ـ5 اگست کے متنازع فیصلوں کی عوامی تائید کے لیے کشمیری اور مسلمان چہرے کی تلاش
پانچ اگست 2019کوکشمیر کی منفرد اور متنازع حیثیت کی ساری بساط اُلٹ ڈالنے کے بعد نئی سیاست کی شروعات کے لئے بھارت کی اسٹیبلشمنٹ کو کشمیر میں ایک ایسے مسلمان اور کشمیری چہرے کی تلاش تھی جو نئے سفر میں بھارتی منصوبوں اور ا یجنڈے کو ایسا اعتبار عطا کرتا جسے بین الاقوامی سطح پر بھی اور کشمیریوں کے اندر بھی پزیرائی حاصل ہو۔یہ ضرورت وادی ٔ کشمیر کے روایتی سیاست دان شاید ہی پوری کر سکتے تھے کیونکہ پانچ اگست کا فیصلہ کرتے ہوئے نریندر مودی اور امیت شاہ نے اسے کشمیر کے روایتی سیاسی خاندانوں کے خلاف بغاوت قرار دیا تھا ۔یہ کہتے ہوئے نریند ر مودی کا اشارہ برسوں سے کشمیر کے سیاسی منظر پر چھائے چلے آنے والے ڈاکٹر فاروق عبداللہ اور محبوبہ مفتی کے خاندانوں کی طرف تھا ۔اس لئے کشمیر کے ان سیاست دانوں کو فوری طور پرنئے سفر میں فرنٹ سیٹ پر بٹھانا بھارت کے لئے ممکن نہیں رہا ۔جموں وکشمیر ایک ایسا خطہ ہے جسے بھارت کی ریاست سیکورٹی کے زاویے سے دیکھتی ہے اس لئے جموں وکشمیر کے سیاسی فیصلوں میں فوج اور اسٹیبلشمنٹ کا پوری مشاورت اور حصہ ہوتا ہے ۔طویل مدت سے بھارت کو کشمیر میں روایتی اور پرانے سیاست دانوں کی جگہ ایک ایسے نئے مسلمان چہرے کی ضرورت تھی جو بھارت سے ناراض اور نالاں کشمیری نوجوانوں کے جذبات کا رخ بھارت حمایت میں نہ سہی مگراس کی موافقت کی جانب موڑ سکے ۔اس کے لئے انڈین سول سروس میں بھارت بھر میں پہلی پوزیشن حاصل کرنے والے نوجوان شاہ فیصل اور جواہر لعل نہرو کی طلبہ تحریک سے عالمگیر شہرت حاصل کرنے والی طالبہ شہلا رشید کو ایک سیاسی جماعت بنا کر سامنے لایا گیا ۔یہ سوال اُٹھایا گیا کہ کشمیری نوجوانوں کا رول ماڈل کون ہونا چاہئے کشمیر کا پوسٹر بوائے برہان وانی یا انڈین سول سروس میں پہلی پوزیشن حاصل کرنے والا شاہ فیصل ؟مگر کشمیر ی نوجوانوں نے اس بحث کو پزیرائی نہیں بخشی اور یوں انہوںنے اپنا وزن برہانی وانی کے ہی پلڑے میں ڈالا ۔پانچ اگست کے فیصلے میں یہ نوخیز چہروں پر مشتمل جماعت بھی کہیں گم ہو گئی اور کچھ عرصہ بعد شاہ فیصل نے دوبار ہ اپنی ملازمت جاری رکھنے کا اعلان کیا ۔ پانچ اگست کے بعد دہلی کی صاف ترجیح طاقت کا توازن مسلم اکثریتی او ربھارت سے بیزار وادیٔ کشمیر سے ہندواکثریتی علاقے جموں کی طرف منتقل کرنا تھا جہاں بھارتیہ جنتا پارٹی اپنی نظریاتی چھاپ گہری کر چکی ہے ۔اس مرحلے پر شاید ایک ہندو چہرے کو لانا آسان نہیں تھا اسی لئے ایک مسلمان چہرے کی تلاش جاری تھی کہ مقبوضہ جموںوکشمیر میں ہند واکثریتی صوبہ جموںکشتواڑ سے تعلق رکھنے والے غلام نبی آزاد نے کشمیر میں ایک نئے طمطراق کے ساتھ قدم رکھا ہے ۔ اپنی پوری سیاسی زندگی بھارت کے مختلف شہروں میں گزارنے والے غلام نبی آزاد کانگریس کے ساتھ اپنی راہیں جد ا کرکے واپس جموں وکشمیر آئے ہیں اور انہوںنے اپنی آمد پر جموں میںایک بڑے جلسہ ٔ عام سے بھی خطاب کیا ۔غلام نبی آزاد اندراگاندھی اور راجیو گاندھی کے بہت قریب سمجھے جاتے رہے ہیں ۔ان کی شادی وادی کشمیر کی ستر اور اسی کی دہائی کی مشہور کشمیری گلوکار شمیم دیو سے ہو ئی ہے جو اب شمیم آزاد کہلاتی ہیں۔ جموں سے تعلق رکھنے والا کشمیری اسپیکنگ ہونا ان کی ایک اضافی خوبی ہے ۔اس طرح وادی سے ان کا تعلق مسلمان اور زبان کے ساتھ ساتھ سسرالی بھی ہے ۔غلام نبی آزاد کانگریس اور پیپلزڈیموکریٹک پارٹی کی مخلوط حکومت میںڈھائی سال تک مقبوضہ جموں وکشمیر کے وزیر اعلیٰ بھی رہ چکے ہیں ۔پانچ اگست 2019ء کو وہ بھارتی لوک سبھا کے رکن تھے او رانہوںنے لوک سبھا کے اجلاس میں ایک طویل لیکن نپا تُلا خطاب کیا تھا ۔انہوںنے اشاروں کنایوں میں اس فیصلے کی مخالفت بھی کی تھی۔ لوک سبھا کے اجلاس میں ہی انہوںنے مودی کی موجودگی میںبھارتی سیاست سے ریٹائر ہونے کا اعلان کیا تھا اور نریندر مودی نے انہیں خراج تحسین پیش کیا تھا اور اس وقت مودی کی آنکھوں میں آنسو بھی تھے۔اب جبکہ غلام نبی آزاد کو مختار عباس نقوی کی طرح بھارتیہ جنتا پارٹی کا کشمیر ی اور مسلمان چہرہ قرار دیا جانے لگا تو غلام نبی آزاد کو وضاحت کرنا پڑی کہ مودی نے ان کی محبت میں آنسو نہیں بہائے تھے بلکہ ان کے آنسوئوں کی وجہ کشمیر میں ایک حملے میں مارے جانے والے ہندو سیاح تھے ۔غلام نبی آزاد نے ان الزامات کی تردید کی کہ نریندر مودی ان پر مہربان ہیں اور وہ بھارتیہ جنتا پارٹی کے ایجنڈے کو آگے بڑھانے کے لئے کشمیری سیاست میں آئے ہیں۔ غلام نبی آزاد نریندر مودی کا انتخاب ہیں یا نہیں مگر وہ دہلی کے پالیسی ساز حلقوں کا انتخاب ضرور ہیں ۔وہ جموں سے تعلق رکھنے والے قدآور مسلمان راہنما ہیں ۔غلام نبی آزاد کے ذریعے ریاست کی طاقت کا مرکز مسلم اکثریتی وادی سے جموں منتقل کرنا ہے بعد میں اگلے کسی مرحلے میں یہ تبدیلی جموں کے مسلمان وزیر اعلیٰ سے ہند ووزیر اعلیٰ کی صورت میں سامنے آنا یقینی ہے کیونکہ یہی بھارت کا حتمی مقصد ہے۔یہ وہ کام ہے جو بھارت ماضی میں شیخ محمد عبداللہ کے ذریعے کر چکا ہے بھارت نے ریاست جموں وکشمیر میں اپنا ابتدائی مقصدکشمیر کے مقبول مسلمان چہرے شیخ عبداللہ کے پیچھے چھپ کر حاصل کیا ۔جونہی اہم مقاصد حاصل ہوئے شیخ عبداللہ کو برطرف کر کے گرفتار کیا گیا ۔اسی طرح پانچ اگست کے فیصلوں کو عوامی تائید یا قبولیت کے لئے بھارت کو کشمیری اور مسلمان چہرے کی صورت جس ’’شوبوائے ‘‘کی تلاش تھی یوں لگتا ہے وہ غلام نبی آزاد کی صورت میں مل گیا ہے۔اب بھارت کسی بھی وقت کشمیر میں انتخابات اور اس کے بعد علاقے کو یونین ٹیریٹری سے دوبارہ ریاست کی شکل بحال کر نے کی پوزیشن میں آگیا ہے۔