کراچی :بجلی بلوں کے ساتھ میونسپل ٹیکس کی وصولی

کے الیکٹرک کے خلاف عوام سراپا احتجاج

قیام پاکستان سے قبل کراچی میں ایک دور ایسا بھی تھا جب اس کی صاف ستھری سڑکوں، فٹ پاتھوں، پارکوں کی تعمیر اور ترقی، شجر کاری، جدید سہولتوں سے آراستہ رہائشی اور تفریحی منصوبوں اور اس کی خوبصورتی کو دیکھتے ہوئے ایک برطانوی مصنف نے کراچی کو ایشیا کا ”پیرس“ قرار دیا تھا۔ قیام پاکستان کے بعد صورتِ حال کسی حد تک بہتر رہی اور اس شہر کی خوبصورتی اور ضرورت کا کچھ نہ کچھ خیال رکھا گیا، پھر صورتِ حال اُس وقت بھی بہت بہتر ہوگئی جب جماعت اسلامی کے نعمت اللہ خان نے شہر کو سنبھالا اور اندھیرے کا شکار اور اجڑے ہوئے شہر کو ایک بار پھر روشنیوں کا شہر بنادیا۔ لیکن پھر اسٹیبلشمنٹ نے اپنا کھیل کھیلا اور نعمت اللہ خان دوبارہ ’’ناظم کراچی‘‘ نہ بن سکے، جس کے بعد سے کراچی آہستہ آہستہ تباہ و برباد ہوتا گیا، اور آج یہ شہر جس بدترین صورت حال سے دوچار ہے اس میں پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کا کردار کلیدی ہے، اور ماضی کا ’’پیرس آف ایشیا‘‘ کہلانے والا کراچی برطانوی میگزین ”دی اکانومسٹ“ کے مطابق رہائش کے لیے بدترین شہر ہوگیا ہے۔ آج کراچی پیپلزپارٹی کے نشانے پر ہے۔ یہاں ڈاکو راج ہے۔ ڈینگی اور ملیریا کا راج ہے، کیونکہ آج تک بارش کے جمع ہونے والے پانی کی نکاسی نہ ہونے سے مچھروں، مکھیوں اور مختلف حشرات الارض کی افزائشِ نسل تیزی سے ہورہی ہے۔ اس وقت شہر کی گلیاں ہوں یا شاہراہیں.. جگہ جگہ گندگی اور غلاظت کے ڈھیر ہیں جن کے تعفن سے سانس لینا محال ہے۔ صفائی ستھرائی کے ناقص انتظامات کی وجہ سے لوگوں کی اذیت اور تکلیف میں روزانہ کی بنیاد پر اضافہ ہورہا ہے۔

ایسی صورت حال میں بھی کراچی کے صارفین سے بجلی کے بلوں میں میونسپل یوٹیلٹی چارجز کی وصولی شروع کردی گئی۔ 200 یونٹ استعمال کرنے پر 50 روپے، 700 یونٹ پر 150 روپے، اس سے اوپر 200 روپے، جبکہ صنعتوں کو اس مد میں 5 ہزار روپے ٹیکس دینا ہوگا۔ تفصیلات کے مطابق 28 لاکھ صارفین سے یہ ٹیکس وصول کیا جائے گا جس سے 3 ارب روپے سے زائد آمدنی ہوگی۔ ڈان کی رپورٹ کے مطابق گزشتہ سال سے حکومتِ سندھ کے ایم سی کے میونسپل یوٹیلٹی چارجز اینڈ ٹیکسز (ایم یو سی ٹی) کے الیکٹرک کے بجلی کے بلوں کے ذریعے وصول کرنے کی کوشش کررہی تھی۔ اہم بات یہ ہے کہ ایم یو سی ٹی سب سے پہلے 2009ء میں سٹی ڈسٹرکٹ گورنمنٹ کراچی نے سابق ناظم کراچی سید مصطفیٰ کمال کے دورِ نظامت میں لگایا تھا۔

اس وقت کے الیکٹرک نے خاموشی سے کراچی کے شہریوں سے ایم یو سی ٹی کی مد میں رقم وصول کرنا شروع کردی ہے اور بہت سے بجلی صارفین کو رواں ہفتے اپنے نئے بجلی کے بل آنے کے بعد اس ٹیکس کی وصولی سے متعلق معلوم ہوا۔ رواں ہفتے جب شہریوں نے بل دیکھے تو انہیں ایم یو سی ٹی (کے ایم سی) کے تحت اضافی چارجز دیکھ کر دھچکا لگا، جب کہ ان کے مطابق بجلی کے بل پہلے ہی بہت زیادہ تھے۔ ڈان نے لکھا ہے کہ ”کے ای کے سینئر عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ بجلی سپلائی کرنے والی کمپنی اپنے صارفین پر اضافی ٹیکس کا بوجھ نہیں ڈالنا چاہتی، تاہم پاکستان مسلم لیگ (ن) کی زیرقیادت مخلوط وفاقی حکومت جس میں صوبائی حکمراں جماعت پاکستان پیپلز پارٹی اہم شراکت دار ہے، کی جانب سے ٹیکس جمع کرنے کو کہا گیا ہے۔“

حقیقت یہ ہے کہ کراچی دشمنی کے اس سارے کھیل میں پیپلزپارٹی کے ساتھ ایم کیو ایم،نون لیگ، پی ایس پی سب شامل ہیں اور یہ صرف میڈیا پر اپنے اپنے حصے کا جھوٹ بولتے ہیں، نتیجہ یہ ہے کہ کراچی کے شہریوں کا غصہ بڑھتا جارہا ہے اور وہ مختلف ایشوز پر پیپلزپارٹی اور ایم کیو ایم کے خلاف سخت ردعمل بھی دے رہے ہیں اور کئی علاقوں میں حالیہ بارش کے دوران ایم کیو ایم کے کارکنوں کی گلی محلوں کے عام لوگوں نے پٹائی بھی کی ہے بلکہ عامر خان کو ایک جنازے میں چپل سے مارنے کی کوشش کی گئی اور وہ لوگوں کا غصہ دیکھتے ہوئے وہاں سے بھاگ نکلے۔ اس وقت ایم کیو ایم کراچی میں کس حال میں ہے اس کا تو سب کو اندازہ ہوگا، لیکن عوام کا غصہ اب کے الیکٹرک کے خلاف عملی طور پر سامنے آیا ہے۔ کورنگی میں بچوں اور خواتین سمیت مظاہرین کی بڑی تعداد نے دارالعلوم کے قریب کے الیکٹرک کے دفتر پر دھاوا بول دیا اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے پہنچنے تک توڑ پھوڑ شروع کردی، جبکہ کورنگی انڈسٹریل ایریا کی اہم شاہراہ کو بلاک کرکے شدید نعرے بازی کی گئی۔ کئی مقامات پر متعدد مظاہرین کمپنی کے نجی سیکورٹی اہلکاروں کو یرغمال بناکر اندر داخل ہوئے جہاں انہوں نے توڑ پھوڑ شروع کردی، اور یہ سلسلہ وقتاً فوقتاً جاری ہے۔ شہریوں نے ایک اور منفرد انداز میں سندھ حکومت اور کے الیکٹرک کے خلاف اپنا غصہ نکالا ہے، انہوں نے احتجاجاً کے الیکٹرک کے دفاتر اور گاڑیوں میں کچرا پھینکنا شروع کردیا ہے۔ اس وقت شہر میں لوگ چلتے پھرتے کے الیکٹرک کے دفاتر اور گاڑیوں پر کچرا پھینک رہے ہیں۔ اس حوالے سے سوشل میڈیا پر کئی ویڈیوز وائرل ہوئی ہیں جن میں شہری کہیں کے الیکٹرک کے دفتر کے سامنے، تو کہیں کے الیکٹرک کی گاڑی میں کچرا پھینک رہے ہیں۔ کراچی کے لوگوں کا کہنا ہے کہ جب وہ اپنا کچرا بھی اپنے خرچ پر اُٹھواتے ہیں اور انہیں پانی بھی خریدنا پڑتا ہے تو پھر اس مد میں ٹیکس کیوں لیا جارہا ہے؟

ملک کے سب سے بڑے انگریزی اخبار ڈان نے یہ بھی لکھا ہے کہ ”جماعت اسلامی کراچی کے امیر حافظ نعیم الرحمٰن شہر کے پہلے سیاسی رہنما ہیں جنہوں نے اس اقدام کو مسترد کیا ہے“۔ حافظ نعیم الرحمٰن نے اس ضمن میں اعلان کیا ہے کہ کے الیکٹرک کے بلوں میں کے ایم سی یوٹیلٹی ٹیکس کی وصولی اور جعلی فیول ایڈجسٹمنٹ چارجز کے نام پر لوٹ مار کسی صورت قبول نہیں کی جائے گی۔ انہوں نے جماعت اسلامی کے تحت شہر بھر میں ریفرنڈم کروانے کا اعلان کیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر سندھ حکومت اور کے ایم سی بجلی کے بلوں میں یوٹیلٹی چارجز ختم نہیں کرتیں اور وفاق کی طرف سے فیول ایڈجسٹمنٹ کے نام پر لوٹ مار اور دھوکا دہی بند نہ کی گئی تو عوام کا جو بھی فیصلہ ہوگا جماعت اسلامی اہلِ کراچی کے ساتھ کھڑی ہوگی، اگر اسے سول نافرمانی قرار دیا جائے گا تب بھی جماعت اسلامی عوام کے ساتھ مل کر اس صورت حال کا سامنا کرے گی۔ ان کا کہنا تھا کہ کراچی پورا ملک چلاتا ہے لیکن اسے ہمیشہ نظرانداز کیا جاتا ہے، اور یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے، اہلِ کراچی کی حق تلفی اور ان کے ساتھ ظلم و زیادتی میں نواز لیگ، پیپلز پارٹی، پی ٹی آئی اور ایم کیو ایم سب برابر کی شریک ہیں۔ حافظ نعیم نے واضح طور پر کہا کہ بجلی کے بلوں میں یوٹیلٹی ٹیکس ختم نہ کیا گیا تو حالات کی تمام تر ذمہ داری وزیراعلیٰ پر عائد ہوگی۔ جماعت اسلامی کراچی کے عوام کے ساتھ ہے اور وفاقی و صوبائی حکومتوں اور حکمران پارٹیوں کی طرح کے الیکٹرک کی سہولت کار نہیں بلکہ عوام کو اس کمپنی کی لوٹ مار سے نجات دلانے کے لیے جدوجہد کررہی ہے۔ جماعت اسلامی حکومت، نیپرا اور کے الیکٹرک کے شیطانی اتحاد کے خلاف اہلِ کراچی کی مؤثر اور توانا آواز ہے، ہم شہر میں انارکی نہیں پھیلانا چاہتے لیکن حکومت نے عوام کا جینا دوبھر کردیا ہے، گلی محلوں سے کچرا اُٹھاتے نہیں اور بجلی کے بلوں میں یوٹیلٹی چارجز لگا دیتے ہیں، حکومت اور کے الیکٹرک کی ملی بھگت سے ہونے والے فیصلوں سے عوام کے اندر شدید بے چینی و اضطراب پیدا ہوگیا ہے۔“

کراچی کے لیے سب نے دعوے ہی کیے ہیں، پیپلز پارٹی کے دعووں کا کیا ذکر کریں آج کے وزیراعظم شہبازشریف بھی انتخابات سے پہلے کہتے رہے ہیں کہ ”جب تک کراچی کو ایشیا کا پیرس نہیں بناوں گا چین سے نہیں بیٹھوں گا۔“ کراچی کے عوام پریشان اور بدحال ہیں۔ ڈینگی اور ڈاکوئوں کےحملے بڑھتے جارہے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ آپ کراچی کو ایشیاکا پیرس نہیں بلکہ کراچی کو کراچی ہی بنادیں۔لیکن آپ ایسا کیوں کریں گے؟کراچی سے آپ کی کیا دلچسپی ہوسکتی ہے؟