوں سے ہونے والی تباہی، گلیشیئرز کے پگھلنے، بڑھتے ہوئے درجہ حرارت، مون سون کی بارشوں کے نقصان سے لوگوں کو بروقت ریسکیو کا بہترین انتظام کیا جاسکے، اور نہ ملک کا میڈیا اس قدر تربیت یافتہ ہے کہ وہ کوریج کے دوران سنسنی پھیلانے سے گریز کرسکے۔ 2010ء کے سیلاب کے دوران بھی قومی سطح پر ریسکیو اور بحالی کے علاوہ ریلیف کے اقدمات بھی آج ہی کی طرح تھے۔ قومی اور صوبائی سطح پر کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ حکومت صرف یہی ڈھول پیٹ رہی ہے کہ پاکستان میں مون سون کے سیلاب موسمیاتی تبدیلیوں کا نتیجہ ہیں، جس میں پاکستان کا حصہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ عالمی کاربن کے اخراج میں پاکستان کا حصہ ایک فیصد سے بھی کم ہے، لہٰذا یہ عالمی برادری بالخصوص ترقی یافتہ ممالک کی اخلاقی ذمہ داری ہے کہ وہ پاکستان کو معاوضہ ادا کریں۔ اس جانب ہماری حکومتوں نے کم ہی توجہ دی کہ موسمیاتی تبدیلیوں سے پیدا ہونے والے حالات کا تدارک کیسے کرنا ہے۔

ہماری سیاسی تقسیم بھی عالمی برادری کی توجہ مبذول کرانے میں سب سے بڑی رکاوٹ ثابت ہوئی ہے۔ اس صورتِ حال نے سیلاب زدگان میں سیاسی طبقے کا برا تاثر چھوڑا ہے۔ سیلاب کے نتیجے میں ان کے دکھ درد کو ترجیح دینے کے بجائے سیاسی جماعتیں اپنی انا کے پنجرے میں بند ہیں۔ ہمیں اس بات کا جائزہ لینا چاہیے کہ حالیہ سیلاب کی ایک وجہ کہیں یہ تو نہیں کہ ہنزہ میں شیسپر گلیشیئر کے اوپر کی جھیل پانی کی سطح میں غیرمعمولی اضافے کی وجہ سے پھٹ گئی، جو ہیٹ ویو کی وجہ سے 20 دنوں کے اندر 40 فیصد تک بڑھ گئی۔ یہ ایک خطرناک صورت حال ہے، حکومت کو اس سے نمٹنے کی ضرورت ہے۔ یہ برفانی طوفان اس بات کی واضح یاددہانی ہے کہ پاکستان اس طرح کے انتہائی موسمی واقعات کے لیے تیار نہیں ہے۔ گلگت بلتستان کے وزیراعلیٰ نے نقصانات کا جائزہ لینے کے لیے ایک اجلاس طلب کیا تھا کہ حسن آباد پل کی مکمل تباہی، آب پاشی اور پینے کے پانی کے نظام اور سپلائی کرنے والے دو پاور ہاؤسز کو کیسے نقصان پہنچا۔ گلگت بلتستان میں تقریباً تمام بڑے گلیشیئرز موجود ہیں، اس لیے حکام کو اس نتیجے کے لیے اچھی طرح تیار رہنا چاہیے تھا۔ موسمیاتی تبدیلیوں اور برفانی جھیلوں کے آنے والے سیلاب کے بارے میں کتنی سوچ بچار ہوئی ہے؟ حکام نے اس طرح کے دھماکے اور ان کے نتیجے میں ہونے والی تباہی کو روکنے کے لیے کیا احتیاطی تدابیر اختیار کی تھیں؟ اہم سوال یہ ہے کہ اس طرح کے حملے کو کیسے روکا جا سکتا ہے؟ اگر روک تھام ممکن نہ ہو تب بھی مقامی لوگوں کو بروقت محفوظ علاقوں میں منتقل کرکے نقصانات سے بچنے میں مدد دی جاسکتی ہے۔

برفانی سیلاب راتوں رات نہیں آیا، لیکن کسی نہ کسی طرح بروقت کارروائی نہیں ہوئی۔ متاثرہ علاقے میں ہر جگہ نظر آنے والے آر سی سی پلوں کے شدید پانی کے بہاؤ میں بہہ جانے کا خدشہ رہتا ہے۔ ہم پل کی تعمیر کے جدید ترین ڈیزائن اور میٹریل کا استعمال کیوں نہیں کر سکتے جو اس طرح کے سیلاب سے بچنے کے لیے مضبوط ہوں؟ موسمیاتی تبدیلی کی حقیقتوں سے کوئی بھاگنے والا نہیں ہے، جس کے اثرات گلوبل ساؤتھ کو سب سے زیادہ شدت سے محسوس ہوں گے جس کا دنیا کو سامنا کرنے والی موسمیاتی تباہی کو بنانے میں بہت کم ہاتھ ہے۔ اگر تیزی سے پگھلنے والے گلیشیئرز کو نیا معمول بنانا ہے تو پانی کے حجم پر مسلسل نظر رکھنے کی ضرورت ہے جو بڑھتے ہوئے درجہ حرارت کے ساتھ بڑھتا ہے۔ گلگت بلتستان میں 3000 سے زائد برفانی جھیلیں ہیں اور ان میں سے 33 جلد پھٹ سکتی ہیں۔ اگرچہ موسمیاتی تبدیلی کے چیلنج کا حتمی حل بین الاقوامی برادری کے ساتھ مل کر آنا ہے، لیکن ہمیں بھی ایسے اقدامات کرنے چاہئیں کہ تمام ترقیاتی منصوبوں کی منظوری ماحولیاتی تشخیص کے بعد ہی دی جانی چاہیے۔ ماہرین کے اندازوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان موسمیاتی تبدیلیوں سے غیر متناسب طور پر متاثر ہوسکتا ہے، لیکن ہمارے ’’دور اندیش‘‘ سیاست دان سیاسی فوائد کی بحث سے باہر نکلیں تو آگے بڑھیں گے۔

وزیراعظم میاں شہبازشریف نے دنیا کے امیرممالک سے اپیل کی ہے کہ وہ پاکستان کو قرضوں میں ریلیف دیں، کیونکہ ماحولیاتی تبدیلیوں کے باعث آنے والے بدترین سیلاب سے انفرااسٹرکچر تباہ ہوگیا، لاکھوں لوگ بے گھر ہوگئے، فصلیں تباہ ہوگئیں، دنیا کواس صورت حال میں ہماری فوری مدد کرنی چاہیے، پاکستان محض اپنے وسائل سے اس صورت حال کا مقابلہ نہیں کرسکتا، سیلاب سے 33ملین لوگ متاثر ہوئے ہیں، 400 بچوں سمیت 1500 افراد سیلاب کی نذر ہوگئے، لاکھوں ایکڑ پر کھڑی فصلیں تباہ ہوگئیں، 10 لاکھ گھرمکمل طور پر تباہ ہوگئے جبکہ جزوی طور پر متاثر ہونے والے گھروں کی تعداد بھی لاکھوں میں ہے۔ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل سمیت عالمی رہنما اس صورتِ حال سے آگاہ ہیں کہ پاکستان تنہا اس صورت حال سے نہیں نمٹ سکتا۔ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل نے خود پاکستان کا دورہ کرکے صورت حال کا جائزہ لیا ہے۔ انہیں اس کا علم ہے کہ سیلاب کے بعد لاکھوں بچے بیماریوں میں مبتلا ہورہے ہیں، کھڑے پانی سے وبائی امراض پھوٹ رہے ہیں، متاثرہ علاقوں میں کمبل، خوراک بالخصوص بچوں کی غذا کی ضرورت ہے۔

سیلاب سے ہونے والے نقصانات کا تخمینہ 30ارب ڈالر لگایا گیا ہے، ہمیں لوگوں کی بحالی اور تعمیرنو کے لیے مددکی ضرورت ہے، متاثرین کی دوبارہ آبادکاری کرنا ہے اور زراعت اور صنعت کو بحال کرنا ہے۔ آئی ایم ایف اورعالمی بینک سے اپیل اس لیے کی گئی ہے کہ پاکستان کو قرضوں کی ادائیگی میں ریلیف دیا جائے کیونکہ آئندہ دو ماہ کے دوران پاکستان کو بھاری قرضوں کی ادائیگی کرنی ہے۔ آئی ایم ایف سے سخت شرائط پر معاہدہ ہوا ہے۔ ہر ماہ بجلی اور پیٹرولیم پر ٹیکس نافذ کیا جارہا ہے۔ پاکستان کو سیلاب متاثرین کی بحالی اور تعمیرنو کا چیلنج درپیش ہے اور سردیوں کے لیے گیس کی قلت ہے۔ حکومت روس سے گیس حاصل کرنا چاہتی ہے لیکن ابھی تک اس حوالے سے کوئی ٹھوس فیصلہ نہیں ہوسکا ہے۔

پاکستان روس سے گندم کی خریداری بھی کررہا ہے کیونکہ سیلاب کے باعث زمین گندم کی بوائی کے لیے تیار نہیں ہے،اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل پانی اور قرضوں میں ڈوبے ہوئے پاکستان کی مدد کے لیے عالمی امداد اور قرضوں میں چھوٹ کے لیے بار بار اپیلیں کررہے ہیں، لیکن اسلام آباد کا خوفناک سیاسی منظرنامہ انتہائی مختلف پیغام بھیج رہا ہے کہ نہ جانے حکومت کب چلی جائے، یا پھر سیاسی طوائف الملوکی ملک کو اپنی لپیٹ میں لے لے۔ ایسے میں کون ماحولیاتی تباہی پر کروڑوں پاکستانیوں اور تباہ حال وسیع علاقوں کی مدد کو سنجیدگی سے لے گا؟ ایک طرف عمران خان ہیں، جو الیکشن مانگ رہے ہیں، دوسری جانب 13 جماعتوں کی دو ووٹوں کی اکثریت پہ ٹکی کمزور حکومت ہے، اور تیسری جانب سیلاب میں ڈوبا ہوا ایک تہائی پاکستان۔ اس ملک کی منقسم گندی سیاست سیلاب زدگان کی بحالی اور تعمیرنو میں کیسے مدد کرے گی؟ سیلاب اور معیشت کے مسائل ابھی حل نہیں ہوئے کہ نئے آرمی چیف کی تعیناتی کا مسئلہ بھی کھڑا کردیا گیا ہے۔

یہ منظرنامہ بتارہا ہے کہ مستقبل نہایت تشویشناک ہے۔ اس وقت پاکستان کے ذمے 97 ارب ڈالر کا بیرونی قرضہ ہے۔ آئی ایم ایف سے شرائط میں نرمی اور 3 ارب ڈالر کی یکمشت ادائیگی کا تقاضا کیا گیا ہے۔ پیرس کنسورشیم کے ممالک سے 10 ارب ڈالر کے قرض کی ری شیڈولنگ کی درخواست کی گئی ہے۔ سیلاب کی تباہ حالی کا جائزہ اگلے ماہ تک تیار ہوسکتاہے جس کی بنیاد پر اسلام آباد میں بھی ڈونرز کانفرنس منعقد کی جاسکے گی۔ عالمی امداد کی مہم کے لیے اکتوبر اور نومبر بہت اہم ہیں وزیراعظم شہبازشریف نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 77 ویں اجلاس میں پاکستان کو درپیش سنگین چیلنجز سے آگاہ کیا ہے، اب یہ بات طے شدہ معلوم ہوتی ہے کہ گلوبل وارمنگ کی وجہ سے پاکستان میں زندگی تبدیل ہوچکی ہے۔ ہمارے گلیشیئر تیزی سے پگھل رہے ہیں، جنگلات جل رہے ہیں، حدت کی لہریں 53 ڈگری سے بڑھ گئی ہیں، غیرمعمولی جان لیوا مون سون کا سامنا ہے، سیلاب کے نتیجے میں ایک کروڑ گیارہ لاکھ مزید افراد غربت کی لکیر سے نیچے چلے گئے ہیں۔ اگرچہ نقصان کا درست تخمینہ لگانا ابھی ممکن نہیں، ہماری اصل پریشانی یہ ہے کہ کیا ہم اس بحران کے مقابلے کے لیے تنہا رہ جائیں گے؟