اس گھمبیر صورتحال نے جہاں لاکھوں طلبہ کو ایک عجیب ذہنی کو فت میں مبتلا کر رکھا ہے تو دوسری جانب لاکھوں والدین اورمتعلقہ ادارے بھی اس حوالے سے تذبذب کے شکار ہیں
پاکستان میڈیکل کمیشن کو ریگولیٹ کرنے والے وفاقی ادارے پاکستان میڈیکل کمیشن کی تحلیل اور اس کی راکھ پر پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل کی دوبارہ تعمیر ایسے وقت میں ایک ایسی حکومت کے دور میں ہوئی ہے جو نہ صرف انتہائی محدود مینڈیٹ کی حامل ہے بلکہ جس کا وجود صرف اسلام آباد اور کسی حد تک سندھ تک محدود ہے۔ پاکستان میڈیکل کمیشن کی جانب سے تقریبا ًدو سال تک طبی تعلیم کے انتہائی اہم اور حساس شعبے کو تختہ مشق بنائے جانے کے بعد شہباز شریف کی قیادت میں برسر اقتدار آنے کے والی مخلوط حکومت نے پارلیمنٹ سے قانون سازی کے ذریعے نیب کے پرکترنے نیز حکومت میں شامل بعض نمایاں شخصیات کی کرپشن اور بدعنوانیوں کی انکوئریاں رکوانے کے بعد اب تک جو دوسرا بڑا فیصلہ کیا ہے وہ پی ایم سی کے خاتمے کے بعد پی ایم ڈی سی ادارے کی دوبارہ بحالی ہے۔ موجودہ وفاقی وزیر صحت عبدلقادر پٹیل جو پاکستان پیپلز پارٹی کے کوٹے سے وفاقی وزیر بنے ہیں اور جن کا تعلق صوبہ سندھ سے ہے نے پچھلے چند ماہ کے دوران پی ایم سی کے خاتمے اور اس کی جگہ پر پی ایم ڈی سی کی بحالی کا جو فیصلہ کیا ہے اس کے پیچھے پی ایم سی کے گذشتہ دو سالوں کے دوران کئے جانے والے یکطرفہ اور چھوٹے صوبوں کے مفادات کو پس پشت ڈالنے والے متنازع فیصلے رہے ہیں جن میں سرفہرست فیصلہ ماضی اور خاص کر اٹھارویں ترمیم کی روح کی صریح خلاف ورزی کرتے ہوئے چاروں صوبوں کے طلبہ سے ایم بی بی ایس کے پبلک اور پرائیوٹ سیکٹر کالجوںمیں مرکزی داخلوں کا مشکل اور پیچیدہ عمل بشمول مرکزی ٹیسٹ متعارف کرانا تھا۔
یاد رہے کہ پی ایم سی کے اس فیصلے پر صوبہ سندھ، خیبر پختون خوا ، بلوچستان اور حتیٰ کہ پنجاب سے بھی احتجاج سامنے آیا تھا لیکن پی ایم سی نے اس احتجاج کو سنی ان سنی کرتے ہوئے نہ صرف سارے ملک کے طلبہ سے یکساں نصاب پر مشتمل ایک مرکزی ٹیسٹ لیا تھا بلکہ ایم بی بی ایس میں داخلوں کے لئے 65 فیصد اور بی ڈی ایس میں داخلوں کے لئے 55 فیصد کی شرط بھی عائد کی گئی تھی جبکہ اب موجودہ حکومت نے اس شرح کو بالترتیب 55 فیصد اور 45 فیصد کر دیا ہے جس کو ایک بار پھر بعض حلقوں کی جانب سے میرٹ کی گراوٹ کا نقطہ آغاز قرار دے کر ہدف تنقید بنایا جا رہاہے۔ اسی طرح پی ایم ڈی سی کے وجود میں آنے کے باوجود پی ایم سی چونکہ اس سال کے ایم ڈی کیٹ ٹیسٹ کے لئے دو لاکھ سے زائد طلباء و طالبات سے فی کس چھ ہزار روپے کے عوض انکی رجسٹریشن کر چکا ہے اس لئے ابھی یہ طے ہونا باقی ہے کہ نیا سیٹ اپ بننے کے بعد ایم ڈی کیٹ ٹیسٹ گذشتہ سال کی طریقہ کار کے مطابق ملک گیر سطح پر کمپیوٹربیسڈ ہوگایا پھر ماضی کی پریکٹس جب پی ایم ڈی سی بحال تھا اس کے طریقہ کار کے مطابق صوبائی سطح پر ہر صوبہ از خود ٹیسٹ لے گا اس گھمبیر صورتحال نے جہاں لاکھوں طلبہ کو ایک عجیب ذہنی کو فت میں مبتلا کر رکھا ہے تو دوسری جانب لاکھوں والدین اورمتعلقہ ادارے بھی اس حوالے سے تذبذب کے شکار ہیں۔ اسی طرح موجودہ حکومت کی جانب سے داخلوں کے لئے میرٹ میںکمی کے حوالے سے حکومتی حلقے تو اسکے متعلق یہ جواز تراش کر لوگوں کو مطمئن کرنے کی ناکام کوشش کر رہے ہیں کہ گذشتہ سال کے اس سخت فیصلے سے پرائیویٹ سیکٹر کے اکثر میڈیکل اور ڈینٹل کالجز کی نشستیں خالی رہ گئیں تھیں جس سے نہ صرف ان کالجز کو مالی خسارے کا سامناکرنا پڑاتھا بلکہ اس سے ملک کا کثیر زرمبادلہ بھی بڑی تعداد میں ہمارے بچوں کی وسطی ایشیائی اور چین کے میڈیکل کالجز میں داخلوں کی صورت میں باہر منتقل ہوا تھا جبکہ اسکے برعکس بعض حلقے اس فیصلے کو وفاقی وزارت صحت اور پرائیویٹ کالجز کی ملی بھگت کا نتیجہ بھی قرار دے رہے ہیں ۔
یہاں یہ بتانا بھی خالی از دلچسپی نہیں ہوگا کہ ماضی میں خیبر پختون خوا کی حد تک میڈیکل اور ڈینٹل کالجز میں داخلوں کا ٹیسٹ ایٹا کے صوبائی ادارے اورخیبر میڈیکل یونیورسٹی جو صوبے کی واحد پبلک سیکٹر میڈیکل یونیورسٹی ہے کے اشتراک عمل سے منعقد ہوتا تھا جبکہ اس ٹیسٹ کے بعد میڈیکل اور ڈینٹل کالجز میں کم میرٹ کی بنیاد پر داخلوں سے محروم رہ جانے والے طلباء اسی ٹیسٹ کی بنیاد پر نرسنگ، فیزیو تھراپی، فارمیسی اور الایئڈ ہیلتھ سائنسز کے مختلف شعبوں میں داخلوں کے لئے اہل قرار پاتے تھے لیکن گذشتہ دو سال سے جب میڈیکل اور ڈینٹل کالجز میں داخلوں کا ٹیسٹ مرکزی سطح پر پی ایم سی کے زیر اہتمام منعقد ہونا شروع ہوا ہے تب سے خیبر میڈیکل یونیورسٹی متذکرہ بالا شعبوں میں داخلوں کے لئے تو علیحدہ سے ٹیسٹ کا انعقاد کرتی رہی ہے اور اب اس سال بھی کے ایم یو یہ ٹیسٹ گذشتہ اتوار کو صوبے کے تیرہ مراکز میں منعقد کرچکی ہے۔یہ ٹیسٹ خیبر میڈیکل یونیورسٹی(کے ایم یو)پشاور کے زیر اہتمام فارم ڈی، ڈی پی ٹی، بی ایس نرسنگ اور الائیڈ ہیلتھ سائنسز کے مختلف شعبوں میں داخلوں کے لیے صوبے کے 13 مراکز میں منعقد ہوا۔ مذکورہ ٹیسٹ میں کل 25296 امیدواروں نے حصہ لیا جن میں 18342 مرد اور 6954 طالبات شامل تھیں۔ تفصیلات کے مطابق مذکورہ ٹیسٹ میں پشاور کے تین مراکز جن میں اسلامیہ کالجیٹ سکول، فارسٹ کالج اور گورنمنٹ ہائر سیکنڈری سکول نمبر 1 پشاور سٹی شام شامل تھے میں 10544 طلباء نے شرکت کی، ایبٹ آباد میں 1530، مالاکنڈ چکدرہ میں 787، سوات کبل گراؤنڈ میں 4434، مردان میں 2241 طلباء، کوہاٹ میں 1030، ڈیرہ اسماعیل خان میں 679، پاڑاچنار کرم 316، تیمرگرہ دیر لوئر 1842، بنوں 962 اور صوابی میں 931 امیدوار ان نے شرکت کی۔
دریں اثناء کے ایم یو کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر ضیاء الحق نے کہا ہے کہ الائیڈ ہیلتھ سائنسز پروگرامز میں داخلوں کے لیے کے ایم یو کیٹ کا انعقاد ہم سب کے لیے ایک بڑا چیلنج تھا۔ ہم تمام متعلقہ اداروں اور حکام کے پرامن اور شفاف طریقے سے ٹیسٹ کے انعقاد میں تعاون پر ان کے شکر گزار ہیں۔انہوں نے کہا کہ اس ٹیسٹ میں 25 ہزار سے زائد امیدواروں کی شرکت نہ صرف کے ایم یو پر اعتماد کا مظہر ہے بلکہ اس سے الائیڈ ہیلتھ سائنسز کے میرٹ اور معیار میں مزید بہتری کی بھی امید ہے۔ انہوں نے کہا کہ صحت کے نظام میں الائیڈ ہیلتھ سائنسز کے مختلف شعبہ جات بنیادی اہمیت کے حامل ہیں۔پروفیسر ضیاء نے ریمارکس دیئے کہ الائیڈ ہیلتھ سائنسز میں داخلوں
کے لیے مرکزی داخلہ ٹیسٹ کا انعقاد ایک طرف تو ہونہار طلبہ کو ان شعبوں میں آگے آنے کا موقع فراہم کرے گا اور دوسری طرف صوبے میں اس سے ہیلتھ کیئر سسٹم کا مجموعی معیار بھی بہتر ہوگا۔
یہاں ایک اہم سوال یہ ہے کہ ایم بی بی ایس اور بی ڈی ایس کے علاوہ دیگر انڈر گریجویٹ پروگرامات میں داخلوں کے لئے تو کے ایم یو ایٹا ٹیسٹ منعقد کر چکی ہے لیکن آیا وہ طلبہ جنہوں نے میڈیکل اور ڈینٹل کالجز میں داخلوں کے لئے پی ایم سی کے ساتھ رجسٹریشن کر رکھی ہے ان کے مستقبل کا کیا ہوگا آیا یہ طلبہ اب پی ایم ڈی سی کے تحت منعقدہ ٹیسٹ میں شامل ہوںگے یا پھر ان کو ایک بار پھر صوبوں کے رحم و کرم پر چھوڑا جائے گا۔ اسی طرح یہاں یہ سوال بھی اہمیت کا حامل ہے کہ آیا پہلے سے رجسٹرڈ طلباء کے فیسوں کیا کیا بنے گا اور آیا ان طلباء کو ایک بار پھر رجسٹریشن کے لمبے چوڑے اور روح فرسا عمل سے گزرنا ہوگا یا پھر ان کی پی ایم سی کے ساتھ رجسٹریشن ہی کو متعلقہ صوبوں کو ٹراسفر کیا جائے گا یہ وہ سوالات ہیں جو گذشتہ کئی ہفتوں سے لاکھوں طلبہ اور ان کے والدین کے ذہنوں میں گردش کر رہے ہیں اور کسی بھی جانب سے انہیں نہ تو کوئی تشفی جواب مل رہا ہے اور نہ ہی کسی بھی سطح پر ان کی کوئی دلجوئی ہورہی ہے جو یقینا ایک بہت بڑا ظلم اور زیا دتی ہے۔