! پاکستان کے مسائل … چند بڑے سوالات

طاقت کے مراکز میں جاری اس خوفنا ک لڑائی میں ہم اس حد تکبے حس ہوگئے ہیں کہ لوگوں کے حقیقی مسائل ہمارے مسائل نہیں رہے

قومی سطح پر مسائل کا پیدا ہونا فطری امر ہوتا ہے لیکن اس کا حل تلاش کرنا ریاستی ، حکومتی او رمعاشرتی ذمہ داری کے زمرے میں آتا ہے ۔ کیونکہ مسائل سے حل کی طرف جانے والا راستہ ہی ہمارے لیے ترقی اور خوشحالی سمیت سیاسی ،سماجی او رمعاشی استحکام کی طرف بڑھتا ہے ۔ اس لیے مسائل سے نمٹنے کی حکمت عملی یا عمل درآمد کا نظام ہی ہمیں بہتری کی طرف لے کر جاسکتا ہے ۔ ہمارا ریاستی وحکومتی نظام بھی اسی دعوے کے ساتھ بنیاد پر کھڑا ہے کہ ہم مسائل کے حل میں کوشاں ہیں اور ان مسائل کو حل کرنا ہی ہماری قومی ترجیحات کا حصہ ہے ۔ اگر اس دعوے کو مان لیا جائے تو کیا وجہ ہے کہ ہم اپنے مسائل کے حل میں مسلسل ناکامی سے دوچار ہیں اور یہ ناکامی تواتر کے ساتھ ہماری مشکلات میں اضافہ کا سبب بن رہی ہیں۔
سوال یہ ہے کہ پاکستان جو عملی طو رپر ایک مسائل کا گڑھ بن گیا ہے ان مسائل سے ہم کیونکر نہیں نمٹ پارہے ۔ مسئلہ نظام کا ہے جو ہمیں مثبت نتائج دینے سے قاصر ہے یا طاقت ور یا فیصلہ کرنے والے افراد اور طبقات کا ہے جو نظام پر حاوی ہوکر مختلف استحصالی شکلوں کے ساتھ قوم پر بوجھ بنے ہوئے ہیں۔ بدقسمتی سے لوگوں کی اکثریت یہ سوچنے پر مجبور کردی گئی ہے کہ مسائل کا حل ہمارے حکمرانوں کے پاس نہیں ہے اور لوگوں کو خود ہی اپنا علاج تلاش کرنا ہوگا ۔ حالیہ سیلاب میں ہم نے بعض حکمران طبقہ کے افراد کو یہ کہتے سنا کہ سیلاب اللہ تعالی کا عذاب ہے او ریہ ہمارے اپنے گناہوں کی سزا ہے جس پر ہمیں اللہ تعالی سے معافی مانگنی چاہیے ۔یہ سوچ او رفکر حکمران یا طاقت ور طبقات کی ہمیشہ سے رہی ہے کہ لوگوں کو ان باتوں پر راضی کیا جاسکے کہ جو بھی آپ کی زندگی میں مشکلات آتی ہیں وہ حکمران طبقات کی وجہ سے نہیں بلکہ آپ کے اپنے اعمال کی وجہ سے ہوتی ہیں اور آپ ہی اس کے اصل ذمہ دار بھی ہوتے ہیں ۔
اس وقت ہم ایک ہی وقت میں جہاں سیاسی او رمعاشی بدحالی یا بحران کا شکار ہیں تو دوسری طرف ہمیں سیاست او رریاست کے درمیان بھی ایک ٹکراو یا اعتماد سازی کا بحران غالب نظر آتا ہے ۔ طاقت میں مراکز ایک دوسرے کے ساتھ مل کر چلنے کی بجائے عملا ایک دوسرے کے ساتھ طاقت کی لڑائی کے حصول میں الجھے ہوئے ہیں ۔کچھ لوگ حالیہ بحران کو سیاسی او رمعاشی تناظر میں دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں جبکہ یہ بحران ریاستی سطح کا ہے او راس کا علاج بھی کسی ایک فریق کے پاس موجود نہیں ۔لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ہم اس لڑائی میں اس قدر الجھ گئے ہیں یا آپس میں ٹکراو کے ماحول میں ہیں جہاں اتفاق رائے کی بنیاد پر آگے بڑھنا ممکن نہیں۔یہ بحران لوگوں کی زندگیوں میں آسانیاں پیدا کرنے کی بجائے ان میں مشکلات کو پیدا کرنے یا بڑھانے کا سبب بن رہا ہے۔ لوگوں کو لگتا ہے کہ موجودہ سطح کا نظام ہمارے مسائل کا حل نہیں او راس نظام نے ہمیں ہر سطح پر جکڑ لیا ہے ۔
موجودہ مسائل کی روشنی میں ہمیں ایک بڑے سیاسی ، سماجی ، معاشی اور ادارہ جاتی روڈ میپ کی ضرورت ہے جو لانگ ٹرم ، مڈٹرم و شارٹ ٹر م بنیادوں پر ہو۔ یہ روڈ میپ واضح کرتا ہو کہ ہماری اگلے دس بندرہ برسوں کی منصوبہ بندی کیا ہوگی او رکون سے فریقین کیا کیا کردار ادا کریں گے ۔یہ روڈ میپ اتفاق رائے کی بنیاد پر بننا چاہیے تاکہ اس میں ایک دوسرے کے خلاف محاذ آرائی کے امکانات کم ہوں ۔لیکن ہم ہیں کہ محاز آرائی ، ٹکراو، ایک دوسرے کو قبول نہ کرنا ، کردار کشی ، الزامات او رایک دوسرے کو سیاست سے بے دخل کرنے میں اس حد تک الجھ گئے ہیں کہ اصول ، نظریات ، سچائی اور ریاستی مفادات کو پس پشت ڈال دیا گیا ہے ۔طاقت کے مراکز میںجاری اس خوفنا ک لڑائی میں ہم اس حد تک بے حس ہوگئے ہیں کہ لوگوں کے حقیقی مسائل ہمارے مسائل نہیں رہے ۔ آج لوگ جس معاشی بدحالی کا شکار ہیں اور برے طریقے سے ہم لوگوں کا معاشی استحصال کررہے ہیں وہاں سیاست او رجمہوریت کو کیسے عوامی مفادات کے ساتھ جوڑا جاسکے گا۔ بجلی کی قیمتوں نے عملی طور پر لوگوں کی چیخیں نکال دی ہیں اور حکومت طاقت و جبر کی بنیاد پر لوگوں سے بجلی کی مہنگی قیمت سمیت لاتعداد ٹیکس وصول کرکے عوام کو دیوار سے لگارہی ہے۔پٹرول ، ڈیزل ، مٹی کا تیل ، کوکنگ ائل ، ادویات سمیت دیگر اشیا کی قیمتوں میں اضافہ سمیت آمدن او راخراجات کا عد م توازن جیسے سنگین مسائل نے لوگوں کو ذہنی بیمار ، دباو کی مختلف کیفیتوں میں مبتلا کردیا ہے او رلوگ واقعی خود کو بے بس او رلاچارگی کی حالت میں دیکھ رہے ہیں ، لیکن ان کے دکھوں کا علاج کون کرے گا او رکیسے کرے گا، سوالیہ نشان ہے ۔
اس بحران کا کوئی ایک ذمہ دار نہیں سیاست ، جمہوریت، ریاستی اداروں سمیت سب ہی صورتحال سے بری الزمہ نہیں ۔ ان سب کے باہمی گٹھ جوڑ نے جو عوامی مفادات کے خلاف ہے لوگوں کو تنہا کردیا ہے ۔حکمرانی کا مجموعی نظام فرسودہ اور روایتی انداز میں چلانے کی جو کوشش کی جارہی ہے وہ ہمارے مسائل کا حل نہیں ۔ کیا وجہ ہے کہ ہم دنیا کے تجربات سے کچھ بھی سیکھنے کے لیے تیار نہیں او رنہ ہی خود کو کسی بھی سطح پر کسی کے سامنے جوابدہی کے لیے تیار ہیں ۔جب بھی کوئی فریق خود کو باہر نکال کر ناکامی کا سارا ملبہ دوسروں پر ڈالے گا تو ا س کا مطلب یہ ہی ہوگا کہ وہ بحران کے حل میں مخلص نہیں او روہ خود مسئلہ کے حل میں ایک بڑی رکاوٹ کے طور پر سامنے آتا ہے ۔ مسائل کی ایک بڑی وجہ اس نظام حکمرانی میں ترجیحات کا عدم توازن ہے ۔ جب ہماری ترجیحات ہی نظام کو مستحکم کرنا ، ادارہ سازی کی مضبوطی ، قانون کی حکمرانی، عام آدمی کے مفادات کی سیاست ، وسائل کی منصفانہ تقسیم ، محروم طبقوں کو ترجیح دینا ہی نہیں تو پھر ہم کیسے ایک بہتر اور عملا عوامی مفادات کے تابع نظام کی تشکیل کو ممکن یا مضبوط بناسکیں گے ۔ہمارا سیاسی او رجمہوری نظام بہت کمزور ہے جبکہ معاشی نظام پر ہمارا انحصار اپنے سے زیادہ باہر کی قوتوں یا عالمی مالیاتی اداروں پر ہو تو مستحکم اور آزاد پاکستان کی بحث بہت پیچھے چلی جاتی ہے ۔
اگر اس سیاسی یا جمہوری نظام کو چلانا ہے تو اول یہ موجودہ نظام کے طور طریقوں سے نہیں چل سکے گا ۔ ہمیں ایک ایسا نظام جو نئی اصلاحات پر قائم کیا جائے درکار ہے جو لوگوں میں مایوسی کی بجائے امید او رروشنی کی کرنیں پیدا کرے ۔ لوگوں میں یہ اعتماد بحال ہو کہ موجودہ حالات کسی بھی صورت میں مستقل نہیں بلکہ یہ بحران عارضی ہے ۔ہم آگے بڑھ سکتے ہیں او رہم ترقی کے نئے امکانات کو پیدا کرنے کی صلاحیت بھی عملی طور پر رکھتے ہیں ۔لیکن ہمارا حکمران طبقہ لوگوں میں نظام کے بارے میں امید کم او رمایوسی زیادہ پھیلارہا ہے ۔ جب ملک کا وزیر اعظم خود یہ کہے کہ ہم بھکاری ہیں او رہماری دنیا میں کوئی عزت نہیں او رکیوں لوگ ہمیں پیسے دیں گے تو اس کے بعد پاکستان کی خودمختاری او رمعاشی سطح پرآزادی کے تصوارت بہت پیچھے رہ جاتے ہیں ۔یہ بات ریاست او رحکومت میں بیٹھے لوگوں کو اچھی طرح سمجھنی ہوگی کہ موجودہ نظام طبقاتی نظام کے طور پر چلایا جارہا ہے جہاں مخصوص افراد جو طاقت ور ہیں ان ہی کے مفادات کو تقویت دینا اسی نظام کا خاصہ ہے ۔ جبکہ عملا اس کے برعکس عام ، کمزور او رمحروم طبقوں پر معاشی بوجھ ڈال کر ہم طاقت ور طبقات کے مفادات کے کھیل کو فائدہ پہنچارہے ہیں جو اس معاشرے میں سیاسی ، سماجی اور معاشی خطرناک تقسیم کو پیدا کرنے کا سبب بن رہا ہے ۔یہ نظام مجموعی طور پر اصلاحات چاہتا ہے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ اس ملک کا طاقت ور طبقہ اس کے لیے تیار نہیں ۔آئی ایم ایف او ر دیگرمالیاتی اداروں کی مدد سے کھیلے جانے والا عمل عام آدمی کے مفادات کی بجائے ایک مخصوص طاقت ور طبقہ کا کھیل ہے او ران ہی کہ معاشی مفادات کو فائدہ دیتا ہے ۔ایسے میں لوگ کہاں جائیں ، کس سے فریاد کی جائے او رکیوں کوئی آپ کی فریاد کو سنے گا ، یہ وہ سوالات ہیں جو آج ہمارے اندر موجود ہیں او رکچھ لوگ بڑی شدت کے ساتھ ان سوالوں کو اٹھا رہے ہیں ، لیکن ان کا جواب دینے کے لیے کوئی تیار نہیں ۔ یہ کھیل زیادہ عرصہ نہیں چل سکے گا ۔ مرض کینسر کا ہے او رعلاج ڈسپرین کی گولی سے نہیں ہوگا، اس کے لیے غیر معمولی اقدامات درکار ہیں۔