شنگھائی تعاون تنظیم کا اجلاس پاکستان کی مبہم خارجہ پالیسی

شنگھائی تعاون تنظیم کی کانفرنس ایک ایسے موقع پر ہوئی جب دنیا دو بلاکوں میں واضح طور پر منقسم ہوچکی ہے۔ یوکرین پر روسی حملے کے بعد امریکہ نے یورپ سمیت اپنے اتحادیوں کو روس کے خلاف ایک پلیٹ فارم پر جمع کرلیا ہے، وہ دوسرے ممالک کے ساتھ بھی رابطے کرکے انہیں روس کے خلاف کھڑا ہونے کے لیے اپنا اثر رسوخ استعمال کررہا ہے۔ اس صورتِ حال کے باعث دنیا روس اور امریکہ کے الگ الگ کیمپوں میں بٹی ہوئی ہے۔ چین اور امریکہ کے مابین فاصلے بڑھ جانے سے ایک نیا بلاک تشکیل پا چکا ہے۔ پاکستان کی پالیسی اس حوالے سے ابھی تک ابہام کا شکار دکھائی دیتی ہے، وہ امریکہ اور روس دونوں کے ساتھ دوستی کا خواہش مند ہے اور اپنے ہمسایہ ممالک افغانستان اور بھارت کے ساتھ بھی تعلقات کو معمول پر لانے میں بہت سے مسائل اور تحفظات کا سامنا ہے۔
پاکستان اور روس کے سفارتی اور تجارتی تعلقات شروع ہی سے اتار چڑھائو سے دوچار رہے ہیں۔ 1970ء کے عشرے میں روس نے اسٹیل مل دی اور اسی عشرے میں افغانستان پر حملہ کرکے ہمیں ایسے گڑھے میں دھکیل دیا جس سے آج تک ہم باہر نہیں نکل سکے۔
ازبکستان میں علاقائی تعاون کی تنظیم کے اجلاس میں وزیراعظم شہباز شریف اعلیٰ سطحی وفد کے ہمراہ ازبکستان گئے، جہاں روسی صدر ولادی میر پیوٹن کے ساتھ ملاقات بھی ہوئی پاکستان نے روس سے توانائی کے بحران سے نمٹنے کے لیے مدد مانگی ہے ہمارے قدرتی گیس کے مقامی ذخائر ملک کی محض چند فیصد ضرورت پوری کر پا رہے ہیں۔ موسم سرما گھریلو صارفین تک کو حکومت گیس کی سپلائی نہیں کرپاتی رفتہ رفتہ یہ مسئلہ سنگینی کی آخری حد کو چھوتا ہوا دکھائی دے رہا ہے جبکہ 2025ء سے 2028ء تک موجودہ ذخائر کے ختم ہو جانے کا خدشہ بھی ظاہر کیا جا رہا ہے، تاہم گیس درآمد کرنے کے حوالے سے پاکستان کے پاس اس وقت مختلف آپشن موجود ہیں۔ ایران ، پاکستان گیس پائپ لائن اور ترکمانستان، افغانستان، پاکستان ،انڈیا (ٹاپی) سرد خانے میں پڑا ہے۔ رواں سال فروری میں سابق وزیر اعظم عمران خان بھی روس سے تیل خریدنے کی تجویز کو عملی شکل دینے کے لیے پر امید دکھائی دے رہے تھے اب وزیر اعظم شہباز شریف نے شنگھائی تعاون تنظیم کے با ئیسویں سربراہی اجلاس کے موقع پر ازبکستان کے شہر سمرقند میں ایران، بیلا روس، تاجکستان، ازبکستان اور روس کے کے صدر ولادیمیر پیوٹن سے ملاقات کی ہیں، روس کے صدر ولادی میر پیوٹن کے ساتھ ہونے والی ملاقات میںغذائی تحفظ،تجارت و سرمایہ کاری،توانائی، دفاع اور سیکورٹی سمیت باہمی مفاد کے تمام شعبوں میں تعاون کو وسعت دینے کے لیے مل کر کام کرنے کے عزم کا اعادہ کیا گیا ہے،صدر پیوٹن نے کہا کہ روس ریلوے اور توانائی کے شعبوں میں مدد دے سکتا ہے پاکستان کو روس سے گیس کی سپلائی کی جا سکتی ہے جو روس، قازقستان اور ازبکستان کے پہلے سے بنے انفراسٹرکچر سے ممکن ہے، روسی صدر نے بتایا کہ روس کے پاس پاکستان کو گیس کی فراہمی کا انفرا اسٹرکچرپہلے سے موجود ہے جس کی رو سے یہ منصوبہ قابل عمل ہے 2015ء میں نواز شریف کے دور میں پاکستان اور روس کے درمیان دو ارب ڈالر کی لاگت سے قازقستان، ازبکستان اور افغانستان کے راستے 1100کلو میٹر طویل گیس پائپ لائن بچھانے کے مفاہمتی یاد داشت پر دستخط ہوئے تھے ،اس منصوبے کو 2017ء میں مکمل ہونا تھا مگر یہ منصوبہ بھی سرد خانے کی نذر ہو گیا۔ ملک میں گیس کی قلت کے باعث ملک میںگھریلو کے علاوہ ہماری صنعتی ضروریات بھی بری طرح متاثر ہورہی ہیں جس کی وجہ سے برآمدات میں کمی ہورہی ہے غیر ملکی زر مبادلہ بھی ضائع ہو رہا ہے اس وقت یورپی ملکوں کو ملنے والی کل گیس کا ایک تہائی حصہ روس فراہم کرتا ہے پاکستان بھی چاہتا ہے روس سے گیس درآمد کی جائے۔اس کانفرنس میں پاکستان نے موسمیاتی تبدیلی، فوڈ سکیورٹی اور دیگر امور اپنے ایجنڈے پر سرفہرست رکھے تھے، ویسے بھی اس طرح کے یا کسی بھی عالمی فورم پر رکن ممالک کے مابین باہمی تنازعات فورم کی کارروائی کا حصہ نہیں بنائے جاتے۔ لہٰذا کشمیر سمیت بھارت سے تجارت جیسے ایشوز کانفرنس میں زیر بحث نہیں لائے جاسکتے تھے۔ سایڈ لائن کی ملاقات میں اس طرح کے ایشوز پر بات چیت ہوتی ہے ،ویسے بھی شہباز شریف بھارتی وزیراعظم نریندر مودی سے کوئی ملاقات طے ہی نہیں تھی،شنگھائی تعاون تنظیم ایک علاقائی سکیورٹی بلاک ہے جس کا آغاز 2001ء میں دہشت گردی اور دیگر سکیورٹی خدشات سے نمٹنے کے لیے کیا گیا تھا،یہ گروپ ابتدائی طور پر چین، روس اور چار سابق سوویت وسطی ایشیائی ریاستوں پر مشتمل تھا۔ نائن الیون کے بعد پیدا ہونے والے حالات کے پیش نظربھارت اور پاکستان اس گروپ میں 2017ء میں شامل کیے گئے،یہ علاقائی سربراہی اجلاس ایک ایسے وقت میں ہوا جب پاکستان طوفانی بارشوں اور سیلاب کے نتیجے میں مشکلات کا شکار ہے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل اور عالمی ماہرین نے اسے موسمیاتی تبدیلی کی وجہ قرار دیا ہے،پاکستان میں حالیہ بارشوں اور سیلاب نے 1600 سے زائد افراد کی جان لے لی ہے، سیلاب میں لاکھوں مویشی بہہ گئے اور فصلوں کا بہت بڑا حصہ تباہ ہو گیا ہے،سیلاب نے ملک میں بنیادی ڈھانچے کو تباہ کر دیا ہ نقصان کا اندازہ 40 ارب ڈالر تک پہنچ سکتا ہے۔
ماحولیاتی تباہی صرف پاکستان کا ہی نہیں بلکہ عالمی اور موسمیاتی مسئلہ ہے۔ محکمہ موسمیات نے پاکستان میں آئندہ مون سون سیزن زیادہ خطرناک ہونے کی پیشگوئی کی ہے۔ پاکستان اور 9 ممالک کی مشترکہ تحقیقی رپورٹ جاری کی گئی ہے جس کے مطابق مستقبل میں مون سون کی بارشیں مزید شدت اختیار کریں گی، اور پاکستان میں آئندہ مون سون زیادہ تباہ کن ہونے کا خطرہ ہے۔ مشترکہ رپورٹ میں پاکستان میں ہونے والی حالیہ بارشوں اور سیلاب سے نقصانات کی وجوہات بھی بتائی گئی ہیں۔ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں مون سون بارشوں سے نقصانات کی وجوہات میں ناقص دریائی مینجمنٹ سسٹم، غیرقانونی آباد کاری اور معاشی عدم استحکام شامل ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ابھی درجہ حرارت 1.2 ڈگری سینٹی گریڈ بڑھنے سے بارشیں 50 تا 75 فیصد زیادہ ہوئیں، مستقبل میں درجہ حرارت مزید بڑھنے پر بارشیں کئی گنا زیادہ شدید ہوسکتی ہیں، اور آئندہ اگست کے 5 دن مون سون بارشوں کا بلند سطح تک رجحان جاسکتا ہے۔ پاکستان میں ڈیزاسٹر مینجمنٹ سسٹم پر عمل درآمد کا فقدان ہے، نقصانات سے بچنے کے لیے 2010ء کے سیلاب کے بعد بنائے گئے ڈیزاسٹر مینجمنٹ پلان پر عمل درآمد یقینی بنانا ہوگا۔ (باقی صفحہ 33پر)
شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہی اجلاس سے خطاب میں وزیراعظم شہبازشریف نے پاکستان پر عالمی درجہ حرارت میں اضافے کے تباہ کن اثرات کے تناظر میں موسمیاتی تبدیلی کے چیلنج سے نمٹنے کے لیے بین الاقوامی منصوبہ بندی کی ضرورت کا اظہار کیا ہے تاکہ عالمی برادری متوجہ ہو۔
وزیراعظم کے میڈیا ونگ سے جاری بیان کے مطابق تاجکستان، ازبکستان، ایران اور منگولیا کے صدور نے وزیراعظم شہبازشریف کی موسمیاتی تبدیلی کے مسئلے کو شنگھائی تعاون تنظیم کی طرف سے اٹھانے کی تجویز کی بھرپور تائید و حمایت کا اعلان کیا ہے۔ تاہم اس سمت میں مثبت پیش رفت کی سب سے بڑی شرط ترقی یافتہ ملکوں کی جانب سے توانائی کے حصول کے لیے فضائی آلودگی بڑھانے والے کوئلے، فرنس آئل اور گیس جیسے ایندھن کے بجائے سورج اور ہوا جیسے قابلِ تجدید ذرائع کا استعمال کیا جانا ہے، جو کسی آلودگی کا سبب نہیں بنتے۔ لیکن ماہرین موسمیات کے عشروں سے جاری انتباہات اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کے باوجود مغربی دنیا اور دیگر ترقی یافتہ ملکوں نے اب تک فضائی آلودگی بڑھانے والے ایندھن کا استعمال قابلِ لحاظ حد تک ترک نہیں کیا ہے جس کی سزا پاکستان جیسے ترقی پذیر ملکوں کو بھگتنا پڑ رہی ہے۔ وزیراعظم شہبازشریف سمرقند سے نیویارک کے لیے رخصت ہوچکے ہیں جہاں وہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس میں موسمیاتی تبدیلی کے خطرے کے بارے میں گفتگو کریں گے۔