مشرقی پنجاب کے معروف ضلع روہتک میں معروف مسلمان برادریوں میں ایک برادری پٹھان خاندان کی بھی تھی، جن کی اکثریت اسلام کی شیدائی اور دین دار تھی، معاشی طور پر خوش حال تھی۔ تقسیم ہند کے بعد پٹھان برادری کی بڑی تعداد ہجرت کرکے ملتان، وہاڑی اور خانیوال ضلع میں آباد ہوگئی، وہیں ان کو زمینیں اور جائدادیں الاٹ ہوگئیں۔
ضلع وہاڑی میں آباد ہونے والے معروف شخص جمشید علی خان مرحوم تھے جن کو اللہ تعالیٰ نے اپنے دین کا بھرپور شعور اور فہم عطا کیا، اور وہ نہ صرف جماعت اسلامی کے رکن بنے بلکہ اپنی قائدانہ صلاحیتوں کی بنیاد پر ایک طویل عرصہ میلسی ضلع وہاڑی کے امیر رہے، اور جب وہاڑی الگ ضلع بنا تو اس کے پہلے ضلعی امیر منتخب کیے گئے۔ خان صاحب بے باک اور صاف گو سیاست دان کی حیثیت سے ضلع وہاڑی کی شناخت رہے۔ بڑے بڑے آبائی اور وراثتی سیاست دان بھی خان صاحب کی فعالیت اور مقبولیت سے خائف تھے۔
جمشید علی خان مرحوم کی ہمشیرہ کی شادی عزیزان میں غضنفر علی خان مرحوم سے ہوئی جوکہ علم و ادب کے میدان کے شاہ سوار تھے، معروف و مقبول شاعر تھے اور صاحبِ دیوان بھی تھے۔ غضنفر علی شاہ طویل عمر نہ پاسکے۔ اللہ تعالیٰ نے مرحوم کو پانچ بیٹے اور ایک بیٹی عطا کی۔ مرحوم کے ایک بھائی مظفر علی خان جوکہ اب خاصے معمر ہیں، جماعت کے دیرینہ رکن ہیں۔ مرحوم کی اہلیہ اور تین بیٹے بھی جماعت اسلامی کے رکن بنے۔ سب سے بڑے بیٹے شیرافگن جماعت اسلامی ملتان کے رکن ہیں، شعر وادب سے والد مرحوم کی طرح تعلق ہے اور جوہرؔ تخلص کرتے ہیں۔
ہومیو ڈاکٹر اورنگزیب شہزاد مرحوم، غضنفر علی خان کے دوسرے نمبر کے بیٹے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے اورنگزیب شہزاد کو بڑا زرخیز ذہن عطا کیا تھا۔ بچپن سے ہی پڑھنے لکھنے اور اجتماعی جدوجہد میں شریک ہونے کا جذبہ موجود تھا۔ کالج کی تعلیم کے دوران اسلامی جمعیت طلبہ کے رکن بنے اور اپنی صلاحیتوں اور فعالیت کی بنیاد پر ملتان شہر کی جمعیت کے ناطم بن گئے اور بڑے جرأت مند اور دبنگ ناظم قرار پائے۔ آپ کی نظامت بھٹو کے فسطائی دور کی تھی، اس لیے جمعیت کے لیے آئے دن کوئی نہ کوئی ہنگامی صورت رہتی، لیکن ڈاکٹر صاحب کارکنان کے ساتھ میدانِ عمل میں موجود رہتے اور کسی مداہنت کی نوبت نہ آنے دیتے۔
تعلیم سے فارغ ہوکر ڈاکٹر صاحب جماعت کے رکن بن گئے۔ جمعیت کے دور کی جدوجہد اور فعالیت ذمہ دارانِ جماعت کے سامنے تھی، اس لیے حلقہ ملتان کی جماعت کے قیم بنادیئے گئے۔ حلقے کا نظم ختم ہونے پر بہت عرصہ ضلع اور ملتان شہر کی جماعت کے قیم رہے۔ زونل، پی پی اور علاقائی نظم بننے پر اپنے رہائشی نظم کے امیر کے طور پر طویل عرصہ خدمات انجام دیں۔
عین جوانی میں ڈاکٹر صاحب کو گردن توڑ بخار (Meningitis) ہوگیا۔ مخدوش حالت میں نشتر اسپتال میں داخل رہے۔ زندگی باقی تھی، صحت یاب ہوگئے اور اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت سے جسم کے کسی حصے کو مفلوج ہونے سے بچالیا، البتہ دونوں ٹانگوں میں کمزوری کی وجہ سے لڑکھڑاہٹ تھی۔ صحت یاب ہونے پر ماموں جمشید علی خان کی صاحب زادی سے شادی ہوگئی، اللہ تعالیٰ نے دو بیٹوں سے نوازا۔ دوسرے بیٹے کی پیدائش کے بعد اہلیہ کو کینسر ہوگیا اور وہ جلد ہی وفات پاگئیں۔ کچھ عرصے بعد بڑا بیٹا بھی فوت ہوگیا۔ ڈاکٹر صاحب نے نکاح ثانی کیا، اللہ تعالیٰ نے پھر ایک بیٹا عطا کیا جو اب ماشا اللہ گیارہ بارہ سال کا ہے اور تعلیم حاصل کررہا ہے۔
دس بارہ سال سے ایک سال میں کئی بار شدید بخار کا حملہ ہوتا رہا جس کی وجہ سے نچلا دھڑ بے جان ہوتا رہا، اور کئی سال سے تو اٹھنے اور کھڑے ہونے سے صد فی صد معذور ہوگئے۔ بچوں کی طرح گود میں اٹھا کر ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کیا جاتا۔
اس ساری کیفیت کے باوجود ڈاکٹر صاحب نے ذہنی طور پر اپنے آپ کو معذور نہ سمجھا اور جان بوجھ کر جماعت، خاندان اور احباب کی ذمہ داریاں اپنے ذمہ لیں۔ جماعت کے ذمہ داران، احباب اور خاندان والے سمجھاتے کہ آپ اپنی بساط اور طاقت سے زیادہ ذمہ داری نہ لیں، لیکن وہ مانتے بہت کم تھے۔ راقم کے ساتھ خاندانی رابطہ واسطہ تھا اور میری عمر بھی ان سے بہت زیادہ تھی اس لیے میں سخت لہجے میں روکتا اور نہ ماننے پر کہتا تھا کہ آپ کا قصور نہیں، یہ پٹھان کی معروف ضد ہے۔ گھر کے بڑوں کو بھی سہارا مل گیا کہ جب مرحوم گھر والوںکی نہیں مانتے تو معاملہ میرے ذمہ ڈالتے۔
کئی سال سے جماعت کی اور خدمات کے علاوہ عیدالاضحی پر اجتماعی قربانی کا اہتمام کرتے اور اس کے صد فی صد تقاضے اور ضروریات پوری کرنے کے لیے خود میدان عمل میں رہتے۔ نتیجہ یہ ہوتا کہ عیدالاضحی کے بعد کئی ماہ بخار میں مبتلا رہتے۔ مسلسل بستر پر رہنے کی وجہ سے بستری زخم (bed sore) ہوجاتے جن کو مندمل کرنے کے لیے ایلوپیتھک کے بجائے اپنے علاج کو ترجیح دیتے اور مرض بڑھتا رہتا ہر علاج کے بعد۔
امسال بھی ایسا ہی ہوا۔ عیدالاضحی سے مسلسل امراض کا شکار رہے اور آخر کار دو ڈھائی ماہ کی شدید علالت کے بعد اپنے رب کے حضور حاضر ہوگئے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ بہت بڑا جنازہ ہوا۔ سب ڈاکٹر صاحب کے عزم، حوصلے اور جدوجہد کو خراجِ تحسین پیش کررہے تھے۔ اگلے دن سیلاب زدہ علاقوں کے دورے سے واپسی پر امیر جماعت جناب سراج الحق تعزیت کے لیے مرحوم کی رہائش گاہ پر آئے، دعائے مغفرت کے علاوہ مرحوم کی خدمات کو خراجِ تحسین پیش کیا اور مرحوم کو اللہ کے ولی اور جسمانی معذور مجاہدِ اسلام کے خطاب سے نوازا۔