چومکھی لڑائی:تبدیلی جنس کے قانون کی تحریک کا فکری پس منظر

2018ء میں آئین کا حصہ بننے والا ٹرانس جینڈر ایکٹ اس وقت پورے ملک میں زیر بحث ہے۔ سینیٹ میں جماعت اسلامی کے رکن مشتاق احمد خان نے اس ایکٹ کو معاشرے کے لیے تباہ کن قرار دیتے ہوئے ترامیم بھی پیش کی ہیں۔ صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ ہندوستان کے مذہبی طبقے میں بھی ٹرانس جینڈر ایکٹ کے حوالے سے خاصا اضطراب پایا جاتا ہے۔ یہ مضمون تحریر کرنے سے کچھ منٹ پہلے ہی ایک ہندوستانی عالم کی پوسٹ بھی دیکھی جس میں وہ مشورہ طلب کررہے ہیں کہ اس موضوع پر خطبہ دینا چاہیے یا نہیں؟ سچی بات تو یہ ہے کہ یہ اضطراب بہت خوش آئند ہے۔ پاکستانی فیس بک پر مختلف افراد نے اس معاملے کی سنگینی کو واضح کرنے کے لیے کئی مثالوں کا بھی استعمال کیا ہے۔ اس حالیہ تحرّک کا کریڈٹ جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد خان صاحب کو جاتا ہے جنہوں نے علماء اور دینی جماعتوں کی توجہ اس جانب بالآخر مبذول کروائی۔

اسلامی جمعیت طلبہ کراچی کے مختلف رفقاء ان معاملات میں بہت متحرک رہے ہیں۔ سچی بات تو یہ ہے کہ جب مذہبی طبقے میں اس حوالے سے خاموشی بلکہ سرسری بات کرنے پر بھی غیر اعلانیہ پابندی تھی، اُس وقت (2018ء) کراچی جمعیت کے احباب میں یہ سوال بار بار اٹھتا تھا کہ ٹرانس جینڈر ایکٹ آخر پارلیمنٹ نے منظور کیسے کرلیا؟ کیوں ہمارے کسی بھی ایم این اے (ماسوائے دینی جماعتوں اور ایک خاتون رکن اسمبلی) کو خیال نہ آیا کہ قوم کو اس کی سنگینی سے خبردار کرے۔ البتہ ہم اپنے طور پر کچھ نہ کچھ اسٹڈی سرکلز میں کارکنان کو سمجھانے کی کوشش کرتے رہے۔

مولانا مودودیؒ نے اپنی کتاب ”پردہ“ میں ایک جگہ لکھا ہے: ”لٹریچر پیش قدمی کرتا ہے۔ رائے عامہ اس کے پیچھے آتی ہے۔ آخر میں اجتماعی اخلاق، سوسائٹی کے ضوابط اور حکومت کے قوانین سب سپر ڈالتے جاتے ہیں“۔ اس وقت صورت حال بعینہٖ یہی ہے۔
شاید آپ میں سے کچھ لوگ یقین نہ کریں مگر او اور اے لیولز کے طلبہ و طالبات کا ایک دوسرے کو Gay یا Lesbian کہنا آج سے دس سال پہلے بھی خاصا نارمل تھا۔ مذاق میں عجیب و غریب حرکات کرنا اور پھر homo کی آوازیں کسنا سب عام سی بات تھی۔ کچھ سالوں کے بعد یونیورسٹی میں انٹرمیڈیٹ بیک گراؤنڈ سے آنے والے طلبہ سے بھی یہ الفاظ مذاق میں سنے تو حیرانی ہوئی کہ یہ وبا تو لبرل یا قدامت پسند پس منظر رکھنے والے خاندانوں کے بچوں میں یکساں ہی پھیلی ہوئی ہے۔ یقین جانیے کہ دس سال میں صورت حال مزید خراب ہی ہوئی ہے۔ ٹوئٹر، اسنیپ چیٹ اور انسٹاگرام کی اس دنیا سے آپ ابھی واقف ہی نہیں ہیں۔
2018ء میں کی جانے والی یہ قانون سازی راتوں رات نہیں ہوئی۔ دینی طبقے کی معصومیت کہیے یا شریر لوگوں کی چالاکی، کہ کام تو عرصے سے خاموشی کے ساتھ چل رہا تھا۔ پاکستان کی تمام بڑی سیاسی جماعتوں پیپلز پارٹی، تحریک انصاف اور نواز لیگ میں موجود لادین عناصر نے اس بل کو مل کر پاس کروایا۔ ابھی بھی ایسی اطلاعات ہیں کہ امریکی سفارت کار ہماری سیاسی قیادت سے اس قانون کی حفاظت کا مطالبہ کررہے ہیں۔

2021ء میں سینیٹر مشتاق احمد خان کے سوال پر فراہم کیے جانے والے ڈیٹا نے اس معاملے کی حساسیت کو مزید واضح کیا ہے۔ ڈیٹا کے مطابق پچھلے تین سالوں میں نادرا کو جنس تبدیلی کی قریباً 29000 درخواستیں موصول ہوئیں، ان میں صرف 30 خواجہ سراؤں کی جانب سے تھیں۔ باقی 28693 درخواست گزار پیدائشی طور پر مرد یا خواتین تھے۔
2002ء میں چھپنے والے ایک ریسرچ پیپر میں تفصیل سے پاکستان میں کام کرنے والی این جی اوز، نیٹ ورکنگ، advocacy اور لابنگ فرمز کے بارے میں بتایا گیا۔ ان لوگوں کی تیاری کا اندازہ صرف اس بات سے ہوسکتا ہے کہ حدود آرڈیننس کے خلاف منظم کام ضیاء الحق کے زمانے میں ہی شروع ہوگیا تھا۔ بے نظیر اور نوازشریف کے زمانے میں ذہن سازی تیز ہوئی (اُس وقت کے کورٹ کیسز یاد کرلیجیے)۔ بالآخر 2006ء میں حدود آرڈیننس میں ترامیم منظور ہوگئیں۔

ٹرانس جینڈر ایکٹ کوئی ہوا میں چلایا ہوا تیر نہیں ہے۔ نہ ہی LGBTQ+ محض چند ذہنی بیماروں کے دماغ کی اختراع ہے۔ اصل بات تو یہ ہے کہ LGBTQ rights کی جڑیں Gay Rights کے نعرے میں پائی جاتی ہیں۔ قوم لوط کا شرمناک عمل کرنے والوں کے حقوق کی بات اُس وقت شروع ہوئی جب 1980ء کے عشرے میں پھیلنے والی ایڈز کی وبا کا اُس وقت کے امریکی صدر ریگن نے کوئی خاص نوٹس نہیں لیا، جس کی وجہ سے کئی ہم جنس پرست چل بسے۔ حکومتی عدم دلچسپی کی وجہ سے ہونے والی اموات نے (1990ء کے عشرے میں) اس تحریک کو مہمیز دی۔ Post Structuralist مفکرین مائیکل فوکالٹ (1926-1984) وغیرہ کی تحریروں نے اس تحریک کو فلسفیانہ بنیادیں عطا کیں۔ جیوڈٹ بٹلر (Judith Butler) نے 1990ء کے عشرے میں اپنی کتابوں اور مضامین کے ذریعے اس خاکے میں رنگ بھرا۔ واضح رہے post-structural feminism کی بنیادیں لبرلزم اور لبرل فیمینزم سے خاصی الگ ہیں۔

دو جنس (یعنی مرد و عورت) کا انکار اور gender کو performative (معذرت، میں اس کا اردو ترجمہ نہیں ڈھونڈ پایا) کہنا، اس پوسٹ اسٹرکچرل فیمینزم اور اس سے ماخوذ LGBTQ+ rights تحریک کا اصل بیانیہ ہے۔
ان کے فکری اثر و ابلاغی جیت کا اندازہ تو صرف اس سے ہی لگا لیجیے کہ ہم نے خواجہ سراؤں اور مخنث کے لیے transgender کی اصلاح کا استعمال شروع کردیا ہے۔ حالانکہ ان کے حقیقی معنی میں بڑا فرق ہے۔ خواجہ سرا یا ہیجڑوں کے لیے مہذب انگریزی میں intersex کا لفظ ہے۔ جبکہ ٹرانس جینڈر تو یہ لوگ اُس عورت یا مرد کو کہتے ہیں جو اپنی پیدائش کے وقت کی ”تفویض کردہ جنس“ کے برخلاف ”محسوس“ کرے۔ LGBTQ+ میں q سے مراد queer ہے۔ اور plus تو ان لاتعداد اجناس کی طرف اشارہ کرتا ہے جو دن بہ دن بڑھتی ہی جارہی ہیں۔ دو سال پہلے کہیں پر ان اجناس (genders) کی تعداد 50 کے لگ بھگ پڑھی تھی۔ اب ایک اور مضمون کے مطابق یہ تین سو سے زائد ہیں۔

یہ Queer theory تو انذلدعا، مائیکل وارنر اور جیوڈٹ بٹلر کا وہ ”تحفہ“ ہے جس نے مجموعی طور پر LGBTQIA+ تحریک کو فلسفیانہ قوت اور عقلی دلائل دئیے۔ ذوالفقار علی بھٹو کا واحد پوتا ذوالفقار علی جونیر جو ایک دم سے ہمارے بچے کھچے سرخوں کے لیے امید بن گئے ہیں، اپنے آپ کو queer کہتے ہیں۔ محرب معیز اعوان نامی ایک مرد جس نے سرجری کروا کر عورت کا روپ دھارا ہے (سرجری کے ذریعے جنس کو تبدیل کروانے والوں کو trans-sexual کہتے ہیں) مگر اب اس پر بھی خوش نہیں ہے۔ زکریا اور اس جیسے کئی ہم جنس پرست سوشل میڈیا پر خواجہ سراؤں کے حقوق کے نام پر اپنا بیانیہ پیش کررہے ہیں۔ عمومی طور پر یہ پوسٹ اسٹرکچرل ازم کا ہی سہارا لیتے ہیں۔ لبرل ازم پر تنقید بھی کرتے ہیں۔
بہرحال، یہ اہم ہے کہ ہماری نوجوان نسل کی اکثریت اس تحریک سے نفرت کرتی ہے۔ اس کا اظہار بھی کچھ نہ کچھ سوشل میڈیا پر ایسے نظر آیا کہ بظاہر ماڈرن اور جدید تعلیم یافتہ کئی لڑکے لڑکیوں نے ٹرانس جینڈر ایکٹ کے خلاف پوسٹ شیئر کیں۔ اس ضمن میں عوامی شعور کو بیدار کرنے اور دیگر کام کرنے کی ضرورت کا تو اہلِ حل و عقد کو بخوبی اندازہ ہے۔

مگر ایک ایسے نوجوان کی حیثیت سے جس نے اس گروہ کے افراد اور کام کرنے کے طریقہ کار پر نظر رکھی ہے۔۔ کچھ کو کالج میں ساتھ پڑھتے دیکھا ہے۔۔ اور پھر ایک طویل عرصہ ان دوستوں کے ساتھ گزارا جو خود بھی ان فتنہ پرور لوگوں پر نظر رکھتے اور اس تحریک کا سدباب کرنے کی اپنی سی کوشش کرتے رہے۔ میرا یہ خیال ہے کہ عوامی شعور کو بیدار کرنے اور احتجاج کرنے سے فوری طور پر تو یہ معاملہ دب جائے گا۔ اصل ضرورت اس وقت ایسے افرادِ کار کی بڑی پیمانے پر تیاری ہے جو ہمارے ملک کے نظام کے اندر اور باہر دونوں جگہ رہتے ہوئے اس کو مکمل طور سے اسلامی بنانے کی کوشش کریں۔ یہ تو ایک چومکھی لڑائی بن چکی ہے جس میں ہمیں ہر محاذ پر لڑنا ہوگا۔

یاد رہے کہ ہماری سوسائٹی لبرلزم کی زبانی مخالفت کے باوجود کئی معاملات میں عملی طور پر لبرل نظریے کا ہی اظہار کررہی ہوتی ہے۔ یہ مغرب کے تہذیبی غلبے یا ہماری مرعوبیت کا ایک نمونہ ہے۔ اللہ بچائے، کہ کہیں فیمینزم بھی ہمارا یہی حال نہ کردے۔