آڈیو لیکس کا ”کھیل“

اردو زبان کا محاورہ ہے۔ ’’اونٹ رے اونٹ تیری کون سی کل سیدھی‘‘ اس وقت اس محاورہ کی شرح کرنا مطلوب ہے نہ توضیح بلکہ عرض یہ کرنا مقصود ہے کہ ہمارے حکمرانوں اور اقتدار کے ایوانوں کا معاملہ بھی اس اونٹ سے مختلف نہیں جس کا ذکر اس محاورے میں کیا گیا ہے، حکومتی ایوانوں سے آئے روز کوئی نہ کوئی ایسا معاملہ منظر عام پر آ جاتا ہے جس کا عموماً تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ تازہ اطلاعات یہ ہیں کہ وزیر اعظم شہباز شریف ان کی کابینہ کے بعض ارکان اور حکمران اتحاد کے رہنمائوں کی گفت گو کی کچھ آڈیو ٹیپس سامنے آئی ہیں اور گمان غالب یہی ہے کہ ان کا ڈیٹا وزیر اعظم کے دفتر سے حاصل کیا گیا ہے۔

آڈیوٹیپس میں سے ایک میں مبینہ طور پر مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز اور وزیر اعظم کے درمیان مفتاح اسماعیل کے بارے میں ہونے والی گفتگو سنی گئی، جنہیں مبینہ طور پر معیشت کو مستحکم کرنے کے لیے سخت معاشی اقدامات کرنے پر پارٹی کے اندر سے تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔ مبینہ کلپ میں مریم نواز نے وزیر خزانہ کے بارے میں کہا کہ ’’اسے پتا نہیں کہ یہ کر کیا رہا ہے، اس نے بہت مایوس کیا، اس کی شکایتیں ہر جگہ سے آتی رہتی ہیں، وہ ذمہ داری نہیں لیتا، ٹی وی پر الٹی سیدھی باتیں کرتا ہے جس کی وجہ سے لوگ اس کا مذاق اڑاتے ہیں‘‘۔ ساتھ ہی مذکورہ کلپ میں مریم نواز نے سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے واپس آنے کی بھی خواہش کا اظہار کیا۔

دوسرا کلپ مبینہ طور پر وزیر اعظم، وزیر دفاع خواجہ آصف، وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ، وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ اور قومی اسمبلی کے سابق اسپیکر ایاز صادق کے درمیان مجلس شوریٰ ایوان زیریں سے تحریک انصاف کے قانون سازوں کے استعفوں کے بارے میں ہونے والی گفتگو سے متعلق ہے۔ آڈیو کلپ میں مسلم لیگ ن کے رہنمائوں کو مبینہ طور پر تحریک انصاف کے استعفوں پر اپنی رائے دیتے ہوئے اور استعفوں کو قبول کرنے کے لیے لندن سے اجازت مانگتے ہوئے سنا جا سکتا ہے۔ لیک آڈیو میں وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ 30, 30 ارکان کو نوٹس دے رہے ہیں، وزیر داخلہ نے کہا کہ 6 تاریخ کو کن 30 لوگوں نے پیش ہونا ہے، ان میں سے 7, 6 کے استعفے قبول کر لیں گے جس پر ایاز صادق نے کہا کہ جن کے استعفے قبول نہیں کرنے کہہ دیں گے دستخط ٹھیک نہیں تھے۔ تیسرے آڈیو کلپ میں وزیر اعظم اور مریم نواز کی سابق آرمی چیف جنرل مشرف کی واپسی سے متعلق گفتگو ہے۔

مریم نواز کہتی ہیں کہ وہ جنرل مشرف کی واپسی دیکھ رہی ہیں اور انہوں نے نواز شریف کو بھی فون پر یہی بات کہی ہے اور انہیں کہا ہے کہ وہ اس بارے میں ٹویٹ کریں۔ اس صورتحال میں بڑے پن کا مظاہرہ کرنے سے حکومت کی ساکھ بہتر ہو گی۔ وزیر اعظم شہباز شریف اور ایک سرکاری افسر کے درمیان مبینہ گفتگو کی آڈیو ریکارڈنگ بھی سوشل میڈیا پر لیک ہوئی تھی جس میں وزیر اعظم کو یہ کہتے سنا جا سکتا ہے کہ مریم نواز شریف نے ان سے اپنے داماد کو بھارت سے پاور پلانٹ کے لیے مشینری کی درآمد میں سہولت فراہم کرنے کا کہا۔

منظر عام پر آنے والی گفتگو کے سیاسی و اخلاقی پہلوئوں سے قطع نظر حقیقت یہ ہے کہ ایوان صدر اور ایوان وزیر اعظم ملک کے ’حساس‘ ترین مقامات میں سے ہیں، جہاں ملک و قوم کی قسمت کے اہم ترین امور زیر بحث آتے ہیں اور ان سے متعلق فیصلے صادر کئے جاتے ہیں مگر حیران کن طور پر وفاقی وزراء ان آڈیو لیکس پر کسی پریشانی یا تشویش میں مبتلا ہونے اور معاملہ کی حساسیت پر توجہ دینے کی بجائے اپنی حکومت کی صفائیاں پیش کرنے میں مصروف ہیں، دلچسپ اتفاق یہ بھی ہے کہ آڈیو وڈیو لیکس کے جس کھیل کا آغاز محترمہ مریم نواز نے کیا تھا، آج خود ان کی جماعت کی حکومت کو اسی کھیل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے جب کہ ایوان وزیر اعظم میں مریم کے چچا جان براجمان ہیں، شاید ایسی ہی صورت حال سے متعلق بزرگ کہہ گئے ہیں کہ ’’چاہ کن را چاہ در پیش‘‘ بہرحال وزیر اعظم شہباز شریف نے مشترکہ تحقیقاتی ٹیم تشکیل دے دی ہے جس میں حساس قومی اداروں کا ایک ایک نمائندہ بھی شامل کیا گیا ہے۔

تحقیقاتی ٹیم کو ایوان وزیر اعظم کے عملہ سے بھی تفتیش و تحقیق کا اختیار دیا گیا ہے اور اس مقصد کے لیے ایوان وزیر اعظم کے سیکیورٹی اہلکاروں کی نقل و حرکت بھی محدود کر دی گئی ہے ، تحقیقاتی ٹیم معاملہ کے دیگر پہلوئوں کے علاوہ اس امر کا سراغ بھی لگائے گی کہ لیک کی گئی آڈیو ریکارڈنگ موبائل فون وغیرہ سے کی گئی یا اس مقصد کے لیے آلات ایوان وزیر اعظم میں نصب کئے گئے اس طرح معاملہ کی تہہ اور ریکارڈنگ کے ذمہ دار فرد یا افراد تک پہنچنا آسان ہو جائے گا کیونکہ ایوان وزیر اعظم تک رسائی بہرحال خاصی محدود ہوتی ہے اور ہر آنے جانے والے کا ریکارڈ بھی محفوظ رکھا جاتا ہے۔

وزیر اعظم نے اچھا کیا کہ مشترکہ تحقیقاتی ٹیم تشکیل دے دی تاہم اس سے بھی زیادہ ضروری اقدام یہ ہے کہ کمیٹی اور تحقیقات کے نام پر سارے معاملہ کو سرد خانے میں ڈالنے کی روش بھی تبدیل کی جائے اور مجرموں کو نہ صرف بے نقاب کیا جائے بلکہ ان کی قرار واقعی سزا یابی کو بھی یقینی بنایا جائے معاملہ کی حساسیت اور اہمیت کے پیش نظر قوم کو مطمئن کیا جانا ضروری ہے کہ اس کے معاملات محفوظ ہاتھوں میں ہیں اور یہ صرف حکومتی منصب داروں ہی کی ذمہ داری نہیں بلکہ قومی سلامتی کے اداروں کے لیے بھی تشویش کا باعث اور ان کی سنجیدہ توجہ کا متقاضی ہے۔

معاملہ کا یہ پہلو بھی پیش نظر رکھا جانا ضروری ہے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان دنیا کی واحد مسلم جوہری صلاحیت کی حامل مملکت ہے اور یہ صلاحیت دشمنوں کی نظر میں بری طرح کھٹکتی ہے چنانچہ ان سے پاکستان کو نقصان پہنچانے کے لیے کسی بھی حد تک جانے کی توقع کی جا سکتی ہے… اس پہلو سے بھی معاملہ کی تہہ تک پہنچنا اور ملک کے اندرونی اور بیروانی دشمنوں اور بدخواہوں کے چہروں سے نقاب الٹنا لازم ہے…!!!
(حامد ریاض ڈوگر)