سرکار کی ناک کے نیچے منشیات فروشی کا دھندا

کوئٹہ گندگی کے ڈھیر میں تبدیل ہوگیا ہے

جمعہ7ستمبر کو علی الصبح کوئٹہ پولیس اور محکمہ انسداد دہشت گردی نے عین شہر میں واقع سٹی نالہ میں کئی دنوں کی ریکی اور مشق کے بعد کارروائی کی۔ پولیس فورسز کے نالے میں اترتے ہی نالہ اپنا مستقل مستقر بنانے والے منشیات فروخت کرنے والے گروہ نے ان پر گولیاں چلانا شروع کردیں۔ یوں پولیس فورس نے جواباً فائر کھول دیا۔ تا دیر کی مڈبھیڑ کے بعد نالہ کنٹرول میں لے لیا گیا۔ پولیس مقابلے میں منشیات کا دھندہ کرنے والے آٹھ افراد مارے گئے۔ دو زخمی ہوئے اور ان سمیت سات گرفتار کرلئے گئے۔ نعشیں سول ہسپتال منتقل کردی گئیں، جہاں ایک کی شناخت ان کے سرغنہ آصف عرف صفو کے نام سے ہوئی ۔ ڈی آئی جی کوئٹہ غلام اظفر مہیسر نے بتایا کہ آصف پولیس کو منشیات فروشی کے ساتھ قتل ،اقدام قتل، پولیس پر فائرنگ سمیت کم از کم نو مقدمات میں کئی سالوں سے مطلوب تھا۔ مارے جانے والے باقی افراد بھی چوری ، ڈکیتی اور منشیات فروشی کے متعدد مقدمات میں مطلوب تھے۔ اہم بات ڈی آئی جی سی ٹی ڈی اعتزازاحمد گورائیہ نے یہ بتائی ہے کہ نالہ کے اندر منشیات فروشی کا دھندہ ’’ٹیرر فنانسنگ‘‘ کے لیے بھی ہورہا ہے۔ ذکر کالعدم بی ایل اے ، داعش اور تحریک طالبان پاکستان کا کیا گیا ۔لیکن اس کی جامع اور مربوط تفصیلات نہ تبائی گئی ہے کہ سٹی نالہ کے اندر منشیات کا کاروبار سے کالعدم گروہ کس طرح و نوعیت کا تعلق تھا۔ مارے جانے والے افراد میں کس کا کس گروہ سے تعلق تھا۔ غالباً یہ اطلاع پہلی بار آئی ہے کہ کالعدم گروہ سٹی نالہ کے اندر منشیات فروشی سے مالی ضروریات پوری کرتے ہیں۔ تاوان کی غرض سے اغوا ، بعض اوقات ڈکیتیوں کی رپورٹس موجود ہیں ۔ مصدقہ طور پر کالعدم بی ایل اے کوئلہ کانوں سے جبری ٹیکس لیتی ہے۔ جہاں سے یہ تنظیم ماہانہ خطیر رقم اکٹھی کر تی ہے۔ اور یہ کوئی ڈھکی چھکی بات نہیں ہے۔ چناں چہ سٹی نالہ آپریشن کا یہ تناظر وضاحت طلب معاملہ ہے ۔ اگر فی الواقع ایسا ہے تو یہ تشویشناک ہے۔ شہر کوئٹہ کا یہ نالہ حبیب نالہ کے نام سے موصوم ہے۔ انگریز دور میں کوئٹہ شہر کی تعمیر و تشکیل کے بعد بارانی و سیلابی پانی کی نکاسی کی غرض سے یہ اور ایسے دوسرے نالے تعمیر کئے گئے ہیں۔ جس میں خشت( اینٹ ) کاری کی گئی ہے ۔اب تو شہر کا یہ نالہ کچرہ سے لبالب ہے ۔جس کی باقاعدہ اور متواتر صفائی میٹرو پولیٹن کارپوریشن فراموش کرچکی ہے۔ چناں چہ نالہ کے کئی سو میٹر حصہ پچھلے چند دہائیوں سے منشیات کے عادی افراد اور منشیات فروشوں کا ٹھکانہ اور کمین گاہ بن چکا ہے۔ یقینا مختلف اوقات میں پولیس کارروائی بھی کرچکی ہے، جو عارضی اور محض نمود کا تاثر دیتی رہی ہے ۔جبکہ در حقیقت نالہ حکومت، پولیس اور ضلع کی انتظامیہ کی عملداری ( رٹ) سے باہر رہا ہے۔ کالعدم تنظیموں کی زبانی کلامی رپورٹ تودی جا چکی ہے، لیکن تلخ حقیقت یہ ہے کہ نالہ میں منشیات کے سیاہ و قبیح دھندہ میں پولیس، انٹی نار کوٹیکس فورس ، ایکسائز وغیرہ کی کالی بھیڑیںکسی نہ کسی طور و طرح ملوث ہیں۔ شراکت داری کے بغیر ممکن ہی نہیں کہ وسط شہر حساس علاقے میں جہاں متصل ریڈیو پاکستان کا دفتر ہے،چند میٹر کے فاصلے پر ایرانی قونصل خانہ اور بلوچستان ہائی کورٹ، بلوچستان اسمبلی اور کچھ ہی دوری پر گورنر ، وزیراعلیٰ ہائوس ،آئی جی کا دفتر اور گھر واقع ہے میں دن رات دھڑلے سے منشیات کے عادی افراد کا تانتا بندھا رہے۔ ایک سروے کے مطابق دس ہزار افراد جن میں پانچ سو خواتین بھی شامل ہیں نالے میں آتے جاتے ہیں ۔ایک بڑی تعداد ہمہ وقت نالہ میں رہتی ہے۔ باقی کوئی شہری بشمول میڈیا کے لوگوں کی جرأت و ہمت نہیں کہ نالے میں اترنے کی کوشش کریں۔ نالے کے آس پاس شہری لوٹے بھی جاتے ہیں۔ جناح روڈ پر نالہ میں اترنے کاراستہ بند کرنے کی خاطر پل کے دونوں اطراف دیوار تعمیر کی گئی ہے کہ مغربی سمت دیوار میں منشیات فروشوں کی سہولت کے لیے دیوار کی تعمیر کے وقت کھڑکی مانند جگہ چھوڑی دی گئی ۔جس پر صبح شام منشیات کے عادی افراد کی لائن لگی ہوتی ۔ دوسری جانب انہیں منشیات فروخت کی جاتی۔ گویا دن رات چلنے والا یہ دھندہ سرکار کی ناک کے نیچے ہوتا رہا ہے۔ مذکورہ آپریشن کے بعد نالہ کی بندش ماضی کی مشق کو دیکھتے ہوئے عارضی لگتا ہے۔ نوجوان منشیات کی لت میں مبتلا ہوتے جارہے ہیں۔ ہیروئن کا نشہ کرنے والے افراد مختلف موذی امراض میں مبتلا ہیں۔ ان میں ایک بڑی تعداد کالا یرقان، ایچ آئی وی میں مبتلا ہیں۔ ان افراد نے شادیاں کر رکھی ہیں۔ بچوں کے باپ ہیں۔ ازدواجی تعلق سے وہ خواتین اور بچے بھی ان موذی امراض کا شکار بن جاتے ہیں ۔اس طرح یہ بیماریاں تیزی سے معاشرے کے اندر پھیل رہی ہیں ۔یہ پہلو بھی لمحہ فکریہ ہے جس کے تدارک کے لیے راست قدم اٹھانے ہوں گے۔ سوال حکومت، انتظامیہ ، پولیس اور دوسرے محکموں اور اداروں کے کردار اور ساکھ پر اٹھتا ہے کہ جو دہائیوں سے نالے میں رٹ قائم کرنے میں ناکام ہیں۔سو ایسی حکومتیں اور ادارے دوسرے سنگین معاملات سے جو ریاست کیلئے چیلنج اور مشکل بنے ہیں خاک نبرد آزما ہوں گے ۔ میٹرو پولیٹن کارپوریشن کی غفلت اور بد عنوانی نے شہر برباد کرکے رکھ دیا ہے۔ حکومت والے دیواروں پر پیٹنگ کراکر دراصل اپنے گناہ چھپانے کی ناکام کوشش کررہے ہیں۔شہر گندگی کے ڈھیر میں بدل چکا ہے ۔ کوئٹہ پر تیزی سے آبادی کا دبائو بڑھ رہا ہے ۔ بے مہار آبادی گوناں گوں مسائل اور مشکلات کی وجہ بن رہی ہے ۔ زیر زمین پانی کی کمی کا سامنا ہے۔وجہ آبادی کا غیر فطری اژدھام اور غیر قانونی ٹیب ویلوں کی تنصیب ہے ۔ ظاہر ہے ایسا سرکار کے محکموں کی اجازت سے ہورہا ہے۔ بجلی و گیس کی کمیابی و بحران کی وجوہات یہ بھی ہیں۔ سرکار اور ریاست کی زمینیں قبضہ ہوئی ہیں یا ہورہی ہیں۔ حالیہ سیلابوں میں نقصانات بارانی ندی نالوں پر قبضہ اور تجاوزات ایک وجہ بنی ہیں ۔ گویا جو حکومت ایک نالہ پر تصرف نہ پاسکے وہ صوبے کی دارالخلافہ کو بربادی سے کیسے بچا سکے گی۔ خود صوبے کی سرکار پر عوام کی رتی بھر اعتبار نہیں جو اپنے حق حلال کی کمائی سیلاب زدگان کی بحالی و مدد کی خاطر سرکار کے فنڈ میں جمع کرنے کو تیار نہیں۔ چند لاکھ اکٹھے ہونے کا بتایا ہے نہ جانے کن معصوم لوگوں نے ان کے قائم ریلیف اکائونٹ میں جمع کئے ہیں۔ اس کے برعکس شاید سیلاب فنڈ سے زیادہ کی رقم کے اخبارات کو اشتہارات جاری ہوچکے ہیں۔ چناںچہ یہ معاملہ بھی سمجھنے والا ہے !۔موجودہ حکومت کو قائم ہوئے بڑا عرصہ ہو چکا ہے جو اب تک کوئٹہ پراجیکٹ کا ایک بھی منصوبے کی تکمیل نہ کرسکی ہے۔ سریاب روڈ توسیع منصوبہ جام کے ہٹائے جانے کے ساتھ ہی رک چکا ہے ۔ رئیسانی روڈ ، لنک مغربی بائی پاس ، لنک بادینی روڈ ،سرکی روڈ اور سبزل روڈ پر بھی کام رکا ہوا ہے ۔ اگر کچھ کام ہوا ہے تو اس میں معیار نظر اندا زہے۔اب اس کے لیے شاید بارشوں اور سیلاب کی تباہیوں کا عذر پیش کریں ۔ ان میں سے کئی منصوبوں پر کام کئی سال پہلے شروع کیا گیا تھا ۔ کام رکنے کی وجہ سے ٹریفک جام ، مٹی ، دھول اور بارش اور نالوں کا گندا پانی جمع ہونے سے شہری تکلیف میں مبتلا ہیں۔بہر کیف کوئٹہ پولیس نے سٹی نالے بارے بہترین پیشرفت کی ہے اس پر ہمہ وقت اعلیٰ سطح پر نگاہ اور توجہ مرکوز رکھی جائے گی تو دوبارہ سے نالہ منشیات کے عادی افراد اور فروخت کرنے والوں کی آماجگاہ نہ بن سکے گا۔ بتایا گیا کہ نالے میں پولیس چوکیاں قائم کی جائیں گی ۔چناں چہ ایک منظم میکنزم کے تحت اگر نگرانی کی جائے تو کامیابی ملے گی۔ وگرنہ چوکیوں پر مامور اہلکار آلہ کار اور شریک ِ جرم ٹھہرنے کا مشاہدہ عام ہے۔