برطانیہ میں بھی ہندو توا کا جادو سر چڑھ کر بول رہا ہے
ہندو توا کا جادو برطانیہ میں بھی سر چڑھ کر بولنے لگا۔ برطانیہ کے شہر لیسٹر میں ہندو مسلم فسادات نے برطانیہ میں مسلمانوں کو شدید عدم تحفظ کا شکار کردیا۔ ان فسادات کا آغاز ایشیا کپ کرکٹ ٹورنامنٹ میں 28 اگست 2022ء کو انڈیا پاکستان میچ میں انڈیا کی فتح کے بعد ہوا۔ اطلاعات کے مطابق ایشیا کپ کے پہلے میچ میں انڈیا کی پاکستان کے مقابلے میں فتح کے بعد بہت بڑی تعداد میں ہندوئوں نے لیسٹر کی سڑکوں پر جشن منایا اور پاکستان مُردہ باد اور جیے شری رام کے انتہا پسندانہ نعرے مساجد اور مسلمانوں کے کاروبار کے سامنے آکر بلند کیے، برطانوی نژاد پاکستانیوں و دیگر مسلمانوں نے ان کو اس عمل سے روکنے کی کوشش کی، جس پر تشدد کا آغاز ہوا، تاہم پولیس نے صورت حال کو قابو میں کرلیا۔ انڈیا پاکستان کے دوسرے کرکٹ میچ میں پاکستان کی جیت کے بعد مسلمانوں نے جشن منایا جس پر صورت حال مزید خراب ہوئی اور دوبارہ تشدد کا آغاز ہوگیا۔ برطانیہ میں یہ صورت حال غیر معمولی ہے اور مذہبی بنیادوں پر اس قسم کے تشدد اور فسادات کی مثال کم ہی نظر آتی ہے۔
برطانوی مسلمان 11ستمبر2001ء کے حملوں کے بعد سے اسلاموفوبیا کا شکار ہیں اور ان کی منظم کردارکُشی میڈیا اور سیاست دانوں کی جانب سے کی جارہی ہے، اور خاص طور پر ریاستی قوانین میں ایسی ترامیم کردی گئی ہیں جن کے تحت شہریت کی منسوخی بھی اب کی جاسکے گی۔ اس کے علاوہ مسلمان خواتین کو حجاب پہننے کی وجہ سے حملوں اور مسلمانوں کو مذہب کی بنیاد پر امتیازی سلوک کا بھی سامنا ہے۔ گوکہ برطانیہ میں مسلمان نصف صدی سے زیادہ عرصے سے آباد ہیں لیکن ان کو اس معاشرے میں وہ قبولیت حاصل نہ ہوسکی جو ہندوئوں کو برطانوی معاشرے میں حاصل ہے۔ ہندوئوں کی برطانوی معیشت اور سیاست میں گرفت بتدریج مضبوط ہوتی جارہی ہے، اور موجودہ برطانوی وزیراعظم لزٹرس کے مقابلے میں بھارتی نژاد رشی سونک ہی وزیراعظم کے امیدوار تھے جو کہ چند سو ووٹوں کی کمی سے کامیاب نہ ہوسکے۔
ادھر لیسٹر میں فسادات کا ایک نیا دور اُس وقت شروع ہوا جب 17 ستمبر کو ہندوئوں نے ایک ریلی نکالی جس کا روٹ مسلمانوں کے علاقے اور ان کا کاروبار تھا۔ مقامی افراد کے مطابق جلوس کو مبینہ طور پر مکمل سرکاری سرپرستی حاصل تھی۔ جلوس میں شریک افراد نے ایک بار پھر مساجد کے باہر جیے شری رام کے نعرے بلند کیے، اور مسلمان جوکہ اپنے گھروں اور کاروبار کی حفاظت کے لیے جمع ہوئے تھے ان پر پتھراؤ اور تشدد بھی کیا گیا۔ مسلمانوں کے مطابق یہ سب کچھ پولیس کی موجودگی میں ہوا اور پولیس خاموش تماشائی بنی رہی۔ بعدازاں پولیس کی جانب سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا کہ دو افراد کو فسادات کے جرم میں گرفتار کیا گیا ہے۔ تاہم صورت حال ابھی تک کشیدہ ہے اور مقامی رہنماؤں نے دونوں اطراف سے پُرامن رہنے کی اپیل کی ہے۔
بھارت میں بھارتیہ جنتا پارٹی کا ہندو توا کا نظریہ اب برطانیہ میں بھی اپنا رنگ دکھا رہا ہے۔ بھارت میں مسلمانوں کی شہریت کے خاتمے اور دنیا بھر سے ہندوئوں کو بھارت میں بسانے کے لیے سٹیزن ترمیمی بل، مسلمانوں کے مکانوں کی مسماری اور پُرامن مسلمان مظاہرین پر بدترین سرکاری تشدد… جس میں حکمران جماعت بی جے پی کے کارکنان بھی شامل تھے… نے فلسطین کے مسلمانوں کی صف میں اب بھارت کے مسلمانوں کو بھی لاکھڑا کیا ہے۔ ادھر امریکہ، برطانیہ اور پورے مغرب میں اسلاموفوبیا کا جادو سر چڑھ کر بول رہا ہے۔ مسلمانوں کو پہلے دہشت گرد ثابت کیا جارہا تھا اور اب مسلمانوں پر خود مغرب میں دہشت گردانہ حملے کرنے والوں کے خلاف بھی حکومتیں کوئی قابلِ ذکر کارروائی نہ کرکے مسلمانوں کو اشتعال پر آمادہ کررہی ہیں۔ اس تمام تر صورت حال میں برطانوی میڈیا کا رویہ بھی قابلِ ذکر ہے، وہ ان یک طرفہ حملوں کو بھی فسادات لکھ رہا ہے اور اس کو کوریج بھی ان فسادات کے حجم کے مطابق نہ مل سکی۔
برطانوی مسلمانوں پر اس زوال کی اصل وجہ ان کا تعلیم اور سیاست میں پیچھے رہ جانا ہے۔ مسلمانوں نے یہاں پر وسیع و عریض کاروبار بنائے، مساجد اور مدارس کا نیٹ ورک قائم کیا، حلال اور ذبیحہ کو یقینی بنانے کے لیے قابلِ قدر کام کیا، لیکن اس کے بعد برطانوی مسلمانوں نے اس سب کو ہی اپنا حاصل سمجھ لیا۔ بدقسمتی سے مسلمان تعلیم میں وہ مقام حاصل نہ کرسکے جو ان کو کرنا چاہیے تھا۔ شاید دولت کمانے کی دھن نے ان کو علم سے غافل کردیا، اور دوسری جانب مسلمانوں نے بھانت بھانت کی تنظیمیں بنائیں، اور ان کی تمام تنظیموں کی توجہ فنڈز اکٹھا کرنے پر ہی مرکوز ہے۔ اگر کچھ مسلمان اپنے طور پر سیاست میں فعال ہوکر کسی مقام تک پہنچ بھی گئے تو بدقسمتی سے ان کو گرانے کے لیے ان کے ہی دوست صفِ اوّل میں نظر آئے۔
عملی سیاست سے برطانوی مسلمان بحیثیتِ مجموعی کنارہ کش ہیں یا وہ اس میں کوئی اجتماعی کاوش کرنے میں ناکام رہے، جبکہ اس کے برعکس ہندو نہ صرف علم کے میدان میں آگے رہے بلکہ انہوں نے برطانوی سیاست میں بھی منظم طور پر اپنا حصہ ڈالا ہے اور برطانوی سیاست میں ان کا وزن اب قابلِ قدر ہے۔ لیسٹر کے فسادات محض معمول کے فسادات نہیں بلکہ یہ اس حوالے سے بھی اہم ہیں کہ ایک ہی خطے سے تعلق رکھنے والے، بظاہر ایک جیسے چہرے مہرے، رنگ و نسل سے تعلق رکھنے والے نصف صدی سے زائد ایک ساتھ ایک سیکولر ریاست میں رہنے کے باوجود بھی ایک نہ ہوسکے۔
یہی وہ سبق ہے جو آج سے تقریباً ایک صدی قبل برصغیر کے مسلمانوں نے سیکھ لیا تھا۔ دنیا میں جہاں نسلی قومیت کی بنیاد رکھی جارہی ہے وہاں پر آج بھی مسلمانوں کے لیے قومیت کی اصل بنیاد مذہب ہی ہے۔ لیسٹر میں ہونے والے فسادات محض بھارتی اور پاکستانی نژاد برطانوی باشندوں کے درمیان فسادات نہیں بلکہ ہندوئوں اور مسلمانوں کے درمیان فسادات ہیں۔ یہ برطانوی مسلمانوں کے لیے ایک مقام فکر بھی ہے اور دعوتِ عمل بھی کہ اگر وہ مغرب میں کچھ کرنا چاہتے ہیں تو ان کو علم و سیاست کے میدانوں میں اپنے آپ کو منوانا ہوگا، ورنہ مغرب میں مسلمانوں کا مستقبل دوسرے درجے کے شہری کا سا ہوگا۔