سیرۃ النبی ﷺ انسائیکلو پیڈیا (بعثت نبو ی اور قدیم عرب تہذیب)

کتاب: سیرۃ النبی ﷺ انسائیکلو پیڈیا (بعثت نبو ی اور قدیم عرب تہذیب)
مدیر اعلیٰ: ڈاکٹرحبیب الرحمٰن
صفحات:1380 قیمت:درج نہیں
ناشر:سیرت ریسرچ سینٹر، کراچی ،
رابطہ:03212802413/03000804081

ڈی۔ بی۔ ایف سیرت ریسرچ سینٹر کی شائع کردہ سیرۃ النبیﷺ انسائیکلوپیڈیا کی پانچویں جلد بعنوان ”“بعثتِ نبوی اور قدیم عرب تہذیب“ ہمارے پیش نظر ہے۔ یہ جلد آنحضرتﷺ کی ولادت و بعثتِ مبارکہ کے وقت خطہ عرب کی تہذیب، ثقافت، معاشرت، اہلِ عرب کی خصوصیات اور عربی زبان کی قدامت، فصاحت و بلاغت سمیت عربوں کے عقائد و عبادات، اقدار و اخلاق، احوال و مزاج اور عادات و اعمال پر مشتمل ہے۔ اور درجِ ذیل دس ابواب میں منقسم ہے:

1۔ عرب، 2۔ عربی لسانیات، 3۔ قدیم اقوامِ عرب، 4۔ خصائصِ عرب، 5۔ قدیم عرب کی معاشرت و معیشت، 6۔ قدیم عرب کے مذاہب، 7۔ قدیم عرب کا سیاسی نظام، 8۔ قدیم عرب کا نظامِ عدالت، 9۔ قدیم عرب کا عسکری نظام، 10۔ عرب میں مصطفوی انقلاب۔ جب کہ ہر باب کے تحت فصلیں مختلف عنوانات پر مشتمل ہیں۔

باب اول ”عرب“ کا آغاز لفظ عرب کی تحقیق اور جزیرہ ٔعرب کے جغرافیے سے کیا گیا ہے، جس میں یہ واضح کیا گیا ہے کہ اہلِ عرب آخر عرب کیوں کہلوائے؟ اس کے بعد جغرافیہ عرب پر مفصل بحث کرکے یہ بتانے کی کوشش کی گئی ہے کہ جس عظیم پیغام کو حضورﷺ دنیا میں اللہ تعالیٰ کے آخری پیغام کی حیثیت سے لے کر آئے تھے اس پیغام کو دنیا کے کونے کونے تک پہنچانے کے لیے باوجود اس کے کہ جدید ذرائع رسل و رسائل موجود نہ تھے، سرزمینِ عرب ہی سب سے موزوں کیوں تھی؟ پھر اس باب میں قدیم عرب کے تمام معروف علاقوں جن میں حجاز، عروض، یمامہ، بحرین، یمن، عمان اور پھر ان میں موجود چھوٹے چھوٹے زیریں علاقوں مکہ مکرمہ، مدینہ منورہ، جدہ، طائف، خیبر، بدر، تبوک وغیرہ کا تذکرہ شامل ہے اور ان کی اہمیت کو بیان کیا گیا ہے۔
دوسرے باب ”عربی لسانیات“ میں عربی زبان کے خصائص و کمالات اور رسم الخط پر روشنی ڈالی گئی ہے کہ قرآن اور صاحبِ قرآن اتفاقی طور پر عربی زبان کے حامل نہیں تھے بلکہ عربی زبان مختاراتِ الٰہیہ میں سے ہے جس میں کئی راز پنہاں ہیں۔ عربی زبان اور اہلِ عرب کی فصاحت و بلاغت کو اجاگر کرنے کے لیے اس باب میں عہدِ جاہلیت کے عرب شعرا، خطبا اور کاہنوں کا ذکر بھی تفصیل سے کیا گیا ہے۔

تیسرے باب ”قدیم اقوامِ عرب“ میں قرآن، حدیث اور تاریخ کی روشنی میں اس حقیقت کو واضح کیا گیا ہے کہ ہر انسان بشمول حضرت نوح علیہ السلام اور ان کے تینوں بیٹے اصلاً عرب ہی ہیں۔ عرب کے ابتداً سرسبز و شاداب ہونے پر شبہ کا ازالہ کیا گیا ہے۔ علاوہ ازیں عربوں کی مشہور تقسیم: عربِ بائدہ، عاربہ اور مستعربہ پر تفصیلی گفتگو کی گئی ہے۔

چوتھے باب ”خصائص عرب“ میں اہلِ عرب کی خصوصیات یعنی فراست و ذہانت، سخاوت و فیاضی اورشجاعت پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ عہدِ جاہلیت کے اشرافِ عرب کا تذکرہ کیا گیا ہے۔ مزید برآں اس باب میں اہلِ عرب کے ان علوم و فنون کا ذکر بھی کیا گیا ہے، جن میں ان کو خاص مہارت حاصل تھی، کیوںکہ اہلِ عرب کے بارے میں ایک عام تاثر یہ ہے کہ وہ ایک جاہل، اجڈ اور گنوار قوم تھی جو علم و فہم، عقل و فراست اور علوم دین و دنیا سے تہی دامن تھی۔ جب کہ یہ بات حقیقت کے بالکل خلاف ہے۔ اس باب میں اہلِ عرب کے خاص علوم جن میں علم القیافہ، علم العیافہ، علم الزجر، علم کہانت، علم عرافت، علم فال گری، علم الطب و دیگر شامل ہیں، کا مفصل تذکرہ کیا گیا ہے۔ اسی طرح فنونِ عرب جیسے: سنگ تراشی، کپڑا سازی، آہن گری، فن تعمیر، دباغت، کتابت وغیرہ کے بارے میں معلومات فراہم کی گئی ہیں۔

پانچویں باب ”قدیم عرب کی معاشرت و معیشت“ میں عرب معاشرت، تجارت، مختلف اقوام و ممالک سے تجارتی تعلقات اور عرب کے تجارتی بازاروں (اسواق العرب) کو زیر بحث لایا گیا ہے۔ جب کہ چھٹے باب ”قدیم عرب کے مذاہب“ میں عرب میں موجود مذاہب اور ان اہلِ مذاہب کے اعمال و معاملات کا جائزہ لے کر یہ بتانے کی کوشش کی گئی ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی آمد کے بعد یہاں کے لوگ دین حنیف کے پیروکار تھے۔ بعد ازاں یہودیوں نے یہاں ہجرت کی اور یہودیت کی تبلیغ کے نتیجے میں اگرچہ کچھ عرب یہودیت کی طرف مائل ہوئے لیکن بحیثیتِ مجموعی اس خطے میں یہودیت کو زیادہ فروغ حاصل نہ ہوپایا۔ اس باب میں عیسائیت، بت پرستی، مظاہر پرستی، دہریت اور عربوں کی مذہبی عبادات و رسوم کا تفصیلی جائزہ پیش کیا گیا ہے۔

ساتویں باب ”قدیم عرب کا سیاسی نظام“ میں عربوں کے سیاسی اور قبائلی نظام، بادشاہتوں اور خودمختار شہری ریاستوں کا جائزہ لیا گیا ہے۔ آٹھواں باب ”قدیم عرب کا نظامِ عدالت“ عربوں کے عدالتی و قانونی نظام، مختلف عہدوں، دارالندوہ، جرائم اور سزاؤں کے نظام سے متعلق معلومات فراہم کرتا ہے۔ جب کہ نویں باب ”قدیم عرب کا عسکری نظام“ میں عربوں کے عسکری نظام، جاہلی ایام عرب، جنگوں کے اسباب، سالہا سال پر محیط مشہور جنگوں اور ان کے نتائج کو زیرِ بحث لایا گیا ہے۔

دسویں باب ”عرب میں مصطفوی انقلاب“ میں عرب جاہلیت اور مصطفوی انقلاب، عقائد اسلام، ارکانِ اسلام، اسلامی تہوار، اسلام کے برپا کردہ سماجی انقلاب، خواتین کی سماجی حیثیت، غلامی کے خاتمے کے لیے اقدامات، اسلام کے نظام تعلیم، اسلامی قوانین، اسلام کے عدالتی و عسکری نظام اور آداب القتال پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ آخر میں سیرتِ طیبہ کی روشنی میں عصرِ حاضر کے مسائل اور ان کےحل پر فکرانگیز گفتگو کی گئی ہے۔

ہر باب کے آخر میں اس باب سے متعلق کتابیات دی گئی ہے، جب کہ آخر میں مجموعی کتابیات کو حروفِ تہجی کے لحاظ سے ترتیب دیا گیا ہے۔ جن مقامات پر تصاویر کی ضرورت محسوس کی گئی، وہاں موضوع بحث کو پیش نظر رکھتے ہوئے تصاویر بھی لگائی گئی ہیں۔ کتاب حسنِ صوری و معنوی سے مزین ہے۔ علمی و تحقیقی معیار بھی خوب سے خوب تر کی جانب گامزن ہے۔ اللہم زد فزد۔