حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا:
” قیامت کی نشانیوں میں یہ بھی ہے کہ (دین کا) علم اٹھ جائے گا اور جہالت جم جائے گی اور شراب کو (کثرت سے) پیا جائے گا ،زنا علانیہ ہوگی“۔
(بخاری ،جلد اول کتاب العلم ،حدیث نمبر80)
| بے شک آپ پابندی سے نماز پڑھتے ہیں، روزے رکھتے ہیں، زکوٰۃ کا بھی اہتمام کرتے ہیں، استطاعت ہو تو حج کو بھی جاتے ہیں، آپ اسلامی وضع قطع کے بھی پابند ہیں، حلال و حرام کی تمیز میں بھی نہایت حساس ہیں، آپ تقویٰ و طہارت کے لوازم کا بھی التزام کرتے ہیں اور نوافل و اذکار، صدقہ و خیرات کا بھی زیادہ سے زیادہ خیال رکھتے ہیں، اس لیے کہ آپ کو اپنے مسلمان ہونے کا احساس ہے۔
خدا کا شکر ہے کہ اس احساس میں آپ تنہا بھی نہیں ہیں، آپ کی طرح شریعت کے احکام و آداب کی اتباع اور پیروی کرنے والے اُمت میں ہزاروں نہیں لاکھوں ہیں، اور اگر مَیں یہ دعویٰ کروں تو اس کی تردید نہیں کی جاسکتی کہ اپنی عبرت ناک پستی کے باوجود آج بھی مسلمان مذہب کی پیروی اور عبادات سے شغف میں ہر مذہب کے پیروئوں سے آگے ہیں۔ اُمت مسلمہ میں لاکھوں افراد اب بھی موجود ہیں جن کی زندگیاں قابلِ رشک حد تک خداترسی اور فرض شناسی کا نمونہ ہیں، جن کی سیرت اور کردار آئینے کی طرح صاف ہے، جن کا تقویٰ ہر شبہے سے بالا ہے، اور جن پر سوسائٹی اعتماد کرتی ہے، اور یہ حقیقت ہے کہ کوئی بھی مذہبی گروہ ان کی ٹکر کے انسان پیش کرنے کی ہمت نہیں کرسکتا۔
یہ بھی واقعہ ہے کہ مسلمان تعداد کے اعتبار سے بھی دنیا میں دوسری عظیم اکثریت ہیں۔ ان کے پاس ہر طرح کے وسائل و ذرائع بھی ہیں۔ ان کے پاس کوئلہ بھی ہے، پٹرول بھی ہے، لوہا بھی ہے، سونا بھی ہے، یہ دولت مند بھی ہیں اور دنیا کے کتنے ہی حصوں میں ان کی اپنی حکومتیں بھی ہیں۔
مگر تلخ سہی یہ بھی حقیقت ہے کہ اس مذہبی تقدس اور دولت و حکومت کے باوجود سب سے زیادہ ذلیل و خوار اور بے وزن یہی مسلمان قوم ہے، نہ ان کی اپنی کوئی راے ہے ، نہ کوئی منصوبہ، نہ ان کا کوئی وقار ہے اور نہ کوئی اعتبار۔ انفرادی حیثیت سے ان میں یقیناً لاکھوں ایسے ہیں جن پر انسانیت فخر کرسکتی ہے، لیکن اجتماعی حیثیت سے دنیا میں ان کا کوئی مقام نہیں ہے۔
آپ اسی اُمت کے ایک فرد ہیں۔ آپ کا مستقبل اُمت کے مستقبل سے وابستہ ہے۔ کیا آپ کو یہ احساس پریشان کرتا ہے کہ اُمت کو اس ذلت سے نکالا جائے اور اس کو عظمت ِ رفتہ حاصل کرنے کے لیے پھر سے بے تاب کردیا جائے؟
کبھی آپ نے غور کیا کہ اس بے قدری اور ذلت کی وجہ کیا ہے؟ اصل بات یہ ہے کہ اُمت نے اپنا وہ فرض بھلا دیا ہے، جس کے لیے خدا نے اس کو پیدا کیا تھا۔ اُمت ِ مسلمہ عام اُمتوں کی طرح کوئی خود رو اُمت نہیں ہے۔ اس کو خدا نے ایک خاص منصوبے کے تحت ایک عظیم مقصد کے لیے پیدا کیا ہے۔ خدا نے اس کی زندگی کا وہی مشن قرار دیا ہے جو اپنے اپنے دور میں خدا کے پیغمبروں کا مشن رہا ہے۔ نبوت کا سلسلہ نبی اُمیؐ پر ختم ہوگیا۔ آپؐ کے بعد اب کوئی نبی نہیں آئے گا۔ خدا کے بندوں تک خدا کا دین پہنچانے کا کام اب رہتی دنیا تک اسی اُمت کو انجام دینا ہے۔ یہی اس کی زندگی کا مقصد ہے، اسی کی خاطر خدا نے اسے ایک اُمت بن کر رہنے کی تاکید کی ہے، اور اسی فرض کی ادایگی سے اس کی تقدیر وابستہ ہے۔ خدا کا ارشاد ہے: وَلْتَکُنْ مِّنْکُمْ اُمَّۃٌ یَّدْعُوْنَ اِلَی الْخَیْرِ (اٰلِ عمرٰن ۳:۱۰۴) ، یعنی’’تم کو ایک ایسی اُمت بن کر رہنا چاہیے جو خیر کی طرف لوگوں کو دعوت دے‘‘۔
خیر سے مراد ہر وہ نیکی اور بھلائی ہے جس کو نوعِ انسانی نے ہمیشہ نیکی اور بھلائی سمجھا ہے، اور خدا کی وحی نے بھی اس کو نیکی اور بھلائی قرار دیا ہے۔ الخیر سے مراد وہ ساری نیکیاں ہیں جن کے مجموعے کا نام دین ہے، اور جو ہمیشہ خدا کے پیغمبر ؑ خدا کے بندوں تک پہنچاتے رہے ہیں۔ اُمت کا کام یہ ہے کہ وہ خدا کے بندوں کو کسی امتیاز کے بغیر اس دین کی دعوت دے، اور اُسی سوز اور تڑپ کے ساتھ دعوت کا کام کرے جس طرح خدا کے پیغمبروں ؑ نے کیا ہے، اس لیے کہ وہی مشن خدا نے اس اُمت کے سپرد کیا ہے۔
اُمت کی زندگی میں دعوتِ دین کے کام کی وہی حیثیت ہے جو انسانی جسم میں دل کی حیثیت ہے۔ انسانی جسم اسی وقت تک کارآمد ہے جب تک اس کے اندر دھڑکنے والا دل موجود ہو۔ اگر یہ دل دھڑکنا بند کردے تو پھر انسانی جسم، انسانی جسم نہیں ہے مٹی کا ڈھیر ہے۔ اس لیے کہ جسم کو صالح خون پہنچانے والا اور اس کو زندہ رکھنے والا دل ہے۔
ٹھیک یہی حیثیت دعوتِ دین کی بھی ہے۔ اگر اُمت یہ کام سرگرمی سے انجام دے رہی ہے، خدا کے منصوبے اور منشا کے مطابق اُمت میں صالح عناصر کا اضافہ ہو رہا ہے،اور غیرصالح عنصر چھٹ رہا ہے، نیکیاں پنپ رہی ہیں اور بُرائیاں دم توڑ رہی ہیں تو اُمت زندہ ہے اور عظمت و عزت اور وقار و سربلندی اس کی تقدیر ہے، لیکن اُمت اگر اس فرض سے غافل ہوجائے، دینِ حق کے کام کا اسے احساس ہی نہ رہے تو وہ زندگی سے محروم ہے اور مُردہ ملّت بھلا عزت و عظمت کا مقام کیسے پاسکتی ہے۔
خدا کے نزدیک بھی اُمت کی تمام تر اہمیت اسی وقت ہے جب وہ اس منصب کے تقاضے پورے کرے جس پر خدا نے اسے سرفراز فرمایا ہے۔ اگر وہ اس منصب ہی کو فراموش کردے اور اسے احساس ہی نہ رہے کہ خدا نے مجھے کس کام کے لیے پیدا کیا ہے، تو پھر خدا کو اس کی کیا پروا کہ کون اسے پیروں میں روند رہا ہے، اور کون اس کی عزت سے کھیل رہا ہے۔(شعورِ حیات، ص13-15)