کالج کے کائیاں لڑکے کا سوال

رات گئے راولپنڈی سے کسی راؤ رُستم علی خاں صاحب کا فون آیا۔ بڑی کراری آواز میں ڈانٹ کر استفسار فرمایا:
’’حشوو زوائد کسے کہتے ہیں؟‘‘
ہم توموصوف کا نام ہی سن کر ڈر گئے تھے۔ باقی کام لہجے کی کرختی نے تمام کردیا تھا۔ سو، خوف سے منمناتی ہوئی آواز میں عرض کیا:
’’یقین کیجیے، ہمیں نہیں کہتے۔ کسی اور کوکہتے ہوں گے‘‘۔
ہنس پڑے۔ مگر اُسی لہجے میں فرمایا:
’’ قبلہ! آپ سے رہنمائی چاہتا ہوں۔ کئی دن سے کالج کا ایک کائیاں لڑکا پیچھے پڑا ہوا ہے۔ صبح پھر کلاس ہے۔ کیا جواب دوں؟‘‘
جب پتا چلا کہ یہ مردِ رُستم اپنے کالج کے ایک کائیاں لڑکے کے سوال کا سامنا کرنے سے کپکپا رہے ہیں تو ہمارا جی بھر آیا اور ہم نے استاد جی کا حوصلہ بڑھانا اپنا فرض جانا۔ لہٰذا ان کو تسلی دیتے ہوئے کہا:
’’گھبرائیے نہیں، معمولی سی بیماری ہے، مگر آج کل کے مقررین اور محررین میں وبا کی طرح پھیل گئی ہے‘‘۔
عرض کیا کہ پہلے تلفظ درست کرلیجیے۔’حشو‘ کے’ح‘ پر زبر ہے، ’ش‘ اور واؤ دونوں ساکن ہیں۔ عربی لفظ ہے۔ کسی چیز یا کلام میں کثرت و زیادتی کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ ’حشو‘ کا مطلب ہے زائد ہونا، فاضل یا فالتو ہونا (یاد رہے کہ ’فالتو‘ پرتگالی زبان کا لفظ ہے)، کوئی چیز زبردستی کہیں ٹھونس دی جائے یا وہ اضافی چیز جس سے دوسری چیز بھردی جائے ’حشو‘ کہلاتی ہے۔ مثلاً رضائی، توشک، تکیے یا گدّے میں بھری جانے والی روئی، پرندوں کے پَر یا وہ اسفنجی جھاگ جو آج کل بھرا جاتا ہے۔ جھاگ کو انگریزی میں ‘Foam’ کہتے ہیں۔ اَچار یا بکری اور دنبے کے پیٹ میں بھرا جانے والا مسالہ بھی ’حشو‘کہلاتا ہے۔ خواتین اپنے جسم کے کسی حصے کو نمایاں کرنے کے لیے جو زائد کپڑا باندھتی ہیں وہ بھی ’حشو‘ ہے۔ اس کی جمع ’حشایا‘ ہے۔ لکھتے وقت کاغذ پر دائیں بائیں یا اوپر نیچے جو فالتو جگہ چھوڑ ی جاتی ہے ’حاشیہ‘ کہلاتی ہے۔ اس کی جمع ’حواشی‘ ہے۔ مضمون یا کتاب میں صفحے کے گردا گرد خالی جگہ میں کی جانے والی تزئین و آرائش کو بھی ’حاشیہ‘ کہتے ہیں اور اس عمل کو ’حاشیہ آرائی‘۔ اس خالی جگہ پر تحریر کی جانے والی تشریحی اور توضیحی عبارت بھی اصطلاحاً ’حاشیہ‘ کہلاتی ہے۔ یہ عبارت متن سے زائد ہوتی ہے۔ صاحبِ مضمون یا کتاب کا مصنف بھی حاشیہ لکھ سکتا ہے، اور اگر کتاب کسی اور شخص نے مرتب یا مدوّن کی ہے تو یقین جانیے وہ بھی حاشیے میں کتاب کے متن پر اپنی معلومات کا اضافہ کرنا ضروری سمجھے گا۔ حاشیہ لکھنے والا ’محشی‘ کہلاتا ہے۔ محشی کے میم پر پیش ہے، ’ح‘ پر زبر اور شین پر شد۔ بالعموم مُحشّی کے سر پر کچھ نہیں ہوتا۔ گنجا ہوتا ہے۔کسی تصویر کے گرد بنایا جانے والا چوکھٹا، لحاف کے چاروں طرف لگائی جانے والی مغزی اور لباس کے گرد ٹانکی جانے والی گوٹ بھی ’حاشیہ‘ ہے۔
’زوائد‘ جمع ہے ’زائد‘ کی۔ ’زائد‘ کا مطلب ہے زیادہ، بڑھا ہوا، متجاوزیا فاضل۔ کسی چیز کے استعمال کی مقررہ میعاد گزر جائے تو ہم اُس چیز کو ’زائد المیعاد‘ کہتے ہیں۔ کسی عہدے یا منصب کے لیے عمر کی جو حد مقرر کی جاتی ہے اگر کوئی شخص عمر کی اُس حد سے آگے بڑھ جائے تو اُسے ’زائد العمر‘ قرار دے کر بھگا دیاجاتا ہے۔ مگر ’زوائد‘ سے مراد فضول، بے کار، غیرمتعلق اور خارج ازبحث باتیں لی جاتی ہیں۔
یوں ’حشو و زوائد‘ کا لفظی مطلب ہوا بھرتی کی چیزیں۔ فضول، بے کار، غیر متعلق یا ضرورت سے زیادہ باتوں کی بھرمار۔ اصطلاحی معنوں میں’حشو و زوائد‘ سے مراد وہ غیر ضروری الفاظ ہیں جو تحریر میں بھر دیے جائیں۔ یعنی اگر بھرتی کے ان الفاظ کو ’برطرف‘ کردیا جائے تب بھی معنوں میں کوئی فرق نہ پڑے۔ بلکہ حضرت مولانا فضل الحسن حسرتؔ موہانی رحمۃ اللہ علیہ تو ’حشو و زوائد‘کی یہ تعریف بھی کر گئے ہیں:
’’جن کے حذف کردینے سے کلام میں حسن پیدا ہوجائے‘‘۔
فالتو الفاظ یعنی’حشو و زوائد‘ کا استعمال اب روزمرہ بول چال میں بھی عام ہوگیا ہے۔ مثلاً: ’’یہ شعر دوبارہ دوہرا دیجیے‘‘یا ’’تم نے جو کہا ہے ذرا اُسے دوبارہ Repeatکرنا‘‘۔ جب کہ ’دوہرانے‘ کا مطلب ہی کسی عمل کو دوبارہ کرنا اور کسی شعر یا سبق وغیرہ کو دوبارہ پڑھنا ہے۔ ’’دوبارہ دوہرا دیجیے‘‘ میں سے ’دوبارہ‘ نکا ل دیجیے یا ’’شعر دوبارہ پڑھ دیجیے‘‘ کہہ کر فرمائش کیجیے تودرست ہوگا۔ ‘Repeat’ کے معنی کسی اچھی ’انگلش-اردو ڈکشنری‘ میں دیکھ لیجیے گا۔
پچھلے دنوں ایک مؤقر سیاسی تجزیہ نگار نے اپنے کالم میں لکھا:
’’ہمارے سیاست دانوں نے اُسی غلطی کا دوبارہ اعادہ کیا‘‘۔
یہی کام تجزیہ نگار نے بھی کر ڈالا۔’اعادہ‘ کے معنی بھی وہی ہیں جو ’دوبارہ‘ کے ہیں۔ اُنھیں جملہ یوں لکھنا چاہیے تھا: ’’ہمارے سیاست دانوں نے اُسی غلطی کا اعادہ کیا‘‘ یا ’’ہمارے سیاست دانوں نے وہی غلطی دوبارہ کی‘‘۔ ایک مشہور مقرر، جو لوگوں میں ترغیب و تشویق پیدا کرنے کے لیے مشہور ہیں، اپنے ایک ترغیبی و تشویقی خطبے میں نوجوانوں کو بتا رہے تھے کہ ’’استاد نے کاغذ پر گول دائرہ بنایا‘‘۔ شاید انھیں شک ہوگا کہ بچے یہ نہ سمجھ لیں کہ استاد نے کاغذ پر چوکور یا تکونا دائرہ بنایا۔ اب سمجھانے والے کو بھلا کون سمجھائے کہ دائرہ تو پہلے ہی اچھا خاصا گول ہوتا ہے۔ ’گول دائرہ‘ کہنے سے مزید گول نہیں ہوگا۔
وطنِ عزیز کے حالیہ سیلاب کی تباہ کاریوں میں زبان کی تباہی و بربادی کے کچھ مناظر بھی دیکھنے کو ملے۔ مثلاً:
’’فوج کے سپہ سالار نے کوہِ سلیمان سے آنے والے پانی کے سیلاب میں پھنسے لوگوں کی فوری مدد کا حکم دے دیا‘‘۔
’فوج‘ اور ’سپہ‘ میں کیا فرق ہے؟ ’سیلِ آب‘ بھلاکس چیز کے ریلے کو کہتے ہیں؟ خبر کی سرخی تحریر کرنے والے کو شاید نوکِ قلم پر آئے الفاظ کی طغیانیوں میں غوطے کھاتے وقت کچھ سوچنے کی مہلت نہیںملی۔ بَہ گیا بے چارہ۔
ورقی اور برقی ہر دو ذرائع ابلاغ سے پیش کی جانے والی خبروں میں ’’دونوں فریقین‘‘ کی ترکیب استعمال کرنا معمول بن گیا ہے۔ ’فریقین‘ کا مطلب ہی ’دونوں فریق‘ ہے۔ جب ہم ’والدین‘ کہتے ہیں تو ہماری مراد والد اور والدہ دونوں ہوتے ہیں۔ کیا عجب کہ یہ لفظ ذرائع ابلاغ کے ہتھے چڑھ جائے تو یوں خبر دی جائے: ’’فیسوں میں اضافے پر دونوں والدین پریشان‘‘۔
بات یہ ہے کہ اردو زبان کے قواعد و انشا کی تربیت پیشہ ورانہ تعلیمی اداروں میں دی جاتی ہے نہ پیشہ ورانہ ابلاغی اداروں میں۔ مجبوری یہ ہے کہ مطبوعات و نشریات کو اردو ہی میں پیش کرنا ضروری ہے۔ ورنہ قارئین و سامعین و ناظرین کی مطلوبہ تعداد میسرنہ آئی تو اشتہارات کا نومن تیل ہوگا نہ ابلاغیات کی رادھا ناچے گی۔
سنو، اے ابلاغیو! جس طرح تمھارے ابلاغی اداروں کے کچھ خود ساختہ قوانین، قواعد، ضوابط اور اصول ہیں، جن کی خلاف ورزی پر تم فوراً اپنے اختیارات کا ڈنڈا گھماتے ہو، اُسی طرح اردو زبان کے بھی کچھ مسلّمہ قواعد ہیں۔ ان کا بھی لحاظ کرو۔ اگرعملے کو زبان و بیان کی تربیت دلوانا تم ’حشو و زوائد‘میں شمار کرتے ہو تو اشتہارات کی کمائی سے کچھ رقم بچا کر اُردو کی کوئی اچھی سی لغت ہی اپنے دفتر میں رکھوا دو۔
راؤ رستم علی خاں صاحب کے مقامی کالج والا کائیاں لڑکاکم از کم یہ تو کرتا ہے کہ پوچھنے کے لیے کسی کے پیچھے پڑ جائے۔ ہمارے قومی ذرائع ابلاغ کے کند ذہن کار پردازکتنے ہی کائیاں کیوں نہ ہوں مگرابھی تک اتنے کائیاں نہیں ہوئے۔