الحمد للہ! طوفانی بارشوں اور سیلابی ریلوں کا سلسلہ بڑی حد تک تھم چکا ہے تاہم متاثرین سیلاب کے مصائب ابھی ختم نہیں ہوئے، گائوں کے گائوں تاحال پانی میں ڈوبے ہوئے ہیں، لاکھوں لوگ سرچھپانے کے لیے چھتوں سے محروم ہو چکے ہیں، وسائل روز گار مال مویشی، فصلیں اور دیگر اموال پانی کے بپھرے ہوئے ریلوں کی نذر ہو گئے ہیں اور ’مرے کو مارے شاہ مدار‘ کے مصداق سیلاب کے بعد اب وبائی امراض ان بے سروسامان لوگوں کو گھیرے ہوئے ہیں۔ ان متاثرین کی بحالی بھی ایک بڑی آزمائش کی حیثیت رکھتی ہے جس کے لیے قوم کے وافر جذبۂ ایثار و قربانی کی ضرورت ہے، للہ الحمد کہ قوم بھر پور انداز میں اس کا مظاہرہ کر بھی رہی ہے اور’’الخدمت‘‘ اور ’’اخوت‘‘ جیسی خیر کی بڑی بڑی تنظیموں کے منظم کام کے علاوہ بے شمار چھوٹی چھوٹی انجمنیں بھی گلی محلوں میں اپنی اپنی سطح پر بڑھ چڑھ کر اس کار خیر میں حصہ لے رہی ہیں قوم کے اس جذبۂ ایثار اور احساس ذمہ داری پر اللہ، رحمن و رحیم کا جس قدر شکر ادا کیا جائے کم ہے، یہ جذبہ جہاں نہایت قابل قدر اور اطمینان بخش ہے وہیں ان تجزیہ کاروں کے لیے بھی مثبت سوچ و فکر کا سامان اپنے اندر لیے ہوئے ہے جوہر وقت ملک و قوم سے متعلق منفی تجزیئے کرتے اور مایوسی پھیلاتے نہیں تھکتے، مفکر اسلام، مصور پاکستان، شاعر مشرق علامہ اقبالؒ نے اسی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا تھا:۔
نہیں ہے نا امید اقبال اپنی کشت ویران سے
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی
جہاں تک قوم کا معاملہ ہے وہ اس کارخیر میں اقوام عالم میں سرفہرست ہے مگر پریشانی کی بات یہ ہے کہ حکومتی سطح پر جس سنجیدگی اور قومی اتفاق رائے کی اس کام کے لیے شدید ضرورت ہے وہ عنقا ہے، وفاقی اور صوبائی حکومتیں خالق کائنات کے اس واضح حکم کہ ’’نیکی و بھلائی اور خدا خوفی کے کاموں میں باہم تعاون کرو اور گناہ و سرکشی کے کاموں میں تعاون نہ کرو۔‘‘ کے باوجود آپس میں اختلافات کی شکار بلکہ باہم گھتم گتھا ہیں، کسی کو قطعاً احساس نہیں کہ عوام کی بڑی اکثریت کس مصیبت سے دو چار ہے فریقین اس آسمانی آفت اور اس سے پیدا ہونے والے بے پناہ مسائل کو یکسر فراموش کئے ہوئے ہیں اور ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لیے اس نازک مرحلے پر بھی الزام تراشیوں اور اتہام بازیوں میں مصروف عمل ہیں بلکہ اس سے بھی آگے بڑھتے ہوئے اب نوبت یہاں تک جا پہنچی ہے کہ ایک دوسرے کے خلاف انتہائی سنگین نوعیت کے مقدمات درج کرنے کا مقابلہ جاری ہے، وفاقی حکومت نے پہلے تحریک انصاف کے سربراہ عمران خاں کے قریبی ساتھی شہباز گل کے خلاف بغاوت کا مقدمہ درج کر کے انہیں گرفتار کیا اور سبق سکھانے کی بھر پور کوشش کی اس سے قبل 25 مئی کو احتجاج کے عمران خاں کے اعلان پر اسلام آباد کی جانب جانے والے کارکنوں کی پکڑ دھکڑ اور تشدد کے مختلف ہتھکنڈوں کے ذریعے زبردست خوف و ہراس کی فضا قائم کی گئی ، پھر عمران خان کی ایک تقریر کے دوران کہے گئے چند جملوں کو جواز بنا کر ان کے خلاف دہشت گردی کی دفعات کے تحت مقدمہ درج کر کے انہیں پس دیوار زنداں دھکیلنے کی کوشش کی گئی تاہم انہوں نے عدالت سے ضمانت کروا لی اور اب اسلام آباد کی عدالت عالیہ کے منصف اعلیٰ اطہر من اللہ اور جسٹس ثمن رفعت مرزا پر مشتمل دو رکنی بنچ نے عمران خاں کی دہشت گردی مقدمہ کے اخراج کے لیے دائر درخواست پر فیصلہ میں دہشت گردی کی دفعات ختم کر کے مقدمہ انسداد دہشت گردی عدالت سے عام عدالت میں منتقل کرنے کا حکم دیا ہے اور قراردیا ہے کہ تقاریر پر ایسے پرچے درج کرائے جائیں گے تو ایک سیلاب آ جائے گا، کون سا سیاستدان ہے جو ایسے الفاظ نہیں کہتا، اس طرح کریں گے تو سب کے خلاف مقدمات بنیں گے۔ فاضل عدالت کے اس واضح حکم اور رہنمائی کے باوجود فریقین نے کوئی سبق نہیں سیکھا چنانچہ عین اس روز جب عدالت عالیہ نے یہ حکم جاری کیا، لاہور میں تھانہ گرین ٹائون میں مسلم لیگ (ن) کے وفاقی وزراء مریم اورنگزیب، جاوید لطیف، پاکستان ٹیلی ویژن کے ایم ڈی سہیل خاں، کنٹرولر پروگرامز راشد بیگ اور متعلقہ پروڈیوسر کے خلاف مذہبی منافرت پھیلانے کے الزام میں دہشت گردی کا مقدمہ درج کر لیا گیا جب کہ تحریک انصاف اسلام آباد ریجن کے صدر علی نواز اعوان نے بھی اسی مضمون کی ایک درخواست تھانہ سیکرٹریٹ میں جمع کرائی۔ پنجاب اسمبلی کے ایوان نے اسی روز دو قراردادوں کی منظوری دی جن میں سے ایک میں تو مندرجہ بالا دونوں وفاقی وزراء کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا گیا ہے جب کہ دوسری قرار داد میں وزیر اعظم شہباز شریف کے خلاف آئین کی دفعہ پانچ اور چھ کے تحت کارروائی کی سفارش کی گئی ہے کیونکہ انہوں نے حساس قومی معاملات پر عدالت سے مفرور قرار پانے والے سابق وزیر اعظم نواز شریف سے مشاورت کر کے اپنے حلف کی خلاف ورزی کی ہے جب کہ آئین غیر متعلقہ شخص کو اہم قومی امور سے متعلق معلومات فراہم کرنے سے روکتا ہے۔ پنجاب کی صوبائی حکومت 25 مئی کے تحریک انصاف کے احتجاج کے موقع پر کارکنوں کے خلاف کارروائی کے ذمے دار مسلم لیگی وزراء اور سرکاری ملازمین کے خلاف بھی مقدمات اور دیگر کارروائیاں شروع کر چکی ہے، اس طرح وفاقی حکومت خصوصاً اس کے نواز لیگی وزراء اور پنجاب و صوبہ خیبر کی صوبائی حکومتیں باہم دست و گریباں ہیں اور ایک دوسرے کے خلاف دہشت گردی اور غداری تک کے سنگین الزامات عائد کرنے سے بھی گریز نہیں کیا جا رہا اس رجحان کی کسی بھی طرح تائید و حمایت نہیں کی جا سکتی، ملک پہلے ہی معاشی، معاشرتی اور سیاسی بحرانوں سے دو چار ہے، ایسے میں حکمران طبقے کی جانب سے اس انتہا پسندی کے نتائج ملک کے حق میں بہتر ہوں گے نہ قوم کے حق میں۔ اس لیے ہم گزارش کریں گے کہ ہمارے سیاستدان خصوصاً وفاق اور صوبوں میں برسراقتدار حکمران اس حد تک نہ جائیں جہاں سے واپسی ممکن نہ ہو،براہ کرم وہ عقل و خرد سے کام لیتے ہوئے ہوش کے ناخن لیں اور نفرت کی دیواریں بلند سے بلند تر کرتے چلے جانے کی بجائے قوم کو باہمی اخوت و محبت اور الفت کی راہ دکھائیں تاکہ مل جل کر بحرانوں، مشکلات، مسائل اور مصائب سے نجات کی کوئی سبیل تلاش کی جا سکے۔ بقول: شاعر مشرق ؎
یہی مقصود فطرت ہے، یہی رمزِ مسلمانی
اخوت کی جہانگیری، محبت کی فراوانی
(حامد ریاض ڈوگر)