گیارہ اپریل 2022ء کو، آخری دفعہ وفاقی شرعی عدالت کے روبرو ہم جنس پرستی کو تحفظ دینے والے ٹرانس جینڈر تحفظ ایکٹ کے خلاف پیش ہوا تھا اوراب دوبارہ وہاں میدان سجے گا۔ ان شاء اللہ۔ اس پٹیشن کو گزشتہ دو سال قبل اسلامی حمیت رکھنے والے ایک نوجوان حماد حسن نے دائر کیا تھا۔ لیکن شرعی عدالت نے اسے ایک معمول کی پٹیشن سمجھ کر عدالتی کارروائی کی نذر کر دیا۔ وجہ صاف ظاہر تھی کیونکہ قانون بنانے والوں نے اتنی چالاکی اور ہوشیاری سے اس میں ہم جنس پرستی کے تحفظ اور فروغ کا راستہ نکالا ہے کہ اکثر قانونی ماہرین بھی اسے نہیں پکڑ سکتے۔ شرعی عدالت کی عدم توجہی کی وجہ سے حماد حسن نے میڈیا پر اسے عام کرنے کی ٹھانی اور اسلام آباد سے بھاگم بھاگ میرے پاس آیا۔ میں نے جب یہ ایکٹ پڑھا تو ایک لمحے کو کانپ کر رہ گیا، اور اگلے ہی دن 7 مئی 2021ء کو میں نے ’’فروغِ ہم جنس پرستی ایکٹ‘‘ کے عنوان سے اس قانون کی خوفناک تفصیلات پر کالم لکھا اور ٹیلی ویژن پر پروگرام کئے۔ لیکن ایسے لگا جیسے کائی زدہ تالاب کی طرح اس بے حس معاشرے میں کوئی ارتعاش پیدا نہیں ہو سکا۔ بالآخر میں نے خود ہی پٹیشنر بننے کا فیصلہ کیا اور وفاقی شرعی عدالت میں بحیثیت پٹیشنر پیش ہو گیا۔ میرے میدان میں اُترنے سے ایک بھونچال یہ آیا کہ پاکستان کی تمام ہم جنس پرستی تنظیمیں متحرک ہو گئیں اور انہوں نے اپنے ممبران کو ہمارے خلاف شرعی عدالت میں بھیجنا شروع کر دیا۔ جبکہ کچھ سیکولر، لبرل اینکروں نے بھی خواجہ سرائوں کی آڑ میں اس بل کی حمایت میں پروگرام کر ڈالے۔ گزشتہ ایک سال کے دوران ہم نے عدالت میں تمام مسالک کی فقہی آراء پر مشتمل 290 صفحات پر مشتمل دلائل جمع کرائے۔ اس ضمن میں مجھے محترم ضیاء الحق نقشبندی کا شکریہ ادا کرنا ہے جنہوں نے اپنے شاگردان کے ذریعے علمی استعانت کی، ورنہ میرے جیسے مبتدی کیلئے تو یہ کام خاصا دُشوار تھا۔ ان دلائل کے بعد اب تین پیشیاں ہو چکی ہیں، لیکن حکومتی اراکین سے چونکہ کوئی جواب نہیں بن پا رہا، اس لئے وہ مہلت مانگتے جا رہے ہیں۔ اسی عرصے میں وفاقی شرعی عدالت کے چیف جسٹس ریٹائر ہو گئے اور حکومتی مصروفیت، کی وجہ سے پانچ ماہ بعد اب چیف جسٹس تعینات ہوئے ہیں تو کیس کا دوبارہ آغاز ہوا ہے۔ آج وفاقی شرعی عدالت میں پھر میدان سجے گا۔ پانچ سال پہلے شاہد خاقان عباسی کی وزارتِ عظمیٰ میں نو مئی 2018ء کو منظور ہونے والا یہ ایکٹ پیپلز پارٹی کے رضا ربانی، روبینہ خالد اور فرحت اللہ بابر نے پیش کیا اور نون لیگ نے اس کی ہمرکابی کی۔ اس کے خلاف اکیلی آواز جمعیت العلماء اسلام کی نعیمہ کشور کی تھی، لیکن وہ بھی اس میں چھپی ہوئی ہم جنس پرستی کی غلاظت کو نہ سمجھ پائیں۔ جس سیشن میں یہ بل منظور ہو رہا تھا، اس میں حکومتی اراکین بار بار یہ کہہ رہے تھے کہ جلدی بحث ختم کرو، ورنہ اس کا کریڈٹ آنے والی حکومت لے جائے گی۔ پی ٹی آئی برسراقتدار آئی تو اس بل کا دفاع وزارت انسانی حقوق کی لبرل وزیر شیریں مزاری کے سپرد ہو گیا اور اس نے نون لیگ اور پیپلز پارٹی سے بھی بڑھ کر حصہ ڈالا اور اس قانون کے تحت جو رولز بنائے ہیں، انہوں نے یہ قانون بہت مضبوط بنا دیا۔ پانچ سال بعد جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق نے اس قانون میں ترمیم کا ایک بل پیش کیا ہے، جبکہ مولانا فضل الرحمن کے بھائی عطاء الرحمن نے بھی مذمتی قرارداد (پانچ سال بعد) پیش کی ہے، لیکن ساتھ ہی ساتھ اسی پی ڈی ایم کی اتحادی پیپلز پارٹی کے قادر مندوخیل اور شاہدہ رحمانی نے اس بل کو مزید مضبوط بنانے کیلئے اور اسے ضابطۂ فوجداری کے ذریعے تمام قوانین سے منسلک کرنے کے لئے بھی دو ترامیم جمع کروا دی ہیں۔ جمہوریت کا کمال یہ ہے کہ اس میں حق و باطل شانہ بشانہ چل چلتے رہتے ہیں۔ یہ ایک ایسا قانون ہے، جس نے پاکستان کو عالمِ اسلام کا پہلا ایسا ملک بنا دیا ہے، جہاں ایک ہم جنس پرست مرد یا عورت اپنی میلانِ طبع کے مطابق خود کو نادرا کے تحت مرد، عورت یا خواجہ سراء رجسٹرڈ کروا سکتا ہے۔ یعنی اگر بظاہر ایک مرد جس میں کسی بھی قسم کی کوئی خرابی نہیں ہے، یہاں تک کہ وہ شادی شدہ اور صاحبِ اولاد بھی ہے، مگر اس کی میلانِ طبع (Inclination) ایک عورت کی طرح پہچانے جانے کی طرف مائل ہے تو وہ پاکستان کی ’’معزز و محترم‘‘ اسمبلی سے پاس کردہ “Transgender Persons (Protection of Rights Act 218)” قانون کی شق نمبر 3، سب شق نمبر 2 کے تحت نہ صرف نادرا بلکہ پاکستان کے کسی بھی حکومتی ادارے میں خود کو بحیثیت عورت رجسٹرڈ کروا سکتا ہے۔ اسی طرح ایک عورت خواہ وہ تین بچوں کی ماں کیوں نہ ہو، اسے اگر اچانک یہ خیال آتا ہے کہ وہ ایک مرد ہے تو اسے بھی وہی حق حاصل ہے۔ اس لئے کہ جنس کے تعین کیلئے اس قانون کے تحت کسی طبّی معائنے یا وفاقی شرعی عدالت اورہم جنس پرستی کو تحفظ دینے والے ٹرانس جینڈر تحفظ ایکٹ ڈاکٹر کے سرٹیفکیٹ کی ضرورت نہیں ہے۔ اس قانون کی شق نمبر 2 کی ذیلی شق (F) کے مطابق “Gender Identity: Means a person’s innermost and individual sense of self as male, female or a blend of both or neither that can correspond or not the sex assigned at birth”۔(جنس کی شناخت کا مفہوم یہ ہے کہ ایک آدمی پوشیدہ ترین طور پر جو خود کو محسوس کرتا ہے یا اس کا ذاتی طرزِ احساس جو اسے بتاتا ہے کہ وہ مرد ہے، عورت ہے ، دونوں کا ملغوبہ ہے یا نہیں ہے، یہی اس کی جنس ہے۔ خواہ وہ اس جنس سے مختلف ہی کیوں نہ ہو جو پیدائش کے وقت اسے بتائی گئی (Allotted)ہو)۔ اسی تعریف کی بنیاد پر اس قانون میں ایک اصطلاح ڈالی گئی، “Self Perceived Gender Identity” ۔ (ذاتی تصور میں آئی ہوئی جنسی شناخت)… یہ ہے وہ ’’ہتھیار‘‘ جسے قانونی طور پر پاکستان کے تمام مرد وزن کے ہاتھ میں دے دیا گیا ہے کہ اب وہ جب اور جس وقت چاہیں خود کو مرد سے عورت، عورت سے مرد، مرد سے خواجہ سرائ، خواجہ سراء سے عورت کے طور پر رجسٹرڈ کروا سکتے ہیں۔ تبدیلی جنس کے اس ذاتی حق کو استعمال کرتے ہوئے جولائی 2018ء سے لے کر جون 2021ء تک صرف تین سالوں میں 28,723 افراد نے اپنی ’’میلانِ طبع‘‘ اور ’’اندرونی طور‘‘ پر محسوس کئے گئے احساسات اور جذبات کی بنیاد پر خود کو اپنی پیدائشی جنس سے علیحدہ شناخت کیلئے نادرا کو درخواست دی۔ ان میں سب سے زیادہ مرد ہیں، 16,530، مردوں نے عورت کے طور پر رجسٹر ہونے کی درخواست دی، 12,154 عورتوں نے درخواستیں دی ہیں کہ وہ قانونی طور پر مرد لکھوانا چاہتی ہیں۔ اس قانون کے تحت کسی میڈیکل معائنے یا ڈاکٹر کی گواہی کی ضرورت نہیں ہے۔ سب سے بڑی گواہی اور سب سے بڑا قانون، انسان کے ’’پوشیدہ ترین، اندرونی احساسات و جذبات‘‘ کی گواہی ہے جو اس قانون میں ’’حتمی گواہی‘‘ ہے۔ پاکستان کا کوئی بھی وزیر اعظم ایک دن خواب سے بیدار ہو، اور اچانک اعلان کر دے کہ مجھے اپنے اندر ایک عورت یا خواجہ سراء جیسے جذبات و احساسات محسوس ہو رہے ہیں تو پاکستان کا یہ قانون چشم زدن میں بغیر کسی طبی معائنہ کے اس وزیر اعظم کو عورت یا خواجہ سراء کے طور پر رجسٹرڈ کر دے گا۔ کوئی ماں بچوں کو چھوڑ کر مرد بن سکتی ہے اور کوئی مرد بیوی کو چھوڑ کر عورت۔ اس قانون کا ایک اور باریک نکتہ یہ ہے کہ اگر آپ براہِ راست مرد سے عورت یا عورت سے مرد نہ بھی بنیں، کیونکہ عوامی ردِّعمل سے بہت زیادہ خائف ہوں، تو پھر پہلے زینے یعنی “Step” کے طور پر آپ خواجہ سراء بن جائیں، اور یوں دُنیا بھر کی ہمدردیاں سمیٹنے کے بعد، ایک دن عورت بن جائیں یا مرد۔ ایسے خواجہ سراء کو جنسی تبدیلی کے آپریشن کا بھی لائسنس مل جائے گا۔ خوفناک بات یہ ہے کہ ایک مرد عورت کا شناختی کارڈ بنا کر ایک مرد شناختی کارڈ والے کے ساتھ خاموشی سے نکاح پڑھوا کر شادی رجسٹرڈ کروا سکتا ہے۔ کس قدر ذہین اور شاطر ہیں یہ لوگ۔