پاکستان میں قحط کا خطرہ

صحت اور زراعت کے شعبے میں ہنگامی حالت (ایمرجنسی) کا اعلان کیا جائے متاثرین سیلاب کی بحالی کیلئے امیر جماعت اسلامی پاکستان سراج الحق کی صدارت میں قومی سیمینار کا انعقاد

سیلاب سے بڑے پیمانے پر ہونے والی تباہ کاریوں سے نمٹنے میں وفاقی اور صوبائی حکومتیں لوگوں کی توقعات پر پورا نہیں اتریں۔ متاثرین کی دردناک کہانی ہے۔ عین ممکن ہے کہ سیلاب کا پانی اترتے ہی ملک کا سیاسی منظر بھی بدل جائے۔ سابق مشرقی پاکستان میں 1970ء میں بدترین سمندری طوفان آیا تھا جومشرقی پاکستان اپنے ساتھ بہا لے گیا تھا۔ یہ بات درست ہے کہ آج 1970 ء نہیں ہے، اُس وقت جمہوریت سیلاب میں بہہ گئی تھی، آج بھی پاکستان کا سیاسی نظام مستحکم نہیں ہے اور جمہوریت کمزور ہے۔ سیلاب کا پانی اترنے کے بعد سیاسی منظرنامہ بدلے نہ بدلے، جمہور کے مزاج ضرور بدل جائیں گے۔ سندھ، بلوچستان اور خیبر پختون خوا میں قوم پرست جماعتیں ضرور فائدہ اٹھائیں گی۔

سیلاب متاثرین کی امداد کے لیے سب سے زیادہ کام الخدمت جیسی این جی او اور جماعت اسلامی جیسی سیاسی جماعت نے کیا ہے۔ قدرتی آفات سے نمٹنے کے لیے نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے) کے نام سے ایک حکومتی ادارہ موجود ہے، چاہیے یہ تھا کہ امدادی سرگرمیوں میں شامل تمام سرکاری اور نجی اداروں اور تنظیموں کو پابند کیا جاتا کہ وہ این ڈی ایم اے کے ذریعے کام کرتیں، صوبائی سطح پر ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹیز این ڈی ایم اے کے ساتھ کام کرتیں، مگر کسی بھی جگہ منظم کام نہیں ہوا جس کے بہتر نتائج نہیں مل سکتے۔ اس وقت جو صورتِ حال ہے، اس میں حکومتیں ناکام نظر آتی ہیں۔ این جی اوز متاثرین کی ہمدردیاں سمیٹ رہی ہیں، مخیر لوگ بھی این جی اوز پر اعتماد کرتے ہیں۔ این جی اوز کے فنڈز کی مانیٹرنگ ہونی چاہیے، مانیٹرنگ نہ ہونے سے غیر متوقع نتائج رونما ہوسکتے ہیں۔ ابھی تو بیرونی امداد بھی مل رہی ہے، وسائل کی کمی نہیں ہے، صرف منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔

جماعت اسلامی کی مرکزی قیادت نے ملک بھر میں سیلاب سے متاثرہ علاقوں کے دورے کے بعد متاثرین کی منظم امداد کے لیے ایک سیمینار اسلام آباد میں کیا جس کی صدارت جماعت اسلامی پاکستان کے امیر سراج الحق نے کی۔ اس قومی سیمینار سے جماعت اسلامی کے نائب امیر میاں اسلم، صدر الخدمت فائونڈیشن پاکستان محمد عبدالشکور، صدر اسلام آباد ہائی کورٹ بار شعیب شاہین، صدر اسلام آباد بار حفیظ اللہ، ایم ڈی پی ٹی سی ایل مظہر حسین، سربراہ رازی اسپتال ڈاکٹر طاہر فاروق، ماہر قانون عزیز نشتر، ماہر آئی ٹی ڈاکٹر مظفر، ڈائریکٹر پبلک پالیسی ڈاکٹر راشد آفتاب، امیر جماعت اسلامی ضلع اسلام آباد نصراللہ رندھاوا، سابق چیئرمین پی ٹی اے میاں جاوید، اینکر انوار الحسن، اینکر صدیق جان، چیئرمین گھکھڑ ایسوسی ایشن کرنل ریٹائرڈ طارق کمال، سابق ممبر پلاننگ و فلڈ کمیشن ڈاکٹر نصیر گیلانی، صدر الخدمت فائونڈیشن اسلام آباد حامد اطہر نے بھی اظہار خیال کیا اور قومی حکمت عملی کے لیے تجاویز پیش کیں۔ شمالی پنجاب کے صوبائی امیر ڈاکٹر طارق سلیم، صدر الخدمت فائونڈیشن پنجاب رضوان احمد، صدر مرکزی تنظیم تاجران کاشف چودھری بھی اس موقع پر موجود تھے۔

تقریب سے اپنے خطاب میں سراج الحق نے کہا کہ پاکستان ڈوبا نہیں بلکہ بڑے صنعتی ممالک کی طرف سے ڈبویا گیا ہے، نقصانات کے ازالے کے لیے پاکستان معاملے کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں اٹھائے، اور پاکستان کے ذمے ورلڈ بینک، آئی ایم ایف اور دیگر مالیاتی اداروں کے قرضے معاف کیے جائیں۔ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل ہمارے ساتھ ہیں۔ قحط اور انسانی المیے سے بچنے کے لیے متاثرہ علاقوں میں ’’ایگریکلچروہیلتھ‘‘ ایمرجنسی لگائی جائے۔ مالی امداد کی تقسیم کے لیے سرکاری مشینری پر قوم کو بھروسا نہیں ہے، اس کے لیے سول سوسائٹی اور عمائدین پر مشتمل کمیٹیاں قائم کی جائیں۔ متاثرین کی آبادکاری کے لیے وفاقی اورصوبائی حکومتیں ایک پیج پر نہیں ہیں۔ جلد اس معاملے پر قومی مشاورتی کانفرنس طلب کرتے ہوئے واچ گروپ بنایا جائے گا۔ سیلاب کے پانیوں کا رخ غریبوں کی بستیوں کے طرف پھیرنے والے جاگیرداروں کا محاسبہ کیا جائے۔ ایک سیاست دان کو آرمی چیف کی تقرری، ایک کو نیب مقدمات کی پڑی ہے۔ ہمارا مسئلہ ساڑھے تین کروڑ متاثرینِ سیلاب ہیں۔ آخری متاثرہ شخص کی آبادکاری تک چین سے نہیں بیٹھیں گے۔ جو دوسروں کے لیے جیتے ہیں وہی اصل میں عظیم لوگ ہیں۔ اہلِ اسلام آباد کے ایثار اور قربانی کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے یہاں کے عوام کو سلام پیش کرتا ہوں، قوم بہت بڑی آزمائش سے دوچار ہے، پاکستان ڈوبا نہیں بلکہ ڈبویا گیا ہے، چاروں صوبوں کے جاگیرداروں نے اپنی زمینیں اور باغات بچانے کے لیے پانیوں کا رخ غریب بستیوں کی طرف پھیر دیا، وہ چیخ پکار کرتے رہے مگر شنوائی نہ ہوئی۔ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل نے تسلیم کیا ہے کہ پاکستان کو ڈبویا گیا ہے، اس جرم میں جہاں پاکستان کے جاگیردار شامل ہیں اور انہوں نے غریبوں کی بستیوں کی طرف پانی چھوڑ دیا، وہاں وہ صنعتی ممالک بھی ذمے دار ہیں جن کی نشاندہی سیکریٹری جنرل اقوام متحدہ نے کرتے ہوئے کہا کہ ان ممالک نے بڑی مقدار میں کاربن ڈائی اکسائیڈ کا اخراج کرتے ہوئے قدرتی درجہ حرارت کو نشانہ بنانے کی کوشش کی۔ ہم اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کے اس بیان کا خیرمقدم کرتے ہیں۔ اقوام متحدہ کو ان ممالک سے مطالبہ کرنا چاہیے کہ ان کی وجہ سے موسمیاتی تبدیلی کے نتیجے میں پاکستان میں جو تباہی آئی ہے اس کے نقصانات کا ازالہ کریں۔ پاکستان یہ معاملہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں دلیل اور اعتماد سے پیش کرے۔ امریکہ، چین، روس، برطانیہ سب سے زیادہ قدرتی درجہ حرارت کو بڑھانے کا سبب ہیں۔ اس لیے ہم ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف سے بھی یہی مطالبہ کرتے ہیں کہ موسمیاتی تبدیلی کے ذمے دار ممالک نے پاکستان کو ڈبویا ہے، قرضے معاف کیے جائیں۔ صنعتی ممالک کے اس جرم کا نوٹس لینا انسانیت کے مفاد میں ہے۔ امیر جماعت اسلامی پاکستان نے کہاکہ اقوام متحدہ نے بھی ابتدائی اعداد وشمار جاری کیے ہیں۔ پاکستان میں 30لاکھ ایکڑ زرعی رقبہ زیر آب ہے، 12ہزار کلومیٹر سڑکوں کو نقصان پہنچا، براہِ راست 10ارب ڈالر جبکہ بالواسطہ طور پر27 ارب ڈالر کا نقصان ہوا ہے۔ اس سونامی کو میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔ اسکول کے بچے شہید ہوئے۔ پاکستان میں 23ویں بار سیلاب آیا ہے، اس کے باوجود مستقل انتظام کسی نے نہیں کیا۔ ایک سونامی وہ ہے جو موسمیاتی تبدیلی کے نتیجے میں آئی۔ سب سے خطرناک اور تباہ کن سونامی نظام کی ناکامی اور حکومتی نااہلی ہے جس کی وجہ سے انسانی المیہ جنم لیتا ہے۔ 2010ء کے سیلاب کے حوالے سے فلڈ کمیشن کی رپورٹ کی تیاری میں کروڑوں روپے خرچ ہوئے مگر ایک سفارش پر بھی عمل درآمد نہیں ہوا۔ بھارت میں پانچ ہزار آبی ذخائر ہیں۔ راجستھان میں وسیع پیمانے پر بارشیں ہوئیں، وہاں کے وزیراعلیٰ نے اعلان کیا کہ پانی کے ایک ایک قطرے کو محفوظ کرلیا گیا ہے۔ ہمارے ہاں بھی چولستان ہے، ہم پانی کو کیوں محفوظ نہیں کرسکتے؟ ہمارے پاس دنیا کا سب سے بڑا آب پاشی کا نظام ہے جو گندے نالوں کا منظر پیش کررہا ہے۔ 34 بیراجوں میں سے کسی کو جدید نہیں بنایا گیا۔ پانی کی تقسیم پر لڑائی ہوتی ہے مگر ہم نے حالات سے سبق نہیں سیکھا۔ ہمارا مطالبہ ہے کہ زرعی اضلاع کی بنیاد پر پانی کی تقسیم کا فارمولا طے کیا جائے۔ دھرتی کو نقصان پہنچانے کے متحمل نہیں ہوسکتے۔ بروقت اقدامات نہ کیے گئے تو پاکستان میں قحط کا خطرہ ہے جس سے افراتفری اور جرائم جنم لیں گے۔ گندم کی بوائی کا موسم آنے والا ہے، پانی کی نکاسی کو ممکن بنانا ہے، اس کے لیے زرعی ایمرجنسی کا اعلان کیا جائے۔ جماعت اسلامی کی طرف سے کسانوں اور کاشت کاروں کی امداد کے لیے عالمی معیار کے مطابق زرعی ماہرین کا بورڈ بنایا جائے گا۔ سفارشات جاری کی جائیں گی۔ مفت بیج اور کھاد کی فراہمی کے علاوہ حکومت چھ مہینوں تک زرعی متاثرہ علاقوں کے بجلی کے بل معاف کرے۔ متاثرہ علاقوں میں صحت کے 1460 مراکز اور اسپتال تباہ ہوچکے ہیں۔ پانی آلودہ ہے، تعفن اٹھ رہا ہے، سانس لینا مشکل ہے، فوری طور پر صحت کے حوالے سے ہنگامی حالت کا اعلان کیا جائے۔ وبائیں پھیلنے کا خطرہ ہے۔ 6 لاکھ سے زائد حاملہ خواتین ہیں، لاکھوں بچے ہیں۔ اگر مجھے بھی اور وزیراعظم کو بھی متاثرین کے لیے چندہ مانگنا ہے تو ایٹمی ملک کے وزیراعظم اور مجھ میں کیا فرق ہے! وہ بچوں کے لیے ہاتھ پھیلا رہے ہیں۔ شہبازشریف کو چاہیے کہ اپنی طرف سے کم ازکم 10ارب روپے اس کام پر لگا دیں۔ یہی مطالبہ میاں منشاگروپ، ملک ریاض، بلاول بھٹو زرداری، عمران خان، علیم خان، شوکت ترین، جہانگیر ترین سے ہے کہ وہ آگے بڑھیں اور سیلاب متاثرین کی مدد کریں۔ جہانگیر ترین کا جہاز سیلاب متاثرین کے کام آنا چاہیے۔ لوگ چیخ پکار کرتے رہے، وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو ہم نے ایمرجنسی فون کیے کہ لوگوں کی جانیں جاسکتی ہیں، ہیلی کاپٹر بھجوائیں، مگر ہمیں کہاگیا کہ فضائی جائزہ لیا جارہا ہے۔ متعدد بچے شہید ہوگئے۔ اب تو یہ زمین پر اتر آئیں۔ ان کے پاس کوئی ڈیٹا نہیں ہے۔ ہمیں کہا جارہا ہے کہ الخدمت ڈیٹا فراہم کرے۔ کس کس معاملے کی بات کریں! جولائی میں بارشیں شروع ہوگئی تھیں۔ این ڈی ایم اے نے اگست میں خیموں کے لیے ٹینڈر جاری کیا۔ این ڈی ایم اے اور پی ڈی ایم اے سوئی رہیں۔ حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا۔ مالی امداد کی سرکاری مشینری کے ذریعے تقسیم پر قوم کے تحفظات ہیں۔ شفافیت کے لیے سول سوسائٹی اور عمائدین پر مشتمل قابلِ اعتماد کمیٹیاں بنائی جائیں۔ آباد کاری کے لیے وزیراعظم دنیا کی طرف نہ دیکھیں، اپنے وسائل کو استعمال کریں۔ شروعات تو کی جائیں۔ کون تحقیقات کرے گا کہ غیر معیاری کاموں کی وجہ سے سڑکیں بہہ گئیں۔ ان حالات میں بھی نیب کی جانب سے کلین چٹ دی جارہی ہیں۔ متاثرین کی آباد کاری کے لیے پچاس ہزار نوجوانوں پر مشتمل رضا کار فورس بنائی جائے۔ مصیبت کی اس گھڑی میں پولیس نظر نہیں آئی، دیگر اداروں کے اہلکار بھی تب نظر آئے جب حکومت نے انہیں طلب کیا۔ ہم بار بار مطالبہ کرتے رہے مگر کوئی ادارہ حرکت میں نہ آیا۔ وفاقی اور صوبائی حکومتیں بدقسمتی سے متاثرین کی بحالی کے لیے ایک صفحے پر نہیں ہیں۔ یہ اگر اب بھی مل کر نہیں بیٹھتے تو یہ قوم کے کس دن کام آئیں گے! جو حکومت مریضوں کو ایک پینا ڈول نہ دے سکے اس کے ادارے کس کام کے! ہم سیاست سے بالاتر ہوکر متاثرین کی بحالی کے لیے جدوجہد جاری رکھیں گے اور اُس وقت تک چین سے نہیں بیٹھیں گے جب تک آخری متاثرہ شخص اپنے گھر نہیں چلا جاتا اور متاثرین کے چہروں پر مسکراہٹ نہیں آجاتی۔ جلد قومی لائحہ عمل کے لیے قومی مشاورتی کانفرنس کی جائے گی، مالی امداد کی تقسیم میں شفافیت کے لیے واچ گروپ بنایا جائے گا۔ ہم متاثرین کی آواز بنیں گے اور حکومت نے ہماری آواز نہ سنی تو قوم سے رجوع کریں گے۔ دنیا ساتھ دے نہ دے، ہمیں متاثرین کی آباد کاری کویقینی بنانا ہے۔

الخدمت فائونڈیشن پاکستان کے صدر محمد عبدالشکور نے اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا کہ حکومت متاثرینِ سیلاب کی مکمل آباد کاری کے لیے قومی پالیسی بنائے، امیر ترین شخصیات سے عطیات لیے جائیں، صاحبِ ثروت افراد کو ایک ایک ضلع دیا جائے تو ان کی دولت میں ذرہ برابر فرق نہیں پڑے گا۔ عالمی برادری چاہتی ہے کہ مالی امداد کی تقسیم میں شفافیت ہو۔ الخدمت فائونڈیشن ریاست کا ہر طرح سے ساتھ دینے کے لیے تیار ہے۔ متاثرہ علاقوں کے تمام یتیم بچوں کی کفالت کا انتظام کیا جائے گا، کسانوں اور کاشت کاروں کو بیج اور کھاد دی جائے گی۔ یہ صرف ہمارے لیے نہیں بلکہ پاکستان کے لیے بہت بڑے اعزاز کی بات ہے کہ امارات ایئرلائن نے الخدمت فائونڈیشن کی امدادی سرگرمیوں کا اعتراف کرتے ہوئے اپنے ملازمین اور مخیر حضرات سے اس فائونڈیشن کو عطیات دینے کی اپیل کی ہے۔ دنیا بھر کا الخدمت فائونڈیشن پاکستان پر نہ صرف اعتماد اور بھروسا ہے بلکہ وقت کے ساتھ اس میں اضافہ ہورہا ہے۔ عالمی سطح پر اعتراف کیا گیا ہے کہ ہمارے رضا کاروں نے پانیوں میں گھرے ہزاروں لوگوں کو محفوظ مقامات پر منتقل کیا۔ پچاس ہزار کارکنان خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ خیمہ بستیوں میں پکا پکایا کھانا مہیا کیا جارہا ہے۔ اب کسی مریض کو میڈیکل کیمپ میں آنے کی ضرورت نہیں، ہماری ایمبولینس اُس مریض تک خود پہنچے گی، گاڑیوں کے ذریعے تمام متاثرہ علاقوں میں صبح و شام پینے کا صاف پانی فراہم کیا جائے گا۔ متاثرین بخار میں تپ رہے ہیں، ان تک پہنچنے کی ضرورت ہے۔ واضح حکمت عملی کی ضرورت ہے۔ ہم نے مستقبل کے لائحہ عمل کے لیے کمیٹی بنا دی ہے۔ یتیم بچوں کی تعلیم مکمل ہونے تک کفالت کی جائے گی۔ پہلے سے ہی الخدمت 20ہزار بچوں کی کفالت کی ذمہ داری اٹھا رہی ہے۔ متاثرہ علاقوں میں کسانوں، کاشت کاروں کو کاشت کاری کے لیے بیج اورکھاد کی فراہمی اور چھوٹے کاروبار کے لیے قرضِ حسنہ کی فراہمی اور دیگر سہولیات کے لیے جلد لائحہ عمل وضع کرلیا جائے گا۔ ہم بھی پالیسی دیں گے، حکومت اپنی قومی پالیسی کا اعلان کرے۔ متاثرین کی آبادکاری کے لیے صاحبِ بصیرت قیادت کی ضرورت ہے جس کی وجہ سے قوم کو حوصلہ ملتا ہے۔ انہوں نے کہاکہ پاکستان میں اربوں، کھربوں روپے رکھنے والے ایسے صاحبِ ثروت لوگ موجود ہیں جو اگر500 اور 600ارب روپے بھی عطیہ کردیں تو ان کی دولت میں کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ صاحبِ ثروت لوگوں سے ملاقاتوں کے لیے سبکدوش ججوں، جرنیلوں، دانشوروں اور دیگر بااثر شخصیات پر مشتمل گروپ بنائے جائیں۔ ضروری نہیں ہے کہ یہ صاحب ِثروت حکومت یا کسی تنظیم کو عطیات دیں، یہ خود بھی کسی متاثرہ ضلع کو بسانے کی ذمہ داری لے سکتے ہیں۔ امداد کی تقسیم کے لیے نگرانی کا صاف شفاف طریقہ کار وضع کرنا ضروری ہے۔