مقدور ہو تو خاک سے پوچھوں کہ اے لئیم!
تُو نے وہ گنج ہائے گراں مایہ کیا کیے!!؟
مرزا غالبؔ کا مذکورہ شعر سچ مچ اور بعینہٖ ملک نواز احمد اعوان مرحوم و مغفور پر صادق آتا ہے۔ کئی دن گزر گئے ہیں لیکن ابھی تک دل و دماغ یہ ماننے کے لیے قطعی تیار نہیں کہ ملک صاحب اب اِس دنیا میں نہیں رہے ہیں اور آئندہ کبھی اُن کی مخصوص مشفقانہ آواز موبائل فون پر سننے کو نہیں ملے گی۔ میں نے اپنی زندگی میں ملک صاحب مرحوم جیسا مخلص، بے ریا اور منبع خیر فرد شاید ہی کوئی اور دیکھا ہو۔ ایسی بے لوث شخصیات اب کم یاب بلکہ نایاب ہوتی جارہی ہیں۔ مرحوم اخلاص، شفقت اور بے غرض تعلق اور محبت کی ایک ایسی علامت تھے، جن کی باتیں، حوصلہ افزائی اور تحریر کے حوالے سے رہنمائی مجھے تاعمر یاد رہے گی۔ ملک صاحب مرحوم سے میرا تعلقِ خاطر اگرچہ نصف صدی کا قصہ تو نہیں، البتہ لگ بھگ عرصہ دس برس پر ضرور محیط تھا۔ ایک مرتبہ ایک اجنبی موبائل فون نمبر سے مجھے کال آئی اور مخاطب نے اپنا تعارف ملک نواز احمد اعوان کے نام سے کرایا۔
میرا ذہن فوراً فرائیڈے اسپیشل میں کتابوں پر تبصرہ کرنے والے ملک نواز احمد اعوان کی طرف گیا، اور میرے استفسار پر مرحوم نے صاد کیا کہ وہی مجھ سے مخاطب ہیں۔ انہوں نے بڑے اچھے انداز میں راقم کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے کہاکہ ’’آپ سندھی اخبارات میں چھپنے والے کالموں کا فرائیڈے اسپیشل میں جو اردو ترجمہ کرتے ہیں وہ مجھے بہت پسند آتا ہے کیوںکہ سندھی زبان میں چھپنے والے اخبارات اردو کے بعد دوسرے نمبر پر ملک میں شائع ہوتے ہیں اور اس طرح سے قارئین کو سندھی زبان میں چھپنے والے کالم نگاروں کے خیالات سے آگہی کا موقع ملتا ہے، لیکن میرے خیال میں اس سے بھی کہیں زیادہ کام ہونا چاہیے‘‘۔ مجھے ملک صاحب کے اس طرح فون کرنے اور اپنی حوصلہ افزائی کرنے سے بہت خوشی محسوس ہورہی تھی، اس لیے میں نے فوراً ہی پوچھا کہ بتایئے مجھے مزید کیا کرنا چاہیے؟ جس کے جواب میں ملک صاحب مرحوم نے اپنے مخصوص دھیمے اور مشفقانہ انداز میں سمجھایا کہ ’’سندھ بھر میں ایسی بہت ساری علمی اور ادبی شخصیات ہیں جنہوں نے اپنے اپنے انداز میں علم و ادب کی خدمات سرانجام دی ہیں۔
سندھ کے چھوٹے شہروں اور قصبات میں رہنے والے ایسے ادبا، شعرا اور ماہرینِ تعلیم کو آپ فرائیڈے اسپیشل میں متعارف کروایئے، ان کے بارے میں تحاریر لکھ کر ان کی حوصلہ افزائی کریں تاکہ اردو اور سندھی زبان میں لکھنے والوں کے مابین اور زیادہ ہم آہنگی پیدا ہو، اور تحریک کے رسالے میں جب ایسے ادبا اور شعرا کا تعارف شائع ہوگا تو اس سے غیر محسوس انداز میں ان کا تحریکِ اسلامی سے بھی تعارف ہوسکے گا۔‘‘ مجھے ملک صاحب کی یہ تجویز بہت بھائی اور میں نے اس سلسلۂ تحریر کا نام ’’چھوٹا شہر، بڑا آدمی‘‘ تجویز کرنے کے بعد جناب یحییٰ بن زکریا صدیقی مدیراعلیٰ فرائیڈے اسپیشل سے رائے مانگی تو انہوں نے بھی اسے پسند کیا، جس کے بعد میں نے مذکورہ عنوان کے تحت سندھ کے مختلف شہروں میں رہنے والی علمی، ادبی اور تعلیمی شخصیات پر لکھنا شروع کیا۔ الحمدللہ! اس سلسلۂ تحریر کو بہت پسند کیا گیا، اور جب بھی میں اس حوالے سے کوئی تحریر لکھتا، فرائیڈے اسپیشل میں اس کی اشاعت کے بعد ملک صاحب مرحوم کی کال آجاتی۔ وہ میری ٹوٹی پھوٹی اور شکستہ سی تحریر پر بھی میری اتنی زیادہ ہمت افزائی کرتے کہ مجھے بسا اوقات شرمندگی سی محسوس ہونے لگتی کہ اتنا بڑا اہلِ علم کس طرح مجھ جیسے ایک عامی اور ہیچ مدان کی حوصلہ افزائی کرنے کے لیے اپنا قیمتی وقت صرف کررہا ہے۔
بہرکیف یہ ملک صاحب کی شخصیت کی عظمت اور ان کی بلندیِ کردار کی ایک ایسی جھلک اور ایک ایسا پہلو ہے جو میرے لیے بہت اہم اور ناقابلِ فراموش ہے۔ اس طرح سے ملک صاحب میرے لیے ایک محسن بھی تھے جنہوں نے مجھے ایک مثبت پہلو کی جانب متوجہ کرکے میری رہنمائی کی اور مسلسل میری حوصلہ افزائی کرتے رہے۔ دریں اثنا انہوں نے میرے مذکورہ سلسلۂ تحریر کو مزید بہتر بنانے اور اس میں نکھار لانے کے لیے مجھے نامور خاکہ نگاروں کی کتب بھی ارسال کیں۔ مرحوم ہمیشہ اس بات پر زور دیا کرتے تھے کہ میں جس شخصیت پر بھی لکھوں، کوشش کرکے صرف اس کے مثبت اور اچھے پہلوئوں کو ہی اجاگر کیا کروں تاکہ ہم آہنگی، اتحاد اور اتفاق کی فضا پیدا ہو اور تحریکِ اسلامی کے لیے نرم گوشہ پیدا ہوسکے۔
میں نے یہ بات محسوس کی کہ انہیں سید مودودیؒ اور ان کی بپاکردہ تحریکِ اسلامی سے بے پناہ اور بے حساب محبت تھی جس کا اظہار وہ اکثر فون پر دورانِ گفتگو بھی کردیا کرتے تھے۔ گاہے وہ اس حوالے سے ماضی کے اپنے تجربات اور مشاہدات بھی بیان کیا کرتے تھے۔ اب سوچتا ہوں کہ کاش! ان کی یہ قیمتی اور یادگار باتیں ریکارڈ کرلیتا، لیکن میرے تو کبھی سان و گمان میں بھی نہیں آیا کہ ملک صاحب اس طرح اس انداز میں اچانک ہم سے ہمیشہ کے لیے جدا ہوجائیں گے اور یوں داغِ مفارقت دے جائیں گے۔ سندھی اخبارات کے کالموں کا اردو ترجمہ کرنے اور چھوٹے شہروں کی بڑی شخصیات پر لکھنے کا ایک ضمنی فائدہ تو یہ بھی مجھے ہوا کہ کئی معروف سندھی چینلز کے اینکرز نے جو کالم نگار بھی ہیں، اپنی سندھی تحاریر کا اردو میں ترجمہ کرنے پر بذریعہ فون کال یا کسی اور شخصیت کے توسط سے میرا شکریہ ادا کیا۔
خیر یہ تو جملہ ہائے معترضہ تھے، میں سمجھتا ہوں کہ ملک صاحب مرحوم و مغفور اپنی ذات میں ایک ادارہ اور انجمن تھے۔ ان کے ہاں قیمتی یادوں کا اتنا ذخیرہ تھا کہ اگر وہ انہیں قلم بند کرلیتے تو بلاشبہ ایک ’’خاصے کی چیز‘‘ کے مصداق کہلاتا۔ ملک صاحب ہمیشہ اس بات کی تلقین کیا کرتے تھے کہ میں جب بھی کوئی تحریر کسی پر لکھوں، چھپنے کے بعد اس کی چند عکسی نقول کرواکر متعلقہ شخصیت تک ضرور پہنچایا کروں۔ سندھی زبان میں چھپنے والی کتب پر تبصرہ آرائی کے لیے بھی انہوں نے ہی مجھے آمادہ کیا اور ایک مرتبہ بذریعہ فون مجھے بتایا کہ میں نے ڈائریکٹر مہران اکیڈمی، شکارپور پروفیسر قمر میمن سے کہا ہے کہ آپ سندھی زبان میں چھپنے والی کتابیں مجھے بھیجنے کے بجائے اپنے قریبی شہر میں مقیم (میرا نام لے کر کہا) کو کیوں نہیں بھیج دیا کرتے جو یہ کام بآسانی کرسکتے ہیں؟ ملک صاحب اکثر مجھے بہت ساری کتابوں پر مشتمل کتب کے بنڈل بذریعہ رجسٹرڈ پوسٹ بھیجا کرتے تھے جو مجھے بہت شاق گزرتا تھا کہ ملک صاحب کے خاصے پیسے اس پر خرچ ہوجاتے تھے، جس پر میں نے ان سے بارہا یہ گزارش کی کہ آپ اتنی زیادہ تکلیف اور زحمت اٹھا کر قیمتی کتب کا بنڈل اپنے خرچ پر مجھے بھیجتے ہیں، کم از کم مجھے اتنی اجازت ضرور دیجیے کہ میں کتابوں کا ڈاک خرچ ہی ادا کردیا کروں؟ لیکن وہ ہمیشہ مجھے نہ صرف سختی سے منع کردیا کرتے بلکہ قدرے برا بھی منایا کرتے تھے، اور جواب میں ہمیشہ ایک ہی جملہ کہا کرتے تھے ’’کچھ نہیں ہوتا، آپ پریشان نہ ہوا کریں‘‘۔
کوئی بتلائے کہ بھلا ایسی بے لوث، بے ریا اور مخلص شخصیت کوئی اور ہوسکتی ہے؟ ملک صاحب مرحوم سے وابستہ یادوں کی ایک بارش ہے جو رکنے کا نام نہیں لیتی۔ یوں لگتا ہے کہ سچ مچ کوئی اپنا، کوئی بہت قریب کا ساتھی بلکہ گھر کا ایک فرد ہمیشہ کے لیے جدا ہوگیا ہو۔ وہ تھے ہی ایسے، اپنے کردار و عمل اور گفتگو سے غیروں کو بھی اپنا بنا دینے والے۔ میں نے انہیں ہمیشہ مثبت سوچ کا حامل ایک دور اندیش مفکر محسوس کیا۔ ملک صاحب سے ایک مرتبہ کراچی میں طارق روڈ پر واقع اُن کی اے سی اور ریفریجریٹر کی ورکشاپ پر، اور دوسری مرتبہ 2020ء میں منصورہ لاہور میں دفتر ترجمان القرآن میں تفصیلی ملاقاتیں کرنے کا شرف و اعزاز حاصل رہا۔ ان دونوں ملاقاتوں میں انہوں نے جہاں پر اپنے اچھے مہمان نواز ہونے کا ثبوت دیا وہیں اپنی بیاض کی قیمتی اور یادگار باتیں اور یادیں بھی مجھ سے شیئر کیں۔
مجھے یہ جان کر خوش گوار حیرت ہوئی تھی کہ وہ ایک بہت اچھے خطاط اور عمدہ خوش نویس بھی تھے۔ جب وہ کراچی سے لاہور شفٹ ہورہے تھے تو انہوں نے مجھے بارہا فون کرکے اصرار کیا کہ ان کے پاس قیمتی کتابوں کا جو ایکسٹرا ذخیرہ ہے، وہ میں ان سے لے لوں اور اس کے لیے ایک مرتبہ کراچی ضرور آئوں۔ بدقسمتی سے میں بعض اہم نجی مصروفیات کی وجہ سے ان کے مذکورہ حکم پر عمل نہیں کرسکا، جس کا انہیں بھی بہت قلق تھا جس کا اظہار انہوں نے بعدازاں مجھ سے بذریعہ فون بھی کیا اور منصورہ میں دورانِ ملاقات بھی۔
سچ تو یہ ہے کہ میرا دکھ اور غم اس حوالے سے آج مرحوم سے بھی سوا ہے کہ کاش! اُس وقت میں اپنے محترم و مشفق محسن و مربی کی بات کسی بھی طرح سے مان لیتا اور انہیں حکم عدولی کرکے اس انداز میں غم زدہ نہ کرتا کہ اس کا اظہار انہیں مجھ سے دوبار کرنا پڑا۔ لیکن اب پچھتانے سے کیا فائدہ؟ ان سے وابستہ اور بھی بہت سی باتیں اور یادیں ہیں، جو پھر کبھی لکھنے کی سعی کروں گا، اِن شا اللہ۔ دعا ہے کہ اللہ پاک مرحوم و مغفور ملک نواز احمد اعوان کو جنت الفردوس میں اعلیٰ ترین مقام عطا فرمائے اور ہمیں بھی ان جیسی بے لوث، بے ریا، مخلص اور نیک شخصیت بننے کی توفیق دے، آمین۔ سچ تو یہ ہے کہ ملک صاحب مرحوم کی ہر یاد تاحیات مجھے اداس اور غم زدہ رکھا کرے گی۔
آنکھ سے دور سہی دل سے کہاں جائے گا
جانے والے تُو ہمیں بہت یاد آئے گا